ایس اے ساگر
إن يوم الجمعة سيد الأيام
یعنی شب جمعہ کواجتماع هوتا هے جس میں بیانات هوتے هیں ، دعوت و تبلیغ سے معروف جماعت سے وابستہ احباب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مراکز میں مجتمع هوتے هیں ، یہ بهی بدعت هے اس کا کوئی ثبوت نہیں هے ۰
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ اشکال عدم واقفیت کے سبب ہے ، کیونکہ اہل علم کے نزدیک لوگوں کی تعلیم وتدریس اوروعظ ونصیحت کیلئے کوئی دن مقررکرنا بالکل جائزاورنصوص سے ثابت ہے ، حضرت عبد الله ابن مسعود رضی الله عنه لوگوں کو ہرجمعرات کے دن وعظ ونصیحت وبیان کرتے تهے ، ایک آدمی نے کہا اے أبا عبد الرحمن هم آپ کے بیان ووعظ کو بہت پسند کرتے هیں ، اورهم چاہتے هیں کہ آپ همیں روزانہ بیان ووعظ کیا کریں ، توحضرت عبد الله ابن مسعود رضی الله عنه نے ارشاد فرمایا کہ مجهے توکوئی مانع نہیں کہ میں تم لوگوں کو بلا ناغہ بیان اور وعظ کروں لیکن خوف یہ ہے کہ تم تنگ نہ هوجاو ، رسول الله صلى الله عليه وسلم بهی همیں وعظ اس طرح کرتے یعنی ہمیں وعظ وبیان کرنے میں ہمارے اوقات کی رعایت کرتے تهے ، روزانہ نہیں کرتے تهے تاکہ هم تنگ نہ هوجائیں ۰
یہ صحيحين کی حدیث کا مفہوم ہے ، امام بخاری رحمہ الله نے اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے
من جعل لأهل العلم أياما معلومة
اوردوسرا باب اس طرح باب قائم کیا ہے، باب
ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولهم بالموعظة والعلم كي لا ينفروا
باب:
ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولهم بالموعظة والعلم كي لا ينفروا.
حدثنا محمد بن يوسف قال: أخبرنا سفيان، عن الأعمش،عن أبي وائل، عن ابن مسعود قال:كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بالموعظة في الأيام كراهة السآمة علينا.حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا يحيى بن سعيد قال: حدثنا شعبة قال: حدثني أبو التياح، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:
(يسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا).
باب: من جعل لأهل العلم أياما معلومة.
حدثنا عثمان بن أبي شيبة قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل قال:
كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس، فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن، لوددت أنك ذكرتنا كل يوم؟ قال: أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أملكم، وإني أتخولكم بالموعظة، كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها، مخافة السآمة علينا.
( كتاب العلم للبخارى )
اورصحیح مسلم میں
باب الاقتصاد في الموعظة
کے تحت یہ حدیث موجود ہے،
باب الاقتصاد في الموعظة
حدثنا أبو بكر ابن أبي شيبة حدثنا وكيع وأبو معاوية ح وحدثنا ابن نمير واللفظ له حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن شقيق قال كنا جلوسا عند باب عبد الله ننتظره فمر بنا يزيد بن معاوية النخعي فقلنا أعلمه بمكاننا فدخل عليه فلم يلبث أن خرج علينا عبد الله، فقال إني أخبر بمكانكم فما يمنعني أن أخرج إليكم إلا كراهية أن أملكم إن رسول الله كان يتخولنا بالموعظة في الأيام مخافة السآمة علينا ٠
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير عن منصور ح وحدثنا ابن أبي عمر واللفظ له حدثنا فضيل بن عياض عن منصور عن شقيق أبي وائل قال: كان عبد الله يذكرنا كل يوم خميس، فقال له رجل يا أبا عبد الرحمن إنا نحب حديثك ونشتهيه ولوددنا أنك حدثتنا كل يوم، فقال: ما يمنعني أن أحدثكم إلا كراهية أن أملكم إن رسول الله كان يتخولنا بالموعظة في الأيام كراهية السآمة علينا
قال النووي في شرح مسلم:" ومعنى يتخولنا يتعاهدنا هذا هو المشهور فى تفسيرها قال القاضي وقيل يصلحنا وقال بن الأعرابى معناه يتخذنا خولا وقيل يفاجئنا بها وقال أبو عبيد يدللنا وقيل يحبسنا كما يحبس الانسان خوله وهو يتخولنا بالخاء المعجمة عند جميعهم إلا أبا عمرو فقال هي بالمهملة أى يطلب حالاتهم واوقات نشاطهم وفى هذا الحديث الاقتصاد فى الموعظة لئلا تملها القلوب فيفوت مقصودها " انتهى.
وقال ابن حجر في الفتح :" وفيه رفق النبي صلى الله عليه و سلم بأصحابه وحسن التوصل إلى تعليمهم وتفهيمهم ليأخذوا عنه بنشاط لا عن ضجر ولا ملل ويقتدي به في ذلك فان التعليم بالتدريج اخف مؤنة وادعى إلى الثبات من اخذه بالكد والمغالبة " بعض النصوص المبينة والضابطة لحكم توقيت الوعظ، وتعليق بعض العلماء عليها:قوله: (كان يتخولنا) بالخاء المعجمة وتشديد الواو، قال الخطابي: الخائل بالمعجمة هو القائم المتعهد للمال، يقال خال المال يخوله تخولا إذا تعهده وأصلحه.
