Sunday 10 January 2016

تفریح اور کھیل کی لعنت

ایس اے ساگر

شرعی ضوابط سے بے نیاز تفریح اور کھیل کود نے انسانیت کو کہیں کا نہیں رکھا. اخبارات میں آئے دن اس کے منفی اثرات اور نقصانات منظر عام پر آرہے ہیں. اس سلسلہ میں اہل علم حضرات متوجہ کرواتے رہے ہیں. مفتی محمد خالد حسین قاسمی رقم طراز ہیں کہ کنزالعمال کی ایک روایت میں ہے کہ جب دنیا میں ساز وسامان کی فراوانی ہوئی اور لوگوں پر موٹا پاچڑھنے لگا، تو مدینہ طیبہ میں پہلی برائی یہ ظاہر ہوئی کہ لوگوں نے کبوتر بازی اور غلیل بازی شروع کر دی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا، انہو ں نے بنولیث سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو مدینہ منورہ میں محض اس کام کیلئے مقرر کیا کہ وہ کبوتر کے پرکاٹ دیں اور غلیلیں توڑ دیں۔

بازیوں کی بھر مار :

علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کبوتر پالنا انڈییا بچوں کے حصول کیلئے درست ہے ، لیکن کبوتر بازی کرنا اگر جوے کیساتھ نہ ہو تو مکروہ ورنہ ناجائز ہے۔ ( حاشیہ مشکوٰة)

مرغ بازی، بیٹر بازی :

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت فرمائی ہے ، چاہے مرغیوں کو لڑایا جائے یابٹیر کو یا مینڈھے کو، جس کے لڑانے کا معاشرے میں عام رواج ہے ، یا کسی اور جانور کو لڑایا جائے۔
نھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن التحریش بین البھائم․
( ترمذی، ابوداؤد)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اپنے رسالہ ”جانوروں کے حقوق“ میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” مرغ بازی، بیٹر بازی اور مینڈھے لڑوانا، اسی طرح کسی جانور کو لڑانا، سب اس میں داخل ہے او رسب حرام ہے کہ خواہ مخواہ ان کو تکلیف دینا ہے او راسی کے حکم میں ہے ، گاڑی بانوں کا بیلوں کو بھگانا کہ وہ بھی ہانپ جاتے ہیں اور بعض اوقات سواریوں کو چوٹ لگ جاتی ہے اور بجز تفاخر اورمقابلہ کے اس میں کوئی مصلحت نہیں او رگھوڑ دوڑ وغیرہ جب کہ اس میں جوانہ ہو، اس سے مستثنیٰ ہے کہ ان کی مشاقی میں مصلحت ہے۔“
( ارشاد الہائم فی حقوق البہائم:19)

موجودہ زمانے کے چند کھیل :

پتنگ بازی :

جو حکم کبوتر کے پیچھے دوڑنے کاہے ، وہی حکم پتنگ کے پیچھے دوڑنے کا ہے، یعنی ناجائز۔ حدیث میں ایسے شخص کو شیطان قرار دیا گیا ہے۔ (ابوداؤد) اس میں بھی اور ناجائز کھیلوں کی طرح متعدد مفاسد ومضرتیں پائی جاتی ہیں اور بعض علاقوں میں خاص مواقع پر ”بسنت منانے“ کے عنوان سے وہ ہلڑ بازی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ! اس کے علاوہ قوم کے لاکھوں کروڑوں روپے محض پتنگ بازی کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ بعض اوقات چھتوں سے گر کر جان کا ضیاع بھی ہوتا ہے ،کٹی ہوئی پتنگ کو زبردستی لوٹ لیا جاتا ہے ، بے پردگی الگ ہوتی ہے اور ان ا مورِ قبیحہ کی وجہ سے پتنگ بازی بھی شرعی نقطہ نظر سے ممنوع ہے۔

تاش بازی :

