Thursday, 2 August 2018

نومولود کے کان میں عورت کا اذان دینا یا بذریعہ موبائل اذان دینا؟

نومولود کے کان میں عورت کا اذان دینا یا بذریعہ موبائل اذان دینا؟
پیدائش کے بعد بچہ کو غسل دینے اور ناف وغیرہ کاٹ دینے کے بعد دونوں ہاتھ پہ قبلہ رو بچہ کو اٹھاکر درمیانی آواز سے (اتنی آواز ہو کہ بچہ برداشت کرسکے اور چونکے نہیں) دائیں کان میں اذان کہنا اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون ہے
اذان کے لئے وقت اور دن کی کوئی تحدید نہیں ہے
پیدائش کے بعد جتنا جلد ممکن ہو اذان دے دی جائے
غفلت کی وجہ سے یا زچہ خانہ کی بعض پابندیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے کئی دن گزر بھی جائیں تو کوئی حرج نہیں، تنبّہ ہوجانے  یا بچہ کے ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوجانے کے بعد اذان کہی جائے.
عن ابی رافع رضی اللّٰہ عنہ قال: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أذن فی أذن الحسن بن علیٍّ حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ۔ (ابوداؤد شریف حدیث: ۵۱۰۵، ترمذی شریف حدیث: ۱۵۱۴) قال ملا علی قاری: والمعنی أذّن بمثل أذان الصلاۃ وہٰذا یدل علی سنّیۃ الأذان فی أذن المولود، وفی شرح السنۃ روی أن عمر بن عبد العزیز رضی اللّٰہ عنہ کان یؤذن فی الیمنیٰ ویقیم فی الیسریٰ إذا ولد الصبی الخ۔ (مرقاۃ المفاتیح ۸؍۸۱)
"حين ولدته فاطمة"
قال القاري: يحتمل السابع وقبله. (مرقات المفاتيح ج 8 ص 159)
اذان مولود اذانِ اعلام نہیں، بلکہ اذان تبرّک ہے
لہذا اس اذان میں لزومی طور پہ نہ جہر مُفرط چاہئے نہ استقبال قبلہ۔
بلکہ یہ سب افضل وبہتر ہے
اذان مولود کمّاً اذانِ نماز کی طرح ہے، اس لئے اذان مولود میں استقبال قبلہ، ترسل، التفات یمینا وشمالا مسنون ہوگا
چونکہ یہ کیفاً اذان نماز کے مثل نہیں ہے اس لئے اس میں رفع صوت مسنون ہوگا نہ ہی کان کے سوراخوں میں انگلیاں ڈالنا!
قال الشیخ عبد القادر الرافعي في تقریراتہ: قال السندي: فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن في أذنہ الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار۔ (تقریرات الرافعي الملحقۃ بالفتاویٰ الشامیۃ ۲؍۴۵ زکریا)
اذان اعلام میں رفع صوت مطلوب ہوتا ہے اور عورت اپنی ذات وصفات سمیت ستر وخفا کی متقاضی ہے اس لئے عورتوں کی اذان اعلام مکروہ تحریمی یعنی ناجائز وحرام قرار دی گئی ہے
لیکن اذان مولود محض تبرک کے لئے ہے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے نہیں!
اس لئے تولد کے وقت اگر کوئی مرد موجود نہ ہو تو عورت بھی اذان مولود دے سکتی ہے حتی کہ بچہ کی ماں بھی دے سکتی ہے
لیکن چونکہ تبرک کے باوجود اس پہ اذان ہی کا اطلاق ہوتا ہے اور اذان ناپاک لوگوں  کے لئے مکروہ ہے
اس لئے اذان مولود دینے والی خاتون کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ نفاس سے پاک ہو
نابالغ سمجھدار بچہ بھی اذان دے سکتا ہے
(فتاوی محمودیہ ج 5 ص 458) 
وكرها.أي الأذان والإقامة
لأن مبني حالهن على  الستر ورفع صوتهم حرام
طحطاوي على المراقي ص 195
ويكره أذان الجنب واقامته  الدر المختار
وقال الشامي صرح في الخانية بأنه تجب الطهارة فيه من أغلظ الحدثين .وظاهره أن الكراهة تحريمية. شامي ج1 ص 392 س.)

اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش یقینا نہیں ہے کہ مولود کے کان میں راست اذان دی جانی چاہئے
لیکن اگر کسی وجہ سے مطلوبہ افراد دستیاب نہ ہوں تو ذریعہ فون بھی کان میں اذان دینے کی گنجائش موجود ہے
واللہ اعلم بالصوب
شکیل منصور القاسمی
یکم اگست 2018

No comments:

Post a Comment