والمعنى كان يراعي الأوقات في تذكيرنا، ولا يفعل ذلك كل يوم لئلا نمل.
حاصل کلام یہ کہ لوگوں کی وعظ ونصیحت وارشاد وتعلیم وتعلم کیلئے کوئی دن متعین کرنا جائز ہے ، جیسا کہ مذکوره حدیث سے معلوم هوا ،اورتبلیغی جماعت کا شب جمعہ کا اجتماع بهی اسی قبیل سے ہے ،اورشب جمعہ کے اجتماع میں لوگوں کے حالات کی رعایت بهی ہے ، جمعہ چهٹی کا دن هوتا هے ، جس میں تمام یا اکثراحباب کی حاضری آسان هوتی ہے ،
اورساتهہ ہی جمعہ اورشب جمعہ کی فضائل وبرکات کے حصول کا حرص بهی ہے ، لہذا اس کوبدعت کہنا جہلاء کا کام ہے ، الله تعالی عوام کو ان وساوس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے.
ہر ایک لمحہ قیمتی :
جمعہ کی رات میں سورة یاسین پڑهئے، گناہ معاف
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،
جس نے شب جمعہ میں سورة یاسین پڑهی، اس کی مغفرت کردی جائے گی.
ترغیب، 1/514
جمعہ کی نماز کے بعد
سورة فاتحہ
سورة اخلاص
اور
سورة المزمل
7 مرتبہ پڑهئے
سارے گناه معاف :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" جو شخص جمعہ کی نماز کے بعد،
قل هو الله احد
قل اعوذ برب الفلق
قل اعوذ برب الناس
7 مرتبہ پڑهے تو اللہ رب العزت ائیندہ جمعہ تک برائی سے پناه میں رکهیں گے .معاصی کے ارتکاب سے بدکار آدمی کیلئے کونسی برائی ہوسکتی ہے.
ابن سني في عملل يوم الليلة
١/١٤٥
اور قثیری کی روایت میں
الفاظ حدیث اس طرح ہیں،
جو شخص جمعہ کے دن امام کے سلام پهیرنے کے بعد اسی حالت میں بیٹهے هوئے
سورة فاتحہ،
قل هو اللہ احد ،
قل اعوذ برب الفلق الناس،
7 مرتبہ پڑهے تو اس کے اگلے پچهلے گناہوں کی مغفرت کی جائے گی، اور جتنے لوگ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکهتے ہیں ان کے عدد کے بقدار اس کو اجر عطا کیا جائے گا.
اہتمام کی تاکید :
اس لئے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یوم جمعہ کا احترام کرے، اس دن کے فضائل کو غنیمت جانے اور اس دن ہر قسم کی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے، یومِ جمعہ کے کچھ آداب اور احکام ہیں، جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ دیگر ایام کے مقابلے مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن۔“
[زاد المعاد 1/375].
احکام وآداب :
1-مستحب ہے کہ امام جمعہ کے دن نمازفجر میں مکمل سورہ سجدہ اور سورہ دھر پڑھے،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا، اور کسی ایک سورت پر اکتفاءنہ کرے، جیسا کہ بعض ائمہ کا معمول ہے۔
2-جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت اوس بن اوس ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تمہارے دنوں میں افضل ترین دن جمعہ ہے،اسی روز آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی ، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بے ہوشی طاری ہو گی، لہذا مجھ پر اس دن کثرت سے درود پڑھو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے“
[احمد].
3- نماز ِجمعہ ہر آزاد مکلف مقیم مرد پر فرض ہے، لہٰذا کسی مسافر، کسی عورت یا غلام پر جمعہ واجب نہیں ہے، ہاں ان میں سے کوئی اگر جمعہ میں شریک ہوجائے توان کی نماز ِجمعہ درست ہے، بیماری یا خوف وغیرہ جیسے عذر کی وجہ سے نماز جمعہ ساقط ہوجاتی ہے۔
[الشرح الممتع 5/7-24].
4-جمعہ کے دن غسل کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ غسل کرے“
[متفق علیہ]
5-خوشبو کا استعمال کرنا، مسواک کرنا اور اچھا لباس زیبِ تن کرنا، جمعہ کے آداب میں شامل ہے، حضرت ابوایوب ؓ فر ماتے ہیںکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا،اگر خوشبو ہوتو استعمال کیا، بہترین کپڑے پہنے، پھر اطمینان کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، اگر موقع ملے تو دو رکعت پڑھی، کسی کو تکلیف نہیں دی، پھر امام کے خطبہ ختم کرنے تک خاموش رہا، (اس کا یہ عمل) دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے“۔
[احمد وصححہ ابن خزیمہ]
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے، اسی طرح مسواک کرنا اور اگر قدرت ہوتو خوشبو کا استعمال کرنا“
[مسلم].
