Saturday, 2 January 2016

کیا ہے گمراہی کا بڑا سبب ؟

حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند خطبۂ مسنونہ کے بعد فرماتے ہیں،
أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم { وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَاللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ} صدق اللہ العظیم۔

          بزرگو اور بھائیو! آج کی مجلس کیلئے ذمہ داروں کی طرف سے مجھے موضوع دیا گیا ہے 'گمراہی کا بڑا سبب عدمِ تقلید ہے ' میں نے عنوان میں تھوڑی تبدیلی کی ہے، کیونکہ تقلید تو ایک ناگزیر ضرورت ہے، عدمِ تقلید کے ساتھ زندگی کی گاڑی ایک قدم نہیں سرک سکتی، بلکہ 'گمراہی کا بڑا سبب گمراہوں کی تقلید ہے" اس موضوع پر عرض کرونگا۔

تقلید کے معنیٰ میں غلط فہمی:

        سب سے پہلے ایک بھت بڑی غلط فہمی جو تقلید کے مسئلے میں پیدا کردی گئی ہے، اس کو دور کرنا ضروری ہے، لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھایا گیا ہے کہ تقلید کا مطلب: اپنے گلے میں پٹا ڈال کر رسی دوسرے کے ہاتھ میں دیدینا ہے، تاکہ وہ جہاں چاہے لے جائے، جنت میں پہنچائے تو جنت میں پہنچ جاؤ، جھنم میں گرائے تو وہاں پہنچ جاؤ، تقلید کا یہ غلط مفہوم، لوگوں کے ذہنوں میں اس طرح بٹھایا گیا ہے کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ہم ایسے احمق اور بے وقوف کیوں بنیں، ہم بےعقل جانور تھوڑائی ہیں، جو گلے میں پٹا ڈال کر دوسرے کے ہاتھ میں اپنے کو دیدیں ‌؟

تقلید کا صحیح مفہوم:

          میرے بھائیو! تقلید کا صحیح مفہوم کیا ہے، اسے سمجھو! یہاں علمائے کرام کی بڑی تعداد موجود ہے، وہ اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں، تقلید باب تفعیل کا مصدر ہے، قَلَّدَ قِلَادَةً سے مشتق ہے، قلادہ کے معنیٰ ہیں ہار، تقلید کے معنیٰ ہیں، کسی کو ہار پہنانا، فقہ کی کتابوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے: قَلَّدَ القَاضِیْ، بادشاہ نے کسی کو جج بنایا، یعنی اس کو جج کا عہدہ سونپا، پس تقلید کے معنیٰ ہیں "کسی کو عقیدت مندی کا ہار پہنانا، اور دین میں اس کی اتباع کرنا "۔

           اور جو غلط معنیٰ لوگوں کے ذہنوں میں بٹھائے گئے ہیں، اس کےلئے بابِ تَفَعُّلْ سے تَقَلُّدْ آئےگا، بابِ تَفَعُّلْ سے تقلید نہیں آئےگا، تَقَلُّدْ کے معنیٰ ہیں، اپنے گلے میں پٹا ڈالنا، تقلید کے یہ معنیٰ نہیں ہیں۔

          تقلید کو ایک مثال سے سمجھیں: آج کی فلائٹ سے تین پارٹیوں کے لیڈر آرہے ہیں، ایک کانگریس کا، ایک بی جے پی کا، اور ایک ڈی ایم کے D. M. K. کا (یہ مدراس کی مقامی پارٹی ہے ‌)  تینوں پارٹیوں کے ورکر پھول ہار لیکر ایرپورٹ پہنچ گئے، فلائٹ آئی، ان تین لیڈروں میں سے کانگریس کا لیڈر نکلا، اس پارٹی کے لوگ چلانے لگے، زندہ باد! زندہ باد! پھر جب وہ لیڈر قریب آیا تو ہر ایک نے اسے ہار پہنایا، ہار پہن کر جب وہ چلا تو سب اس کے پیچھے چلے، یہ تقلید ہے، یہ اتباع ہے، یعنی پہلے عقیدت کا ہار پہنائے، پھر جب وہ چلے تو اس کے پیچھے چلے، دوسرے لوگ ابھی کھڑے ہیں، تھوڑی دیر بعد بی جے پی کا لیڈر آیا تو اس پارٹی کے ورکر اچھلے، کودے اور زندہ باد، زندہ بادکے نعرے لگائے، پھر اس کو سب پارٹی والے عقیدت کا ہار پہنائیں گے، پھر جب وہ چلے گا تو سب اس کے پیچھے چلیں گے، یہ اس کی تقلید ہے، پھر جب   D. M. K. کا لیڈر آئے گا تو اس کی پارٹی کے لوگ اچھلیں گے، کودیں گے، نعرے لگائیں گے، پھر اسے ہار پہنائیں گے، پھر جب وہ چلے گا تو اس کے پیچھے چلیں گے، یہی تقلید ہے۔

          یہ ایک مثال ہے، اس مثال کو سمجھیں؛ تقلید کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں، پہلے عقیدت کا ہار پہنایا جائے، پھر اس کے پیچھے چلا جائے، یہ دو چیزیں جمع ہونگی تو تقلید ہے، ورنہ نہیں، اگر ہار پہنایا، اور پیچھے نہیں چلا، یا ہار ہی نہیں پہنایا (‌یعنی اس کا عقیدت مند ہی نہیں ) صرف پیچھے چلا تو یہ تقلید نہیں۔

