Friday, 22 January 2016

کمزور کیوں پڑرہا ہے حق اطلاعات قانون؟ How to Write RTI?

ایس اے ساگر
تقسیم وطن کے بعدہندوستان میں پہلی مرتبہ حق اطلاعات اور معلومات کی رسائی کے قانون عرف آر ٹی آئی کے سبب عام آدمی کو جاننے اور جینے کے حق کیساتھ وابستہ دیکھا گیا۔ریاست میں کرپشن کو ختم اور حکومت کو عوام کے سامنے جوابدہ بنانے کیلئے آر ٹی آئی ایک مضبوط اور بہترین ہتھیار ہے جس کے ذریعہ لوگ سرکاری کام سے متعلق ایک درخواست دے کر تمام جانکاری حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی قانون نے عام آدمی کو سوال پوچھنے کی ہمت بخشی۔ حکومت اور انتظامیہ میں بیٹھے لوگوں کو پہلی باریوں محسوس ہوا کہ کوئی ان سے بھی سوال پوچھ سکتا ہے اور یہی بات ان لوگوں کو مناسب محسوس نہیںہوتی۔یہ الگ بات ہے کہ مہینہ بھر سے زیادہ گذر جانے کے بعد یشودابین کومحض 6سطری جواب سے مایوسی ہاتھ لگی جبکہ انھوں نے اسی قانون کے تحت اپنے لئے مہیا کروائی گئی سکیورٹی پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ آخر انھیں کس قانون کے تحت یہ سکیورٹی فراہم کی گئی ہے اور اس کے تحت ان کے اور کیا حقوق ہیں؟انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ آر ٹی آئی کے خصوصی ایکٹ کے تحت ان سوالات کے جواب انھیں 48 گھنٹے کے اندر فراہم کئے جائیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اس قانون کو عمل میں نہ لانے کی پوری سازش کی آہٹ محسوس ہوچکی ہے۔
کیسے چلی بات؟
ہندوستان میں 1975 سے ہی لوگوں کوسرکاری کام کاج سے متعلق معلومات فراہم کر نے کیلئے قانون بنانے کیلئے ایک تحریک چلی تھی۔ جبکہ تامل ناڈو ہندوستان کی پہلی ریاست ہے جس نے 1996میں قانون حق اطلاعات بنایا اور کئی انجمنوں جن میں ارونا رائے کی قیادت میں مزدور کسان شکتی سنگھٹن شامل ہیں نے اہم رول ادا کیا،جس کے بعد واجپائی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ بنایا تاہم ایکٹ میں کئی خامیاں ہونے کی وجہ سے اسے نافذ نہیں کیا جا سکا۔قانون حق اطلاعات کا مطالبہ پورے ہندوستان زور پکڑتا جا رہا تھا اور کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں اسے شامل کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی جماعت حکومت میں آتی ہے تو مرکزی سطح پر قانون حق اطلاعات بنایا جائے گا اور2005میں یو پی اے نے قانون حق اطلاعات بنایا۔مرکزی سطح پر بنایا گیا قانون حق اطلاعات سب سے مضبوط قانون ہے کیونکہ اس کا مسودہ سول سوسائٹی نے تیار کیا ہے جو 1975سے ہی اس قانون کو نافذ کر نے لئے تحریک چلا رہے تھی۔
ریاستی سطح پر نفاذ:
چونکہ دفعہ370کی وجہ سے یہ قانون ریاست جموں وکشمیر میں نافذ العمل نہیں ہوسکتا تھا اسلئے ریاستی اسمبلی کو اسی طرح کا قانون بنانا تھا۔2004میں اگرچہ قانون بنایا گیا اور 2005میں اس میں ترمیم بھی کی گئی تاہم یہ قانون مرکزی قانون کی طرح مضبوط نہیں تھا۔2009 مارچ میں حکومت نے مرکزی قانون کی طرح ریاست میں ایک قانون تیار کیا اور یہ قانون اسمبلی میں منظور ی سے قبل اس کا مسودہ عوام کے سامنے میڈیا اور جنرل ایڈمنسٹریشن محکمہ کی ویب سائٹ کے ذریعہ عوام تک پہنچایا گیا۔کشمیر میں آر ٹی آئی ایکٹ کو نافذ کر نے اور عوام میں بیداری پیدا کر نے کیلئے چند نوجوانوں نے بھی ایک مہم شروع جن میں ڈاکٹر مظفر اور ڈاکٹر شیخ غلام رسول شامل تھے۔جس وقت 2009 میں سرکار نے آر ٹی آئی ایکٹ کا مسودہ تیار کیاگیاتو حکومت رابطہ قائم کر کے ان سے اپیل کی ک گئی کہ وہ قانون کو منطور ی دینے سے قبل اس کا مسودہ عوام کے سامنے رکھیں تاہم محکمہ قانون نے ایسا کر نے سے انکار کیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی نوٹس میں لائی گئی اور ان کی مداخلت کے بعد مسودہ قانون کو میڈیا اور جنرل ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ کے ذریعہ عوام کے سامنے رکھا گیا۔ حکومت نے اگرچہ قانون 2009میں پاس کیا تھا تاہم فروری 2011تک جموں انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔چیف انفارمیشن کمیشن کا عہدہ چیف الیکشن کمشنر اور مرکزی چیف انفارمیشن کمشنر کے برابر ہے جبکہ کمیشن کے دو مزیدکمشنروں کا عہدہ چیف سیکریٹری کے مساوی ہے۔
جموں و کشمیرریاست میں سماج کے پسماندہ طبقوں کی فلاح و بہبود کیلئے شوشل ویلفیئر بورڈ قائم ہے ، جسے سالانہ کروڑوں روپے کی رقومات واگذار کی جاتی ہیں۔یہ رقومات بورڈ غیر سرکاری رضاکار تنظیموں کے ذریعے خرچ کرتا ہے۔قانون کی رو سے ریاست کے ہر باشندے کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ شوشل ویلفیئر بورڈ کو سالانہ کتنی رقم ملتی ہے اور اس رقم کو کس طرح سے خرچ کیا جاتا ہے اور کون کون سی رضاکار تنظیموں کی وساطت سے یہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔ یہ ساری تفصیلات آر ٹی آئی ایکٹ یعنی حق اطلاعات قانون کے تحت کوئی بھی عام یا خاص آدمی حاصل کرسکتا ہے۔ سرینگر کے ایک سرکردہ شہری ڈاکٹر شیخ غلام رسول نے 2008میں یہی معلومات حاصل کرنے کیلئے حق اطلاعات قانون کے تحت متعلقہ حکام کو درخواست دی تھی۔ قانون کی رو سے اس شخص کو مطلوبہ معلومات درخواست دینے کے بعد ایک مہینے کے اندر اندر فراہم کی جانی چاہیے تھی۔ تقر یباً چار سال گزرجانے کے باوجود موصوف کو مطلوبہ معلومات کا انتظار ہے۔یہ اور اس جیسی سینکڑوں مثالیں صرف جموں کشمیر میں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
قانونی شقوں کا کھیل:
ماہرین کہتے ہیں کہ ریاست میں حق اطلاعات قانون کے حقیقی معنوں میں نفاذ اس لئے ممکن نہیں بنا ہے کیونکہ یہاں کے کرپٹ سیاستدانوں اور بیروکریٹوں نے ہمیشہ اس قانون کے نفاذ میں روڈے اٹکائے ہیں۔ جموں وکشمیر میں آر ٹی آئی ایکٹ یعنی حق اطلاعات قانون اگرچہ 2004میں وجود میں معرض وجود آیا ہے لیکن اس میں کچھ شقیں ایسی تھیں جس کی وجہ سے یہ قانون نہایت ہی کمزور تھا بعد میں 2005میں اس قانون میں ترمیم کی گئی لیکن یہ قانون مرکزی آر ٹی آئی ایکٹ کی طرح زیادہ طاقتور پھر بھی نہیں بنا اور اس میں کئی خامیاں تھیں جس کی وجہ سے اس قانون سے زیادہ استفاد ہ حاصل نہیں کیا جا سکا۔2008کے اسمبلی چناﺅ میں نیشنل کانفرنس نے آر ٹی آئی ایکٹ کو مرکزی ایکٹ کے طرح مضبوط بنانے کا وعدہ اپنے انتخابی منشور میں کیا اور حکومت میں آنے کے فوراً بعد مارچ 2009کے پہلے اجلاس میں ہی نیشنل کانفرنس کانگریس مخلوط سرکار نے آر ٹی آئی ایکٹ کو پاس کیا۔
ردی کی ٹوکری میں:
آر ٹی آئی موومنٹ نے 2005سے مختلف محکموں سے معلومات حاصل کرنے کیلئے 2ہزار درخواستیں دیںجبکہ زیادہ درخواستوں کا جواب ہی نہیں دیا گیا اور ان کے پاس شکایت کرنے کیلئے کوئی کمیشن موجود نہیں تھا۔ہینڈ لوم محکمہ میں رجسٹر سوسائٹیوں سے متعلق جانکاری حاصل کر نے کیلئے میں نے 2008میں ایک درخواست دی تھی اور ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا گیا جبکہ گزشتہ سال ہی آر ٹی آئی مومنٹ نے سیکریٹریٹ میں ایک درخواست دائر کر کے ریاست میں محکمہ تعمیرات عامہ میں ایک سال کے دوران بغیر ٹینڈرکے ذریعہ کئے گئے کاموں سے متعلق تفصیلات جاننا چاہی اور آر اینڈ بی جموں کے چیف انجینئر نے ابھی تک تفصیلات فراہم نہیں کیں جبکہ کشمیر صوبہ کے چیف انجینئر کے دفتر نے جو تفصیلات دی ان کے مطابق ایک سال کے دوران 350تعمیراتی کام بغیر ٹینڈر کے ہوئے تھے۔
سیاسی مفاد پرستی :
ذرائع ابلاغ میں اس موضوع پر تاثرات کی کمی نہیں ہے جبکہ قانون بننے سے قبل ہی سال میں کچھ بیوریکریٹ کی صلاح پر سرکار نے اس قانون میں ترمیم کرکے فائل نوٹنگ جیسے اہم پروویژن کو ختم کرنے کی کوشش کی تاہم یہ کوشش بھی ناکام رہی لیکن ایک معاملہ میں سرکار کامیاب رہی جبکہ یہ انفارمیشن کمیشن کی تقرری کا معاملہ ہے۔ انفارمیشن کمشنر کا عہدہ ابتدا سے ہی سیاسی مفاد پرستی کیلئے بد نام رہا ہے۔ انفارمیشن کمشنروں کی تقرری کی ذمہ داری محکمہ ڈی او پی ٹی کے پاس تقرری کے سلسلے میں کوئی حتمی قانون نہیں ہے۔ اسی کا فائدہ اٹھاکر سرکار اپنے قابل بھروسہ اور وفادار بیوریکریٹ کو انفارمیشن کمشنر بنا دیتے ہیں۔ مذکورہ وفادار بیوروکریٹ ایسے ہوتے ہیں، جو کسی بھی قیمت پر اپنے آقاﺅں کے مفادات کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ حالانکہ وزیر اعظم، لیڈر آف اپوزیشن اور ایک کابینی وزیر کی قیادت میں ایک سلیکشن کمیٹی ہے ، جو انفارمیشن کمشنر کیلئے ناموں پر آخری مہر ثبت کرتی ہے۔
من مانی کا غلبہ:
حق اطلاعات قانون میں صحافیوں، دانشوروں ، اکیڈمک اور عوامی خدمت سے وابستہ لوگوں کو بھی انفارمیشن کمشنر بنایا جا سکتا ہے، لیکن ڈی او پی ٹی کی من مانی کا عالم یہ ہے کہ زیادہ تر سینٹرل انفارمیشن کمشنر سابق نوکر شاہ ہیں۔ اگر بات اسٹیٹ انفارمیشن کمشنر کی کریں تو وہاں بھی یہی عالم ہے۔ ڈی او پی ٹی کیلئے سماجی تنظیموں، لیڈروں، وزرا اعلیٰ اور ممبران پارلیمنٹ کے ذریعہ کی گئی کسی سفارش کا کوئی مطلب نہیں ہوتاہے۔2005 میں پہلی بار جب مرکزی انفارمیشن کمشنر کی تقرری کی جانی تھی تو اس وقت 15 افرادنے اس عہدہ کیلئے درخواست دی تھی۔ ان ناموں میں ایک سے بڑھ کر ایک سماجی ، اکیڈمک خدمات انجام دینے والے لوگ تھے۔ لیکن جب سلیکشن کمیٹی کے پاس نام بھیجے گئے تو ان 15 ناموں میںسے ایک بھی شامل نہیں تھا۔ ڈی او پی ٹی نے اپنی طرف سے پانچ نام سلیکشن کمیٹی کے پاس بھیجے تھے اور انہیں پانچ ناموں پر کمیٹی متفق ہوگئی۔ یہ نام تھے، وجاہت حبیب اللہ، پی بالا سبرامنیم، او پی کیجریوال، اے این تیواری، ایم ایم انصاری۔ دلچسپ بات یہ کہ ان ناموں میں سے زیادہ تر نام ایسے تھے، جو سابق نوکرشاہ تھے۔
اظہار وفاداری:
اسی طرح اگست 2008 میں جب سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں انفارمیشن کمشنر کے 4 عہدے خالی ہوئے تو ڈی او پی ٹی نے اپنی طرف سے 6 نام بھیجے، جن میں سے چار ناموںپر سلیکشن کمیٹی نے اپنی مہر لگا دی۔ ظاہر ہے، ایسے انفارمیشن کمشنرجوپہلے نوکر شاہ رہ چکے ہوں، سرکار اور انتظامیہ میں شفافیت لانے کی بجائے اپنی پوری وفاداری نامزد کرنے والی سرکار کے تئیں دکھاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اگر آج بھی ڈی او پی ٹی کوئی تقرری کیلئے کوئی حتمی رخ طے نہیں کرتا ہے انفارمیشن کمشنر جیسا ذمہ دار عہدہ یوں ہی سیاسی تقرری کا ذریعہ بنتا رہے گا اور عام آدمی کو طاقت میسر کروانے والا یہ قانون روز بروز کمزور ہوتا جائے گا۔
اطلاع کا حصول ہو کیسے؟
’اندرا آواس یوجنا‘کی تفصیل
فرسٹ اپیلیٹ آفیسر
(محکمہ کا نام)
(محکمہ کا پتہ)
موضوع: حق اطلاع ایکٹ2005 کے تحت درخواست
جناب عالی،
میرا نام …………ہے۔ میں…………پنچایت کے …………گاﺅں کا رہنے والا ہوں۔ میرے پاس رہنے کیلئے گھر نہیں ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک مجھے ’اندرا آواس یوجنا ‘کے تحت گھر الاٹ نہیں کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں حق اطلاعات کے آفیسر کے تحت مندرجہ ذیل اطلاعات دیں:
1 ۔سرکار کے ریکارڈ کے مطابق، کیا میں ’اندرا آواس یوجنا‘ کا حقدار ہوں؟اگر نہیں تو کیوں؟
2 ۔اگر ہاں ، تو اب تک مجھے ’اندرا آواس یوجنا‘ کا الاٹ کیوں نہیں کیا گیا ہے؟مجھے ’اندرا آواس یوجنا ‘کا فائدہ ملے یہ دیکھنے کی ذمہ داری کس آفیسرکرمچاری کی ہے؟ ان کا نام اور عہدہ بتائیں۔
3 ۔میرے گرامن پنچایت میں گزشتہ پانچ برسوں میں کل کتنے لوگوں کو اس یوجنا کے تحت گھر الاٹ کئے گئے ہیں ؟ان کی لسٹ مندرجہ ذیل تفصیل کے ساتھ فراہم کروائیں:
الف: گھر پانے والے کا نام ب: الاٹمنٹ کی تاریخ ج: کس بنیاد پر الاٹمنٹ ہوا
د: جس گرام سبھا میں گھر حاصل کرنے والے کا سلیکشن کیا گیا اس گرام سبھا کی حاضری کے رجسٹر کی تصدیق شدہ کاپی دیں۔
4 کیا مذکورہ تمام الاٹمنٹ بی پی ایل لسٹ کی بنیاد پر کیا گیا ہے؟مذکورہ پنچایت کی بی پی ایل لسٹ کی تصدیق شدہ کاپی دیں۔