6-نماز ِجمعہ کیلئے جلدی جانا مستحب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
” جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پرفرشتے کھڑے ہوکرپہلے آنے والے کو پہلے لکھتے ہیں،سب سے پہلے آنے والا شخص اس کی طرح ہے جس نے اونٹ قربان کیا ہو، اس کے بعد اس کی طرح جس نے گائے قربان کیا، اور اس کے بعد جس نے مینڈھا قربان کیا، پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح جس نے مرغی قربان کی ہو پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح ہے جس نے انڈا صدقہ کیا ہو،اور جب امام نکلے اور منبر پرپہنچ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر سننے آجاتے ہیں۔
[مسلم850 ]
7-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام کے خطبے کیلئے آنے تک لوگ نفل نمازوں، ذکر اور تلاوت قرآن میں مصروف رہیں۔
8-خطبہ کے دوران خاموش رہنا اور بغور خطبہ سننا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو، تو تم نے غلطی کی“
[متفق علیہ]
اور احمد کی روایت میں اس طرح ہے:
”اور جس نے غلطی کی اس( جمعہ کے اجر وثواب) میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے“۔
اور ابوداود کی روایت میں ہے: اور جس نے غلطی یا خطا کی؛ تو وہ (جمعہ کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے) ظہر کا اجر پاتا ہے۔
[صیحح ابن خزیمہ]
9-جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت مستحب ہے، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس نے جمعہ کے دن سورہکہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے“۔
[صحیح الجامع].
10- جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کیلئے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد 1/382].
11-بطور خاص جمعہ کے دن کو روزہ کیلئے خاص کرنا اور اس کی رات کو قیام کیلئے خاص کرنا مکروہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جمعہ کی رات کو قیام کیلئے خاص نہ کرو، اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزے کیلئے خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کوئی سلسلہ وار روزے رکھ رہا ہو“۔
[مسلم].
12-جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا خواہاں ہو اسے چاہئے کہ وہ جمعہ سے پہلے والے دن (جمعرات) یا بعد والے دن(ہفتہ) کو روزہ رکھے؛ حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم میں سے کوئی جمعہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے،مگر یہ کہ اس سے پہلے والے ایک دن(بھی) رکھے یا بعد والے ایک دن“۔
[متفق علیہ ]
. 13-جمعہ کی سنتیں:
حدیث میں آیا ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے“
[متفق علیہ]
اسی طرح یہ بھی وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے بعد نماز پڑھنے والوں کو چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا“
[مسلم].
اسحاق کہتے ہیں: اگر جمعہ کی (سنتیں) مسجد میں پڑھے تو چار پڑھے، اور اگر گھر میں پڑھے تو دو رکعت پڑھے۔ ابوبکر الاثرم کہتے ہیں: دونوں بھی جائز ہے۔
[الحدائق لابن الجوزی 2/183].
14-اس شخص کیلئے مستحب ہے جو مسجد میں اس وقت داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو کہ بیٹھنے سے پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھ لے؛ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہجمعہ دے رہے تھے، سلیک الغطفانی آئے، اور بیٹھ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن مسجد آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے“۔
[مسلم].
15-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام نمازِ جمعہ میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون، یا سورہ اعلی اور غاشیہ پڑھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے“۔
[مسلم].
نمازیوں کی غلطیاں :
1-بعض لوگ نمازِ جمعہ کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے“۔
[مسلم].
2- بعض لوگ نمازِ جمعہ کیلئے آتے وقت جمعہ کی نیت کے استحضار کا خیال نہیں رکھتے، اور عام معمول کے مطابق مسجد پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ جمعہ اور دیگر عبادات کی درستگی کے لیے نیت کا ہونا شرط ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“۔
[البخاری].
3- جمعہ کی رات میں دیر تک شب بیداری کرنا، اور نمازِ فجر کے وقت سوتے رہنا، جس کی وجہ سے جمعہ کے دن کا آغاز ہی کبیرہ گناہ سے ہوتا ہے، حالانکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازوں میں افضل ترین نماز جمعہ کے دن کی باجماعت فجر کی نماز ہے‘ ۔
[صحیح 566].
4- خطبہ جمعہ میں شریک ہونے میں غفلت اورر سستی سے کام لینا،بعض لوگ خطبہ کے دوران مسجد پہنچتے ہیں اور بعض کا تو یہ حال ہوتا ہے اس وقت مسجد پہنچتے ہیں جب جمعہ کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔
5- جمعہ کا غسل چھوڑنا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، مسواک کا اہتمام نہ کرنا اسی طرح جمعہ کے دن اچھے کپڑے زیب تن نہ کرنا۔
6- اذان جمعہ کے بعد خریدوفروخت کرنا؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ، مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“
[الجمعة:9].
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے. “
7- بعض افراد نافرمانی کے کاموں کو جمعہ کے دن عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، مثال کے طورپربعض لوگ کمالِ نظافت خیال کرتے ہوئے داڑھی کاٹتے ہیں۔
8- بعض لوگ اگلی صفوں کے پر ہونے سے پہلے ہی مسجد کے آخری حصے میں بیٹھ جاتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو مسجد کے اندرونی حصے میں جگہ ہونے کے باوجود بیرونی حصے میں ہی بیٹھتے ہیں۔
9- کسی شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر اس جگہ پر خود بیٹھنا:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جمعہ کے دن کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے،کہ اس جگہ پر خود بیٹھے، بلکہ کہے: جگہ کشادہ کرو “۔
[مسلم].