        بھائیو! اسی طرح اس امت میں بھت سے بڑے گذرے ہیں، چار امام ہی بڑے نہیں ہیں، اور دین کے سمجھنے میں ان کے درمیان اختلافات ہوئے ہیں، اب سوال ہے کہ آدمی کس کی بات مانے ‌؟ جواب یہ ہے کہ آپ کو جس سے عقیدت ہے، اس کو عقیدت کا ہار پہنائیں، پھر اس کے پیچھے چلیں، اس کی اتباع کریں، وہ قرآن و حدیث کے جو معنیٰ بتائے، اس کے مطابق عمل کریں، اسی کا نام تقلید ہے، اور اسی کا نام اتباع ہے، اسی کا نام پیروی ہے، اور یہی تقلید کا اصل مفہوم ہے۔

تقلید اور اتباع ایک چیز ہیں:

          بزرگو اور بھائیو! اگر آپ تقلید کا یہ صحیح مفہوم سمجھ لیں تو مسئلہ بہت آسان ہوجاتا ہے، اور دماغ سے بوجھ ہٹ جاتا ہے، تقلید اور اتباع ایک چیز ہیں، زمانوں کے بدلنے سے اصطلاحات بدلتی ہیں، مگر اصطلاحات بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی، دیکھو آج جس چیز کو تصوف کہتے ہیں ____ یہ تیسرے دور کی اصطلاح ہے ____ اسی تصوف کو پہلے 'زہد' کہتے تھے، اسی زہد کو حدیث شریف میں 'احسان' کہا گیا ہے، سب سے پہلے حدیث شریف میں احْسَانَ اور قرآن کریم میں مُحْسِنیْنَ کا لفظ استعمال کیا گیا، قرآن کریم میں جہاں محسنین آیا ہے، اور حدیثِ جبرئیل میں جو الاِحْسَانُ آیا ہے، اور اس کا جو جواب آیا ہے أنْ تَعْبُدَ اللہ الخ  یہی تصوف ہے، پھر زمانہ آگے بڑھا، تدوینِ حدیث شریف کا دور آیا، تدوینِ حدیث ٢٥٠ سال کے بعد مکمل ہوئی ہے، جتنے بڑے بڑے محدث ہیں، ان سب کا انتقال تیسری صدی کے پچھلے پچاس میں، یا اس کے بعد ہوا ہے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٢٤١ھ میں ہوا ہے، امام دارمی رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٢٥٥ھ میں، امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٢٥٦ھ میں، امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٢٦١ھ میں، امام ابن ماجہ کا انتقال ٢٧٣ھ میں، امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٢٧٥ھ میں امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٢٧٩ھ میں، امام نسائی رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٣٣٠ھ میں، اور امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ٣٢١ھ میں ہوا ہے۔

         دو سو پچاس سال گذرتے گذرتے احسان اور محسنین کےلئے نئے لفظ کا استعمال شروع ہوگیا، حدیث کی جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں "ابواب الزہد" آتے ہیں، حدیث کی کتابوں میں ابواب الاحسان نہیں ہیں، ابواب المحسنین نہیں ہیں، ابواب الزہد میں جو روایات ہیں، وہی تصوف کی روایات ہیں، پھر چار سو سال گذر گئے، اور پانچویں صدی آئی تو اللہ کے نیک بندے دنیا سے دل اٹھائے ہوئے تھے، دنیا سے بے رغبت تھے، ساری دنیا شاندار کپڑے پہنتی تھی، مگر یہ اللہ کے نیک بندے اون کے کپڑے پہنتے تھے، یہ نہایت معمولی کپڑے پہنتے تھے، اور اون کو "صوف" کہتے ہیں، تو صوفی لفظ شروع ہوگیا، یعنی اون کے کپڑے پہننے والے، اب یہ علم، فنِ تصوف کہلانے لگا، اور جو آدمی اس لائن کا ہوتا تھا، وہ صوفی کہلاتا تھا۔

        غرض تین زمانوں میں یہ تین اصطلاحیں استعمال ہوئیں، قرآن کریم اور حدیث شریف میں احسان اور محسنین کا لفظ آیا، ٢٥٠ / سال کے بعد زہد اور زاہد کا لفظ استعمال ہوا، پھر ٤٠٠ ‌/‌ سال کے بعد تصوف اور صوفی کا لفظ استعمال ہوا، الفاظ بدلتے رہے، مگر حقیقت ایک ہی رہی۔

        اس مضمون کو اگر آپ سمجھ گئے ہوں، تو اب یہ بات سمجھیں کہ پہلے لفظِ اتباع استعمال ہوتا تھا، قرآن کریم میں لفظِ اتباع استعمال ہوا ہے، احادیث شریفہ میں لفظِ اتباع استعمال ہوا ہے، پھر ایک لمبا زمانہ گذرنے کے بعد یہ لفظ بدل گیا، اور لفظِ تقلید شروع ہوا، اتباع اور تقلید ایک ہی چیز ہیں۔

