Sunday, 3 January 2016

اسیر اللہ فی الارض

ایس اے ساگر

وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے گھومتا رہتا ہے اور عمر گذرنے کیساتھ انسان بوڑھا ہوتا چلا جاتا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ صحیح حدیث ہے جو مسلم میں روایت ہوئی ہے کہ دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے اور نافرمانوں کیلئے جنت ہے۔ حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ دنیا واقعتاً کوئی قید خانہ ہے جس میں کسی جرم کی سزا دینے کیلئے مسلمان کو ڈال دیا گیا ہے بلکہ محض ایک تشبیہ بیان ہوئی ہے کہ ایمان والے کے ذمہ ہے کہ وہ اللہ کو اپنا خالق اور مالک تسلیم کرتے پوئے اس کے احکامات بجالائے. دنیا کو قید خانہ سے تشبیہ اس اعتبار سے بھی دی گئی ہے کہ جیسے قید خانہ کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو، اس میں قیدی کا دل نہیں لگتا بلکہ اس کا دل اسی جانب لگا رہتا ہے کہ وہ باہر کی دنیا میں جائے، بالکل اسی طرح ایک صاحب ایمان کا دل اصل میں آخرت کی جانب لگا رہتا ہے اور وہ دنیا کے قیام کو بس عارضی ہی سمجھتا ہے۔ اس سے اس کی نفی نہیں ہوتی کہ وہ دنیا میں اپنی ضروریات پوری کرے یا اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو ۔

نافرمان کیساتھ معاملہ :

اس کے برعکس ایسا شخص جو اللہ تعالی یا آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، اس کیلئے یہ دنیا ہی سب کچھ ہے جس کے ایک ایک لمحے سے وہ اپنے لئے مزہ کشید کرنا چاہتا ہے۔ اہل ایمان اس وقت کو آخرت کی تیاری پر لگاتے ہیں جسے وہ اپنی اصل زندگی سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ ہے جس کی جانب حدیث میں توجہ دلائی گئی ہے اور دنیا کو قید خانہ سے تشبیہ دی گئی ہے. کنز العمال حدیث 255-8 کے مطابق اللہ جل شانہ اپنی عظمت اور اپنے جلال کے باوجود تین قسم کے لوگوں کی عزت و تکریم کو پسند کرتا ہے،1. بوڑھا مسلمان 2. عادل حکمران 3. حامل قرآن جو نہ تو غلوسے کام لے او ر نہ ہی اس سے جفاکرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے، تین آدمیوں کو خفیف سمجھنے والا منافق ہو سکتا ہے نہ کہ مسلمان،
1. بوڑھا مسلمان،
2. عالم،
3. منصف حاکم،

عذاب الیم کی وعید :

مسلم اور نسائی شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایاکہ :
قیامت کے روز اللہ تعا لیٰ تین آدمیوں سے کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا نہ ان پر نظر رحمت فرمائے گا اور ان کیلئے عذاب الیم ہے۔
1. بوڑھا زانی۔
2. جھوٹا حاکم
3. تکبر کرنے والا ملازم

معقول 'پنشن یافتہ ' شخص :

لیکن اگر یہی بوڑھا اللہ کے حکموں پر چلا ہو تو اس کا زبردست اکرام ہے. بعینہ کسی سرکاری ملازم کی طرح معقول 'پنشن ' پاتا ہے. معارف القرآن، جلد اول، صفحہ نمبر 230 پر تفسیر ابن کثیر، جلد سوم، صفحہ 409، 410 کے حوالہ سے
مسند احمد کے مطابق حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا اس کے نیک عمل اس کے والد یا والدین کے حساب میں لکھے جاتے ہیں. اور جو کوئی برا عمل کرے تو نہ وہ اس کے حساب میں نہ والدین کے.
پھر جب وہ بالغ ہو جاتا ہے تو قلم حساب اس کیلئے جاری ہو جاتا ہے. اور دو فرشتے جو اس کیساتھ رہنے والے ہیں ان کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی حفاظت کریں. جب حالتِ اسلام میں چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کو تین قسم کی بیماریوں سے محفوظ فرما دیتے ہیں،
1. جنون،
2. جذام اور
3. برص
جب پچاس سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کا حساب ہلکا کر دیتے ہیں. جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دیتے ہیں.
جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں. اور جب اسی کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالٰی اسکی حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں،
پھر جب نوے سال عمر ہوتی ہے تو اللہ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ فرما دیتے ہیں اور اسکو اپنے گھر والوں کے حق میں شفاعت کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں. اور اس کا لقب
'امین اللہ'
اور
"اسیر اللہ فی الارض' یعنی اللہ کا معتمد اور زمین میں اللہ کا قیدی، ہو جاتا ہے،
کیونکہ اس عمر میں عموما ً انسان کی قوت ختم ہو جاتی ہے، کسی چیز میں لذت نہیں رہتی، قیدی کی طرح عمر گزارتا ہے. اور جب ارزل ِ عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں وہ نیک عمل برابر لکھے جاتے ہیں جو وہ اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا. اور اگر اس سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا.