10- گردنوں کو پھلانگنا اور دو کے درمیان تفریق کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں پر تنگی کرنا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک شخص لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”بیٹھ جا تونے تکلیف دی اور تاخیر کی“ ۔
[صحیح الترغیب والترھیب وصحیح ابن ماجة].
11- باتوں یا تلاوت کے ذریعے آواز بلند نہ کرے، جس سے نمازیوں اور دیگر تلاوت کرنے والوں کوتکلیف ہوتی ہے۔
12- بغیر عذر کے اذان کے بعد مسجد سے نکلنا۔
13- خطبہ کے دوران خطیب کی جانب توجہ نہ دینا۔
14- دونوں خطبوں کے درمیان دو رکعت کا پڑھنا، ہاں دونوں خطبوں کے دوران کے وقفے میں دعا اور استغفار پڑھنا مشروع ہے۔ لیکن نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
15- نماز کے دوران کثرت سے حرکت کرنا، اور امام کا سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکلنا، اور نماز کے بعد کے اذکار چھوڑ کر مسجد کے دروازوں پر بھیڑ کرنا۔
خطباء اور واعظین کی غلطیاں:
1- خطبہ کا طویل کرنا اور نماز کا مختصر کرنا، حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آدمی کا نماز کو طویل کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے فقیہ ہونے کی علامت ہے، تو نماز کو طویل کرو اور خطبہ کو مختصر، اور بیشک تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے“
[مسلم].
2-خطبہ کیلئے مناسب موضوع کا انتخاب نہ کرنا اور اسی طرح مناسب تیاری نہ کرنا، اور ایسے موضوعات پر تقریر کرنا جس کی لوگوں کو کوئی خاص ضرورت نہ ہو۔
3- بہت سے واعظین اور خطباءلغوی غلطیوں کی جانب توجہ نہیں دیتے۔
4-بعض مقررین موضوع اور ضعیف احادیث اور بغیر سوچے سمجھے غلط اقوال نقل کرتے ہیں۔
5- بعض خطیب حضرات دوسرے خطبہ میں صرف دعا پر اکتفاءکرتے ہیں اور اسی کے عادی ہیں۔.
6-خطبہ یاتقریر کے دوران قرآن کی آیات سے روگردانی کرنا؛ یہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے، حضرت حارثہ بنت نعمان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
میں نے سورہ (ق وَالقرآن) ہر جمعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبوں میں سن سن کر یاد کر لیا۔
[مسلم]
7- بعض خطباءاور مقررین کا خطبہ کے دوران جوش وولولہ کا اظہار نہ کرنا، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتی تھی، اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں “ ۔
[مسلم].
جمعہ مبارک کہنا :
سوال، محترم مفتی صاحب ،السلام علیکم
كيا فرماتے ہيں علماء كرام و مفتيان عظام اس بارے ميں کہ جو آج كل عام رواج ہو گيا ہے كہ عيد كے دن "عيد مبارك" كہنا اور جمعہ كے دن "جمعہ مبارك" كہنا؟ جزاک اللہ خیراً
جواب :
عید اور جمعہ کے دن دونوں ہی بابرکت دن ہیں، اس برکت کے اظہار کے لیے یا بطور دعا مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے کو عید مبارک یا جمعہ مبارک کہنا فی نفسہ جائز تو ہے مگر اسے مستقل رسم یا عید اور جمعہ کا شرعی جزء شمار کرنے کی غلطی کی بناء پر بعض اہل علم نے منع کیا ہے۔
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
مزید ضروری وضاحت:
جمعه کے دن کے برکات ثابت هے اگر کوئی شخص اس نیت سے کهے که آپ کو جمعه کے دن کی " برکات " مبارک هو تو اس کی گنجائش هے اس طرح سے که سکتے هیں.
اور اگر کوئی شخص 'جمعه مبارک' کو ( سنت سمجه کر ، ضروری سمجه کر ) کہتا هے تب یه جائز نهیں .