           بھائیو! میں نے بتایا کہ زمانہ بدلنے سے اصطلاحات بدلتی ہیں، اب بعد کی اصطلاح کے بارے میں کوئی کہے کہ اس کو قرآن و حدیث میں دکھاؤ، تو کہاں سے دکھایا جائے ‌؟ یہ تو بعد کی پیداوار ہے، دیکھو فقہاء کا زمانہ آیا تو اصطلاحات پیدا ہوئیں، فرض، واجب، سنت، مندوب، مستحب، مکروہ تنزیہی، مکروہ تحریمی اور حرام، اب کوئی کہے کہ جمعہ کے دن غسل سنت ہے، قرآن و حدیث میں لفظِ سنت دکھاؤ ،تو کہاں سے دکھائیں ‌؟ یہ ساری اصطلاحات فقہاء کے زمانہ میں شروع ہوئی ہیں، سنت کی جو تعریف ہے، وہ ہم آپ کو حدیث میں دکھا سکتے ہیں، یعنی سنت کس درجہ کا حکم ہوتا ہے، لفظِ سنت کہاں سے دکھایا جائے گا، اسی طرح لفظِ تصوف تیسرے دور کی پیداوار ہے، کچھ لوگ تصوف کے منکر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں لفظِ تصوف اور صوفی دکھاؤ ‌؟ تو کہاں سے دکھایا جائے ‌؟ یہ تو بعد کی پیداوار ہے، اسی لئے ہندوستان کے سب سے بڑے محدث حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے حجة اللہ البالغہ میں جب تصوف کی بحث لکھی تو عنوان قائم کیا 'ابواب الاحسان' کیونکہ کچھ لوگ تصوف کو نہیں مانتے، اس لئے شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے لفظِ تصوف کو چھوڑ کر قرآن و حدیث کی اصطلاح احسان استعمال کی، تاکہ کوئی انکار نہ کرسکے۔[ یہاں ایک لطیفہ یاد آگیا، تبلیغی جماعت کے بارے میں سعودیہ کے بڑے شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالیٰ کے لوگوں نے کان بھرے، ایک موقعہ پر حرمِ مکی میں تبلیغ کے اکابر کی ان سے گفتگو ہوئی، ابن باز نے کہا: آپ لوگ بیعت لیتے ہیں،
مولانا محمد عمر صاحب پالن پوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: شیخ! ہم بیعت نہیں لیتے، لوگوں سے عہد لیتے ہیں کہ یہ کام کرو، اور یہ کام مت کرو،
شیخ نے کہا: اس میں کچھ حرج نہیں، حالانکہ بیعت بھی عہد ہی ہے، یہی معاملہ احسان اور تصوف کا ہے ]۔

          آپ کے اس شہر کے بڑے حضرت مولانا بختیاری رحمہ اللہ تعالیٰ جو پہلے مودودی جماعت میں شامل تھے، جب ان کی گمراہی واضح ہوئی، تو ان سے الگ ہوگئے (مودودی صاحب تصوف کو چنیا بیگم کہتے ہیں، چنیا بیگم افیون کو کہتے ہیں، اور ان کے نزدیک تصوف، افیون ہے ‌)  اور ایک ادارہ قائم کیا، اس کا نام رکھا "معہد احسانی "، کیونکہ لوگوں کو تصوف سے الرجی ہوتی ہے، اس لئے انہوں نے اس لفظ کوچھوڑ کر قرآن و حدیث میں جو لفظ آیا ہے، اسے استعمال کیا، مگر اصطلاحات بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔

تقلید کا وجوب:

         تقلید کا ثبوت، قرآن کریم میں مذکور ہے، اور اتنی واضح آیت ہے، جیسے دوپہر کا سورج، اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ
سب سے آگے نکلنے والے، مہاجرین میں سے اور انصار میں سے''۔ صحابہ کے دو حصے تھے: مہاجرین اور انصار، مہاجرین میں سے جو ایمان لانے، اور علمِ دین حاصل کرنے میں سب سے آگے نکلے ہوئے ہیں، اور انصار میں سے جو سب سے آگے نکلے ہوئے ہیں، {وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ} '' اور وہ لوگ جنہوں نے ان سابقین اولین مہاجرین و انصار کی پیروی کی، نیکوکاری یعنی اخلاص کے ساتھ ''۔  دین میں جن لوگوں نے مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین کی اتباع کی۔

       یہ مہاجرین و انصار کا اتباع کرنے والے کون لوگ ہیں ‌؟ جیسے ریل گاڑی کے ڈبّے ہوتے ہیں، انجن کے ساتھ پہلا ڈبہ لگتا ہے، پھر اس کے ساتھ دوسرا، دوسرے کے ساتھ تیسرا، تیسرے کے ساتھ چوتھا لگتا ہے، اگر گاڑیوں کے پچیس ڈبّے ہیں، تو سب انجن کے ساتھ نہیں لگتے، انجن کے ساتھ ایک ہی لگتا ہے، پھر اس کے ساتھ دوسرا، تیسرا لگتا ہے، اسی طرح امت کی ایک زنجیر ہے، ایک سلسلہ ہے، اس کاانجن َالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ ہیں، ان کے پیچھے ڈبہ لگا چھوٹے صحابہ کا، پھر جب یہ سابقین اولین دنیا سے گذر گئے تو چھوٹے صحابہ اکابرِ صحابہ بن گئے، وہ انجن بن گئے، ان کے ساتھ تابعین کا ڈبہ لگا، پھر جب یہ صحابہ بھی دنیا سے گذر گئے تو تابعین انجن بن گئے، ان کے ساتھ تبع تابعین کا ڈبہ لگا، اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، ان سب سے اللہ تعالیٰ خوش ہیں، اور یہ سب اللہ تعالیٰ سے خوش ہیں، فرمایا:
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ
اور فرمایا:
وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا
ان دونوں قسموں کے لوگوں کیلئے اللہ تعالیٰ نے جنت تیار کر رکھی ہے، ایسی جنتیں (‌باغات ) جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہ لوگ اس میں سدا رہیں گے،
ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔

        میرے بھائیو! اگر کوئی سمجھنا چاہے، تو قرآن کریم میں اس سے زیادہ واضح آیت، تقلید کے ثبوت کےلئے نہیں ہے، اور اگر کوئی سمجھنا ہی نہ چاہے تو ہزار باتیں نکالی جاسکتی ہیں، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
مَن یضْلِلْہ فَلا ھَادِیَ لَہْ 
جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردیں، اس کو کوئی راہِ راست پر نہیں لاسکتا۔

        کچھ لوگوں نے کہا: ہم اس اجلاس میں فلاں کو بلاکر لاتے ہیں، ان کو سمجھادو[ مدراس میں ایک شخص نے بڑا فتنہ برپا کر رکھا تھا، معلوم نہیں وہ اہلِ قرآن تھا، یا اہلِ حدیث تھا، یا چوں چوں کا مربہ تھا، اسی کے فتنہ کے سدّباب کیلئے، شہر کے علماء و رؤساء نے مدراس شہر میں یہ دو روزہ کیمپ لگایا تھا، جس میں صوبۂ تمل ناڈو کے کم از کم ایک ہزار علماء نے شرکت کی تھی، اور عوام کا ہزاروں کا مجمع تھا، اسی مجمع میں یہ تقریر کی گئی ہے ] میں نے کہا، کسی کو بلاکر لانے کی ضرورت نہیں، مَن یضْلِلْہ فَلا ھَادِیَ لَہْ، خود حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے تعلق سے کہا گیا ہے
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ
(‌سورۂ قصص آیت نمبر ٥٦ )
ہاں خود اس کیلئے لمحۂ فکریہ پیدا ہو، وہ خود سوچے، اور اللہ تعالٰی سے ہدایت مانگے تو اللہ تعالیٰ ہدایت دیں گے، باقی کوئی دوسرا، اسے سمجھادے یہ ممکن نہیں، پس اگر کوئی سمجھنا چاہے تو اس سے زیادہ واضح کوئی آیت نہیں۔

احسان کا مطلب:

        اور یہ جو فرمایا ہے:
وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ،
احسان کا مطلب کیا ہے ‌؟
میں نے بتایا تھا کہ تصوف کیلئے لفظِ احسان جو حدیث میں استعمال ہوا ہے، قرآن کریم میں اس معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا، قرآن کریم میں اس کیلئے محسنین کا لفظ آیا ہے، اور یہاں جو احسان ہے، اس کے معنیٰ ہیں اخلاص سے، صحیح نیت سے، صحیح مقصد سے، اس کو سمجھنے کیلئے ایک مثال عرض کرتا ہوں۔

حنفی کا شافعی بن کر نماز پڑھانا:

       ایک محلہ یا ایک بستی ہے، وہاں سب شوافع ہیں، انہوں نے اپنی بستی میں جو امام رکھا ہے، وہ حنفی ہے، بستی والے چاہتے ہیں کہ حنفی امام، شافعی بن کر نماز پڑھائے (‌بعض لوگوں نے یہ مسئلہ پوچھا ہے، اس لئے بیان کررہا ہوں ) ان کا یہ مطالبہ غلط ہے، جب چاروں مذاہب حق ہیں تو یہ کہنا کہ حنفی بن کر نماز پڑھا، شافعی بن کر نماز پڑھا، مالکی بن کر نماز پڑھا، غلط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ذہن میں دغدغہ ہے، چاروں مذاہب حق ہیں، یہ بات ان کا ذہن قبول نہیں کررہا، اگر یہ بات واقعی ذہن قبول کرلے، تو امام حنفی ہو، اور مقتدی شافعی ہوں، یا اس کا برعکس ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ‌؟ حدیث شریف میں ایک واقعہ ہے، ایک تابعی نے ایک صحابی سے پوچھا: میں نے چمڑے کے موزے پہن رکھے ہیں، اگر میں پانچوں نمازوں میں موزے نکال کر پیر دھوؤں، تو کیا حرج ہے ‌؟
صحابی نے کہا: بہت بڑا حرج ہے، آپ پانچوں نمازوں میں موزے کیوں نکال رہے ہیں ‌؟ مسح علی الخفین میں آپ کو دغدغہ ہے، جب تک شریعت کے احکام پر آپ کا دل مطمئن نہ ہو جائے ایسا کرنا درست نہیں (ترمذی ‌) پس جب چاروں مذاہب برحق ہیں، تو مقتدیوں کا یہ مطالبہ غلط ہے، ہاں ہم رنگی (‌یکسانیت) مطلوب ہے، ہم رنگی انسانی فطرت ہے، اگر ہم رنگی چاہتے ہو تو ٹھیک ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، جب محلہ شوافع کا ہے، تو شافعی امام لاؤ، حنفی امام کیوں لاتے ہو‌؟ لیکن اگر حنفی امام رکھتے ہو تو اس سے مطالبہ کرنا کہ وہ شافعی بن کر نماز پڑھائے، صحیح نہیں، امام اگر ایسا کرے گا تو اس نے امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا اتباع اخلاص کیساتھ نہیں کیا، نوکری کیلئے کیا، دنیا کمانے کیلئے کیا، لٰہذا امام کو ایسا کرنا جائز نہیں، اور وہ اس آیت کا مصداق نہیں۔

