ایس اے ساگر
اللہ تعالیٰ نےجب شیطان کو اپنے دربار سے دھتکار دیا، شیطان دھتکار دیا گیا تو شیطان نے اللہ کی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہا کہ پروردگارا تیری عزت و جلال کی قسم ہے اب میں قیامت تک تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہونگا ، تیرے بندوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہا کہ شیطان میری عزت و جلال کی قسم تو گمراہ کرتا رہ میری عزت و جلال کی قسم میں میرے بندے جب بھی گناہ ہو جائے گناہ ہونے کے بعد جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے ، استغفار کرتے رہیں گے میں انہیں اس وقت تک معاف کرتا رہوں گا، معاف کرتا رہوں گا، اللہ نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہا کہ وہ اپنے استغفار کرنے والے بندوں کو معاف کیا کرتا ہے تو لہٰذا جب کبھی ہم سے گناہ ہو جائے ، جب کبھی ہم سے لرزش ہوجائے، جب کبھی ہم سے خطا ہو جائے ، غلطیاں ہو جاتی ہے، ہم جان بوجھ کر بھی کرتے ہیں اور انجانے میں بھی کرتے ہیں.زمین اس وقت تک اللہ کے عذاب سے مجفوظ رہے گی جب تک دو باتیں ہیں
يقول عمر بن الخطاب رضي الله عنه : لقد كان في الأرض أمانان من عذاب الله .. رفع الأول وبقي الثاني !
فأما الأول : فكان وجود رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الناس .. "وماكان الله ليعذبهم وأنت فيهم"
وأما الثاني : فهو "الاستغفار" ..
"وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون"
"وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون"
فلا تترك الاستغفار أبداً ..
ولا تنس أن لك مثل أجر المستغفرين بسبب تذكيرك ,
ولا تنس أن لك مثل أجر المستغفرين بسبب تذكيرك ,
غفر الله لي ولكم ولوالدينا وللمسلمين والمسلمات الأحياء منهم والأموات
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ،
زمین اس وقت تک اللہ کے عذاب سے مجفوظ رہے گی جب تک دو باتیں ہیں ایک ختم ہو گئی، ایک باقی ہے. پہلی بات یہ کہ اللہ پاک اس وقت تک عذاب نہیں دےگا جب تک اب ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، دوسرے جب تک یہ استغفار کریں گے.
زمین اس وقت تک اللہ کے عذاب سے مجفوظ رہے گی جب تک دو باتیں ہیں ایک ختم ہو گئی، ایک باقی ہے. پہلی بات یہ کہ اللہ پاک اس وقت تک عذاب نہیں دےگا جب تک اب ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، دوسرے جب تک یہ استغفار کریں گے.
کس قدرکرنا ہے استغفار؟
ہمیں ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے کثرت سے استغفار کو لازم پکڑنا چاہئے ۔ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَالَّذِےْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَلَمْ ےُصِرُّوْا عَلٰی مَافَعَلُوْا وَھُمْ ےَعْلَمُوْنَ
(سورۂ ال عمران : ۱۳۵)
اللہ کے بندے وہ ہیں کہ جب کبھی ان سے کسی بے حیائی کا ارتکاب ہو جائے، غلت کام ہو جائے، اپنے آپ پے ظلم کر بیٹھے، تو فورن اللہ کو یاد کرتے ہیں، اللہ کی عظمت کو یاد کرتے ہیں، اس کے عذاب کا خوف کرتے ہیں اور اللہ کو یاد کرکے فورا
فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ
اپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں، اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِی کہہ دیتے ہیں، استغفر اللہ پڑھ دیتے ہیں اور وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کے سوا اور کس کی ہو سکتی ہے۔