یہ کھیل بھی شرعی نقطہٴ نظر سے ممنوع ہے، اس لیے کہ تاش عام طور پر باتصویر ہوا کرتے ہیں۔ تاش کھیلنا عام طور پر فاسق وفاجر لوگوں کا معمول ہے۔ بالعموم جوا اور قمار کی شمولیت ہوتی ہے۔ اس کھیل میں تفریح کی جگہ پر الٹا ذہنی تکان ہوتی ہے ۔ اگر جوے کے بغیر بھی کھیلا جائے، تو شطرنج کے حکم میں ہو کر مکروہ تحریمی کہلائے گا۔ بعض احادیث میں شطرنج کی ممانعت آئی ہے۔ جو مصلحت شطرنج کو منع کرنے میں ہے ، وہی بات تاش کھیلنے میں پائی جاتی ہے ۔ جہاں تک معاملہ تعلیمی تاش کا ہے، تو یہ کھیل اگر جوے اور انہماک زائد سے پاک ہو، تو نہ صرف یہ کہ جائز ہے ، بلکہ مبتدیوں کے لیے یک گونہ مفید بھی ہے۔
(امداد الفتاوی)

باکسنگ فائٹنگ :

موجودہ زمانہ میں باکسنگ مُکّا بازی، فری اسٹائل لڑائی کے جو مقابلے منعقد ہوتے ہیں ، وہ شریعتِ اسلامی میں حرام ہیں، اسے جائز ورزش کا نام نہیں دیا جاسکتا ، ایسے باکسنگ مقابلوں کوٹی وی پر براہِ راست نشر کرنا بھی جائز نہیں، کیوں کہ اس میں فریق مقابل کو شدید جسمانی اذیت پہنچانے کو جائز تصور کیا جاتا ہے ، جس سے ہوسکتا ہے کہ مدِ مقابل اندھے پن، سخت نقصان، دماغی چوٹ یا گہری ٹوٹ پھوٹ، بلکہ موت سے بھی دو چار ہو جائے۔ اس میں مارنے والے پر اس نقصان کی کوئی ذمے داری عاید نہیں ہوتی، جیتنے والے کے حامیوں کو اس کی جیت پر خوشی اور مقابل کی اذیت پر مسرت ہوتی ہے ، جو اسلام میں ہر حال میں حرام اور ناقابل قبول ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
ولا تلقوا بایدکم إلی التھلکة
یعنی اور تم اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔

بیلوں کیساتھ کشتی :

اسی طرح بیلوں کے ساتھ کشتی، جس میں تربیت یافتہ مسلح افراد اپنی مہارت سے بیل کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، یہ بھی حرام ہے ، کیوں کہ اس میں جانور کو ایذا پہنچا کر او رجسم میں نیزے بھونک کر قتل کیا جاتا ہے او ربعض اوقات بیل بھی مدِ مقابل انسان کو ختم کر دیتا ہے ،یہ عمل کسی بھی حال میں درست نہیں ، اس لئے کہ روایت میں ایک بلی کو بھوکا مارنے پر جہنم میں ڈالنے کا مضمون آیا ہے۔

کیرم بورڈ :
یہ کھیل بھی اگرا نہماک او رجوے کے بغیر کھیلا جائے تو اس کی گنجائش ہے ۔لیکن اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

لوڈو :
اگر اس میں ذی روح کی تصویر نہ ہو اور مذکورہ خرابیوں سے پاک ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ لیکن عام طور پر شرائط کی رعایت نہیں کی جاتی اس لئے اس سے بچنا بہرحال اولی ہے۔

ویڈیو گیم :
اس کھیل کی مختلف شکلیں رائج ہیں جس میں جان دار کی تصویریں نہ ہوں، بلکہ بے جان اشیاء مثلاً: ہیلی کاپٹر، جہاز، موٹر سائیکل، بس، ٹیکسی وغیرہ چلانے یا انہیں شکار کرنے کا کھیل ہو ۔ یا جاں دار کی تصویریں ہوں ، مگر وہ اس قدر غیر واضح ہوں کہ انہیں تصویر نہ کہا جاسکے، بلکہ وہ محض ایک خاکہ کی شکل ہوں، تو ان دونوں شکلوں میں وقتی تفریح طبع کے لیے یا ذہن کی تیزی اور حاضر دماغی کے لیے۔ اس کھیل کی اس شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ مذکورہ ممانعتوں سے پاک ہو وہ بڑے ویڈیو گیم، جن میں جاں داروں کی تصویریں واضح ہوں۔

یہ کھیل تصویر کی حرمت کی وجہ سے ناجائز ہوں گے۔ ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس ، بیڈمنٹن، کرکٹ اورا وپر ذکرکیے گئے کھیلوں کے علاوہ جو بھی کھیل ہیں اگر وہ کسی معصیت ، حرام یا ناجائز کام پر مشتمل ہوں ، وہ بھی اس مقصد حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے۔ مثلاً کسی کھیل میں ستر کھولا جائے، یا اس کھیل میں جو ا بازی ہو، یا اس میں مرد وعورت کا مخلوط اجتماع ہو، یا اس میں موسیقی کا اہتمام ہو، یا کفار کی خاص مشابہت ہو، یا اس کی وجہ سے فرائض وواجبات میں غفلت ہو رہی ہو۔