          البتہ ایک حنفی عالم ہے، اس کو امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دلائل پر اطمینان ہوگیا، وہ پوری طرح شافعی بن جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح ایک شافعی عالم ہے، اس کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے دلائل پر اطمینان ہوگیا، وہ مکمل حنفی بن جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن آدھے، پونے کا سودا جائز نہیں، کہ نماز پڑھا رہا ہے شافعی بن کر، اور ہے حنفی، ایسا شخص
وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ
میں داخل نہیں، اس مسئلہ سے باحسان کا مطلب آپ سمجھ سکتے ہیں، کسی دنیاوی غرض کےلئے، یا کسی فاسد نیت سے اگلوں کی اتباع نہ ہو، بلکہ ان کی اتباع صحیح دین پر عمل کرنے کی نیت سے ہو، ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں، اور ان کےلئے جنت تیار کر رکھی ہے۔

استدلال پر اشکال کا جواب:

         اس آیتِ کریمہ سے جو میں تقلید کو ثابت کررہا ہوں، تو کسی کو اشکال پیش آسکتا ہے کہ یہ آیت تو سورۂ توبہ کی ہے، اور سورۂ توبہ میں اوپر نیچے غزوۂ تبوک کا تذکرہ ہے، اور مراد یہ ہے کہ مہاجرین و انصار میں سے جو بڑے صحابہ جنگِ تبوک میں گئے، اور دوسرے صحابہ جو ان کے پیچھے گئے، ان سب سے اللہ تعالیٰ راضی ہیں، دین میں پیچھے چلنے کا مسئلہ اس آیت میں نہیں ہے۔

          ایسا ہی شوشہ ایک دوسری آیت میں غیر مقلدین اور مودودی حضرات چھوڑتے ہیں، وہ آیت ہے:
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون‌
یعنی قرآن کریم کو نہیں چھوتے، مگر نہایت پاکیزہ بندے، اس آیتِ کریمہ سے چاروں ائمہ نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ قرآن کریم کو بےوضو ہاتھ لگانا جائز نہیں، آپ بےوضو تلاوت کرسکتے ہیں، لیکن بےوضو قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔

            مودودی اور غیر مقلدین حضرات کہتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم لوحِ محفوظ میں ہے، اور لوحِ محفوظ ایسی جگہ ہے، جہاں فرشتے ہی پہنچ سکتے ہیں، شیاطین کی وہاں پہنچ نہیں، شیاطین وہاں پہنچ کر قرآن کریم میں گڑبڑ کردیں، یہ بات ممکن نہیں، بےوضو قرآن کریم کو ہاتھ لگانا جائز نہیں، یہ مسئلہ اماموں نے قرآن کریم سے زبردستی نکالا ہے، غرض جس طرح یہ لوگ یہاں یہ اشکال کھڑا کرتے ہیں، ویسا ہی اشکال زیرِ گفتگو آیت میں بھی کھڑا کرسکتے ہیں۔

        اسکا جواب یہ ہے کہ سورۂ حشر آیت نمبر ٧ میں ہے: { مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا} تمام لوگوں نے، حتیٰ کہ غیر مقلدین نے بھی، اور مولانا مودودی صاحب نے بھی، اور ہم نے بھی اس آیتِ کریمہ سے حجیتِ حدیث کا مسئلہ نکالا ہے، جبکہ آیتِ کریمہ مالِ فیئ کی تقسیم کے بارے میں ہے (ایک مالِ غنیمت ہے، جو فوج لڑکر حاصل کرتی ہے، اس کا پانچواں حصہ بیت المال کےلئے ہوتا ہے، اور باقی فوج میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور ایک مالِ فیئ ہے، وہ صلح سے حاصل ہوتا ہے، وہ فوجیوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا‌) جب بنونضیر کا علاقہ فتح ہوا، اور مالِ فیئ کی تقسیم شروع ہوئی، تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا، کہ اللہ تعالیٰ کے رسول، مالِ فیئ سے جس کو عنایت فرمائیں، لے لے، اور جس کو نہ دیں، وہ رک جائے، یعنی نہ مانگے، یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ، اس آیتِ کریمہ کا حجیتِ حدیث سے کیا تعلق ہے ‌؟ جبکہ سبھی اس سے یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں۔

         اس کا جواب یہ ہے کہ تفسیر کا ایک اصول ہے: العبرة لعمومِ اللفظِ، لالخصوصِ المورِد، یعنی اگر آیت کے الفاظ عام ہیں، تو حکم عام رہے گا، شانِ نزول اگر کوئی خاص معاملہ ہے، تو حکم اس کے ساتھ خاص نہیں رہے گا، آیتِ کریمہ میں مَا عام ہے، اور نَھَاکُمْ اور فَانْتَھُوْا بھی عام ہیں، نہ دینے، اور نہ مانگنے کےلئے خاص الفاظ لمْ یُعْطِکُمْ اور فَلاتطَالبُوْ ہیں، جب یہ خاص الفاظ استعمال نہیں کئے، اور آیت عام پیرایہ میں نازل کی گئی تو حکم بھی عام ہوگا، اور نبی پاک ﷺ  نے جو احکامات دئیے ہیں، خواہ وہ از قبیلِ اوامر ہوں، یا نواہی، وہ سب آیتِ کریمہ کا مصداق ہوں گے، پس اس آیت سے حجیتِ حدیث کا مسئلہ ثابت کرنا درست ہے۔

