Friday, 15 January 2016

میری بہن حیا کر The Niqaab

ایس اے ساگر
اسلامی تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں. ان تعلیمات سے ایسے تمام ذرائع کا سدِّ باب کیاگیا ہے جس سے معاشرہ میں اخلاقی بے راہ روی پھل پھول  سکتی ہے۔اسی لئے اسلام میں عورتوں کونا محرم مردوں کے سامنے بے حجابانہ جانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ انسان کی عقلِ سلیم بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے ۔ باغیرت خواتین نے اس حکم کی اطاعت بھی کی اوردورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے چودھویں صدی ہجری کے نصف تک انھوں نے بشمول چہرے کے پردہ کیا۔ اس موضوع پر مفتیان کرام کی رائے جاننے سے قبل بہتر پے کہ اسلامی اسکالر اسامہ شعیب کا موقف سمجھ لیا جائے. امت کی خواتین پردے کیلئے چادر یا ڈھیلے ڈھالے عبایا اور برقع وغیرہ کا استعمال کرتی تھیں۔ مخالفینِ اسلام نے جب دیکھا کہ عبایا یا برقع کو ختم کرنا ناممکن ہے تو انہوں نے ایک دل فریب چال چلی۔انہوں نے ضعیف اور کم زور احادیث کا سہارا لیکر خواتین کو چہرہ کھلا رکھنے پر اکسایااور جب وہ ایسا کرنے لگیں تو حجاب کیلئے ڈریس ڈیزائنرس سے شوخ، رنگین ،نقش و نگار، پھول اور بیل بوٹوں سے مزیّن کپڑے تیار کروائے گئے جن سے خواتین کی پیشانی ،بال اور چہرہ وغیرہ کو ایک خاص انداز سے دکھایا جاسکے اور اسی پر بس نہیں بلکہ ایسے عبایا اور برقع تیار کروائے گئے جو بظاہر  برقع ہیں لیکن اتنے چست اور تنگ کہ جسم کے نشیب و فراز بخوبی نظر آتے ہیں اور ان کو مزید دیدہ زیب بنایا گیاکہ اب جوعبایا یا برقع زینت چھپانے کیلئے اوڑھا جاتا تھا،  وہ بجائے خود زینت بن گیااور لوگوں کی نظریں ایسے ہی برقعوں کا تعاقب کرتی ہیں۔
کب سے شروع ہوئی یہ بیماری ؟
تاریخ شاہد ہے کہ چودھویں صدی کے نصف اخیر میں اسلامی نظام اور دعوت کے خاتمے، دینی اقدار کے کم زور پڑنے اور مغربی تہذیب وتمدن کے غلبے سے متاثر ہو کر سب سے پہلے مصر کی مسلم خواتین نے چہرے کا پردہ اتارا۔ والیِ مصر محمد علی پاشا کے دور میں رفاعہ طہطاوی نے فرانس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن پہنچ کر چہرے کے پردے کیخلاف ایک تحریک چلائی ،جسے مرقس فہمی،احمد لطفی سید،طہ حسین ،قاسم امین ،سعد زغلول اور احمد زغلول وغیرہ نے مزید آگے بڑھایا۔اس کیلئے باقاعدہ کتابیں اور میگزینس جاری کئے گئے۔جیسے’ تحریر المراة،المراة الجدیدة،المراة فی الشرق اورالسفور‘ وغیرہ،جس میں چہرے کے پردے اور برقع کیخلاف تحریری مہم چھیڑ دی اور فلمی اداکاروں کو خصوصی اہمیت دی گئی۔اس طرح سے یہ بیماری مصر،ترکی، شام، عراق سے ہوتے ہوئے رفتہ رفتہ پورے مسلم معاشرے میں پھیلتی چلی گئی۔
چہرے کے پردے کا وجوب :
جہاں تک چہرے کے پردے کی بات ہے تو عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہے۔کتاب و سنت میں اس کے متعدد دلائل موجود ہیں۔خود عہدِ نبوی سے لے کر خلافتِ راشدہ تک تمام مسلم خواتین کا اسی پر عمل رہا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
و لا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا
(النور:31)
”اور وہ (خواتین)اپنی زینت ظاہر نہ کریں،ہاں مگر وہ زینت جو ظاہر ہو جائے“۔
یہاں پر زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو خود بخود ظاہر ہو جاتی ہیں۔جیسے عورت کے بدن کا خاکہ یا خدّوخال، یا ہوا کی وجہ سے کبھی برقع یا چادر کھسک جائے توجو ظاہر ہو جائے ۔یعنی بلاارادہ خود سے جو کچھ بھی ظاہر ہو، وہ اس میں شامل ہے۔لیکن چہرے کو اس میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ اس کوجان بوجھ کر ہی کھولے گی۔اسی مفہوم کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،  حسن بصر ی ،ابن سیرین اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:
یا ایھا النبی قل لازوٰجک و بناتک و نساءالمومنین یدنین علیھن من جلٰبیبھن ذٰلک ادنیٰ ان یعرفن فلا یو ¿ذین و کان اللہ غفوراً رحیماً.