اسی طرح وہ کھیل جو بلا مقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلے جاتے ہیں، وہ بھی ناجائز ہوں گے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو مومنوں کی صفات یہ بیان کی گئی ہیں کہ وہ بے کار باتوں سے اعراض کرتے ہیں (مومن:13) ۔ اس طرح کے کھیلوں کااصولی طور پر حکم جاننے کے لیے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا یہ فتویٰ چشم کشا ہے:
(الف) وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی معتد بہا فائدہ مقصود نہ ہو وہ ناجائز ہے اور وہی حدیث کا مصداق ہے۔

(ب) جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ معتد بہا مقصود ہو، وہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس میں کوئی امر خلافِ شرع ملا ہوا نہ ہو اور من جملہ امور خلاف شرع تشبہ بالکفار(کفار کی نقالی) بھی ہے۔

لہٰذا معلوم ہوا کہ گیند کا کھیل، خواہ کرکٹ وغیرہ ہو، یا دوسرے دیسی کھیل، فی نفسہ جائز ہیں، کیوں کہ ان سے تفریح طبع او رورزش وتقویت ہوتی ہے ، جو دنیوی اہم فائدہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لیے سبب بھی ، لیکن شرط یہی ہے کہ یہ کھیل اس طرح پر ہوں کہ ان میں کوئی امر خلاف شرع اور تشبہ بالکفار نہ ہو، نہ ہی لباس کے طرز میں انگریزیت ہو اور نہ گھٹنے کھلے ہوں، نہ اپنے نہ دوسروں کے او رنہ اس طرح اشتغال ہو کہ ضروریاتِ اسلام نماز وغیرہ میں خلل آئے، اگر کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ کرکٹ، ٹینس وغیرہ کھیل سکتا ہے، تو اس کے لیے جائز ہے، ورنہ نہیں، آج کل چوں کہ عموماً یہ شرائط موجودہ کھیل میں نہیں ہیں، اس لیے ناجائز کہا جاتا ہے ( امداد المفتیین جدید1002,1001) معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں مروّج کھیل مثلاً: ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس، بیڈ منٹن، کشتی، کرکٹ کی بعض شکلیں وغیرہ، جس میں بھرپور ورزش کا امکان ہوتا ہے، فی نفسہ ان کا کھیل درست ہے، لیکن چوں کہ عام طور ان کھیلوں میں او ران کیلئے منعقد ہونے والے مقابلوں میں مندرجہ ذیل خرابیاں درآئی ہیں :
انہماک زیادہ ہونا۔ لوگ فرائض وواجبات سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اسراف وتبذیر کی نوبت آتی ہے وقت کا بے پناہ ضیاع ہوتا ہے۔ اکثر کھیلوں میں ستر پوشی کا اہتمام نہیں کیا جاتا ہے۔ اکثر جگہوں پر مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے۔
محرمات:
مثلاً بدنظری، گانا، ڈانس، ہلڑ بازی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ بعض کھیل کے ماہرین کو قومی ہیرو اور آئیڈیل کا درجہ دے کر نو نہالوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ سٹے بازی، جوے بازی ، میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کا سیلاب بلاخیز آیا ہوا ہے، لہٰذا مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے ان کھیلوں کے عدم جو از کا حکم لگایا جاتا ہے۔

