Friday 8 January 2016

موبائل فون کیسے کریں استعمال ؟ Ruling on cell phone

ایس اے ساگر
 طبی تحقیقات بھلے ہی موبائل فونز کے زیادہ استعمال کوصحت کیلئے نقصان قرار دے رہی ہوں لیکن اس کا چلن دن بدن بڑھتا ہی جارہاہے۔تمام احتیاطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لوگ 14 یا اس سے زائد گھنٹے موبائل فون استعمال کررہے ہیں۔ایسے صارفین جسمانی طور پرعام لوگوں سے زیادہ زیادہ چاق و چوبند اور فٹ نہیں ہوتے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ موبائل ڈیوائس کو زیادہ استعمال کرنے والے افراد سست طرز زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں جس سے ذیابیطس، موٹاپا، امراض قلب اور بلڈ پریشر جیسے متعدد جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔آج ایسے لوگوںکی کمی نہیں ہے جو ریسٹورنٹ میں ہوں یا بس میں سفر کررہے ہوں، ہمیشہ اپنے موبائل فون سے چمٹے رہتے ہیں۔ جبکہ کثرت سے موبائل فون کو چیک کرتے رہنے والے افراد کی دماغی صلاحیت ایسی متاثر ہوتی ہے کہ وہ اکثر غائب د ماغی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ڈی مونٹ فورٹ یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کاتو یہاں تک کہنا ہے کہ بار بار موبائل فون کو دیکھنے والے اور ہمہ وقت اس پر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس وزٹ کرنے والوں میں عدم توجہی اور بھولنے کی بیماری عام پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ بات کرنے کے دوران اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے، گھر کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جاتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ وہاں کیا کرنے گئے تھے اور اسی طرح اہم کاموں اور میٹنگز وغیرہ کے بارے میں بھی بھول کر بڑا نقصان کروابیٹھتے ہیں۔ جریدےComputers in Human Behavior میں شائع ہونے والی اس تحقیق تو واضح کررہی ہے کہ ایسے لوگ جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادت میں بھی مبتلاہوتے ہیں اور بعض اوقات گھنٹوں تصورات کی دنیا میں بھٹکتے رہتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت برباد کرتے رہتے ہیں۔
شکنجہ کسنے پرمجبور:
اس کے باوجود فون کا غیر ضروری استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مدارس کے علاوہ اسکول،کالج دفاتر کے ذمہ داروںنے درس اور کام کاج کے اوقات کے دوران استعمال پر شکنجہ کسا ہے۔ متعدد حساس مقامات پر اس کے استعمال پر پابندی لگی ہے۔دراصل گزشتہ چند برسوںکے دوران ٹیلیفون اور موبائل کی دنیا میں زبردست انقلاب آیا ہے۔ موبائل فونز نظری اور بنیادی مواصلات کا اوزار بن چکے ہیں ۔اب نہ صرف فون کالوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، بلکہ انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ، ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے کیلئے بھی ضروری ہوگیا ہے۔ موبائل فون اور کنکشن بے انتہا سستے ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں موبائل فون کے صارفین کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میںآج موبائل صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ٹیلیفون بلا شبہ ایک جدید ٹیکنالوجی اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن اس کے استعمال کے حوالہ سے بعض اخلاقیات کا ملحوظ رکھا جانا بہت ضروری ہے۔ موبائل فون کمپنیوں کے کال اور میسجز کے نت نئے پیکجز کے باوصف بہت سے لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