غریب فقیر کیساتھ برتاؤ :

ایک دفعہ قبیلہ بنوسُلَیم کا ایک بوڑھا ضعیف آدمی مسلمان ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین کے ضروری احکام ومسائل بتائے اور پھر اس سے پوچھا کہ تیرے پاس کچھ مال بھی ہے ؟
اس نے کہا: ”خدا کی قسم بنی سُلَیم کے تین ہزار آدمیوں میں سب سے زیادہ غریب اورفقیر میں ہی ہوں۔ “
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”تم میں سے کون اس مسکین کی مدد کرے گا؟“
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)، میرے پاس ایک اونٹنی ہے جو میں اس کو دیتا ہوں“۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”تم میں سے کون ہے جو اب اس کا سر ڈھانک دے ؟“
حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھے اور اپنا عمامہ اتارکر اس اعرابی کے سر پر رکھ دیا۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو اس کی خوراک کا بندوبست کرے؟“
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اعرابی کو ساتھ لیا اور اس کی خوراک کا انتظام کرنے نکلے۔ چند گھروں سے دریافت کیا لیکن وہاں سے کچھ نہ ملا۔ پھر حضرت فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
پوچھا ، کون ہے؟
انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا اور التجا کی کہ ”اے اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اس مسکین کی خوراک کا بندوبست کیجئے “۔
آپ رضی اللہ عنہا نے آبدیدہ ہوکر فرمایا:
” اے سلمان رضی اللہ عنہ خدا کی قسم، آج ہم سب کو تیسرا فاقہ ہے۔ دونوں بچے بھوکے سوئے ہیں لیکن سائل کوخالی ہاتھ جانے نہ دوں گی۔ جاﺅ یہ میری چادر شمعون یہودی کے پاس لے جاﺅ اور کہو فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی یہ چادر رکھ لو اوراس غریب انسان کو تھوڑی سی جنس دے دو۔“ سلمان رضی اللہ عنہ اعرابی کو ساتھ لے کر یہودی کے پاس پہنچے۔ اس سے تمام کیفیت بیان کی وہ حیران رہ گیا اور پھر پکار اٹھا
”اے سلمان، خد اکی قسم یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی ہے ۔ گواہ رہنا کہ میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لایا“۔
اس کے بعد کچھ غلّہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو دیا اورچادر بھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو واپس بھیج دی، وہ لے کر ان کے پاس پہنچے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھ سے اناج پیسا اورجلدی سے اعرابی کیلئے روٹی پکا کر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کو دی۔
انہوں نے کہا: ”اس میں سے کچھ بچوں کیلئے رکھ لیجئے ۔“
جواب دیا: ”سلمان جو چیز خداکی راہ میں دے چکی وہ میرے بچوں کیلئے جائز نہیں۔“
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ روٹی لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ روٹی اعرابی کو دی اورفاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے ۔ان کے سر پر اپنا دستِ شفقت پھیرا‘ آسمان کی طرف دیکھا اور دعاکی:
”بارِ الٰہا فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تیری کنیز ہے ،اس سے راضی رہنا.

دعوت کی ذمہ داری :

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حقائق کو پوری دنیا کے سامنے کون پیش کرے، جبکہ تاریخ کے ماہرین ابن خلدون، ایڈورڈ گبن اور مارک ٹوئن کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق قوموں کا عروج و زوال بنیادی طور پر دو باتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
1. علم اور
2. اخلاق
جو قوم دوسری قوموں کی نسبت علم اور اخلاق میں بہتر مقام پر کھڑی ہوتی ہے، اسے عروج مل جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ آئیڈیل اخلاق کی مالک ہو، بس اتنا ضروری ہے کہ وہ دوسری قوموں سے بہتر اخلاق رکھتی ہو۔ قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بنیادی دعوت ہی علم اور اخلاق کی دعوت ہے۔ اللہ تعالی کا پیغام یہی ہے کہ ہم اپنے کردار کو بہتر سے بہتر بنائیں۔ اس پر جب امت عمل کرے گی تو اسے عروج حاصل ہو جائے گا۔

نہ بھولیں مقصد حیات :

کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور کی غیر قومیں اسی قانون کے تحت عروج پر ہیں۔ اگرچہ وہ قرآن و سنت کو نہیں مانتے مگر علم اور اخلاق کے معاملے میں ان کی تعلیمات پر کسی حد تک عمل کرتے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی مسلمانوں سے ہی سیکھی ہے ۔ اخلاقی اعتبار سے دوسری قوموں کیلئے تو وہ بہت اچھے نہیں ہیں مگر اپنی قوم کیلئے کم از کم امت مسلمہ سے زیادہ اچھے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان دوسری قوموں سے علم و اخلاق میں بہتر تھے تو دنیا میں ان کا عروج تھا اور دنیا بھر کے مسلم و غیر مسلم افراد کا ٹیلنٹ سمٹ سمٹ کر غرناطہ، بغداد، دہلی اور قاہرہ کا رخ کرتا تھا۔ اگر امت آج بھی اس صورتحال کو بہتر بنا لے تو اس کا عروج شروع ہو جائے گا۔ یہی قرآن و سنت کی دعوت ہے جس کو اختیار کرنا چاہئے۔

No comments:

Post a Comment