جیت ہار میں پیسے کی شرط :
کھیل کی جیت ہار میں اگر پیسے کی شرط ہو ، تو اس کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک صورت ناجائز ہے، باقی تین صورتیں جائز ہیں: دو یا چند افراد کے مابین مقابلہ ہو اور ہر شخص پر یہ بات لازم قرار دی گئی ہو کہ وہ ہارنے کی صورت میں جیتنے والے کو متعین رقم دے گا اور اگر وہ جیت جائے تو دوسرے لوگ اسے رقم دیں گے۔ یہ صورت جواہونے کی وجہ سے حرام ہے ۔ دو آدمیوں میں جیت ہار پر دو طرفہ شرط ہو ، لیکن تیسرے آدمی کو بغیر کسی شرط کے شریک کر لیا گیا ہو کہ اگر وہ ہار جائے، تو اسے کچھ دینا نہ پڑے گا اور اگر وہ جیتے تو باقی دونوں اسے حسب معاہدہ انعام دیں گے اور تیسرا شخص بھی اس پوزیشن میں ہو کہ اس کے جیتنے کی توقع کی جاسکتی ہو، یہ صورت بھی جائز ہے۔ دو شخص مقابلہ میں شریک ہوں اورجیتنے والے کو انعام کوئی کمپنی، حکومت، ادارہ یا کوئی اور شخص دے۔ یہ صورت بھی جائز ہے۔
(بدائع الصنائع، کتاب السباق606/6، رد المحتار)

کھیل دیکھنے کیلئے ٹکٹ خریدنے کا حکم :
کھیل دیکھنے کیلئے اسٹیڈیم اور میدان میں داخل ہونے کیلئے ناظرین کو داخلہ کارڈ، یا ٹکٹ کی خریداری کرنی پڑتی ہے۔ اس کا شرعی حکم کھیل کی نوعیت سے وابستہ ہے۔ جائز کھیلوں کیلئے ٹکٹ کی خریداری او رانہیں دیکھنے کی گنجائش ہے اور ناجائز ومکروہ کھیل کے لیے نہ ٹکٹ خریدنے کی گنجائش ہے، نہ دیکھنے کی۔ کیوں کہ یہ آیت کریمہ
یشتری لھو الحدیث
کی وعید میں شامل ہے۔

سیرو سیاحت :
نئے مقامات کی دریافت، فرحت انگیز اور خوش کن مناظر، بلند وبالاعمارات، آثار قدیمہ اور تہذیبوں کے مدفن کھنڈرات کے مشاہدہ اورمقدّس مقامات ومذہبی اماکن کی زیارت کا داعیہ فطری ہے۔ اس سے انسان کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے ، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔ اسی جذبہ کے تحت سیر وسیاحت کا ہر زمانہ میں رواج رہا ہے، بہت سے علما ومحققین اور دانش وروں نے سیر وسیاحت اور بادیہ پیمائی اور ہفت خوانِ عالم کی اسیری وصحرا نوردی سے حاصل تجربات کو دوسروں تک بھی پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔اس طرح ایک مستقل فن ” سفر ناموں “ اور”رحلات“ کی شکل میں سامنے آیا۔ دنیا ان سفر ناموں اور رحلات کے ذریعہ ان تاریخی اسرار ور موز، تہذیب وتمدن، اقوام وملل، رسم ورواج، مختلف ممالک کے باشندوں کی زندگی کے حالات اور تجربات وغیرہ سے روشناس ہوئی کہ اگر یہ سفر نامے نہ ہوتے ، تو کبھی ان کا پتہ بھی نہ چلتا، نہ اس کا سراغ ملتا۔ ابن بطوطہ مغربی ، ابن حوقل ، حکیم ناصر خسرو رحمہم اللہ مسلمانوں میں شہرہٴ آفاق سیاح گذر ے ہیں۔ خود ہندوستان کی تاریخ اور قدیم تمدن کے بیان میں مشہور چینی سیاح ہیان جیونگ کو دستاویزی حیثیت حاصل ہے۔

(الف) شرعی نقطہٴ نظر سے سیروسیاحت جائز مقاصد او رجائز طریقہ پر درست ہے، بلکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ”سیروا فی الارض“ کا حکم دیا گیا ہے ۔ سورہٴ نمل میں ارشاد ہے:
قل سیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبة المجرمین (49)
کہ اے نبی! کہہ دیجیے کہ روئے زمین پر سیر کروا اور دیکھو کہ جرم کرنے والوں کا انجام کیا ہوا؟ سورہٴ روم میں ارشاد ہے :
سیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبة الذین من قبل، کان أکثرھم مشرکین ․(42)
اے نبی! کہہ دیجئے کہ تم روئے زمین پر گھومتے پھرو اور دیکھو کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو پہلے ہوا کرتے تھے؟ ان میں سے اکثر مشرک تھے۔

