ایس اے ساگر
حجاب پہننے نازنین انصاری اور ان کے ساتھی جب ہاتھوں میں دیا لے کر رام کی تصویر کے سامنے آرتی اتارتی ہیں اور پھر ہنومان چاليسا کاجاپ کرتی ہیں تو یہ نظارہ کسی ڈرامے کا حصہ لگتا ہے. لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ان کیلئے روزمرہ کی بات ہے.
نازنین پیدائشی طور پر مسلمان ہیں اور عقائد سے درست بھی سمجھی جاتی ہیں ، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ وہ نماز اور روزے کیساتھ ساتھ وہ اتنی ہی عقیدت سے ایک ہندو کی طرح ہنومان چاليسا کا جاپ بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں.
اس سب کے پس پشت نازنین کا مقصد ہے کہ تمام لوگ تمام مذاہب کی عزت کریں.
ہندو مذہب کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان پھیلی غلط فهميوں کو دور کرنے کیلئے نازنین نے ہنومان چاليسا سے شروعات کی اور اسے اردو زبان میں بھی لکھا ہے تاکہ اردو پڑھنے والے بھی اسے پڑھ سکیں.
نازنین کہتی ہیں کہ 2006 کے دوران جب سنکٹ موچن مندر میں بم دھماکے ہوا تو یہ عام تاثر بن گیا کہ یہ کسی مسلمان نے ہی کیا ہوگا. اسی بات نے مجھے اس کیلئے حوصلہ افزائی بخشی اور ہم ستر خواتین نے وہاں جاکر ہنومان چاليسا کا جاپ کیا. "
نازنین نے اس کے بعد اپنے ساتھ دیگر مسلم خواتین کو شامل کرنا شروع کر دیا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے اس راستے کو اپنایا.
نازنین نے ہنومان چاليسا کو اردو رسم الخط میں لکھا ہے. اس کے علاوہ شیو چاليسا، درگا چاليسا کو بھی اردو میں لکھا ہے.
نازنین انصاری بنارس کے غریب بنکر خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور آپ کے خاندان میں تن تنہا پڑھی لکھی لڑکی ہیں.
معاشرے میں ہندو مسلم بھائی چارے کو قائم رکھنے کے عنوان پر نازنین کی اس کوشش کیلئے 22 جنوری کو دہلی کے راشٹر پتی بھون میں صدر پرنب مکھرجی نازنین کو اعزاز سے سر فراز کریں گے.
نازنین کہتی ہیں کہ ان کے اس فعل کے سبب ان کی کمیونٹی میں کافی مخالفت ہوئی بلکہ آج بھی ہو رہی ہے، لیکن انہیں اس کی فکر نہیں رہتی. وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین ان کی اس کوشش میں ان کیساتھ ہیں.
نازنین کی اس مہم میں ان کے کئی مسلم ساتھیوں کیساتھ ساتھ بہت سے ہندو ساتھی بھی ہیں. ڈاکٹر راجیو شریواستو بھی ان میں سے ایک ہیں.
ڈاکٹر راجیو شریواستو کہتے ہیں کہ آج بنارس میں ہندوؤں کے بہت سے مذہبی پروگراموں میں مسلم مذہبی رہنما اور مسلمانوں کے مذہبی پروگراموں، تہوار میں ہندو مذہب کے رہنما تک پہنچتے ہیں.
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں میں نازنین کے اس کوشش کا اثر کتنا ہے.
نازنین کے پڑوسی محمد اظہر الدین کہتے ہیں کہ ہندو بھائیوں میں بھی مسلمانوں کے تئیں رویہ میں کافی تبدیلی آئی ہے. جو لوگ کسی حد تک خدشات کے شکار بھی تھے، انہیں بھی یہ لگتا ہے کہ صرف چند مسلمان انتہا پسندی کے نام پر سب کو بدنام کئے ہوئے ہیں، سبھی مسلمان ایسے نہیں ہیں. " سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو بھی اس قسم کے رویہ کا اظہار کر سکیں گے، کیا وہ بھی غسل کرکے، کلمہ پڑھ کے نماز ادا کریں گے، جبکہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجا کرتی ہے !
نازنین پیدائشی طور پر مسلمان ہیں اور عقائد سے درست بھی سمجھی جاتی ہیں ، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ وہ نماز اور روزے کیساتھ ساتھ وہ اتنی ہی عقیدت سے ایک ہندو کی طرح ہنومان چاليسا کا جاپ بھی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں.
اس سب کے پس پشت نازنین کا مقصد ہے کہ تمام لوگ تمام مذاہب کی عزت کریں.