کیا کریں، کیا نہ کریں؟
اسلام میں انسانی ضرورتوں کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سخت ضرورت اور ابتلائے عام کی صورتوں میں بہت سی ناجائز باتیں بھی جائز ہوجاتی ہیں۔بعض اہل علم حضرات کے نزدیک موبائل فون موجودہ دنیا کی ضروری اشیامیںشامل ہے۔ ضرورت نہ بھی ہوتی تو اسلام میں موبائل فون رکھنے کی اجازت ہوتی۔ ضرورت کی وجہ سے تو اس کی اجازت میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔ ایک دوسرے سے زبانی یا تحریری گفتگو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے، موبائل فون اس کی نئی صورت ہے۔ اس لئے اس کے وہ سب احکام ہوں گے جو پہلے سے زبانی یا تحریری گفتگو کے ہیں۔ بعض مسائل ایسے بھی ہیں جو موبائل فون ہی کا خاصہ ہیں۔ ان تمام احکام و آداب کا جاننا اور ان کا خیال رکھنا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔
کیسے کریں بات چیت؟
1۔ بات شروع کرنے سے پہلے سلام کیجئے۔
2۔ اگر پہلے سے تعارف نہ ہو یا تعارف کے باوجود نہ پہچان رہے ہوں تو تعارف کروائیے۔
3۔غیر مسلم کو کلمہ احترام سے مخاطب کیجئے، اس کیلئے سلام نہیں۔
4۔ عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو چونکہ فون بات کرنے میں فتنے کا اندیشہ کم ہوتاہے اس لئے سلام کی گنجائش ہے لیکن احتیاط بہتر ہے۔
5۔ اگر خودکو ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہ ہو تو خود ہی وضاحت کردینی چاہئے کہ میں فلاں شخص ہوں اور فلاں شخص سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطوط مبارکہ میں یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔
6۔ تین بار فون کی گھنٹی جانے کے باوجود اگر فون نہ اٹھایا جائے تو سمجھے کہ اس وقت ملاقات کی اجازت نہیں،لہذا کسی دوسرے وقت رابطہ کی کوشش کرنی چاہئے۔
7۔ ایسے اوقات میں رابطہ نہ کیجئے جس میں مخاطب کی مشغولیت کا یا آرام کا وقت ہو، مثلاً: نماز کایا دیگر روز مرہ مشاغل کاوقت۔
8۔ طویل گفتگو کرنی ہو تو پہلے اجازت لے لیجیے کہ مجھے تھوڑی لمبی بات کرنی ہے۔البتہ اگر پہلے سے بات ہوئی ہو کہ فلاں وقت فون پر رابطہ ہوگا، تو یہی اجازت کافی ہے ۔
9۔ اگر مخاطب گفتگو کرنے سے معذرت کردے تو اس کو تکبر پر محمول نہیں کرنا چاہئے کہ ہر شخص کے اپنے مشاغل ہوتے ہیں ، اس میں دخل اندازی کسی طرح مناسب نہیں۔
10۔ قرآن کریم کی سورہ النور: 29 کی روشنی میںنے ایسی جگہوں پر بلا اجازت آنے کی اجازت دی ہے، جو رہائشی نہ ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پبلک مقامات جیسے، ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، سرکاری اور نجی اداروں کو ان کے مقرر کردہ اوقات کار میں کسی بھی وقت فون کیا جا سکتا ہے اور ان اداروں سے پیشگی اجازت کے بغیر بھی لمبی بات کرنے کی گنجائش ہے۔
11۔ بلاوجہ فون پر گفتگو کرنے اور جواب دینے سے انکار کرنا بداخلاقی کے علاوہ ایک طرح کی حق تلفی ہے۔
12۔ اسی طرح اپنے ماتحت کو یہ تاکید کرنا، کہ فون ملانے والے سے کہو کہ موجود نہیں یا اور کوئی بہانہ بنانا اور اس طرح موجود رہتے ہوئے بھی موجود نہ رہنے کی اطلاع دینا گناہ ہے، البتہ اگر جان، مال، عزت آبرو کی حفاظت کیلئے جھوٹ بولنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو تو تو ریہ کی گنجائش ہوگی۔
13۔ بار بار فون کرکے ایک دوسرے کو پریشان کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔
14۔ آوازوں کو تبدیل کرکے بات کرنا، کسی کو دھمکی دینا، فحش باتیں کرنا گالی گلوچ وغیرہ یہ اخلاقاً بھی نا پسندیدہ اور گناہ کی باتیں ہیں۔