مذکورہ آیات اور اس مفہوم کی دوسری آیتوں میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ” سیر فی الارض“ یا سیاحت نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ مطلوب ہے، لیکن یہ سیر بامقصد ہونی چاہیے، ” نیک لوگوں“ کے علاقوں او ر ان کے آثار کو دیکھ کر اسباب ِ انعام کی رغبت پیدا ہو، نیکی اور بھلائی کا شوق پیدا ہو۔ اور ”نافرمانوں“ کے مقامات اور ان کے آثار کو دیکھ اسبابِ غضب سے بچنے کا داعیہ پیدا ہو، قلب میں رقت پیدا ہو ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب ایک غزوے کے موقع پر قوم عا دکے علاقہ سے گذر رہے تھے، تو آپ نے سواریوں کو تیزہنکانے کا حکم فرمایا اور چہرے پھیرلیے اور استغفار کی کثرت کا حکم دیا، مطلق سیر کی کوئی ممانعت نہیں۔ اس کا جواز یا عدم جواز مقصد سفر سے وابستہ ہے۔ اگر مقاصد درست ہوں، تو سفر بھی درست ہو گا، اگر مقاصد غلط ہوں تو سفر بھی غلط ہو گا۔ حدیث نبوی
لاتشد الرحال إلا إلی ثلاثة مساجد
(بخاری مع الفتح:1189)
کی تحقیق میں بھی علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ علامہ بد رالدین عینی رحمہ اللہ نے عمدة القاری ( 63/3) میں اپنے شیخ زین الدین عراقی رحمہ اللہ  سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث میں مساجد کے حکم کو بیان کرنا مقصود ہے۔ جہاں تک مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات کے قصد کا تعلق ہے، جیسے طلبِ علم کے لیے سفر کرنا، رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے سفر کرنا، تفریح یا مبارک آثار اور مقابر کی زیارت کیلئے سفر کرنا او راس طرح کے دوسرے اسفار اس ممانعت میں داخل نہیں ہیں۔
( معارف السنن336/3)

(ب) جن علاقوں میں جان مال عزت وآبرو کو خطرہ لاحق ہو، ان علاقوں کا نہ تو خود سفر کرنا درست ہے۔ نہ اہل وعیال کو لے جانا درست ہے ۔ ارشاد باری ہے : ولا تلقوا بأیدیکم إلی التھلکة
(بقرہ:195)
اور تم اپنے آپ کو ہلاکت او رتباہی میں مت ڈالو۔ بخاری کی ایک روایت میں رات کے اوقات میں تنہا سفر کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ، کیوں کہ اس میں خطرہ ہے۔

(ج) جن مقامات پر مختلف ممالک کے سیاحوں کا ہجوم ہوتا ہے ۔ وہاں بعض غیر شرعی باتیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایسے مقامات پر نظر کی حفاظت کرتے ہوئے ، جانے کی گنجائش ہے، لیکن چوں کہ ماحول کا اثر مسلم ہے ۔ لہٰذا ایسے مقامات پر نہ جانا بہتر ہے ، ایسے مقامات پر آداب کی رعایت کے ساتھ جس طرح جانے کی گنجائش ہے ، فی نفسہ وہاں کے لیے سواری کرایہ پر لینے اور وہاں کاروباری نقطہٴ نظر سے دکان لگانے کی بھی گنجائش ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ حکومتوں اور تنظیموں کی طرف سے بے حیائی کی روک تھام کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

(د) ٹور کمپنیاں قائم کرنے کا جواز یا عدم جواز مقاصد سے وابستہ ہے۔ جائز مقاصد کیلئے ٹور کمپنیاں قائم کرنا او راسے چلانا درست ہے۔

تعلیم وتذکیر کیلئے فلموں کا استعمال :
فلم درحقیقت عکس بندی کا نام ہے ۔ یہ عکس بندی جان دار چیزوں کی بھی ہوتی ہے اور بے جان چیزوں کی بھی۔ کسی بھی جان دار کی تصویر کھینچنا او رکھینچوانا کسی حال میں بھی درست نہیں ہے ۔خواہ ہاتھ کے ذریعہ ہو ، یا قلم سے یا کیمرہ کے ذریعہ ہو یا پریس پر چھاپ کر۔ یا سانچہ اور مشین میں ڈھال کر۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے
اشد الناس عذابا یوم القیامة المصورون
(بخاری حدیث:5954/ باب التصاویر)
قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد صحیح احادیث ہیں، جن میں تصویر سازی کی مذمت کی گئی ہے۔ ویڈیو او رکیمرہ کی تصویر بھی در حقیقت تصویر ہی ہے۔ اس سلسلہ میں عرب کے بعض غیر محتاط علماء کے ضعیف اقوال کو وجہ جواز نہیں بنایا جاسکتا، لہٰذا جان دار چیزوں کی فلم بندی کسی حال میں درست نہیں ہے، ضرورت کے مواقع مستثنیٰ ہیں۔ تعلیمی مقاصد وتذکیری مقصد ضرورت میں شامل نہیں۔