(الاحزاب:33)
”ائے نبی!اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادر لٹکا لیا کریں، یہ (بات اس کے)زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ایذا نہ پہنچائی جائے، اور اللہ بہت بخشنے والا،نہایت رحم کرنے والا ہے۔“
صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت سے مرادپورے بدن کیساتھ ساتھ چہرہ ڈھکنا بھی لیا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
”جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین سیاہ چادریں اوڑھے نکلیں۔“
(ابوداود:4101)
اور اگر چہرہ کھلا رہے گا تو کیا یہ ممکن ہے کہ عورت پہچان میں نہ آئے؟
سورة نور میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن
(النور:24)
”اور اپنے پاوں (زمین پر)نہ ماریں تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں“۔
یعنی اگر عورت نے پائل وغیرہ پہنی ہوئی ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ زمین پر پاوں مارتی چلے کہ مرد جھنکار سے اس کی طرف مائل ہو۔یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ پائل تک سے تو منع کیا جا رہا ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے کہ چہرہ ہی جس میں سارا حسن اورکشش ہے، اسے یو ں ہی لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینے کے لیے کھلا رکھنے کے لیے کہا جائے گا؟
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے،اگر ممکن ہو تو اس کا وہ پہلو دیکھ لے جو اسے عورت کے ساتھ نکاح کرنے پر آمادہ کرے۔(اگر ایسا ممکن ہو تو)تو ضرور ایسا کرے“۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
”اس کے بعدمیں نے بنی سلمہ کی ایک خاتون کو نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے انہیں کھجوروں کے درختوں کے پیچھے چھپ کر دیکھنے کی کوشش کی ۔آخر کارمیں نے انہیں دیکھ لیا جس سے مجھے ان سے نکاح کی رغبت ہوئی اور میں نے ان سے شادی کر لی“۔(ابوداود:2082)
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر اس زمانے میں خواتین اپنے چہروں کو کھلا رکھتی تھیں تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو اس خاتون کو چھپ کر دیکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
حضرت اسما ءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
”ہم اجنبی مردوں سے چہرے چھپایا کرتے تھیں“۔(المستدرک للحاکم:1/454)
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) فرماتے ہیں:
”قدیم و جدید دونوں دور میں خواتین اجنبیوں سے چہرے کا پردہ کرتی ہیں“۔
امام غزالی رحمة اللہ علیہ کے مطابق:
”مردوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ چہرا کھلا رکھتے اور عورتیں نقاب اوڑھ کر نکلا کرتی تھیں“۔
(فتح الباری:9/337)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ کرنا دینی تقاضے کے تحت نہیں، بلکہ یہ محض ایک علاقائی روایت ہے۔ لیکن عرب کے علاوہ ترکی،مصر،تیونس اور شام کی قدیم تصاویر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلم خواتین چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں۔ حوالہ کیلئے کتاب الطاہر الحداد و مسئلة الحداثة،احمد خالد سے رجوع کیا جاسکتا ہے.