إن يوم الجمعة سيد الأيام
تصميمات جرافيك اسلامية ببرنامج الفوتوشوب من ابداعات اعضاء مدرسة جرافيك مان " لا اله الا الله سيدنا محمد رسول الله "
اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں جمعہ کی رات تک پہنچا دیا. نجانے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو گذشتہ جمعہ ہمارے درمیان تھے لیکن آج قبروں میں پہنچ چکے ہیں. اسی طرح نہ جانے کتنے لوگوں کو آئندہ جمعہ نصیب نہیں ہوگا.مولانا سلیمان جھانجھوی رحمۃ علیہ جمعرات کی شام بنگلے والی مسجد مرکز نظام الدین نئی دہلی میں دہلی والوں کو مخاطب کرتے ہوئے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بعض علما کے نزدیک جمعہ کی رات شب قدر سے بھی افضل ہے. اس کے باوجود ایک وسوسہ یہ بھی ہے کہ آخر تبلیغی جماعت والے هرجمعہ کی رات کواجتماع کرتے هیں ؟یعنی شب جمعہ کواجتماع هوتا هے جس میں بیانات هوتے هیں ، دعوت و تبلیغ سے معروف جماعت سے وابستہ احباب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مراکز میں مجتمع هوتے هیں ، یہ بهی بدعت هے اس کا کوئی ثبوت نہیں هے ۰
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ یہ اشکال عدم واقفیت کے سبب ہے ، کیونکہ اہل علم کے نزدیک لوگوں کی تعلیم وتدریس اوروعظ ونصیحت کیلئے کوئی دن مقررکرنا بالکل جائزاورنصوص سے ثابت ہے ، حضرت عبد الله ابن مسعود رضی الله عنه لوگوں کو ہرجمعرات کے دن وعظ ونصیحت وبیان کرتے تهے ، ایک آدمی نے کہا اے أبا عبد الرحمن هم آپ کے بیان ووعظ کو بہت پسند کرتے هیں ، اورهم چاہتے هیں کہ آپ همیں روزانہ بیان ووعظ کیا کریں ، توحضرت عبد الله ابن مسعود رضی الله عنه نے ارشاد فرمایا کہ مجهے توکوئی مانع نہیں کہ میں تم لوگوں کو بلا ناغہ بیان اور وعظ کروں لیکن خوف یہ ہے کہ تم تنگ نہ هوجاو ، رسول الله صلى الله عليه وسلم بهی همیں وعظ اس طرح کرتے یعنی ہمیں وعظ وبیان کرنے میں ہمارے اوقات کی رعایت کرتے تهے ، روزانہ نہیں کرتے تهے تاکہ هم تنگ نہ هوجائیں ۰
یہ صحيحين کی حدیث کا مفہوم ہے ، امام بخاری رحمہ الله نے اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا ہے
من جعل لأهل العلم أياما معلومة
اوردوسرا باب اس طرح باب قائم کیا ہے، باب
ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولهم بالموعظة والعلم كي لا ينفروا
باب:
ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولهم بالموعظة والعلم كي لا ينفروا.
حدثنا محمد بن يوسف قال: أخبرنا سفيان، عن الأعمش،عن أبي وائل، عن ابن مسعود قال:كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بالموعظة في الأيام كراهة السآمة علينا.حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا يحيى بن سعيد قال: حدثنا شعبة قال: حدثني أبو التياح، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:
(يسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا).
باب: من جعل لأهل العلم أياما معلومة.
حدثنا عثمان بن أبي شيبة قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل قال:
كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس، فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن، لوددت أنك ذكرتنا كل يوم؟ قال: أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أملكم، وإني أتخولكم بالموعظة، كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها، مخافة السآمة علينا.
( كتاب العلم للبخارى )
اورصحیح مسلم میں
باب الاقتصاد في الموعظة
کے تحت یہ حدیث موجود ہے،
باب الاقتصاد في الموعظة
حدثنا أبو بكر ابن أبي شيبة حدثنا وكيع وأبو معاوية ح وحدثنا ابن نمير واللفظ له حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن شقيق قال كنا جلوسا عند باب عبد الله ننتظره فمر بنا يزيد بن معاوية النخعي فقلنا أعلمه بمكاننا فدخل عليه فلم يلبث أن خرج علينا عبد الله، فقال إني أخبر بمكانكم فما يمنعني أن أخرج إليكم إلا كراهية أن أملكم إن رسول الله كان يتخولنا بالموعظة في الأيام مخافة السآمة علينا ٠
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير عن منصور ح وحدثنا ابن أبي عمر واللفظ له حدثنا فضيل بن عياض عن منصور عن شقيق أبي وائل قال: كان عبد الله يذكرنا كل يوم خميس، فقال له رجل يا أبا عبد الرحمن إنا نحب حديثك ونشتهيه ولوددنا أنك حدثتنا كل يوم، فقال: ما يمنعني أن أحدثكم إلا كراهية أن أملكم إن رسول الله كان يتخولنا بالموعظة في الأيام كراهية السآمة علينا
قال النووي في شرح مسلم:" ومعنى يتخولنا يتعاهدنا هذا هو المشهور فى تفسيرها قال القاضي وقيل يصلحنا وقال بن الأعرابى معناه يتخذنا خولا وقيل يفاجئنا بها وقال أبو عبيد يدللنا وقيل يحبسنا كما يحبس الانسان خوله وهو يتخولنا بالخاء المعجمة عند جميعهم إلا أبا عمرو فقال هي بالمهملة أى يطلب حالاتهم واوقات نشاطهم وفى هذا الحديث الاقتصاد فى الموعظة لئلا تملها القلوب فيفوت مقصودها " انتهى.
وقال ابن حجر في الفتح :" وفيه رفق النبي صلى الله عليه و سلم بأصحابه وحسن التوصل إلى تعليمهم وتفهيمهم ليأخذوا عنه بنشاط لا عن ضجر ولا ملل ويقتدي به في ذلك فان التعليم بالتدريج اخف مؤنة وادعى إلى الثبات من اخذه بالكد والمغالبة " بعض النصوص المبينة والضابطة لحكم توقيت الوعظ، وتعليق بعض العلماء عليها:قوله: (كان يتخولنا) بالخاء المعجمة وتشديد الواو، قال الخطابي: الخائل بالمعجمة هو القائم المتعهد للمال، يقال خال المال يخوله تخولا إذا تعهده وأصلحه.