کارٹون دو طرح کے ہوتے ہیں:
محض خاکہ، جس میں چہرہ سر وغیرہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرا کارٹون، جو اخباروں اور ٹیلی ویژن میں مروّج ہے۔ جس میں سر بھی ہوتا ہے ، چہرہ بھی ہوتا ہے، اگرچہ وہ مسخ شدہ ہوتا ہے ۔ پہلے قسم کا کارٹون، بلکہ خاکے بنانا درست ہے۔

دوسرے قسم کے کارٹون، جو موجودہ زمانے میں مروّج ہیں، وہ بھی تصویر کے حکم میں داخل ہیں ، اگرچہ وہ تصویر بگڑی ہوئی ہوتی ہے ، لہٰذا اس طرح ذی روح کاکارٹون بنانا درست نہیں، بلکہ تصویر سازی کے گناہ پر بھلی صورتوں کو بگاڑ کر مذاق بنانے کا گناہ مستزاد ہوگا۔

کارٹون بنانا چوں کہ گناہ کا کام ہے، اس لئے اس کو ذریعہٴ آمدنی بنانا اور اس مقصد کے لیے ملازمت کرنا گناہ کے کاموں پر تعاون ہونے کی وجہ سے ممنوع ہو گا۔ ارشاد باری ہے :
تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان
یعنی نیکی کے کاموں پر تعاون کرو۔ گناہ اور ظلم کے کاموں پر تعاون مت کرو۔

اسٹیج ڈرامہ :
بہتر مقاصد کیلئے اگر اسٹیج ڈرامہ کیا جاتا ہے، تو اس شرط کیساتھ اس کی اجازت ہے کہ :اس میں دھوکہ نہ ہو۔ موسیقی کا استعمال نہ ہو۔ کسی مومن کی کردار کشی نہ کی گئی ہو ۔ شکلیں بگاڑی نہ جائیں۔ انہماک زائد نہ ہو ۔ مردوزن کا اختلاط نہ ہو، لیکن موجودہ زمانے میں جو ” اسٹیج شو“ کے نام سے ڈرامے مروّج ہیں ، وہ مفاسد سے پُر ہوتے ہیں۔ اس لئے ممنوع ہیں۔

مدارس میں منعقد ہونے والے مکالمے، محادثے بالعموم اصلاحی وتذکیری ہوتے ہیں اور مذکورہ مفاسد سے پاک ہوتے ہیں، اس لیے ان کی گنجائش ہے۔ تمام تفریحات او رکھیل کود میں اصل یہ ہے کہ انسان کسی حال میں اپنے مقصد حیات اور فکرِ آخرت سے غافل نہ ہو۔
والله اعلم بالصواب

🎈PATANG UDANE Ke 2⃣4⃣ NUQSANAT.

⭕AAJ KA SAWAL NO.571⭕

ISLAMI SHARI'AT ME PATANG UDANA NA JAIZ KYUN HAI?

🔵JAWAB🔵

PATANG UDANE KE BAHUT HEE ZIYADA DUNYAWI AUR UKHRAWI NUQSANAT HAI JIS KI WAJAH SE US KA UDANA NA JAIZ HAI.
PATANG UDANE KE 2⃣4⃣ NUQSANAAT NICHE KE MUTABIK HAI.

1.FUZOOL KHARCHI MAAL AUR SALAHIYYAT KA BARBAD KARNA.

2.PATANG KI TARAF NAZAR HONE KI WAJAH SE NICHE GIR KAR MAR JANE YA ZAKHMI HONE KA KHATRA.

3.RAASTE SE GUZARNEWALE KITNE HEE BE-KASOOR INSAANON KE GALE KATE JISKI WAJAH SE MAR GAYE YA SAKHT ZAKHMI HUWE.

4.ZAKHMI HONEWALE MAZLOOMON KI BAD-DUA LAGNA YA MARNEWALON KI BEWA AUR YATEEMON KI BAD-DUAA AUR HAAY LAGNA.