ہندو مذہب کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان پھیلی غلط فهميوں کو دور کرنے کیلئے نازنین نے ہنومان چاليسا سے شروعات کی اور اسے اردو زبان میں بھی لکھا ہے تاکہ اردو پڑھنے والے بھی اسے پڑھ سکیں.
نازنین کہتی ہیں کہ 2006 کے دوران جب سنکٹ موچن مندر میں بم دھماکے ہوا تو یہ عام تاثر بن گیا کہ یہ کسی مسلمان نے ہی کیا ہوگا. اسی بات نے مجھے اس کیلئے حوصلہ افزائی بخشی اور ہم ستر خواتین نے وہاں جاکر ہنومان چاليسا کا جاپ کیا. "
نازنین نے اس کے بعد اپنے ساتھ دیگر مسلم خواتین کو شامل کرنا شروع کر دیا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے اس راستے کو اپنایا.
نازنین نے ہنومان چاليسا کو اردو رسم الخط میں لکھا ہے. اس کے علاوہ شیو چاليسا، درگا چاليسا کو بھی اردو میں لکھا ہے.
نازنین انصاری بنارس کے غریب بنکر خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور آپ کے خاندان میں تن تنہا پڑھی لکھی لڑکی ہیں.
معاشرے میں ہندو مسلم بھائی چارے کو قائم رکھنے کے عنوان پر نازنین کی اس کوشش کیلئے 22 جنوری کو دہلی کے راشٹر پتی بھون میں صدر پرنب مکھرجی نازنین کو اعزاز سے سر فراز کریں گے.
نازنین کہتی ہیں کہ ان کے اس فعل کے سبب ان کی کمیونٹی میں کافی مخالفت ہوئی بلکہ آج بھی ہو رہی ہے، لیکن انہیں اس کی فکر نہیں رہتی. وہ کہتی ہیں کہ ان کے والدین ان کی اس کوشش میں ان کیساتھ ہیں.
نازنین کی اس مہم میں ان کے کئی مسلم ساتھیوں کیساتھ ساتھ بہت سے ہندو ساتھی بھی ہیں. ڈاکٹر راجیو شریواستو بھی ان میں سے ایک ہیں.
ڈاکٹر راجیو شریواستو کہتے ہیں کہ آج بنارس میں ہندوؤں کے بہت سے مذہبی پروگراموں میں مسلم مذہبی رہنما اور مسلمانوں کے مذہبی پروگراموں، تہوار میں ہندو مذہب کے رہنما تک پہنچتے ہیں.
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں میں نازنین کے اس کوشش کا اثر کتنا ہے.
نازنین کے پڑوسی محمد اظہر الدین کہتے ہیں کہ ہندو بھائیوں میں بھی مسلمانوں کے تئیں رویہ میں کافی تبدیلی آئی ہے. جو لوگ کسی حد تک خدشات کے شکار بھی تھے، انہیں بھی یہ لگتا ہے کہ صرف چند مسلمان انتہا پسندی کے نام پر سب کو بدنام کئے ہوئے ہیں، سبھی مسلمان ایسے نہیں ہیں. " سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندو بھی اس قسم کے رویہ کا اظہار کر سکیں گے، کیا وہ بھی غسل کرکے، کلمہ پڑھ کے نماز ادا کریں گے، جبکہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجا کرتی ہے !
Happiest and proud moment?
By: S. A. Sagar
It will be the happiest and proud moment for Nazneen Ansari, a local girl hailing from a poor weaver family, to have a lunch hosted by the President Pranab Mukharjee at Ceremonial Hall of Rashtrapati Bhawan in the New Year on January 22. According to reports, she is among the 100 women achievers of India selected by the Ministry of Women and Child Development, Government of India. "I received the e-mail letter on Thursday from senior consultant, ministry of women and child development that I have been selected as one of 100 women achievers of the country in the category of 'Women in Public Life", Nazneen told to TOI on Friday. "I am very happy to receive this New Year gift. I never thought of such a prestigious moment in my life," said Nazneen, who enjoyed the New Year celebration with underprivileged children like rag pickers at Vishal Bharat Sansthan in Hukulganj area on Friday. The MWCD in collaboration with Facebook selected the 100 women achievers through public nominations and voting through social media to recognize and acknowledge women who are making a difference in their respective fields across the country. According to the letter, Nazneen has been asked to join the lunch hosted by the President at Rastrapati Bhawan on January 22. Nazneen, a 22 year old Muslim women and a master's degree holder in conflict management from Banaras Hindu University, has been working for social harmony and Hindu-Muslim unity. She scripted Hindu epic Ramcharitmanas of legendry poet Tulsidar in Urdu. She believes that Rama as an ideal of humanity. She also composed 'aarti' of Rama and Hanuman Chalisa, Durga Chalisa in Urdu. Being a true Muslim she believes that there is no scope of hatred in any religion. She had also recited Hanuman Chalisa at famous Sankat Mochan Temple after the terrorist blast in 2006. She is the founder president of Muslim Mahila Foundation (MMF) that advocates for the construction of Ram Mandir in Ayodhya. In December 2014, she had also sent a petition to Prime Minister Narendra Modi requesting the construction of Ram Mandir in Ayodhya. She believes that the construction of Ram Mandir would end hatred and strengthen the bond of unity and harmony between Hindu and Muslim, and it would be the permanent solution of ending the hatred between the two communities. Muslim women associated with MMF had also campaigned openly for Modi during the parliamentary election. Besides, these women also sent Rakhi to Modi on the occasion of Rakshabandhan and prayed for his wellbeing during the holy month of Ramzan.