         اسی طرح
لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُون
کے الفاظ بھی عام ہیں، کسی چیز تک پہنچنے کیلئے بَلَغَ اور وَصَل کے خاص الفاظ ہیں، مَسَّ (‌چھونا) ان سے عام ہے، اسی طرح فرشتوں کےلئے عربی میں خاص لفظ ملائکہ ہے، مگر قرآن کریم میں یہ خاص لفظ استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ مُطَھَّرُوْنَ استعمال کیا، جس کے معنیٰ ہیں نہایت پاکیزہ بندے، یہ فرشتے بھی ہوسکتے ہیں، اور باوضو مؤمن بھی، پس لفظ کے عموم میں باوضو مؤمن بھی داخل ہے، وہ نہایت پاکیزہ بندہ ہے، وہی قرآن کریم کو چھوسکتا ہے، بےوضو نہیں چھوسکتا، کیونکہ وہ نہایت پاکیزہ بندہ نہیں، اور آیت سے یہ مسئلہ صحابہ نے سمجھا ہے، اور صرف مردوں نے نہیں، صحابیات نے بھی سمجھا ہے۔

          حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار لیکر نکلے، ایک نہایت برے ارادے سے، کسی نے کہا، اپنے بہن اور بہنوئی کی خبر لو،
بہن کے گھر پہنچے تو وہ دونوں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھٹکھٹایا، پتہ چل گیا کہ کون ہے، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو چھپادیا، قرآن کریم بھی چھپادیا، اور دروازہ کھولدیا،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیا پڑھ رہے تھے ‌؟
انہوں نے کہا، باتیں کررہے تھے،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہنوئی کی پٹائی شروع کی، بہن بچانے آئی تو بہن کو بھی مارا، وہ لہولہان ہوگئیں ، بہن کو بھائی مارے، اور خون نکل آئے تو دل پر اثر پڑتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل پسیج گیا، انہوں نے کہا:
لاؤ! کیا پڑھ رہے تھے ‌؟
بہن نے جواب دیا، ہم ایسی کتاب پڑھ رہے تھے جسے پاک بندے ہی چھوسکتے ہیں، اور آپ ناپاک ہیں، ہم آپ کو وہ کتاب نہیں دے سکتے،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہن کے گھر میں غسل کیا، تب ان کو سورۂ طہٰ دی گئی، اس کے پڑھنے سے ان کی کایا پلٹ گئی، غرض اس موقعہ پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اسی آیت سے استدلال کیا تھا۔

           میرے بھائیو! اسی طرح یہ آیت اگرچہ غزوۂ تبوک کے بارے میں ہے، لیکن الفاظ عام ہیں، غزوۂ تبوک میں پہلے کون نکلا تھا ‌؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہیں نکلے تھے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نکلے تھے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ساتھ لے کر نکلے تھے، مگر آیتِ کریمہ میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم  کا ذکر نہیں ہے، صرف مہاجرین و انصار کے بڑوں کا ذکر ہے، پھر
وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ
کا تذکرہ ہے، اتباع عام ہے، قیامت تک پیروی کرنے والے اس میں شامل ہیں، کیونکہ آیت کے عموم کا اعتبار ہوگا، خاص واقعہ کا اعتبار نہیں ہوگا، اور آیت کے عموم سے جتنے مسئلے نکل سکتے ہیں، نکلیں گے، لٰہذا اس آیت سے اتباع اور تقلید کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔

        پھر یہ اشکال ہے کہ وجوب کیلئے صیغۂ امر ضروری ہے، جو یہاں نہیں ہے، اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ
اَخْبَارَ، اِنْشَاءَ
کو متضمن ہوتی ہے، حدیث شریف میں ہے:
لَااِیْمانَ لَمَنْ لَا اَمَانَةَ لَہٗ،
جس آدمی میں امانت داری نہیں، اس میں ایمان نہیں، اس حدیث شریف میں خبر دی گئی ہے، اور اس میں یہ حکم بھی ہے کہ امانت داری اختیار کرو، اسی طرح حدیث شریف ہے:
لَاصَلَاةَ لجَارِ المَسْجِدِ اِلا فِی المَسْجِدِ،
مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے علاوہ میں نہیں ہوتی، یہ خبر دی ہے، اس میں بھی اِنْشَاء ہے، کہ مسجد کے پڑوسی کو مسجد ہی میں جاکر نماز پڑھنی ضروری ہے، غرض ہر خبر میں انشاء مضمر ہوتی ہے، اسی طرح
وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ
خبر ہے، اس کے اندر بھی انشاء ہے، یعنی حکم ہے کہ اگلے نیک لوگوں کی اتباع کرو، اسی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے، اسی سے جنت ملے گی، پس اس آیتِ کریمہ سے تقلید کا وجوب ثابت ہوا۔

تقلید انسان کی ہمہ جہتی ضرورت ہے:

           تقلید یعنی گذشتہ لوگوں کی اتباع کرنا، یہ انسان کی صرف شرعی ضرورت نہیں، بلکہ یہ انسان کی ذہنی اور عقلی ضرورت بھی ہے، تقلید کے بغیر انسان ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا، پھر کوئی گمراہ لوگوں کی تقلید کرتا ہے، کوئی نیک لوگوں کی، دیکھو کوئی بچہ باپ کی انگلی پکڑے بغیر کھڑا نہیں ہوسکتا، کوئی لوہار، کوئی سنار، کوئی رنگ ریز، گذرے ہوئے لوگوں کی اتباع کے بغیر اپنے فن میں مہارت پیدا نہیں کرسکتا، کوئی انجینئر، کوئی سائنٹسٹ اگلوں کی پیروی کے بغیر اپنے فن کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔

         بھائیو! اسی طرح دین کا معاملہ ہے، ہمیں کسی نہ کسی کی پیروی کرنی ہوگی، اب یہ مرضی ہے کہ آدمی اچھوں کی پیروی کرے، یا بروں کی، حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اعلان کیا جائےگا، جو جس کی تقلید کرتا تھا، وہ اس کے پیچھے ہولے، جو رام کو پوجتے تھے، وہ رام کے پیچھے ہوجائیں، اور جو راون کو پوجتے تھے، وہ راون کے پیچھے ہوجائیں۔

            اسی حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ مؤمنین کہیں گے، ہم نے اللہ تعالیٰ کی پیروی کی ہے، ہم اللہ تعالیٰ کے پیچھے جائیں گے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ائمہ کی تقلید کرنے والے ائمہ کی پیروی نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہیں، اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ کچھ مؤمنین کہیں گے: ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی پیروی کرتے تھے، ہم امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی پیروی کرتے تھے، بلکہ سب مؤمنین کہیں گے: ہم اللہ تعالیٰ کی پیروی کرتے تھے، ہم اللہ تعالیٰ کے پیچھے جائیں گے۔

           غرض تقلید کے بغیر کوئی چار قدم نہیں چل سکتا، یہ جو غیر مقلدین ہیں، جو کہتے ہیں: ہم کسی کی پیروی نہیں کرتے، وہ سوچیں، وہ کس سے قرآن و حدیث کا مطلب پوچھ کر عمل کرتے ہیں ‌؟ ہر غیر مقلد کو اپنے بڑوں سے پوچھنا پڑتا ہے، ان کے بڑے صحیح بتائیں، یا غلط، ان کے پیچھے چلنا پڑتا ہے، تقلید ایک ایسی ضرورت ہے کہ دنیا کا معاملہ ہو، یا دین کا، انسان کی زندگی اس کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی۔

تقلید کن باتوں میں ہے ‌؟

        بھائیو! آگے ایک چھوٹا سا مضمون سمجھ لو، جو باتیں قرآن کریم میں، یا حدیث شریف میں منصوص ہیں، ان میں کسی امام کی تقلید نہیں، اللہ اور اللہ کے رسول کی تقلید ہے، ائمہ کی تقلید صرف تین قسم کے مسائل میں کی جاتی ہے:

           ① جو روایتیں مختلف اور متعارض ہیں، ان میں تقلید کی جاتی ہے، مثلاﹰ نماز میں رفعِ یدین کی حدیثیں بھی ہیں، اور پوری نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفع نہ کرنے کی بھی روایتیں ہیں، اب ایسے موقعہ پر ایک عام انسان کیا کرے گا ‌؟ دونوں پر عمل ایک ساتھ نہیں ہوسکتا ، لامحالہ ایک عمل پہلے کا ہے، اور ایک عمل بعد کا، اب یہ بات کون طے کرے گا ‌؟ ائمۂ دین ہی طے کرسکتے ہیں، پس اس معاملہ میں ان کی تقلید ضروری ہے، آپ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے عقیدت ہے، ان سے پوچھئے، کہ ان دو عملوں میں سے کون سا عمل پہلا ہے، اور کونسا بعد کا ‌؟ آپ کو عقیدت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ہے، تو ان سے پوچھئے، اس کے علاوہ راستہ ہی کیا ہے ‌؟ اس قسم کی دو روایتوں میں سے جو مقدم ہوگی، وہ منسوخ ہوگی، اور جو بعد کی ہوگی، وہی ناسخ ہوگی، اور اگر دونوں روایتوں میں تاریخ نہیں ہے، تو ائمۂ مجتھدین اپنے اجتہاد سے اس کو طے کریں گے۔

           ② ایک حدیث کے دو مطلب ہوسکتے ہوں، ذہن دونوں طرف جاتا ہو، ایسی صورت میں کونسا مطلب لیا جائے، یہ بات بھی تقلید کی راہ سے طے ہوسکتی ہے، جسے جس امام سے عقیدت ہے، اس سے پوچھے، ان کے نزدیک جو مطلب ہے، اس کو لے، اس کی مثال ہے:
اُمرَ بِلالٌُ اَن یشْفَع الاَذَان، وَ یُوْتر الاِقَامَة،
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا، کہ اذان دوہری کہیں، اور اقامت اکہری کہیں، اکہری اقامت کا کیا مطلب ہے ‌؟ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک ایتارِ کلماتی یعنی جو متماثل الفاظ ہیں، وہ ایک مرتبہ کہے جائیں، پس تکبیر میں گیارہ کلمات ہونگے، یا دس کلمات ہونگے (‌امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ
قَدْ قَامَتِ الصَّلاة
بھی ایک ہی مرتبہ کہتے ہیں)۔

         دوسرا مطلب: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ ایتارِ کلماتی مراد نہیں، بلکہ ایتارِ صوتی مراد ہے، یعنی دو متماثل کلمات کے درمیان سانس نہ توڑا جائے، بلکہ ایک ہی سانس میں کہے جائیں، جب کہ اذان میں سانس توڑا جاتا ہے، کیونکہ ابوداؤد میں حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو اقامت میں سترہ کلمات سکھائے تھے، اس حدیث کی روشنی میں یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے، پس جس امام سے عقیدت ہو، اس سے پوچھ کر عمل کرے۔