فقہاءاحناف جیسے امام ابوبکرجصاص،امام علاوالدین، امام طحاوی اور حاشیہ ابن عابدین رحمہم اللہ وغیرہ کے مطابق:
”خواتین کیلئے اجنبی یا غیر محرم مردوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ چہرہ ننگا کرنا فتنے کا باعث ہو سکتا ہے“۔
مالکی مسلک کے حاملین اکابر فقہاءجیسے قاضی ابوبکر ابن العربی، قرطبی، امام ابن عبدالبراور امام آبی رحمہم اللہ وغیرہ کے مطابق:
”عورت کیلئے چہرہ کھولنا بوقت ضرورت ہی جائزہے اور اگر فتنہ کا ڈر ہو تو عورت کیلئے چہرہ اور ہاتھ دونوں کو چھپانا ضروری ہے“۔
(جواہر الاکلیل:1/41)
اورموجودہ دور میں تو کوئی کافر ہی فتنے سے انکار کرسکتا ہے کیوں کہ اس وقت نوجوان عورتیں تو دور،چھوٹی معصوم بچیاں بھی درندوں سے محفوظ نہیں ہیں۔
فقہاءشوافع جیسے اما م الحرمین جوینی، امام ابن رسلان، امام موزعی جیسے مشہور فقہاءکی رائے ہے کہ:
” فتنے کا خدشہ ہو یا نہ ہو،عورت کے لیے غیر محرم کے سامنے چہرہ کھولنا جائزنہیں ہے“۔
(روضة الطالبین:7/27)
حسن کا مرجع و منبع :
بہرحال درج بالا دلیلیں تو قرآن و حدیث سے تھیں لیکن اگر عقلی طور سے بھی دیکھا جائے تو ایک انصاف پسند آدمی بہت اچھے سے سمجھتا ہے کہ چہرہ ہی عورت کے حسن کا مرجع و منبع ہے اور فتنہ اسی کو دیکھنے سے ہوتا ہے۔چناں چہ وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایک عورت کو ہاتھ پیر اور گردن وغیرہ کو چھپانا چاہیے کہ اس سے انسان آزمائش میں پڑتا ہے اور اس کے جنسی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ،البتہ چہرے کو اپنے جلوہ اور تمام ترحشر انگیزیوں کے ساتھ کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور مرد اسے دیکھ کر قابو میں رہے گا۔
جو لوگ چہرے کاپردہ ضروری نہیں سمجھتے ہیں ان کو چاہیے کہ لڑکی کی منگنی کے وقت اس کاچہرہ دیکھنے کی بجائے صرف اس کا ہاتھ پیر ہی دیکھ لیا کریں، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ۔ اس وقت چہرہ دیکھنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا اصل حسن کس میں ہے؟
جو لوگ چہرے کے پردے کے قائل نہیں ہیں ،ان کی پہلی دلیل حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ہے :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن اپنے خطبہ کے آخر میں خواتین کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کو آپ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ایک’ میلے رخسار والی‘ عورت کھڑی ہوئی اور اس نے پوچھا:
اے اللہ کے رسول ، کیوں؟....“
اس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ’میلے رخسار والی‘سے ان لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس عورت کا چہرہ کھلا ہوا تھا لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس واقعہ کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت ابوہریرة ،حضرت عبداللہ ابن مسعود ،ابن عباس ،ابن عمر اور ابوسعید خدری رضوان اللہ علیہم اجمعین  نے بھی بیان کیا ہے لیکن کسی نے بھی لفظ ’میلے رخسار والی‘ کا استعمال نہیں کیا ہے۔اس لئے ممکن ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ اس خاتون کو پہلے سے جانتے رہے ہوں یا حکمِ حجاب سے پہلے بھی انہوں نے اسے دیکھا ہو یاہو سکتا ہے کہ وہ لونڈی ہوں کہ اس دور میں عموماً ایسی ہوا کرتی تھیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ حکمِ حجاب سے پہلے کا ہو کیوں کہ یہ حکم 4ھ میں نازل ہوا اور عید کی نماز 2ھ میں فرض ہو گئی تھی۔ فقہ میں ایک اصول ہے کہ کسی روایت کی تشریح میں احتمال ہو تو اس سے استدلال کرنا اور اسے بطور دلیل لینا درست نہیں ہوگا۔
چہرے کے پردے کے منکر اپنی دلیل میں ایک یہ بھی حدیث پیش کرتے ہیں کہ خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما  کے حوالے سے بتایا:
”حضرت اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کے بدن پر بارک کپڑے تھے۔آپ نے منہ پھر کر فرمایا:
اسما ،جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے چہرے اور ہاتھ کے سوا بدن کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہئے“۔
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے کیوں کہ امام ابوداؤد خود لکھتے ہیں کہ یہ خالد بن دریک کی مرسل روایت ہے ، اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا تھا اور اس کی سند میں ایک راوی سعید بن بشیر ابو عبدالرحمٰن بصری ہے جوضعیف ہے۔ان کے علاوہ اس میں دو راوی قتادہ اور ولید بن مسلم ہیں جو حدیث میں تدلیس کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس طرح سے یہ حدیث ضعیف ثابت ہوتی ہے اور اس کو بطور دلیل پیش کرنا درست نہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کیساتھ بیٹھے ہوں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑی ہیں وہ آپ کے سامنے باریک کپڑوں میں آجائیں۔ ان سے اس بات کی توقع کرنا نامناسب ہوگا کیوں کہ جاہلی دور میں بھی شرفاء کی خواتین پردہ کرتی تھیں تو اسلام آنے کے بعد تو بدرجہ اولیٰ اس پر توجہ دی گئی ہوگی۔
اسی ضمن میں ایک بات یہ بھی کہ بعض خواتین سے جب پردے کی بات کی جاتی ہے تو کہتی ہیں کہ اصل تو’ دل کا پردہ‘ ہونا چاہئے۔لیکن کیا ان کے دل امہات المومنین ،نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ماوں اور بہنوں سے زیادہ صاف اور پاکیزہ ہیں؟ ہرگز نہیں لیکن اس کے باوجود ان خواتین نے بشمول چہرے کے پردہ کیا۔اگر اس’ دل کے پردے‘ کے مفروضے کو ایک لمحے کیلئے تسلیم بھی کر لیا جائے تو پھر لباس ہی پہننے کی کیا ضرورت رہتی ہے ؟ بغیر لباس کے بھی تودل کا پردہ ہوسکتا ہے.... لیکن اس کیلئے کوئی تیار  نہ ہوگا۔ اس لئے صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو پردے کا حکم دیا ہے اس کو بے چوں چراں قبول کر لیا جائے، اسی میں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی ہے.