والمعنى كان يراعي الأوقات في تذكيرنا، ولا يفعل ذلك كل يوم لئلا نمل.
حاصل کلام یہ کہ لوگوں کی وعظ ونصیحت وارشاد وتعلیم وتعلم کیلئے کوئی دن متعین کرنا جائز ہے ، جیسا کہ مذکوره حدیث سے معلوم هوا ،اورتبلیغی جماعت کا شب جمعہ کا اجتماع بهی اسی قبیل سے ہے ،اورشب جمعہ کے اجتماع میں لوگوں کے حالات کی رعایت بهی ہے ، جمعہ چهٹی کا دن هوتا هے ، جس میں تمام یا اکثراحباب کی حاضری آسان هوتی ہے ،
اورساتهہ ہی جمعہ اورشب جمعہ کی فضائل وبرکات کے حصول کا حرص بهی ہے ، لہذا اس کوبدعت کہنا جہلاء کا کام ہے ، الله تعالی عوام کو ان وساوس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے.
ہر ایک لمحہ قیمتی :
جمعہ کی رات میں سورة یاسین پڑهئے، گناہ معاف
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،
جس نے شب جمعہ میں سورة یاسین پڑهی، اس کی مغفرت کردی جائے گی.
ترغیب، 1/514
جمعہ کی نماز کے بعد
سورة فاتحہ
سورة اخلاص
اور
سورة المزمل
7 مرتبہ پڑهئے
سارے گناه معاف :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" جو شخص جمعہ کی نماز کے بعد،
قل هو الله احد
قل اعوذ برب الفلق
قل اعوذ برب الناس
7 مرتبہ پڑهے تو اللہ رب العزت ائیندہ جمعہ تک برائی سے پناه میں رکهیں گے .معاصی کے ارتکاب سے بدکار آدمی کیلئے کونسی برائی ہوسکتی ہے.
ابن سني في عملل يوم الليلة
١/١٤٥
اور قثیری کی روایت میں
الفاظ حدیث اس طرح ہیں،
جو شخص جمعہ کے دن امام کے سلام پهیرنے کے بعد اسی حالت میں بیٹهے هوئے
سورة فاتحہ،
قل هو اللہ احد ،
قل اعوذ برب الفلق الناس،
7 مرتبہ پڑهے تو اس کے اگلے پچهلے گناہوں کی مغفرت کی جائے گی، اور جتنے لوگ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکهتے ہیں ان کے عدد کے بقدار اس کو اجر عطا کیا جائے گا.
اہتمام کی تاکید :
اس لئے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یوم جمعہ کا احترام کرے، اس دن کے فضائل کو غنیمت جانے اور اس دن ہر قسم کی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے، یومِ جمعہ کے کچھ آداب اور احکام ہیں، جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ دیگر ایام کے مقابلے مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن۔“
[زاد المعاد 1/375].
احکام وآداب :
1-مستحب ہے کہ امام جمعہ کے دن نمازفجر میں مکمل سورہ سجدہ اور سورہ دھر پڑھے،جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا، اور کسی ایک سورت پر اکتفاءنہ کرے، جیسا کہ بعض ائمہ کا معمول ہے۔
2-جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت اوس بن اوس ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تمہارے دنوں میں افضل ترین دن جمعہ ہے،اسی روز آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی ، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بے ہوشی طاری ہو گی، لہذا مجھ پر اس دن کثرت سے درود پڑھو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے“
[احمد].
3- نماز ِجمعہ ہر آزاد مکلف مقیم مرد پر فرض ہے، لہٰذا کسی مسافر، کسی عورت یا غلام پر جمعہ واجب نہیں ہے، ہاں ان میں سے کوئی اگر جمعہ میں شریک ہوجائے توان کی نماز ِجمعہ درست ہے، بیماری یا خوف وغیرہ جیسے عذر کی وجہ سے نماز جمعہ ساقط ہوجاتی ہے۔
[الشرح الممتع 5/7-24].
4-جمعہ کے دن غسل کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے آئے تو چاہیے کہ غسل کرے“
[متفق علیہ]
5-خوشبو کا استعمال کرنا، مسواک کرنا اور اچھا لباس زیبِ تن کرنا، جمعہ کے آداب میں شامل ہے، حضرت ابوایوب ؓ فر ماتے ہیںکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا،اگر خوشبو ہوتو استعمال کیا، بہترین کپڑے پہنے، پھر اطمینان کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، اگر موقع ملے تو دو رکعت پڑھی، کسی کو تکلیف نہیں دی، پھر امام کے خطبہ ختم کرنے تک خاموش رہا، (اس کا یہ عمل) دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ ہے“۔
[احمد وصححہ ابن خزیمہ]
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ پر ضروری ہے، اسی طرح مسواک کرنا اور اگر قدرت ہوتو خوشبو کا استعمال کرنا“
[مسلم].