5 اندرا آواس یوجنا کے الاٹمنٹ سے متعلق سبھی ہدایات احکام قوانین کی مصدقہ کاپی دیں۔
میں درخواست فیس کی شکل میں 10 روپے الگ سے جمع کر رہا رہی ہوں۔یا
میں بی پی ایل کارڈ ہولڈر ہوں، اس لئے سبھی دی گئی فیسوں سے آزاد ہوں۔ میرا بی پی ایل کارڈ نمبر…………ہے۔
اگر مانگی گئی اطلاع آپ کے محکمے دفتر سے متعلق نہیں ہو تو حق اطلاعات قانون2005 کی دفعہ 6(3) کا نوٹس لیتے ہوئے میری درخواست متعلقہ پبلک انفارمیشن آفیسر کو پانچ دنوں کے اندر منتقل کریں۔ ساتھ ہی اطلاع فراہم کراتے وقت فرسٹ اپیل آفیسر کا نام اور پتہ ضرور بتائیں۔
مخلص
نام :————————————————————————
پتہ : ————————————————————————
تاریخ : ———————————————————————
منسلک دستاویز
(اگر کچھ ہوتو)
کیا کہتے ہیں ماہرین؟
آر ٹی ایکٹ کو مضبوط کر نے کیلئے تمام محکموں میں پبلک انفارمشین آفیسر اور اسسٹنٹ پبلک انفارمیشن آفیسر تعینات کئے گئے ۔ضلع سطح اگر لوگ کسی طرح کی معلومات حاصل کر نے چاہیں گے تووہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جو کہ ضلع کا پبلک انفارمشین آفیسر ہے کے پاس درخواست دے سکتے ہیں ،تحصیل سطح پر تحصیلدار اور بلا ک سطح بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر اسسٹنٹ پبلک انفارمشین آفیسر ہیں۔ڈاکٹر مظفر کا کہنا ہے کہ لوگ کسی بھی سرکاری کا م کاج سے متعلق جانکاری حاصل کر نے کیلئے درخواست دے سکتے ہیںاور مذکورہ محکمہ کو ایک مہینہ کے اندر اندر درخواست دہندہ کو تمام معلومات فراہم کر نا ہے۔اگر کوئی معاملہ انتہائی پیچیدہ کو یا کسی کی زندگی خطرے میں ہو تو اس سلسلہ میں متعلقہ محکمہ کو 48گھنٹوں کے اندر اند ر معلومات فراہم کر نا ضروری ہے۔آر ٹی آئی مومنٹ کے کنویئر ڈاکٹر راجہ مظفر کے بقول،اگر کسی شخص کو پولیس یاسیکورٹی فورسز گرفتار کرتے ہیں اوراس کے لواحقین معلومات حاصل کر نا چاہیں آر ٹی آئی ایکٹ کی شق ’لائف آن لبرٹی‘کے مطابق 48 گھنٹوں کے اندر اندر تفصیلات فراہم کرنا لازمی ہے۔ آر ٹی آئی درخواست دینے کے بعد اگر کسی درخواست دہندہ کو تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں تو وہ تو وہ انفارمشین کمیشن میں شکایت درج کر سکتے ہیں اور معلومات فراہم کر نے سے انکار کرنے والے آفیسرپر جرمانہ عائد ہوگا۔ قانون حق اطلاعات سے متعلق جموں وکشمیر کے عوام میں ابھی زیادہ جانکاری نہیں ہے اور نہ ہی اس قانون سے متعلق جانکاری فراہم کرنے کیلئے ہنوز کوئی مہم شروع کی گئی۔معلومات مانگنے اوراپیل دائر کرنے کے طریقہ کار کے سے متعلق تکنیکی اور قانونی معلومات فراہم کروانے کی اشد ضرورت ہے جبکہ آر ٹی ایکٹ مجریہ 2009میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ ایکٹ سے متعلق عوام کوجانکاری فراہم کرنے کیلئے ایک مہم شروع کی جائے تاکہ اس قانون کے بنانے کا مقصد پورا ہو۔
Why Jashodaben Files Fresh RTI Plea?