کیا کہتے ہیں فقہا ؟
سوال: پردے کی کیا حدود ہیں؟ پھر ایک ہی گھر میں مختلف طرح کے رہنے والے لوگوں سے پردہ کیسے ہو؟ 
پھر چہرہ پردہ میں داخل ہے یا نہیں؟ اگر داخل ہے تو قرآن و سنّت سے واضح دلیل پیش کریں، 
اور اگر ہو سکے تو پلیز پردے کی اقسام بھی ذکر کریں؟
جواب: قرآن میں تو پردے کا حکم دیا ہی گیا ہے، احادیث میں کثرت سے حکم کیساتھ ساتھ ترک پر وعیدیں بھی ذکر کی گئی ہیں، 
مثلاً
( 1) یٰٓأَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ ِلّأَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ"
ترجمہ: “اے نبی! اپنی بیویوں، صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ (جب باہر نکلیں تو) اپنے اُوپر بڑی چادریں جھکالیا کریں" یعنی کسی چادر وغیرہ سے اپنے آپ کو چھپا لیا کریں،
(2) وَقُلْ لِّلْمُوٴْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا۔”
ترجمہ: اور موٴمن عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں، مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے ․․․․الخ 
(سورة النور آیت:۳۰، ۳۱)
(3) وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّةِ الْأُوْلٰی" 
(الاحزاب:۳۳)
ترجمہ: اور ٹکی رہو اپنے گھروں میں اور مت نکلو پہلی جاہلیت کی طرح بن ٹھن کر،
(4) حدیث: سنن ابی داؤد اور ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن وہ اور حضرت میمونہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس حاضر تھیں کہ اتنے میں نابینا صحابی حضرت عبدالله بن ام مکتوم رضی الله عنہ آگئے، (اس وقت پردے کی آیت نازل ہو چکی تھی)
تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کہ تم دونوں پردے میں چلی جاؤ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، وہ تونابینا ہیں، نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ پہچان سکتے ہیں، 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور اسے نہیں دیکھ سکتیں؟
(5) حدیث: اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے کہ: "خواتین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز کے لئے مسجد آتی تھیں تو اپنی چادروں میں اس طرح لپٹی ہوئی ہوتی تھیں کہ پہچانی نہیں جاتی تھیں."
تو بس سبھی کو مدّنظر حجاب کی حدود کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
(١) عورت اپنے گھر میں اِس طرح رہے کہ کسی اجنبی مرد کی نگاہیں اُس پر بالکل بھی نہ پڑیں، نہ اُس کے بدن کے کسی حصّے پر ، نہ اُس کے کپڑوں پر اور نہ ہی اُس کے چہرے پر اور بلاضرورت گھر سے نہ نکلے.
(٢) اگر کبھی کوئی سخت ضرورت پیش آئے اور گھر سے نکلنا پڑے، تو برقعہ یا کسی بڑی چادر سے اِس طرح پردہ کیا جائے کہ پورا جسم چھپ جائے، یہاں تک کہ چہرہ اور ہتھیلیاں بھی ڈھکی رہیں.
