Saturday, 9 January 2016

کیا ہیں شکم سیری کے مراتب؟

ایس اے ساگر

سماجی روابط کی ویب سائٹس پر پیغام گردش کر رہا ہے کہ ملک خُراسان کے رہنے والے دو درویشوں میں بہت دوستی تھی۔ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے۔ سفر میں بھی دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ان میں ایک بہت ضعیف اور کمزور تھا۔ دو راتیں گزار کر تیسری رات کو کھانا کھاتا تھا اور دوسرا طاقتور تھا وہ دن میں تین بار کھانا کھاتا تھا۔ اتفاق سے ایک بار ایک شہر میں داخل ہوتے وقت دونوں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہو گئے۔ دونوں کو قید خانہ کی کوٹھری میں بند کر دیا گیا اور دروازہ کو مٹی سے لیپ دیا گیا۔ چند دن بعد چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں بے خطا ہیں۔ کوٹھری کھولی گئی تاکہ ان کو رہا کر دیا جائے۔ دیکھا گیا تو طاقت ور درویش کا انتقال ہو چکا تھا اور ضعیف درویش زندہ تھا۔ لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ ایک عقل مند شخص نے دیکھا تو کہا اگر طاقت ور زندہ رہتا اور ضعیف مر جاتا تب تعجب کی بات ہوتی۔ کیونکہ وہ بہت زیادہ کھانے والا تھا اس لئے فاقہ برداشت نہ کرسکا اور مر گیا۔ اور یہ ضعیف صبر کرنے کا عادی تھا، اس نے اپنی عادت کے موافق قید میں بھی صبر کیا اور مرنے سے بچ گیا. جب کسی کی عادت کم کھانے کی پڑ جاتی ہے تو اس کیلئے غذا نہ ملنے کی تکلیف آسان ہو جاتی ہے، وہ برداشت کر لیتا ہے۔ اور جو زیادہ کھانے اور آرام کا عادی ہوتا ہے اگر اس کو کہیں کھانا نہ ملا تو بھوک کی سختی سے مر جاتا ہے!

کیا ہیں مراتب؟

اس سلسلہ میں امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے شکم سیری کے سات مراتب بیان کیے ہیں :

1. آدمی اتناشکم سیر ہو جس سے زندگی قائم رہ سکے.

2. جس سے نماز روزہ اور عبادات وحقوق ادا ہوسکیں.

یہ دونوں مراتب واجب ہیں.

3. اس قدر شکم سیری جس سے نوافل ادا ہو سکیں.

4. جس سے کمائی کی قدرت حاصل ہوسکے.

یہ دونوں مستحب ہیں.

5. جس سے پیٹ کاایک ثلث بھر جائے.

یہ جائز ہے.

6. جس سے بدن بوجھل اور ثقیل ہو جائے، اور نیند بکثرت آنے لگے.

یہ مکروہ ہے.

7. اور اس قدر شکم سیری جو صحت کیلئے نقصان دہ ہو...

یہ حرام ہے.

بحوالہ ،عمدة القاری : ٢١ / ٣٣

شکم سیری کے نقصانات :

حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
شکم سیری بدن کو بوجھل بناتی ہے ، دل کو سخت بناتی ہے ، ذہانت زائل ہوتی ہے ، نیند غالب آتی ہے اور عبادت میں کمزوری آتی ہے.

قال الشافعی رحمہ اللہ :
الشبع يثقل البدن، ويقسي القلب، ويزيل الفطنة، ويجلب النوم ويضعف عن العبادة.

دل کی سختی کے 4 اسباب بیان کئے گئے ہیں :
1. شکم سیری
2. بری صحبت
3. بد اعمالیون سے توبہ نہ کرنا
4. امیدوں کا لمبا ہونا

