Wednesday, 20 January 2016

کیا ٹیسٹ ٹیوب بے بی طریقہ جائز ہے؟

ایس اے ساگر

ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا سروگیسی کے معاملے میں مدھیہ پردیش کا دارالسلطنت بھوپال میٹرو سٹی کی طرح بڑھ رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ یہاں یو پی، بہار، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش تک سے سروگیٹ مدر یا کرائے پر کوکھ دینے کی تلاش میں لوگ آ رہے ہیں۔
حیرت انگیز امر تو یہ ہے کہ اس میں غیرشادی شدہ لڑکیوں کی بھی بڑی تعداد سامنے آ رہی ہے جو پیسے کی خاطر بن بیاہی ماں بننے کو بھی تیار ہیں۔ اپنا مستقبل داو پر لگانے کو تیار کچھ ایسی ہی کچھ لڑکیوں سے جب سینٹر اسٹافر بن کر بات چیت کی گئی تو انہوں نے متعددحقائق بڑی بےباکی سے سامنے رکھے۔ ان کا بلا تکلف کہنا ہے کہ مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ آج ہمیں کچھ مہینوں میں ہی دو لاکھ روپے تک مل رہے ہیں، وہ بھی بغیر کوئی’ غلط قدم‘ اٹھائے‘تو پھر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ دارالحکومت میں بی اے کی تعلیم حاصل کر رہی اندور کی شلپا (تبدیل نام) کہتی ہے کہ پاپاجی کی ڈےتھ ہو چکی ہے۔ ماں بھی ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ دو بھائی ہیں جنہیں مجھ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ پڑھائی کیلئے تو پاپا نے بھیجا تھا۔ ہم نے ایجوکیشن لون لے رکھا تھا۔ پاپا نے میرے نام کچھ فکس ڈپازٹ بھی کروایا تھا۔ دو سال قبل پاپا کی ڈےتھ ہو گئی، تبھی سے میں سارے فیصلے خود ہی لے رہی ہوں۔ اپنے مستقبل کیلئے میں فلیٹ لینا چاہتی ہوں۔ لہذا میں نے سروگےٹ مدر بن کر فلیٹ کیلئے روپے جمع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بےتول کی تانیا (تبدیل شدہ نام) بھوپال میں رسےپشنسٹ ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی خود کی کار ہو لیکن خاندانی حالات اور سےلری سے یہ خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ تانیا نے کار لینے کیلئے اب سروگےٹ مدر بننے کا راستہ منتخب کیا ہے۔ مسرود کی وبھا (تبدیل شدہ نام) کی بچپن میں ہی شادی ہو گئی۔ رخصتی سے 3 ماہ قبل ہی شوہر نے دوسری شادی کر لی۔ اب وہ خود کفیل ہونا چاہتی ہے لیکن اس میں غربت آڑے آ رہی ہے۔ وبھا نے اس کیلئے سروگےٹ مدر بننے کا راستہ منتخب کیا۔رائے سےن کی سپنا (تبدیل شدہ نام) کے ماں باپ کی موت ہو گئی۔ اب وہ گووندپرا کے ایک آفس میں رسےپشنسٹ ہے۔ اسے پیار میں دھوکہ نصیب ہوا‘ اب اس نے خود کفیل ہونے کیلئے سروگےٹ مدر بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ کیا اسے ایسا کرنے میں سماج سے ڈر نہیں لگتا ہے تو اس نے کہاکہ ’جب مجھے بھوک لگتی ہے تو کوئی پوچھنے نہیں آتا، ایسے میں ڈروں کس سے؟ کیا اس سماج سے ڈروں جو میری مدد نہیں کر سکتا۔ ‘
حالانکہ طلاق کے خوف سے ان دنوں کئی لڑکیاں سرجری کی مدد سے کرائے کی کوکھ حاصل کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ تو ڈاکٹر سے ورجنٹی سرٹیفکٹ بھی مانگتی ہیں۔ شادی کے وقت لڑکی کا گورا رنگ، دبلا جسم اور بلند قد تو معنی رکھتا ہی ہے لیکن سماج میں سب سے زیادہ ضروری ہے اس کا کنوارا ہونا۔ شادی کی رات ہی یہ جان کر کہ دلہن کنواری نہیں ہے، اپنی بیوی کو طلاق دے دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یا یہ جاننے کے بعد کہ بیوی کا کبھی کسی اور سے بھی تعلق رہا ہے، اسے جسمانی اور ذہنی طور پر اذیت پہنچانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بے شمار لڑکیوںکوداغدار کرنے والا’ شریف مرد‘کنواری بیوی کی خواہش رکھتا ہے۔ شادی سے پہلے کسی کے ساتھ جسمانی تعلقات بنایا تو آپ بدچلن ہیں۔ آپ کاکردار آپ کے کنوارپن پر مبنی ہے۔ ہمارے ملک میں عورت کی عصمت کو اس کی عزت کہا جاتا ہے۔ شاید اسی لئے کوئی وحشی شخص کسی لڑکی سے جنسی زیادتی کرتا ہے تو وہ خود کشی کر لیتی ہے۔ اگر لڑکی ایسا نہ بھی کرے تو معاشرہ اس کے ساتھ اتنی حقارت سے پیش آتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ان حقائق کے پیش نظر جب کچھ لڑکیوں سے جب یہ پوچھا کہ اگر بن بیاہی ماں بننے کی بات سماج کے سامنے آ جاتی ہے تو پھر آپ مستقبل کا کیا ہوگا؟ اس کے جواب میں تمام کا ایک جیسا نظریہ تھا کہ فیصلہ ان کا اپنا ہے، اس لئے وہ مستقبل کی ہر پریشانی کیلئے بھی پوری طرح سے تیار ہیں۔