हिजाब पहनकर आरती करने वाली नाज़नीन...
हिजाब पहने नाज़नीन अंसारी और उनके साथी जब हाथों में दीप लेकर राम की तस्वीर के सामने आरती करते हैं और फिर हनुमान चालीसा का पाठ करते हैं तो ये नज़ारा किसी नाटक का हिस्सा लग सकता है. लेकिन सच्चाई ये है कि ये इनके लिए रोज़मर्रा की बात है.
नाज़नीन जन्म से भी मुसलमान हैं और आस्था से भी, लेकिन नमाज़ और रोज़े के साथ साथ वो उतनी ही सहजता से एक धर्मनिष्ठ हिन्दू की तरह हनुमान चालीसा का पाठ करते भी दिख जाती हैं.
ऐसा करने के पीछे नाज़नीन का मक़सद है कि सभी लोग सभी धर्मों की इज़्ज़त करें.
हिन्दू धर्म के बारे मुसलमानों के बीच फैली ग़लतफ़हमियों को दूर करने के लिए नाज़नीन ने हनुमान चालीसा से शुरुआत की और उसे उर्दू भाषा में भी लिखा है ताकि उर्दू पढ़ने वाले भी सहजता से उसे पढ़ सकें.
नाज़नीन कहती हैं, “साल 2006 में जब संकट मोचन मंदिर में बम ब्लास्ट हुआ तो ये आम धारणा बन गई कि ये किसी मुसलमान ने ही किया होगा. इसी बात ने मुझे इसके लिए प्रेरित किया और हम सत्तर महिलाओं ने वहां जाकर हनुमान चालीसा का पाठ किया.”
नाज़नीन ने उसके बाद अपने साथ और मुस्लिम महिलाओं को एकजुट करना शुरू कर दिया और सांप्रदायिक सौहार्द के लिए इस रास्ते को अपनाया.
नाज़नीन ने हनुमान चालीसा को उर्दू लिपि में लिखा है. इसके अलावा शिव चालीसा, दुर्गा चालीसा को भी उर्दू में लिखा है.
नाज़नीन अंसारी बनारस के गरीब बुनकर परिवार से ताल्लुक रखती है और अपने परिवार में एकमात्र पढ़ी लिखी लड़की हैं.
समाज में हिन्दू मुस्लिम भाईचारे को क़ायम रखने के नाज़नीन के इस प्रयास के लिए 22 जनवरी को दिल्ली के राष्ट्रपति भवन में राष्ट्रपति प्रणब मुखर्जी नाज़नीन को सम्मानित करेंगे.
नाज़नीन बताती हैं कि उनके इस काम का उनके समुदाय में काफी विरोध हुआ और अभी भी हो रहा है, लेकिन उन्हें इसकी चिंता नहीं रहती. वो बताती हैं कि उनके माता-पिता उनके इस प्रयास में उनके साथ हैं.
नाज़नीन के इस अभियान में उनके कई मुस्लिम साथियों के साथ-साथ कई हिन्दू साथी भी हैं. डॉक्टर राजीव श्रीवास्तव भी उनमें से एक हैं.
डॉक्टर राजीव श्रीवास्तव कहते हैं आज बनारस में हिन्दुओं के कई धार्मिक कार्यक्रमों में मुसलमान धर्म गुरु और मुसलमानों के धार्मिक कार्यक्रमों, त्योहारों में हिन्दू धर्मगुरु तक पहुंचते हैं.