         ③ تیسری صورت یہ ہے کہ مسئلہ قرآن و حدیث کی اوپری سطح میں نہ ہو، ڈبکی (غوطہ‌) لگاکر اندر جانا ضروری ہو، اور حکمِ شرعی لانا ضروری ہو، اب دریا میں ہر شخص ڈبکی نہیں لگا سکتا، جو غوَّاصی میں ماہر ہیں، وہی غوطہ لگا سکتے ہیں، مثلاﹰ مرد و عورت کا مادّہ ملاکر ٹیوب میں رکھا گیا، اور بچہ پیدا ہوا، یہ بچہ ثابت النسب ہے، یا نہیں ‌؟ بچہ حلالی ہے، یا حرامی ‌؟ اس کا نسب کس سے ثابت ہوگا ‌؟ قرآن و حدیث میں یہ مسئلہ منصوص نہیں، ایسے مسئلے فقہاء نکال سکتے ہیں، ہما شما نہیں نکال سکتے، ائمہ غوَّاص ہیں، قرآن و حدیث کے مضامین میں ڈوب کر، وہ یہ مسئلہ نکالیں گے، ایسے مسائل استنباطی کہلاتے ہیں، ان میں ائمہ کی تقلید ضروری ہے، بعض لوگ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ تم لوگ قرآن و حدیث پر عمل نہیں کرتے، ابوحنیفہ و شافعی کے قول پر عمل کرتے ہو۔

          میرے بھائیو! ایسا نہیں ہے، صرف تین قسم کے مسائل میں تقلید کی جاتی ہے، کیونکہ ان میں تقلید کے بغیر چارہ نہیں، کسی نہ کسی سے پوچھنا ہوگا، وہ جو کہے گا اس پر چلنا ہوگا، البتہ قرآن و حدیث میں جو منصوص مسائل ہیں، ان میں کسی کی تقلید نہیں۔

وجوبِ تقلید کی دلیل کا مطالبہ درست نہیں ‌؟

        میرے بھائیو! اب آخری بات عرض کرتا ہوں، واجب کی دو قسمیں ہیں: واجب لعینہ، اور واجب لغیرہ، یعنی ایک چیز خود واجب ہوتی ہے، دوسری چیز خود واجب نہیں ہوتی، دوسری چیز کی وجہ سے واجب ہوتی ہے، اول واجب لعینہ کہلاتی ہے، دوسری لغیرہ، اب قاعدہ سنو! واجب لعینہ کی تو آپ دلیل مانگ سکتے ہیں، کہ اس کی کیا دلیل ہے ‌؟ مثلاﹰ حنفیہ کے نزدیک وتر واجب ہے، آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وتر واجب ہے، اس کی کیا دلیل ہے ‌؟ لیکن واجب لغیرہ کی کوئی دلیل نہیں پوچھی جاتی، وہ تو غیر کی وجہ سے واجب ہوتا ہے، پس غور کرو! اس "غیر" میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ چیز واجب ہو ‌؟ اگر صلاحیت ہے تو وہ واجب ہے، اور اگر صلاحیت نہیں ہے تو وہ واجب نہیں۔

           تقلید جس دوسری چیز کی وجہ سے واجب ہے وہ "غیر" دین کا علم نہ ہونا ہے، جو شخص دین نہیں جانتا، اس پر واجب ہے کہ دوسرے سے پوچھے، ارشادِ پاک ہے:
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ
لٰہذا تمام وہ لوگ جن میں یہ "غیر" پایا جاتا ہے یعنی وہ دین کو کماحقہ نہیں جانتے، ان کےلئے ضروری ہے کہ وہ جاننے والوں سے پوچھیں، وہ بے چارے دین جانتے بھی نہیں، اور پوچھنے سے بھی منع کردیا جائے، تو دین پر کیسے عمل کریں گے ‌؟ ہاں اگر کوئی انسان ایسا ہے، جو ڈائرکٹ قرآن و حدیث کو سمجھ سکتا ہے، جس میں واقعی اتنی صلاحیت ہے، تو اس کےلئے تقلید واجب نہیں، تقلید ہم جیسوں کےلئے ہے، ہم براہِ راست قرآن و حدیث نہیں سمجھ سکتے، الغرض خود قرآن و حدیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے تقلید کا وجوب آیا ہے۔

         اب عنوان دیکھ لیں، مجھے یہ عنوان دیا گیا تھا "گمراہی کا بڑا سبب عدمِ تقلید ہے " اس عنوان کو میں نے بدلا ہے، کہ گمراہی کا بڑا سبب نااہلوں اور گمراہوں کی تقلید ہے، کیونکہ تقلید کے بغیر انسان کی گاڑیوں ایک قدم نہیں چل سکتی، دنیا کے معاملات ہوں، یا دین کے، ہر ایک میں تقلید ضروری ہے، اب یا تو معتبر، قابلِ اعتماد لوگوں کی تقلید کی جائے گی، جو قرآن و حدیث کے ماہر ہیں، یا پھر مداریوں (‌کرتب دکھانے والوں) کی تقلید کرنی ہوگی، چار پیسوں کے مولویوں کی تقلید کرنی ہوگی، بڑوں کی تقلید کریں گے، جنت میں جائیں گے، نااہلوں کی تقلید کریں گے، جھنم میں جائیں گے، لٰہذا گمراہی کا بڑا سبب، نابالغوں یعنی نااہلوں کی تقلید ہے، اس سے بچنے کی پوری کوشش کی جائے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِینَ

(ناقل، عادل سعیدی پالن پوری)

No comments:

Post a Comment