کیا کریں حالت اضطرار میں ؟

مشکوۃ شریف کی جلد چہارم میں کھانوں کے ابواب میں حدیث 197 کے تحت حالت اضطرار کا مسئلہ گذرا ہے،
راوی:
وعن أبي واقد الليثي أن رجلا قال : يا رسول الله إنا نكون بأرض فتصيبنا بها المخصمة فمتى يحل لنا الميتة ؟ قال : " ما لم تصطبحوا وتغتبقوا أو تحتفئوا بها بقلا فشأنكم بها " . معناه : إذا لم تجدوا صبوحا أو غبوقا ولم تجدوا بقلة تأكلونها حلت لكم الميتة . رواه الدارمي
اور حضرت ابوواقد لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا،
" یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ') ہم (کبھی ایسی زمین میں (یعنی ایسی جگہ پہنچ جاتے ) ہیں کہ (یہاں ہمیں کھانا کو کچھ نہیں ملتا جس کی وجہ سے ) ہم وہاں مخمصہ (بھوک ) کی حالت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس صورت میں مردار کھانا ہمارے لئے کب حلال ہو جاتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ تم صبح تک یا شام تک (کھانے پینے کی کوئی چیز ) نہ پاؤ یا اس زمین (یعنی اس جگہ کہ جہاں تم ہو ) تو تمہاری حالت مردار سے متعلق ہو گی یعنی ایسی صورت پیش آنے پر مردار کھانا تمہارے لئے حلال ہو گا (اب اس کے بعد راوی حدیث کا ما حصل بیان کرتے ہیں کہ ) اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دن بھر میں اور رات بھر میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ پاؤ اسی طرح تمھیں ترکاری کی قسم سے بھی کوئی چیز (یہاں تک کہ گھاس اور درخت کے پتے بھی ) میسر نہ ہوں جس کو تم کھا سکو (اور اپنی جان بچا سکو ) تو اس صورت میں تمہارے لئے مردار حلال ہو گا ۔"
(دارمی )
تشریح
دونوں حدیثوں میں بظاہر تعارض محسوس ہوتا ہے کیوں کہ پہلی حدیث میں تو صبح و شام کو دودھ ملنے کی صورت کو بھی بھوک اور مخمصہ یعنی اضطرار کی حالت پر محمول کیا اور مردار کھانے کو مباح قرار دیا جبکہ اس دوسری حدیث میں حالت اضطرار کے پائے جانے کو اس امر کیساتھ مشروط کیا کہ صبح و شام تک کھانے پینے کی کوئی بھی چیز میسر نہ ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ اس دائرے کو اتنا تنگ کیا کہ اگر ترکاری و سبزی اور اس کی مانند چیزیں جیسے گھاس اور درخت کے پتے وغیرہ ہی مہیا ہو جائیں اور ان کو پیٹ میں ڈالا جا سکے تو اس صورت میں حالت اضطرار متحقق نہیں ہو گی اور مردار کھانا مباح نہیں ہو گا ۔ ان احادیث کے باہمی تعارض و اختلاف ہی کی بنا پر علماء کے مسلک و اقوال میں بھی اختلاف پیدا ہوا ہے ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک تو یہ ہے کہ سدرمق یعنی جان بچانے کی خاطر از قسم مردار کوئی چیز کھانا اس صورت میں حلال ہو گا جب کہ بھوک کی وجہ سے جان کی ہلاکت کا خوف پیدا ہو جائے، اور اسی قدر کھانا حلال ہو گا جس سے بس جان بچ جائے ۔ حضرت امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، یہ مسلک و قول بظاہر 'سختی و تنگی' پر محمول ہے، لیکن حقیقت میں احتیاط و تقویٰ اسی میں ہے ۔
اس کے برخلاف حضرت امام مالک، حضرت امام احمد رحمہم اللہ ، اور ایک قول کے مطابق حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اتنی مقدار میں کھانا نہ پائے جس سے وہ سیر ہو جائے اور اس کی طبعی خواہش حاجت مند و متقاضی ہو تو اس کیلئے مردار کھانا حلال ہو گا، تاآنکہ وہ اپنی حاجت طبع پوری کرے ، یعنی وہ سیر ہو جائے، اور اس مسلک میں زیادہ نرمی و آسانی ہے ۔ حاصل یہ کہ حالت ، اضطرار میں از قسم مردار کوئی چیز کھانے کے سلسلے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تو سدرمق کا اعتبار ہے، کہ مضطر بس اتنا مردار کھا سکتا ہے جس سے جان بچی رہے جب کہ دوسرے آئمہ کے نزدیک حصول قوت یعنی شکم سیر ہو کر کھانے کا اعتبار ہے ان ائمہ کی دلیل پہلی حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں مردار کھانے کو حلال قرار دیا ، جب کہ سائل کو ایک پیالہ دودھ دن میں، اور ایک پیالہ دودھ رات میں میسر ہوتا تھا اور دن و رات میں ملنے والا ایک ایک پیالہ دودھ بلا شک و شبہ سدرمق یعنی جان بچانے کی حد تک کافی ہو سکتا ہے ، اگرچہ اس کے ذریعہ شکم سیری نہ ہو سکتی ہو، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ اضطرار کی حد کی وجہ سے مردار کھانا مباح ہو جاتا ہے اصل میں شکم سیری کا حاصل نہ ہونا ہے اور بقدر حصول قوت مردار کھانا حلال ہے ۔
ان ائمہ کے برخلاف حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ) کے نزدیک جہاں تک پہلی حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے دوسرے آئمہ استدلال کرتے ہیں اس کے بارے میں ان کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں صبح و شام ایک ایک پیالہ دودھ پوری قوم کو ملتا تھا، نہ کہ ایک ایک شخص ایک ایک پیالہ دودھ پاتا تھا، چنانچہ لفظ طعامکم میں جمع کا صیغہ اس بات کی واضح دلیل ہے ۔
اسی طرح حضرت فجیع عامری کا سوال کرنا محض اپنی ذات کی طرف سے نہیں تھا ، بلکہ درحقیقت انہوں نے اپنی پوری قوم کی طرف سے سوال کیا تھا اسی لئے انھوں نے یہ الفاظ کہے
ما یحل لنا
(ہمارے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے )
انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ میرے لئے مردار میں سے کیا حلال ہے ؟ اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک کثیر جماعت کیلئے محض ایک پیالہ دودھ سدرمق یعنی جان بچانے کیلئے بھی ہرگز کافی نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ کسی ایک کی بھی بھوک کو ذرا برابر بھی ختم کرنے میں مدد گار بن سکتا ہے ، ہاں اگر ہر ایک کو ایک ایک پیالہ دودھ ملے تو وہ بے شک جان بچانے کے بقدر غذا بن سکتا ہے ۔
بحوالہ ،مشکوۃ شریف ،جلد چہارم ،پینے کی چیزوں کا بیان ،حدیث 198
مشکوۃ شریف ،جلد چہارم ،کھانوں کے ابواب ،حدیث 196