5.KITNE HI MASOOM PARINDE(BIRDS) IS KI DOREE SE KAT KAR MAR JATE HAI YA SAKHT ZAKHMI HOTE HAI.

6.PATANG AKSAR TARRES AUR CHHAT PAR CHADH KAR UDAYI JAATI HAI JIS KI WAJAH SE AASPAAS KE GHARON KI BEPARDAGI AUR BAD NIGAHI HOTI HAI.

7.SHAREEF BA PARDAH AURTON KO KAPADE SUKHANE ME AUR KHIDKI DARWAZE BANDH RAKHNE ME TAKLEEF HOTI HAI.

8.ROAD PAR PATANG LOOTNEWALON KA ACCIDENT HO JATA HAI.

9.GAADI CHALAANE WALE BHI BAAZ MARTABAH IN KI WAJAH SE GAADI KE SATH GIRKAR ZAKHMI HOTE YA UN KI GAADI KA NUQSAN HOTA HAI.

10.GAADI CHALANEWALON KE DARMIYAN ACHANAK DOOREE AANE KE HAR WAQT DAR KI WAJHA SE AUR IN LOOTNEWALON KI WAJAH SE GAADI CHALANE ME TAKLEEF HOTI HAI.

11.MASJID KI JAMAAT BALKE KHUD NAMAZ SE GAFIL HO JATA HAI.

12.PURA DIN PATANG UDANE ME GUZAR NE KI WAJAH SE BADON KI DUKAN AUR NAUKARI KA HARAJ AUR BACHCHON KE MADRASAH KI PADHAI KA NUQSAAN.

13.HAR EK KI NIYYAT DUSRE KA PATANG KATNE KI HONE KI WAJAH SE NUQSAN PAHONCHANE KA GUNAH.

14.JIS KI PATANG KAT GAI US KE DIL ME ADAWAT AUR KEENA AUR US KA PATANG KAAT KAR BADLA LENE KE JAZBAT KA PAIDA HO JANA.

15.SHORGUL,SITIYAN,AUR DJ, KI WAJHA SE AARAM KARNEWALE BIMAR,BUDHE AUR QAYLOOLLAH KARNEWALE NEK BANDON KI NIND ME KHALEL PAHONCHNA.

16.MUSIC AUR GANA SUNNE AUR SUNNA NA CHAHNEWALON KO SUNANE KA GUNAH HONA.

17.NAMAZ KE WAQT BHI ZOR SE D.J.BAJNE KI WAJAH SE IMAM KI QIRAAT AUR MUSALLIYON KI NAMAZ ME KHALEL WAWIA HONA.

18.KAI DIN TAK DHUP ME  PATANG UDANE KI WAJHA SE JISMANI RANG AUR ANKHON KIROSHNI PAR ASAR PADNA.

19.GAIRON KI MUSHABAHAT-COPY HONE KI WAJHA SE QAYAMAT ME UN KE SATH HASHR HONA-UN HEE ME SHUMAR HONA.

20.PATANG LOOTNE KA GUNAH.

21. US KI DORI TOD KAR CHURANE KA GUNAH.

22.AISE FUZOOL KAAM JIS ME DUNYA AKHIRAT KA KOI NAFA NAHI QEEMTI WAQT ZAYEA KARNA.

23.GAIRON KE IS TEHWAR KO ACHCHA SAMJHNE AUR IN GUNAHON PAR KHUSH HONE WAJAH SE IMAAN KE BARBAD HONE AUR  KAFIR HON JANE KA KHATRA.

24.MAUT KA KOI WAQT TAY NAHI GAIRON KA TEHWAR AUR IN TAMAM GUNAHON KO KARTE KARTE ACHANAK MAUT AA GAI TO KHATMA BURA HO JANA.

IS MSG KO KHUB FORWAD KARE APNE GHARWALON KO SUNAYE AUR PATANG KI LANAT SE KHUD BACHE AUR APNE BACHCHON KO KHAAS BACHAYE BACHPAN HEE SE IS SE NAFRAT DILAYE.

✏IMRAN ISMAIL MEMON ALLAH UN KI AUR UN KE GHARWALON KI MAGFIRAT FARMAYEN
MUDARRISE DARUL ULOOM RAMPURA SURAT GUJRAT INDIA
📲Roman urdu me masail ke liye zaroor dekhe www.aajkasawal.page.tl



No comments:

Post a Comment