(٣) جب سخت ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلے تو بڑی چادر اِس طرح اوڑھ کر نکلے کہ چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ کوئی بھی جگہ کھلی نہ رہے، 
لیکن چہرے اور ہتھیلیوں کے کھلا رکھنے کے لیے شرط یہ ہے کہ فتنے کا خوف نہ ہو، اگر فتنے کا خوف ہے تو پھر ان کا چھپانا بھی ضروری ہے، 
آج کے زمانہ میں چونکہ فتنوں کی کثرت ہے، تقوی و مجاہدہ معدوم ہے اسلئے موجودہ زمانے میں اجنبی مردوں کے سامنے بغیر کسی ضرورت کے چہرہ اور ہتھیلیاں کو کھلی رکھنا بھی جائز نہیں ہے.
خلاصہ یہ ہے کہ غیر محرم سے پردہ کرنا ضروری ہے، اور پورا پردہ کرنا ضروری ہے، چاہے گھر میں ہو یا باہر. 
ہاں! محرم سے پردہ ضروری نہیں ہے، یعنی گھر میں کام کاج کے وقت چہرہ ہاتھ پاؤں کا چھپانا ضروری نہیں ہے، باقی پورے بدن کا چھپانا محرم سے بھی ضروری ہے،
محرم: وہ مرد جس سے کبھی بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہے، جیسے باپ، بیٹا، بھائی، دادا، بھانجا، بھتیجا، پوتا، دوہتا، داماد وغیرہ "والمحرم من لا یجوز لہ مناکحتھا علی التابید بقرابة او رضاع او صھریة..الخ (شامی۲ص۴۶۴=منقول از آپکے مسائل اور انکا حل۵ص۲۹۵)
غیر محرم: جیسے بہنوئی، ماموں زاد، چچا زاد، پھوپھا، پھوپھا زاد، جیٹھ، دیوَر، منھ بولا بھائی وغیرہ وغیرہ.
واللہ اعلم بالصواب
India    Question: 21498
ڈگری کی طالبہ اور پرائیویٹ معلمہ ہوں۔ الحمد للہ، میں ہمیشہ اپنے ابا کا حکم مانتی ہوں، میرے ابا تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، لیکن اتنی سختی نہیں ہے۔ میں نے آپ کا فتوی پڑھا کہ بغیر شرعی پردہ کے پڑھنا یا پڑھا جائز نہیں ہے۔ اور ایک تبلیغی بھائی سے سنا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کبھی تعلیم دینے یا حاصل کرنے کے لیے گھر سے باہر قدم نہیں رکھے تھے۔ اب میری خواہش ہے کہ میں بھی گھر میں رہ کر اپنی اصلاح اور گھر کے کام کاج کروں، مگر میرے ابا اور بھائی اس کی اجازت نہیں دیں گے، وہ مجھے اور پڑھانا چاہیں گے۔ میں کیا کروں؟ دعاکریں کہ اللہ تعالی مجھے ہر حال میں اخلاص اور استقامت دے اور اپنے نیک بندوں میں شامل کرے، آمین۔
  Apr 22,2010  Answer: 21498
فتوی(ل): 678=450-5/1431
ماشاء اللہ آپ کی سوچ اچھی ہے اور آپ کا مزاج دینی مزاج معلوم ہوتا ہے، واقعی اس پرفتن دور میں بالغہ لڑکیوں کے لیے کالج جانا اور وہاں جاکر مخلوط ماحول میں تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں، آپ اپنے والد کو آمادہ کریں کہ وہ اب مزید کالج میں نہ پڑھائیں۔ عورتوں کاگھر میں رہ کر اپنی اصلاح میں لگے رہنا اور غیرمحرم سے پردہ کرنا عورت کو بہت سے گناہوں سے بچاتا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام بہنوں کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہرحال میں اخلاص اور استقامت دے اور اپنے نیک بندوں میں شامل کرے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، 
دارالعلوم دیوبند
مخلوط تعلیم پر وضاحت :
مخلوط تعلیم اسلام میں جائز ہے کہ نہیں؟کیوں کہ آج کل ساری یونیورسٹیاں مخلوط تعلیم کا نظام رکھتی ہیں، تو ہم اعلی تعلیم کیسے حاصل کریں؟
  Jul 14,2007
  Answer: 991
(فتوى:  398/م = 394/م)
جب لڑکے اور لڑکی بالغ یا قریب البلوغ ہوجائیں تو اب ان کے لیے ایک ساتھ بغیر حجاب و پردہ کے تعلیم حاصل کرنا درست نہیں رہتا، اس سلسلے میں مفصل جواب آپ کے مسائل اوران کا حل میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیا جائے، چونکہ وہ پاکستان کی صورت حال کے پیش نظر ہی لکھا گیا ہے اس لیے وہ آپ کے لیے زیادہ مفید ہے۔ رہا یہ سوال کہ آج کل جب ساری یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کا نظام رائج ہے تواعلیٰ تعلیم کیسے حاصل کی جائے؟ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ارباب حکومت یا قوم و ملت کے مقتدی حضرات اورمعاشرہ کے حساس افراد کو اس جانب توجہ دلائی جائے کہ وہ ایسی یونیورسٹیاں قائم کریں جہاں مخلوط تعلیم کی جگہ الگ الگ تعلیم کا نظم ہو۔ اورجن علاقوں میں مسلمان بے بس اورمجبور ہوں یاجب تک ایسی یونیورسٹیوں کا نظم نہ ہو، تو اس وقت تک یا ان مقامات میں مخلوط تعلیم والی موجودہ یونیورسٹیوں میں جہاں تک پردہ ممکن ہو وہاں تک پردہ کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
مفتی اعظم محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
" تفقہ فی الدین" اس کا نام نہیں کہ کسی چیز کو جان لے کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، یہ جائز ہے اور یہ ناجائز، مکروہ ہے یا مستحب، صرف اتنا جان لینے کا نام علم نہیں، دراصل تفقہ دین کی سمجھ بوجھ کا نام ہے، جس کے پیچھے عمل ہونا چاہیے، جس علم کے ساتھ عمل نہ آیا اور علم پر عمل مرتب نہ ہوا تو وہ علم کہلانے کا مستحق نہیں.