लेकिन सवाल उठता है कि आम लोगों में नाज़नीन के इस प्रयास का कितना असर है.
नाज़नीन के पड़ोसी मोहम्मद अज़हरुद्दीन कहते हैं, “हिन्दू भाइयों में भी मुसलमानों के प्रति व्यवहार में काफ़ी बदलाव आया है. जो लोग कुछ हद तक आशंका की दृष्टि से देखते भी थे, उन्हें भी ये लगता है कि केवल कुछ ही मुसलमान उग्रवाद के नाम पर सबको बदनाम किए हुए हैं, सभी ऐसे नहीं हैं.”
हिजाब पहने नाज़नीन अंसारी और उनके साथी जब हाथों में दीप लेकर राम की तस्वीर के सामने आरती करते हैं और फिर हनुमान चालीसा का पाठ करते हैं तो ये नज़ारा किसी नाटक का हिस्सा लग सकता है. लेकिन सच्चाई ये है कि ये इनके लिए रोज़मर्रा की बात है.
नाज़नीन जन्म से भी मुसलमान हैं और आस्था से भी, लेकिन नमाज़ और रोज़े के साथ साथ वो उतनी ही सहजता से एक धर्मनिष्ठ हिन्दू की तरह हनुमान चालीसा का पाठ करते भी दिख जाती हैं.
ऐसा करने के पीछे नाज़नीन का मक़सद है कि सभी लोग सभी धर्मों की इज़्ज़त करें.
हिन्दू धर्म के बारे मुसलमानों के बीच फैली ग़लतफ़हमियों को दूर करने के लिए नाज़नीन ने हनुमान चालीसा से शुरुआत की और उसे उर्दू भाषा में भी लिखा है ताकि उर्दू पढ़ने वाले भी सहजता से उसे पढ़ सकें.
नाज़नीन कहती हैं, “साल 2006 में जब संकट मोचन मंदिर में बम ब्लास्ट हुआ तो ये आम धारणा बन गई कि ये किसी मुसलमान ने ही किया होगा. इसी बात ने मुझे इसके लिए प्रेरित किया और हम सत्तर महिलाओं ने वहां जाकर हनुमान चालीसा का पाठ किया.”
नाज़नीन ने उसके बाद अपने साथ और मुस्लिम महिलाओं को एकजुट करना शुरू कर दिया और सांप्रदायिक सौहार्द के लिए इस रास्ते को अपनाया.
नाज़नीन ने हनुमान चालीसा को उर्दू लिपि में लिखा है. इसके अलावा शिव चालीसा, दुर्गा चालीसा को भी उर्दू में लिखा है.
नाज़नीन अंसारी बनारस के गरीब बुनकर परिवार से ताल्लुक रखती है और अपने परिवार में एकमात्र पढ़ी लिखी लड़की हैं.
समाज में हिन्दू मुस्लिम भाईचारे को क़ायम रखने के नाज़नीन के इस प्रयास के लिए 22 जनवरी को दिल्ली के राष्ट्रपति भवन में राष्ट्रपति प्रणब मुखर्जी नाज़नीन को सम्मानित करेंगे.
नाज़नीन बताती हैं कि उनके इस काम का उनके समुदाय में काफी विरोध हुआ और अभी भी हो रहा है, लेकिन उन्हें इसकी चिंता नहीं रहती. वो बताती हैं कि उनके माता-पिता उनके इस प्रयास में उनके साथ हैं.
नाज़नीन के इस अभियान में उनके कई मुस्लिम साथियों के साथ-साथ कई हिन्दू साथी भी हैं. डॉक्टर राजीव श्रीवास्तव भी उनमें से एक हैं.
डॉक्टर राजीव श्रीवास्तव कहते हैं आज बनारस में हिन्दुओं के कई धार्मिक कार्यक्रमों में मुसलमान धर्म गुरु और मुसलमानों के धार्मिक कार्यक्रमों, त्योहारों में हिन्दू धर्मगुरु तक पहुंचते हैं.
लेकिन सवाल उठता है कि आम लोगों में नाज़नीन के इस प्रयास का कितना असर है.
नाज़नीन के पड़ोसी मोहम्मद अज़हरुद्दीन कहते हैं, “हिन्दू भाइयों में भी मुसलमानों के प्रति व्यवहार में काफ़ी बदलाव आया है. जो लोग कुछ हद तक आशंका की दृष्टि से देखते भी थे, उन्हें भी ये लगता है कि केवल कुछ ही मुसलमान उग्रवाद के नाम पर सबको बदनाम किए हुए हैं, सभी ऐसे नहीं हैं.”
No comments:
Post a Comment