ایس اے ساگر
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ایمان کی ستر سے بھی کچھ اوپر شاخیں ہیں ۔ان میں سب سے اعلیٰ وافضل تو
لاالہ الا اللہ
کا قائل ہوناہے ۔(یعنی شہادت توحید دینا )اور ان میں ادنی درجہ کی چیز اذّیت رساں اور تکلیف دہ چیزوں کا راستے سے ہٹانا ہے، اور حیاء ایمان کی ایک (اہم )شاخ ہے۔
(بخاری،مسلم)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
(صحیح البخاری)
اسی حدیث مبارک میں ایمان کی ستر سے زائد شاخوں کاذکر کیا گیا ہے۔اکثر شارحینِ حدیث کا کہنا یہ ہے کہ یہاں عدد کے ذکر سے حصر(یعنی کسی خاص تعداد کا تعین ) مقصود نہیں ہے بلکہ محاورہ عرب کے مطابق یہ سمجھانا مقصود ہے کہ ایمان کے بہت سے شعبے ہیں۔ ’’ایمان کے شعبوں سے مراد وہ تمام اعمال واخلاق ،ظاہری اور باطنی وہ سب احوال ہیں جو کسی دل میں ایمان کے آجانے کے بعد اس کے نتیجہ اور ثمرہ کے طور پر اس میں پیدا ہوجانے چاہیں جسے کہ سرسبز وشاداب درخت سے برگ وبار نکلتے ہیں ۔ اس طرح گو یا تمام اعمالِ خیر واخلاق حسنہ واحوال صالحہ ایمان کے شعبے ہیں۔ البتہ ان کے درجات مختلف ہیں۔ اس حدیث میں ایمان کا سب سے اعلیٰ شعبہ لاالہ الا اللہ یعنی توحید کی شہادت کو بتلایا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں ادنی درجے کی چیز راستے سے تکلیف پہنچانے والی چیزوں کے ہٹانے کو قرار دیا گیا ہے۔ اب ان کے درمیان جس قدر بھی امور خیر کا تصور کیاجاسکتا ہے ۔ وہ سب ایمان کے شعبے اور اس کی شاخیں ہیں ۔خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہویا حقوق العباد سے اور ظاہرہے کہ ان کا عدد سینکڑوں تک پہنچے گا۔‘‘
اہل ایمان کی نفسیاتی اور روحانی تربیت کے لیے خاص طور’’حیائ‘‘ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ یہ گویا کہ سمند ر کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہے۔ کہاجاتا ہے کہ،
اذا ء فاتک الحیاء فافعل ماشئت
جب تیری حیاء مرجائے تو ، تو جوچاہے کر۔ایک حیاء کا مادہ طبیعت میں پیداہوجائے تو انسان ہزار ہا خرابیوں اور برائیوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
حیاء صرف انسانوں سے ہی نہیں بلکہ سب سے زیادہ حیاء تو اللہ رب العزت سے ہونی چاہئے۔ اس حیاء کی وضاحت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل ارشاد سے ہوجاتی ہے،
اللہ تعالیٰ سے ایسی حیاء کرو جیسی حیاء اس سے کرنی چاہئے۔ مخاطبین نے عرض کیا،
الحمد اللہ ہم خدا سے حیاء کرتے ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا،
یہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے حیاء کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اورسر میں جو افکار وخیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو اس میں بھر اہے، نگرانی کرو۔(یعنی فاسد خیالات اورحرام غذا سے بچو)موت اور موت کے بعد قبر میں تمہاری جو حالت ہونی ہے ۔اس کو یادرکھو، جس نے یہ سب کیا۔سمجھو کہ اس نے اللہ سے حیاء کرنے کا حق اداکیا۔(ترمذی )
No comments:
Post a Comment