(تحفۃ المدارس،(1/346)
میری بہن تو حیا کر
سر سے ردا ہٹا کر
خود کو بنا سجا کر
سڑکوں پر مت چلا کر
میری بہن تو حیا کر
عورت تو وه هے جو کہ هر
غیر کی نظر سے خود کو بچائے رکهے
جامہ میں اپنے آ کر
میری بہن تو حیا کر
اسلام کا هے کہنا
ایمان میں خلا کا باعث هے تیرا جلوه
مردوں پہ یہ عطا کر
میری بہن تو حیا کر
عظمت وقار عفت پرده کی هے بدولت
پرده هے تیری عزت
عزت کو رکھ بچا کر
میری بہن تو حیا کر
تیری یہ کج ادائی تیری یہ بے حیائی
شوهر سے بے وفائی
شوهر سے تو وفا کر
میری بہن تو حیا کر
هے یہ گناه اکبر دنیائے بد سی بدتر
دوزخ هے تیرا مقدر
دوزخ سے تو ڑرا کر
میری بہن تو حیا کر
پرده میں ره کر جتنی تو چاهے کر ترقی
حائل نہیں هے کوئی
بهائی کی تو سنا کر
میری بہن تو حیا کر



The Niqaab 
in light of the Holy Quran and Sahih Hadith and in the Opinions of the scholars
From the Quran.....(This tafseer is Agreed upon by Ibn Kathir, Al-Qurtabi and At-Tabari)
The Noble Qur'an ........
Surah Al-Ahzaab, Verse #59
‘O Prophet! Tell your wives and your daughters and the women of the believers to draw their cloaks ("Jalabib") veils all over their bodies (screen themselves completely except the eyes or one eye to see the way Tafseer Al-Qurtabi) that is most convenient that they should be known (as such) and not molested: and Allah is Oft-Forgiving Most Merciful."
Surah An-Nur, Verses #30 and #31
‘And Say to the believing women to lower their gaze (from looking at forbidden things), and protect their private parts (from illegal sexual acts) and not to show off their adornment except only that which is apparent (like both eyes for necessity to see the way, or outer palms of hands or one eye or dress like veil, gloves, head cover, apron), and to draw their veils all over Juyubihinna (i.e. their bodies, faces, necks and bosoms) 
From the Hadith..... 
Sahih Al-Bukhari Volume 1, Book 8, Hadith # 368
Narrated 'Aisha (Radhiallaahu Ánha) Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) used to offer the Fajr prayer and some believing women covered with their veiling sheets used to attend the Fajr prayer with him and then they would return to their homes unrecognized . Shaikh Ibn Uthaimin in tafseer of this hadith explains "This hadith makes it clear that the Islamic dress is concealing of the entire body as explained in this hadith. Only with the complete cover including the face and hands can a woman not be recognized. This was the understanding and practice of the Sahaba and they were the best of group, the noblest in the sight of Allah (swt) with the most complete Imaan and noblest of characters. so if the practice of the women of the sahaba was to wear the complete veil then how can we deviate from their path? (Ibn Uthaimin in the book "Hijaab" page # 12 and 13) 
Abu Dawood Book 14, Hadith # 2482
Narrated Thabit ibn Qays (Radhiallaahu Ánhu): A woman called Umm Khallad came to the Prophet (Sallallaahu Álayhi Wasallam) while she was veiled. She was searching for her son who had been killed (in the battle) Some of the Companions of the Prophet (Sallallaahu Álayhi Wasallam) said to her: You have come here asking for your son while veiling your face? She said: If I am afflicted with the loss of my son, I shall not suffer the loss of my modesty. Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) said: You will get the reward of two martyrs for your son. She asked: Why is that so, oh Prophet of Allah? He replied: Because the people of the Book have killed him. 