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہیں بندہ گناہ کرتا ہے اور جب استغفار کرتا ہے تو اللہ فرشتوں سے کہتا ہے فرشتوں دیکھو میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے، فرشتوں گواہ رہو میرا بندہ گناہ کرکے معافی مانگ رہا ہے میں تمہیں گواہ بناکے کہتا ہوں کہ میں نے میرے بندے کو معاف کر دیا۔ معافی ہو گئی چند دنوں بعد پھر سے گناہ ہوگیا ، بندے نے کہا پروردگارا معاف کردے۔ اللہ فرشتوں سے کہتا ہے یہ میرا بندہ ہے اس سے غلطی ہو گئی غلطی کر کے مجھ سے معافی مانگ رہا ہے فرشتوں گواہ رہو میں تمہیں گواہ بناکے کہتا ہوں کہ میں نے میرے بندے کو معاف کر دیا۔ توبہ ہو گئی چند دنوں بعد پھر سے لرزش ہو گئی انسان ہے بشری تقاضا غالب آگیا غلطی ہوگی پھر سے نادم ہوا، شرمندہ ہوا، استغفار کیا اللہ کہتا ہے اے میرے فرشتوں دیکھو یہ میرا بندہ جو مجھ سے استغفار کر رہا ہے ندامت کے ساتھ، احساس کے ساتھ تمہیں گواہ بنا کہ کہتا ہوں کہ میں نے اسے معاف کردیا اور اے فرشتوں ابھی نہیں جب تک یہ میرا بندہ استغفار کرتا رہے گا تب تک میں اس کے حق میں بخشش لکھتا رہوں گا معافی لکھتا رہوں گا۔ استغفار کا عمل اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ ہمارے بڑے اور چھوٹے گناہ رب العالمین معاف کر دیا کرتا ہے ہمیشہ استغفار کو لازم پکڑنا چاہئے۔ استغفار کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دلوں کی کیفیت دل ہمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتے دل پے غفلت تاری ہو جاتی ہے غفلت کے پردے دل پے پڑ جاتے ہیں دل اللہ کی یاد سے آخرت سے غافل ہو جاتا ہے ، ایمان کی ہرارت محصوص نہیں کرتا، ایمان کی مٹھاس محصوص نہیں کرتا ، ایمان کی ترو تازگی جاتی رہتی ہے ، ایسے موقع پر اگر بندہ کثرت سے استغفار کرتا ہے تو ایمان کی مٹھاس لوٹ آتی ہے ، غفلت کے پردے دور ہو جاتے ہیں، ایمان ترو تازہ ہوجاتا ہے اور یقیناًایمان میں اضافیٰ ہو جاتا ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا : لوگوں میرے دل کی کیفیت بھی بدل جایا کرتی ہے ، میرا دل بھی ہمیشہ ایک حالت میں رہتا نہیں ہے میرے دل کی کیفیت بھی بدل جاتی ہے، میں اپنے دل کو پرانی حالت میں لوٹانے کے لئے اللہ رب العالمین سے سو سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ کیا بات ہے ہم نمازیں پڑھتے ہیں نمازوں میں لزت ہی نہیں، عبادت کرتے میں عبادت میں لزت نہیں، ایمان کی مٹھاس دل میں محصوص نہیں ہوتی اور اس کا اعلاج یہ ہے کہ بندہ کثرت سے استغفار کرتا رہے ، استغفر اللہ ، استغفر اللہ کہتا رہے اپنے گناہوں کے احساس کے ساتھ کہ پروردگارا میں گنہگار ہوں ، میں قصور وار ہوں اور میں تجھ سے مغفرت کا طالب ہوں اس احساس سے اگر استغفار ہوگا تب ایمان کی مٹھاس آپ محصوص کریں گے ، نمازوں اور عبادت میں لزت آپ محصوص کریں گے بشرط یہ کہ عبادت کے ساتھ ساتھ کثرت سے استغفار ہو اس لئے کہ صرف استغفار سے دل اپنی ایمانی حالت پر لوٹ آتے ہیں ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور شیطانی وساوس جاتے رہتے ہیں۔ حضرات اللہ تعالی کی پکڑ اس کا عذاب مختلف سورتوں میں آتا ہے قرآن کہتا ہے کہ عذاب سے بچنے کا راستا بھی استغفار ہے۔ اللہ کی پکڑ اور عذاب سے بجنا چاہتے ہو ، اللہ کے کوڑے کی مار سے خود کو بچانا چاہتے ہو تو اللہ کے بندوں استغفار کرو۔
سورۂ انفال میں کہا گیا :
وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِےُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِےْھِمْ وَمَاکَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ ےَسْتَغْفِرُوْنَ
(سورۂ الانفال : ۳۳)
اے پیغمبر! آپ کے ان کے درمیان میں رہتے ہوئے اللہ ان پر عذاب نہ دے گا، اور انسان جب تک استغفار کرتے رہیں گے ، معافی مانگتے رہیں گے ، استغفار کرنے والے بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ عذاب نہ دے گا جب تک بندے استغفار کرتے رہیں گے رب العالمین اپنا عذاب اپنا کوڑا ان سے دور ہٹاتا رہے گا ٹالتا رہے گا۔ غور کیا جائے ہم میں سے کتنوں کی زندگی میں اللہ کا عذاب رہے گا اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں کی سزا دے رہا ہوگا، تجارت میں نخصان کی شکل میں، امراض کی شکل میں، بیماریوں کی شکل میں رنج و غم کی شکل میں، اللہ کہتا ہے بندوں استغفار کرو گے میرا عذاب تم پر سے ہٹ جائے گا میرا عذاب تم پر سے ٹل جائے گا۔
Jazak Allah
ReplyDelete