15۔ فون ایسی ملاقات ہے، جس کی اجرت ادا کرنی پڑتی ہے، اس لئے ضروری بات اور نہایت مختصر بات کیجئے، غیر ضروری باتیں کرنا یا ضروری بات کو ضرورت سے زیادہ بڑھانا اسراف و فضول خرچی ہے جو کہ شریعت کی نگاہ میں بہت بری چیز ہے۔
16۔متعارف شخص ہویا غیر متعارف ایسی گفتگو کیجئے جس سے مخاطب مانوس ہو خشک اور روکھی گفتگو نہ کیجئے، الا یہ کہ عورت کو غیر محرم سے گفتگو کرنی پڑ جائے تو بات چیت میں لوچ اور حلاوت کا اظہار نہ ہو بلکہ لہجہ سخت ہونا چاہئے۔
17۔مسجد میں موبائل فون پر دنیاوی باتیں کرنا، آداب مسجد کے خلاف ہے۔
18۔ بھری مجلس میں اونچی آواز سے جس سے حاضرین تکلیف محسوس کریں بات نہ کیجئے، بلکہ ایک طرف ہوکر بات کیجئے، اسی طرح سوتے ہوئے کسی شخص کے قریب اونچی آواز سے باتیں کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔
19۔ آخر میں سلام کرنا چاہئے تاکہ ملاقات کا اختتام سلام پر ہوجائے۔
غرض یہ کہ موبائل فون ایک طرح کی ملاقات ہے، اس لئے بنیادی طور پر جو آداب ملاقات کے ہیں، وہی فون پر گفتگو کرنے کے بھی ہیں۔
موبائل فون پر ایس ایم ایس :
1۔اگر صحیح بات کامیسیج ہو توایس ایم ایس درست ہے خرافات و لغویات سے بھرے ہوئے ایس ایم ایس سے احتراز ضروری ہے۔
2۔بعض لوگ قرآن پاک کی آیتوں کو انگریزی رسم الخط میں ایس ایم ایس کرتے ہیں،یہ درست نہیں،کیونکہ قرآن پاک کو عثمانی رسم الخط کے سواکسی اوررسم الخط میں لکھنا اور اس کو آگے بھیجنا،شائع کرنا ہر گز درست نہیں۔
3۔ اسی طرح احادیث کو بھی اس طرح نہیں لکھنا چاہئے کیونکہ اس میں حدیث غلط پڑھی جاتی ہے البتہ مفہوم لکھ کر بھیجنے کی گنجائش ہے۔
4۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اگر کسی طرح معلوم ہوجائے کہ یہ حدیث ہے تو وہ تحقیق کئے بغیر دوسرے کو ایس ایم ایس کرکے آخر میں حدیث، یا فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم لکھتا ہے۔اس میں حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے، جب تک معلوم نہ ہو کہ مستند کتاب کی حدیث ہے اور اس کے متعلق محدثین کا کلام بھی سامنے نہ ہو،اس وقت تک ایس ایم ایس نہ کرنا ہی اولیٰ ہے اوراحتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔
مسائل کے فقہی جوابات:
(1) نماز میں موبائل کتنی مرتبہ بند کرسکتے ہیں؟           
سوال: ایک رکن یا پوری نماز میں کتنی مرتبہ موبائل بند کرسکتے ہیں، موبائل کے باربار بجنے کی صورت میں تین بار بند کرنے کی گنجائش پوری نماز کے دوران ہے یا ایک رکن میں بھی تین مرتبہ بند کر سکتے ہیں؟         
جواب: موبائل کا پوری نماز میں بلا شبہ تین مرتبہ عملِ قلیل کیساتھ بند کرنا جائز ہے اور ایک رکن میں بھی تین مرتبہ عملِ قلیل کیساتھ بند کیا جاسکتا ہے نیز یہ کہ تینوں حرکات پے در پے نہ ہو، اور تین مرتبہ ’سبحان ربی الاعلی ‘ کہنے کے برابر یا اس سے کم وقت میں تینوں حرکات واقع نہ ہوں کیوں کہ اگر اس طرح پے در پے اتنے مختصر وقت میں تین حرکات واقع ہو گئیں تویہ بھی ایک قول کے مطابق عملِ کثیر میں شمار ہوگا اور اس سے نماز فاسد ہو جائے گی (لہٰذا اس سے بھی احتیاط ضروری ہے) ۔
(2) موبائل بند کرنے کیلئے نمازکا توڑنا۔ 
سوال: کیا نماز توڑ کر موبائل بند کیاجا سکتا ہے؟ اور اگر دورانِ نماز عملِ قلیل کے ذریعہ موبائل بند کرنا ممکن نہ ہو اور دوسری طرف اسکے بجتے رہنے سے اپنی اور دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہو رہا ہو تو کیا ایسی صورت میں نماز توڑ کر موبائل بند کیا جا سکتا ہے تاکہ فون بند کرکے یکسوءسے نماز پڑھ سکے اور دوسرے نمازیوں کی نماز بھی خراب نہ ہو۔