چند مفید نصیحتیں :

بیٹا، احادیث و مواعظ کا برابر مطالعہ کرتے رہو اور روزانہ کم سے کم ایک گھنٹہ مطالعہ کرو کہ اس میں عجیب و غریب تاثیر پائی جاتی ہے اس سے دل زندہ ہوتا ہے اور نفس امارہ سر کشی سے محفوظ رہتا ہے۔
بیٹا،  خبردار زیادہ کھانا نہ کھانا کہ اس سے سستی اور سنگ دلی پیدا ہوتی ہے۔
٭ روایات میں ہے کہ انسان شیطان سے اس وقت قریب تر ہو جاتا ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔
٭ خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ترین شے شکم سیری ہے
٭ مومن کیلئے مضرترین شے پیٹ کا بھرا ہونا ہے ہمیشہ ایک تہائی شکم پانی کیلئے رکھو۔ ایک تہائی سانس کیلئے اور ایک تہائی کے برابر کھانا کھاؤ کہ یہی مزاج کیلئے سازگار اور بدن کیلئے صالح ہے۔
خبردار، یہ نہ سمجھنا کہ قوت زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے ہرگز نہیں قوت کا تعلق ہاضمہ سے ہے کھانے سے نہیں۔ اور ہاضمہ کم کھا نے ہی میں کام کرتا ہے زیادہ کھانے میں نہیں۔ معدہ ایک پتیلی ہے او پتیلی میں جتنی جگہ خالی ہوگی اتنی ہی اچھی غذا پختہ ہوگی۔
خبردار، شکم سیری میں اشتہاء کے بغیر نہ کھانا کہ اس سے بد ہضمی، برص، حماقت اور نادانی پیدا ہوتی ہے۔
خبردار زیادہ سونا بھی نہیں کہ اس سے عمر عزیز ضائع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ریاضت میں لگ جاؤ، نہیں، یہ کام تو اور بُرا ہے، اس سے تو الگ ہی رہنا چاہئے اور آب و ہوا کے مطابق غذا استعمال کرتے رہنا چاہئے۔ مطلب صرف یہ ہے کہ ہر کام بقدرِ ضرورت انجام دو اور زیادتی نہ ہونے پائے۔

   

No comments:

Post a Comment