6-نماز ِجمعہ کیلئے جلدی جانا مستحب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
” جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پرفرشتے کھڑے ہوکرپہلے آنے والے کو پہلے لکھتے ہیں،سب سے پہلے آنے والا شخص اس کی طرح ہے جس نے اونٹ قربان کیا ہو، اس کے بعد اس کی طرح جس نے گائے قربان کیا، اور اس کے بعد جس نے مینڈھا قربان کیا، پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح جس نے مرغی قربان کی ہو پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح ہے جس نے انڈا صدقہ کیا ہو،اور جب امام نکلے اور منبر پرپہنچ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر سننے آجاتے ہیں۔
[مسلم850 ]
7-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام کے خطبے کیلئے آنے تک لوگ نفل نمازوں، ذکر اور تلاوت قرآن میں مصروف رہیں۔
8-خطبہ کے دوران خاموش رہنا اور بغور خطبہ سننا واجب ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو، تو تم نے غلطی کی“
[متفق علیہ]
اور احمد کی روایت میں اس طرح ہے:
”اور جس نے غلطی کی اس( جمعہ کے اجر وثواب) میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے“۔
اور ابوداود کی روایت میں ہے: اور جس نے غلطی یا خطا کی؛ تو وہ (جمعہ کے ثواب سے محروم ہوجاتا ہے) ظہر کا اجر پاتا ہے۔
[صیحح ابن خزیمہ]
9-جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت مستحب ہے، حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جس نے جمعہ کے دن سورہکہف پڑھی تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لیے نور کو روشن کردیا جاتا ہے“۔
[صحیح الجامع].
10- جمعہ کے دن وقتِ جمعہ کے دخول کے بعد جس پر جمعہ واجب ہوجائے اس کیلئے جمعہ سے پہلے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ [زاد المعاد 1/382].
11-بطور خاص جمعہ کے دن کو روزہ کیلئے خاص کرنا اور اس کی رات کو قیام کیلئے خاص کرنا مکروہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جمعہ کی رات کو قیام کیلئے خاص نہ کرو، اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزے کیلئے خاص نہ کرو، مگر یہ کہ کوئی سلسلہ وار روزے رکھ رہا ہو“۔
[مسلم].
12-جو شخص جمعہ کے دن روزہ رکھنے کا خواہاں ہو اسے چاہئے کہ وہ جمعہ سے پہلے والے دن (جمعرات) یا بعد والے دن(ہفتہ) کو روزہ رکھے؛ حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم میں سے کوئی جمعہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے،مگر یہ کہ اس سے پہلے والے ایک دن(بھی) رکھے یا بعد والے ایک دن“۔
[متفق علیہ ]
. 13-جمعہ کی سنتیں:
حدیث میں آیا ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے“
[متفق علیہ]
اسی طرح یہ بھی وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے بعد نماز پڑھنے والوں کو چار رکعت پڑھنے کا حکم دیا“
[مسلم].
اسحاق کہتے ہیں: اگر جمعہ کی (سنتیں) مسجد میں پڑھے تو چار پڑھے، اور اگر گھر میں پڑھے تو دو رکعت پڑھے۔ ابوبکر الاثرم کہتے ہیں: دونوں بھی جائز ہے۔
[الحدائق لابن الجوزی 2/183].
14-اس شخص کیلئے مستحب ہے جو مسجد میں اس وقت داخل ہو جب امام خطبہ دے رہا ہو کہ بیٹھنے سے پہلے دو مختصر رکعتیں پڑھ لے؛ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہجمعہ دے رہے تھے، سلیک الغطفانی آئے، اور بیٹھ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن مسجد آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے“۔
[مسلم].
15-جمعہ کے دن مستحب ہے کہ امام نمازِ جمعہ میں سورہ جمعہ اور سورہ منافقون، یا سورہ اعلی اور غاشیہ پڑھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے“۔
[مسلم].
نمازیوں کی غلطیاں :
1-بعض لوگ نمازِ جمعہ کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”خبردار! لوگ جمعہ چھوڑنے سے رک جائیں یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر یہ لوگ غافلین میں سے ہوجائیں گے“۔
[مسلم].
2- بعض لوگ نمازِ جمعہ کیلئے آتے وقت جمعہ کی نیت کے استحضار کا خیال نہیں رکھتے، اور عام معمول کے مطابق مسجد پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ جمعہ اور دیگر عبادات کی درستگی کے لیے نیت کا ہونا شرط ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“۔
[البخاری].
3- جمعہ کی رات میں دیر تک شب بیداری کرنا، اور نمازِ فجر کے وقت سوتے رہنا، جس کی وجہ سے جمعہ کے دن کا آغاز ہی کبیرہ گناہ سے ہوتا ہے، حالانکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازوں میں افضل ترین نماز جمعہ کے دن کی باجماعت فجر کی نماز ہے‘ ۔
[صحیح 566].
4- خطبہ جمعہ میں شریک ہونے میں غفلت اورر سستی سے کام لینا،بعض لوگ خطبہ کے دوران مسجد پہنچتے ہیں اور بعض کا تو یہ حال ہوتا ہے اس وقت مسجد پہنچتے ہیں جب جمعہ کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔
5- جمعہ کا غسل چھوڑنا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، مسواک کا اہتمام نہ کرنا اسی طرح جمعہ کے دن اچھے کپڑے زیب تن نہ کرنا۔
6- اذان جمعہ کے بعد خریدوفروخت کرنا؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ، مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“
[الجمعة:9].