جواب: اگر عملِ قلیل کے ذریعہ موبائل بند کرنا ممکن نہ ہو اور اس کے بجتے رہنے سے اپنی اور دوسرے نمازیوں کی یکسوئی میں خلل واقع ہو تو محض اسوجہ سے نماز توڑ کر موبائل بند کرنا جائز نہیں کیونکہ نماز توڑنے کی اجازت مخصوص اعذار کے وقت ہوتی ہے اور خشوع و خضوع میں خلل آنا ایسا شرعی عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے نماز توڑنے کی گنجائش ہو۔          
(3) نمازی کا بجتا ہوا موبائل بلا اجازت بند کرنا۔
سوال: مثال کے طور پر زید اپنا موبائل سامنے رکھ کر نماز پڑھ ریا ہے، دورانِ نماز موبائل کی گھنٹی بجنی شروع ہو گئی، تو کوئی دوسرا آدمی جو نماز نہیں پڑھ رہا ہے، اس موبائل کو بند کرسکتا ہے؟کیا اس صورت میں بلا اجازت غیر کی ملکیت کواستعمال کرنے گناہ تو نہ ہو گا؟
جواب: موبائل کی گھنٹی بجنے سے چوں کہ زید کی نماز میں خلل پڑنےکا اندیشہ ہے اس لئے کسی اور شخص نے موبائل بند کردیا تو بلا شبہ جائز ہے، اور یہ غیر کی ملکیت میں تصرف نہیں بلکہ ایک طرح سے اس کیساتھ ہمدردی اور تعاون ہے، تاکہ اسکی نمازمیں خلل نہ پڑے۔ بحوالہ ،حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری مدظلہ العالی ۔
گناہِ کبیرہ کے مرتکب؟
سوال:موبائل فون میں بلااجازت گفتگو محفوظ کرنا یا اسپیکر کھول کر گفتگوسننا شرعاً کیسا ہے؟
جواب:موبائل فون سے ایک کبیرہ گناہ لوگوں کی گفتگو کی جاسوسی ہے،لوگ دوسری طرف سے آنے والی آواز کو اپنے موبائل میں ریکارڈ اور محفوظ کرلیتے ہیں،جسے بعد میں مختلف مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں یا وہاں پر موجود لوگوں کو سنانے کیلئے لاو ¿ڈ اسپیکرکھول دیتے ہیں،جس کا سامنے والے کوکوئی علم نہیں ہوتا اگر وہ بات ان کو پتہ چل جائے تو ناراض ہوجائے یا سنبھل کر بات کرے۔عام حالت میں بلا اجازت موبائل میں کسی کی گفتگو محفوظ کرنا یا بات دوسروں کو سنانا جائز نہیں،کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،مجلسوں میں کہی گئی بات امانت ہے۔ریکارڈ کرنے کی وجہ سے یہ امانت محفوظ نہ رہے گی،بلکہ اس کے دوسرے تک پہنچنے کا خدشہ ہے اس طرح یہ خیانت ہوگی جوکہ حرام ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے اندر امانت نہیں اس کا دین کامل نہیں۔بحوالہ،تر مذی جلد:2صفحہ17۔



Ruling On Cell phone
By: S. A. Sagar
Is it permissible to sell cell phones which include cameras?.
Praise be to Allaah.
The cameras which come with cell phones may be used for permissible purposes, or they may be used for haraam purposes. In such cases, the principles are as follows:
1- There is nothing wrong with selling it to someone whom it is known or thought most likely that he will use it for permissible purposes.
2- It is not permissible to sell it to someone who it is known or thought most likely that he will use it for haraam purposes.
3- If it is not known, then one must decide based on what usually happens. If most people in the country use it for permissble purposes, then it is permissible to sell it, otherwise it is not.
This applies to selling the phone itself, and also to selling televisions, video equipment, makeup, women’s clothes, and other things that may be used for good or evil purposes.
See also question no. 39744 and 82551.
And Allaah knows best.
https://islamqa.info/en/85000


No comments:

Post a Comment