By: S. A. Sagar
Narendra Modi’s estranged wife said that the six-line reply denying information was insulting and unsatisfactory. According to reports, Monday, January 05, 2015, Prime Minister Narendra Modi’s estranged wife Jashodaben has filed a fresh appeal under the RTI provisions challenging the reply given to her. In her appeal before the first appellate authority of the Mehsana district police, the 62-year-old a retired schoolteacher has said that the six-line reply denying information to ‘the prime minister’s wife’ was insulting and unsatisfactory. The Mehsana district police in Gujarat before whom she had filed an RTI application last month had replied that the information sought by her could not be provided to her as her queries related to the LIB or Local Intelligence Bureau which has been exempted from the RTI Act. “I, the applicant, have applied as the wife of the PM of India. Despite that, the name of my husband has not been written (in the reply)... and only my father’s name has been written. And this makes it clear that the information officer has a grievance towards me,” Jashodaben stated in her appeal. In her fresh appeal, Jashodaben has also demanded the copy of the state home department’s order under which LIB was given exemption under the RTI Act.
What is RTI?
RTI is a method of intervention which is designed to provide high quality and standards-based instruction and intervention that is matched to the student.  The goals are to maximize student success and decrease behavior problems. With RTI, schools are able to identify and support the students with learning and behavior needs, monitor their progress, and provide interventions and adjust the intensity of those interventions based upon the student’s responsiveness. The RTI process begins with high-quality instruction and universal screening of all children in the general education classroom. Struggling learners are provided with interventions at increasing levels of intensity to accelerate their rate of learning.
Key Terms:
RTI is a set of procedures that can be used to determine how students respond to changes in instruction. RTI provides an improved process and structure for school teams in designing, implementing, and evaluating educational interventions.
Universal Screening is a step taken by school personnel early in the school year to determine which students are “at risk” for not meeting grade level standards. Universal screening can be accomplished by reviewing recent results of state tests, or by administering an academic screening test to all children in a given grade level. Those students whose test scores fall below a certain cut-off are identified as needing more specialized academic interventions.
Student Progress Monitoring is a scientifically based practice that is used to frequently assess students’ academic performance and evaluate the effectiveness of instruction. Progress monitoring procedures can be used with individual students or an entire class.
Scientific, Research-Based Instruction refers to specific curriculum and educational interventions that have been proven to be effective –that is, the research has been reported in scientific, peer-reviewed journals.
The multi-tiered approach has three levels of intensity which are coordinated to student needs based upon research-based interventions.  The three levels of intervention include the universal, supplemental, and intensive tiers. The universal tier (Tier 1) is comprised of 80-90% of the student population.  Tier 1 includes high quality core instruction.  Tier 2 is the supplemental tier and includes 5-15% of the student population. This tier includes evidence-based interventions of moderate intensity.  Tier 3 of the model is the intensive tier that that is comprised of 1-5% of the student population.  The intensive tier’s prevention level includes individualized interventions of increased intensity for students who show minimal response to tier two preventions.
RTI Common Beliefs
    All children can learn and achieve high standards as a result of effective teaching.
    All students must have access to a rigorous, standards-based curriculum and researched-based instruction.
    Intervening at the earliest indication of need is necessary for student success.
    A comprehensive system of tiered interventions is essential for addressing the full range of student needs.
    Collaboration among educators, families and community members is the foundation for effective problem-solving and instructional decision making.
    On-going and meaningful involvement of families increases student success.
    All members of the school community must continue to gain knowledge and develop expertise in order to build capacity and sustainability of RtI.
    Effective leadership at all levels is crucial for the implementation of RtI.
Positive School Climate and Culture:
A positive school climate is observed when key elements are solidly in place.
    Defining and consistently teaching expectations of behavior for students, parents and educators;
    Students and adults are acknowledged and recognized consistently for appropriate behaviors;
    Behavioral and instructional errors are monitored, corrected, or re-taught;
    Teachers are engaged in a collaborative team problem-solving process using data to design instruction and behavior intervention plans;
    Families are included in a culturally-sensitive, solution-focused approach to support student learning.
Understanding the elements of a positive school climate is vital; however, equally important in maintaining a positive school climate is the development of systems to support school personnel in implementing the identified research-based practices to improve student outcomes.