ٹیسٹ ٹیوب بے بی سینٹر کے ایک کارکن کاکہنا ہے کہ کوکھ کرائے پر دینے والی خواتین کا اعداد و شمار بڑھنے کے پس پشت عوامل ان کیلئے دستیاب مارکیٹ ہے۔ وہیں اعلی طبقہ کی خواتین اپنی فگرحسن و جوانی کو قائم رکھنے اور اسقاط حمل ہونے سے پیدا ہونے والی پریشانیوں سے بچنے کیلئے سروگےٹ مدر کی مدد لینا زیادہ بہتر سمجھتی ہیں۔ یہ خواتین فرضی طبی پریشانیوں کو بہانہ بنا کر سروگےٹ مدر کا سہارا حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ حمل کا تجربہ ثبوت سمیت ہونا ضروری ہے۔ اس کیلئے شادی شدہ ہونے کی ’مجبوری‘ نہیں ہے۔ غیرشادی شدہ لڑکیاں بھی حمل کا تجربہ ہونے پر سروگےٹ مدر بن سکتی ہیںجبکہ شادی شدہ خاتون کو شوہر کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔ شادی شدہ اور طلاق یافتہ کیلئے محض اس کی اپنی مرضی ہی کافی ہے جبکہ طلاق کے زیرالتوا معاملات میں خواتین کوکھ کرائے پر نہیں دے سکتی۔ خواتین کو ایسی کوئی بیماری نہ ہو جس کے بچے میں منتقل ہونے کا خدشہ ہو اور اس کی عمر 21 سے 45 سال کے درمیان ہو۔
ایسا ہی کچھ معاملہ اسپرم فروخت کرنے والوں کاہے ۔ بہتر معیار کی وجہ سے خواتین کے بیضوں کی بیرون ملک اچھی خاصی قیمت مل رہی ہے۔ نیلی آنکھوں والی لڑکیوں کے بیضہ کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ وہیں کھڑے ناک نقشہ، گورا رنگ اور لمبائی والے لڑکوں کے اسپرم کا بازار تیزی پکڑ رہا ہے۔جبکہ دوسری جانب گذشتہ عشرے کے دوران کھلم کھلا ہندوستان کے روزناموں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی شعبہ سے وابستہ کسی مرد کے اسپرم کی معقول قیمت دینے کیلئے بیرون ملک کا ایک جوڑا تیار ہے۔ ویسے ملک کے بڑے شہروں میں بھی اس کا چلن زور پکڑ رہا ہے لیکن فرٹی لٹی ٹورازم کے ذریعے بیرون ملک میں بے فکر ہوکر گھومنے پھرنے اور رہنے کا بونس پیکج نوجوانوں کوزیادہ متوجہ رہا ہے۔
دہلی این سی آر کے کئی بچوں کی پیدائش کے مراکز نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے یہاں دہلی یونیورسٹی کی کئی لڑکیاں اپنے بیضہ کا’ عطیہ‘ کرنے آتی ہیں اور بدلے میں ان کو اچھی خاصی رقم بھی مل جاتی ہے۔ برطانیہ جیسے ممالک میں ہندوستانی نوجوانوں کو بیضہ اور اسپرم دینے کے عوض 30 ہزار ڈالر تک مل رہے ہیں۔ ویسے برطانیہ میںبیضہ اور اسپرم عطیہ کرنے والے لوگوں کو اب 800 پونڈ دینے کا بندوبست کیا گیا ہے لیکن برطانوی جوڑوں میں ہندوستانی نسل کے بڑھتے ہوئے شوق کو دیکھتے ہوئے اس کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔افریقہ میں توعورتوں کے ذریعے راہ چلتے مردوں کی’ عصمت دری‘ کرکے اسپرم حاصل کرنے کے سنگین جرائم بھی منظر عام پر آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہیومن فرٹی لٹی اینڈ اےمبریولوجی اتھارٹی Human Fertilisation and Embryology Authority (برطانیہ) نے اسپرم عطیہ کرنے والوں کو اب ’زیادہ ادائیگی‘ کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ اس کے مطابق اب اسپرم عطیہ کو 800 پونڈ یعنی ہندوستانی کرنسی میں سواسے ڈیڑھ لاکھ روپے کی خطیر رقم ملے گی جبکہ اس سے قبل اس کے عوض میں وہاں محض 250 پونڈ کی ادائیگی کی جاتی تھی۔
برطانیہ جیسے ممالک میں خواتین میں بانجھ پن اور مردوں میں نامردی کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کے بیضہ اور اسپرم انوٹروفرٹی لٹی ٹیکنالوجی کیلئے موزوں نہیں رہے ہیں۔ چونکہ ہندوستان ایک ’زرخیز‘ ملک ہے، اسلئے یہاں کے نوجوان بچوں کی پیدائش کیلئے زیادہ موزوں سمجھے جاتے ہیں۔ لیڈی ہارڈنگ اسپتال میں عورت اور لیبر ڈپارٹمنٹ میں ایسوسی پروفیسر ڈاکٹر سیما سنگھل کا کہنا ہے کہ سائنس کی ترقی نے ماں باپ بننے کے امکانات میں اضافہ کیا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ کسی بھی قیمت پر اپنی سونی گود کو ہری کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے عوض میں وہ کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں، اور فائدہ اٹھانے والے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کیلئے ضابطہ اخلاق مقرر ہونا چاہئے جو فی الحال میسرنہیں ہے۔