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے. “
7- بعض افراد نافرمانی کے کاموں کو جمعہ کے دن عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، مثال کے طورپربعض لوگ کمالِ نظافت خیال کرتے ہوئے داڑھی کاٹتے ہیں۔
8- بعض لوگ اگلی صفوں کے پر ہونے سے پہلے ہی مسجد کے آخری حصے میں بیٹھ جاتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو مسجد کے اندرونی حصے میں جگہ ہونے کے باوجود بیرونی حصے میں ہی بیٹھتے ہیں۔
9- کسی شخص کو اس کی جگہ سے ہٹاکر اس جگہ پر خود بیٹھنا:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جمعہ کے دن کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے،کہ اس جگہ پر خود بیٹھے، بلکہ کہے: جگہ کشادہ کرو “۔
[مسلم].
10- گردنوں کو پھلانگنا اور دو کے درمیان تفریق کرنا اور بیٹھے ہوئے لوگوں پر تنگی کرنا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک شخص لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”بیٹھ جا تونے تکلیف دی اور تاخیر کی“ ۔
[صحیح الترغیب والترھیب وصحیح ابن ماجة].
11- باتوں یا تلاوت کے ذریعے آواز بلند نہ کرے، جس سے نمازیوں اور دیگر تلاوت کرنے والوں کوتکلیف ہوتی ہے۔
12- بغیر عذر کے اذان کے بعد مسجد سے نکلنا۔
13- خطبہ کے دوران خطیب کی جانب توجہ نہ دینا۔
14- دونوں خطبوں کے درمیان دو رکعت کا پڑھنا، ہاں دونوں خطبوں کے دوران کے وقفے میں دعا اور استغفار پڑھنا مشروع ہے۔ لیکن نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
15- نماز کے دوران کثرت سے حرکت کرنا، اور امام کا سلام پھیرتے ہی مسجد سے نکلنا، اور نماز کے بعد کے اذکار چھوڑ کر مسجد کے دروازوں پر بھیڑ کرنا۔
خطباء اور واعظین کی غلطیاں:
1- خطبہ کا طویل کرنا اور نماز کا مختصر کرنا، حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آدمی کا نماز کو طویل کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے فقیہ ہونے کی علامت ہے، تو نماز کو طویل کرو اور خطبہ کو مختصر، اور بیشک تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے“
[مسلم].
2-خطبہ کیلئے مناسب موضوع کا انتخاب نہ کرنا اور اسی طرح مناسب تیاری نہ کرنا، اور ایسے موضوعات پر تقریر کرنا جس کی لوگوں کو کوئی خاص ضرورت نہ ہو۔
3- بہت سے واعظین اور خطباءلغوی غلطیوں کی جانب توجہ نہیں دیتے۔
4-بعض مقررین موضوع اور ضعیف احادیث اور بغیر سوچے سمجھے غلط اقوال نقل کرتے ہیں۔
5- بعض خطیب حضرات دوسرے خطبہ میں صرف دعا پر اکتفاءکرتے ہیں اور اسی کے عادی ہیں۔.
6-خطبہ یاتقریر کے دوران قرآن کی آیات سے روگردانی کرنا؛ یہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے، حضرت حارثہ بنت نعمان رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
میں نے سورہ (ق وَالقرآن) ہر جمعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبوں میں سن سن کر یاد کر لیا۔
[مسلم]
7- بعض خطباءاور مقررین کا خطبہ کے دوران جوش وولولہ کا اظہار نہ کرنا، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتی تھی، اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں “ ۔
[مسلم].
جمعہ مبارک کہنا :
سوال، محترم مفتی صاحب ،السلام علیکم
كيا فرماتے ہيں علماء كرام و مفتيان عظام اس بارے ميں کہ جو آج كل عام رواج ہو گيا ہے كہ عيد كے دن "عيد مبارك" كہنا اور جمعہ كے دن "جمعہ مبارك" كہنا؟ جزاک اللہ خیراً
جواب :
عید اور جمعہ کے دن دونوں ہی بابرکت دن ہیں، اس برکت کے اظہار کے لیے یا بطور دعا مسلمانوں کا باہم ایک دوسرے کو عید مبارک یا جمعہ مبارک کہنا فی نفسہ جائز تو ہے مگر اسے مستقل رسم یا عید اور جمعہ کا شرعی جزء شمار کرنے کی غلطی کی بناء پر بعض اہل علم نے منع کیا ہے۔
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
مزید ضروری وضاحت:
جمعه کے دن کے برکات ثابت هے اگر کوئی شخص اس نیت سے کهے که آپ کو جمعه کے دن کی " برکات " مبارک هو تو اس کی گنجائش هے اس طرح سے که سکتے هیں.
اور اگر کوئی شخص 'جمعه مبارک' کو ( سنت سمجه کر ، ضروری سمجه کر ) کہتا هے تب یه جائز نهیں .
No comments:
Post a Comment