Source:  http://www.rti4success.org/
Source: http://www.cde.state.co.us/index_home.htm
http://www2.winthrop.edu/schoolclimatecenter/WhatIsRTI.html
060115 kiya haq ittlaat qanoon kamzor pad raha hai by s a sagar
RTI लिखने का तरीका -
RTI मलतब है सूचना का अधिकार - ये कानू न हमारे देश में 2005 में लागू हुआ।जिसका उपयोग करके आप सरकार और
किसी भी विभाग से सूचना मांग सकते है। आमतौर पर लोगो को इतना ही पता होता है।परंतु आज मैं आप को इस के बारे में कुछ और रोचक जानकारी देता हूँ -
RTI से आप सरकार से कोई भी सवाल पूछकर सूचना ले सकते है।
RTI से आप सरकार के किसी भी दस्तावेज़ की जांच कर सकते है।
RTI  से आप दस्तावेज़ की प्रमाणित कापी ले सकते है।
RTI से आप सरकारी कामकाज में इस्तेमाल सामग्री का नमूना ले सकते है।
RTI से आप किसी भी कामकाज का निरीक्षण कर सकते हैं।
RTI में कौन- कौन सी धारा हमारे काम की है।
धारा 6 (1) - RTI का आवेदन लिखने का धारा है।
धारा 6 (3) - अगर आपका आवेदन गलत विभाग में चला गया है। तो वह विभाग
इस को 6 (3) धारा के अंतर्गत सही विभाग मे 5 दिन के अंदर भेज देगा।
धारा 7(5) - इस धारा के अनुसार BPL कार्ड वालों को कोई आरटीआई शुल्क नही देना होता।
धारा 7 (6) - इस धारा के अनुसार अगर आरटीआई का जवाब 30 दिन में नहीं आता है
तो सूचना निशुल्क में दी जाएगी।
धारा 18 - अगर कोई अधिकारी जवाब नही देता तो उसकी शिकायत सूचना अधिकारी को दी जाए।
धारा 8 - इस के अनुसार वो सूचना RTI में नहीं दी जाएगी जो देश की अखंडता और सुरक्षा के लिए खतरा हो या विभाग की आंतरिक जांच को प्रभावित करती हो।
धारा 19 (1) - अगर आप
की RTI का जवाब 30 दिन में नहीं आता है।तो इस
धारा के अनुसार आप प्रथम अपील अधिकारी को प्रथम अपील कर सकते हो।
धारा 19 (3) - अगर आपकी प्रथम अपील का भी जवाब नही आता है तो आप इस धारा की मदद से 90 दिन के अंदर दूसरी
अपील अधिकारी को अपील कर सकते हो।
RTIकैसे लिखे?
इसके लिए आप एक सादा पेपर लें और उसमे    इंच की कोने से जगह छोड़े और नीचे दिए गए प्रारूप में अपने RTI लिख लें
...................................
सूचना का अधिकार 2005 की धारा 6(1) और 6(3) के अंतर्गत आवेदन।
सेवा में,
(अधिकारी का पद)/
जनसूचना अधिकारी
विभाग का नाम.............
विषय - RTI Act 2005 के अंतर्गत .................. से संबधित सूचनाऐं।
अपने सवाल यहाँ लिखें।
1-..............................
2-...............................
3-..............................
4-..............................
मैं आवेदन फीस के रूप में 10रू का पोस्टलऑर्डर ........ संख्या अलग से जमा कर रहा /रही हूं।
या
मैं बी.पी.एल. कार्डधारी हूं। इसलिए सभी देय शुल्कों से मुक्त हूं। मेरा बी.पी.एल.कार्ड नं..............है।
यदि मांगी गई सूचना आपके विभाग/कार्यालय से सम्बंधित नहीं हो तो सूचना का अधिकार अधिनियम,2005 की धारा 6 (3) का संज्ञान लेते हुए मेरा आवेदन सम्बंधित लोकसूचना अधिकारी को पांच दिनों के समयावधि के अन्तर्गत हस्तान्तरित करें। साथ ही अधिनियम के प्रावधानों के तहत सूचना उपलब्ध् कराते समय प्रथम अपील अधिकारी का नाम व पता अवश्य बतायें।
भवदीय
नाम:....................
पता:.....................
फोन नं:................
हस्ताक्षर...................
ये सब लिखने के बाद अपने हस्ताक्षर कर दें।
अब मित्रो केंद्र से सूचना मांगने के लिए आप 10 रु देते है और एक पेपर की कॉपी मांगने के 2 रु देते है।
हर राज्य का RTI शुल्क अगल अलग है जिस का पता आप कर सकते हैं।
जनजागृति के लिए जनहित में शेयर करे।
RTI का सदउपयोग करें और भ्रष्टाचारियों की सच्चाई /पोल दुनिया के सामने लाईए।

No comments:

Post a Comment