کیا فرماتے ہیں فقہا حضرات؟

السّلام علیکم
محترم جناب مفتی صاحب
بعد از سلام عرض ہے کہ ہماری شادی کو چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اب تک کوئی اولاد نہیں ہے . جب شادی کے چند مہینوں بعد اولاد نہ ہوئی تو ہم گھر والوں کے دباؤ میں آ گئے. سب نے مشورہ دیا کے کسی ڈاکٹر کو دکھایا جائے . اس سلسلے میں پہلے میری زوجہ کا معائنہ ہوا اور الله کے فضل سے سب کچھ ٹھیک تھا. پھر ڈاکٹر کے مشورے سے میں نے اپنا کروایا تو پتہ چلا کے کچھ علاج کی ضرورت ہے . کچھ ماہ دوا کے استمال کے بعد الله نے فضل فرمایا اور ہمارے یہاں خوش خبری آ گئی . مگر تین ہفتوں کے بعد میری بیوی کا حمل ضائع ہوگیا . اس کے بعد سے اب تک ہم مختلف علاج کروا کے دیکھ چکے ہیں . ڈاکٹر نے میری بیوی کی HORMONE THERAPY بھی کی . اس دوران مجھے VARICOCELE بھی ہوا ، جس کے نتیجہ میں منی مزید کمزور ہوگئی .اب کیوں کہ ہم دونوں کی عمر بتیس سال سے تجاوز کر چکی ہی اس لئے ڈاکٹر ہم کو assisted reproduction کا مشورہ دے رہے ہیں. اس بارے میں رہنمائی حاصل کرنے کیلئے آپ کی ویب سائٹ پر فتاویٰ پڑھ چکے ہیں . اس کے علاوہ بھی کچھ ویب سائٹ پر فتاویٰ پڑھنے کا موقع ملا. کچھ مفتی حضرات کے نزدیک یہ چیز جائز ہے اور کچھ کے نزدیک نہیں. کیوں کے ہم سعودی عرب میں مقیم ہیں ، اس لئے فقہ حنفیہ کے علماء کرام سے براہ راست رابطہ ممکن نہیں .اس سلسلے میں آپ سے کچھ سوالات کے تصیلی جواب مطلوب تھےاس سلسلے میں ایک اور طریقہ بھی موجود ہے جس کو IUI کہتے ہیں. اس طریقے میں منی کو ایک ٹیوب کی مدد سے عورت کے رحم میں داخل کیا جاتا ہے. کیا ہم علاج کے اس طریقے کو اپنا سکتے ہیں ؟

جواب: اولاد کے حصول کیلئے مذکورہ بالاطریقہ اگر اس طرح انجام دیاجائے کہ مردکا مادہ منویہ نکالنے اور عورت کے رحم میں داخل کرنے کے عمل میں کسی اجنبی مرداور عورت کا دخل نہ ہو بلکہ یہ کام شوہر اور بیوی خودانجام دیں تو اس کی گنجائش ہے ، لیکن اگر شوہر کی منی کوغیرفطری طریقہ سے نکالنے اورعورت کے رحم میں داخل کرنے میں اگر تیسرے مردیاعورت کا عمل دخل ہوتاہے اور اجنبی مردیاعورت کے سامنے ستر کھولنے یادکھانے اور مس کرنے کروانے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس طرح کرنے کی شرعا اجازت نہیں کیونکہ اولاد کے حصول کیلئے کئی گناہوں کا ارتکاب جائز نہیں ۔شریعت بچہ کی خواہش کو اضطرار کا درجہ بھی نہیں دیتی کہ اس میں ناجائز امور کے ارتکاب کی اجازت ہو۔ علاوہ ازیں نکاح ثانی کے ذریعے جائز اولاد کی خواہش پوری کی جاسکتی ہے ۔اس لئے انسان اس گناہ کے ارتکاب پر مجبور بھی نہیں.

No comments:

Post a Comment