Imaam Malik's MUWATTA Book 20 Hadith # 20.5.16
Yahya related to me from Malik from Hisham ibn Urwa that Fatima bint al-Mundhir (Radhiallaahu Ánha) said, "We used to veil our faces when we were in Ihram in the company of Asma bint Abi Bakr As-Siddiq (Radhiallaahu Ánha). "This again proves that not only the wives of Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) wore the Niqaab and that even though in Ihram women are not supposed to wear Niqaab but if men are there they still have to cover the face. 
Abu Dawood Book 33, Hadith # 4154, Agreed upon by Nasai
Aisha(Radhiallaahu Ánha) narrates that on one occasion a female Muslim wanted to give a letter to the Holy Prophet (Sallallaahu Álayhi Wasallam), the letter was delivered to the Holy Prophet (Sallallaahu Álayhi Wasallam) from behind a curtain. 
Abu Dawood Book 32, hadith # 4100
Narrated Umm Salamah, Ummul Mu'minin (Radhiallaahu Ánha): I was with Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) while Maymunah was with him. Then Ibn Umm Maktum came. This happened when we were ordered to observe veil. Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) said: Observe veil from him. We asked: oh Rasulullah! is he not blind? He can neither see us nor recognize us. Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) said: Are both of you blind? Do you not see him?
From the Sahaba (Radhiallaahu Ánhuma) .......
Ibn Ábbaas (Radhiallaahu Ánhu), who was one of the most knowledgeable companions of Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam), Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) even made duwaa for him saying "O Allah, make him acquire a deep understanding of the religion of Islam and instruct him in the meaning and interpretation of things."
Ibn Jarir (Rahimahullah) with an authentic chain of narrators has quoted Ibn Abbaas' (Radhiallaahu Án) opinion was "that the Muslim women are ordered to cover their head and faces with outer garments except for one eye." (This is quoted in the Ma'riful Qur'an in the tafseer of Surah Ahzaab ayah # 33, with reference of Ibn Jarir with a sahih chain of narrators). The Tabiee Ali Bin Abu Talha explained that this was the last opinion of Ibn Abbas and the other opinions quoted from him were from before Surah Al-Ahzaab, Verse #59 and the order of the "Jalabib". Shaikh Ibn Uthaimin commented on this saying of Ibn Abbaas (Radhiallaahu Ánhu) by saying "This statement is "Marfoo" and in shariah that is the same category as a hadith which is narrated directly from Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam).
Abdullah Ibn Mas'ud (Radhiallaahu Ánhu) Who was known as the most knowledgeable Sahabi in matters of Shariah. He became Muslim when he was a young kid and ever since that he stayed with Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) and gained the understanding of Quran from him. Umar Ibn Khattab (Radhiallaahu Ánhu) said about him "By Allah, I don't know of any person who is more qualified in the matters dealing with the Quran than Abdullah Ibn Mas'ud"
Explained, the word Jilbaab (as mentioned in the Quran Surah Ahzaab ayah # 59 ) means a cloak which covering the entire body including the head, face and hands. (Quoted from Ibn Taymiyyah (Rahimahullah) in his book on fatwaas Page# 110 Vol # 2 and By Shaikh Ibn Uthamin in the book Hijaab Page # 15)
Question: What is the Islamic hijab?
Response: The Islamic hijab is for the women to cover everything that is forbidden for her to expose. That is, she covers everything that she must cover. The first of those bodily parts that she must cover is her face. It is the source of temptation and the source of people desiring her. Therefore, the woman must cover her face in front of those men that are not mahram. As for those of who claim that the Islamic hijab is to cover the head, shoulders, back, feet, shin and forearms while allowing her to uncover her face and hands, this is a very amazing claim. This is because it is well known that the source of temptation and looking is the face. How can one say that the Shariah does not allow the exposure of the foot of the woman while it allows her to uncover her face? It is not possible that there could be in the Esteemed, Wise and Noble Shariah a contradiction.( 'Islamic Fatwas regarding Women' Page # 289)
Refutations from Shaikh Ibn Uthaimin
This is taken from the book "Hijaab" by Shaikh Ibn Uthaimin from Saudi Arabia. Printed by Madrasah Arabia Islamia Azaadville-South Africa.
Translated by Hafedh Zaheer Essack, Rajab 1416 (December 1995)
The Ullima who are of the opinion that it is permissible to look at the face and hands of a strange woman (who is not mahrrum) say so mainly for the following reasons.
The hadith of Aisha (Radhiallaahu Ánha) when Asmaa (Radhiallaahu Ánha) the daughter of Abu Bakr came to the Rasulullah (Sallallaahu Álayhi Wasallam) while wearing thin clothing. He approached her and said: 'O Asmaa! When a girl reaches the menstrual age, it is not proper that anything should remain exposed except this and this. He pointed to the face and hands. But this hadith is WEAK because of 2 main weaknesses.
1. There is no link between Aisha (Radhiallaahu Ánha) and Khalid bin Dareek, who narrated the hadith from her. And in every chain of narrators Khalid bin Dareek is mentioned.
2. In the chain os narrators Sa'eed bin Basheer appears, who is known by most of the Muhaditheen as being a weak narrator. This has been mentioned by Imaam Ahmad bin Hanbal (Rahimahullah), An-Nasai (Rahimahullah), Ibn Madeeni (Rahimahullah) and Ibn Ma'een (Rahimahullah). This is also why Imaam Bukhari (Rahimahullah) and Muslim (Rahimahullah) did not except this hadith to be in their books.
(From Shaikh Ibn Uthaimin in the book "Hijaab" pages # 17 and 18.)
We also have to see that the Muhadith Abu Dawood when he quoted this hadith put with it that it is Musal (with a broken chain that does not lead up to the Sahaba).
(From The Book "Hijaab wa Safur" under tha fatwaa of Shaikh AbulAziz Bin Bazz on Page #61. Also stated as being weak by Shaikh Nasirudden Al-Albaani in his Daeef Sunan Abu Dawud in Kitab-ul-Libas under hadeeth number 4092 (which is the original hadeeth number.) It has also been mentioned in the magazine called "Al Hijrah" that Ullima agree this hadith is weak.)
An other thing that shows the weakness of this hadith is that after the ayah for hijab (Surah Al-Ahzaab – Verse #59) was revealed then the women of Sahaba wore a complete veil and covered the faces and hands. This includes Asmaa (Radhiallaahu Ánha) the daughter of Abu Bakr, who is supposed to have narrated this hadith. Asmaa (Radhiallaahu Ánha)covered herself completly including tha face, this has been narrated in authentic hadith in Imaam maliks "MUWATTA Book 20 Hadith # 20.5.16."
Arabic words explained by Sahaba and Ullima....
Shaikh Ibn Al Hazam (Rahimahullah) writes: "In the Arabic language of the Prophet, Jalbab is the outer sheet which covers the entire body. A piece of cloth which is too small to cover the entire body could not be called Jalbab." (Al Muhalla, vol. 3, p.217.)
The Tabi'ee, Qatadah (Rahimahullah), stated that the Jilbab should be wrapped and fixed from above the forehead and made to cover the nose, (although the eyes are to show) and the chest and most of the face are to be covered.
Jalabib, which is used in the verse is the plural of Jalbab. "Jalbab, is actually the outer sheet or coverlet which a woman wraps around on top of her garments to cover herself from head to toe. It hides her body completely." Lisan ul Arab vol 1 p. 273. (The best explanation is that it is what we would today call a burqa or an abiya.)
Ibn Masood (Radhiallaahu Ánhu) explained Jilbab to be a cloak covering the entire body including the face and hands. (fatwaa Ibn Taymiyyah Page #110 Vol. #2)
What is Hijab really mean?
"The root word of hijab is hajaba and that means: (hajb) to veil, cover, screen, shelter, seclude (from), to hide, obscure (from sight), to make imperceptible, invisible, to conceal, to make or form a separation (a woman), to disguise, masked, to conceal, hide, to flee from sight, veil, to veil, conceal, to cover up, become hidden, to be obscured, to vanish, to become invisible, disappear from sight, to veil, to conceal, to withdraw, to elude perception.
Hajb: seclusion, screening off, keeping away, keeping off,
Hijab plural: hujub: cover, wrap, drape, a curtain, a woman's veil, screen, partition, folding screen, barrier,
Ihtijab: Concealment, hiddenness, seclusion, veildness, veiling, purdah.
Hijab: Concealing, screening, protecting,
Mahjub: concealed hidden, veiled!
These definitions of the hijab were taken from the: Arabic-English Dictionary, The Hans Wehr dictionary of modern written arabic, edited by JM Cowan.

No comments:

Post a Comment