Thursday 21 January 2016

خطرے کی گھنٹی بجارہے میں موبائل فون!

ایس اے ساگر
ایک انڈے کو 2موبائل فونوں کے درمیان ایڈجسٹ کر کے ایک فون سے دوسرے پر 65 منٹ کی ایک کال کی گئی۔پہلے 15 منٹ میںتو کچھ نہیں ہواجبکہ25 منٹ کے بعد انڈہ گرم ہونا شروع ہو گیا اور 65 منٹ بعدتو انڈا پک گیا۔اب ذراسوچئے کہ موبائل فون سے نکلنے والی مائکرو ویو ریڈئیشن ایک انڈے کا یہ حال کر سکتی ہیں تو فون پر طویل گفتگو کرنے پر آپ دماغ پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہوں گے؟موبائل فون اور موبائل ٹاور سے نکلنے والا ریڈیشن صحت کیلئے خطرہ بھی ثابت ہو سکتا ہے لیکن کچھ احتیاطی تدابیربروئے کار لائی جائیںتو موبائل ریڈئیشن سے درپیش خطرات سے کافی حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔اس سلسلہ میں ماہرین نے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے جنھیں ذہن میں محفوظ کرنا ہرصارف کیلئے ضروری ہی نہیں بلکہ لازم بھی ہوجاتا ہے۔
ریڈئیشن سے صحت پر منفی اثر؟
اس سلسلہ میںموبائل ریڈیشن پر متعدد تحقیقی مقالے تحریر کرنے والے آئی آئی ٹی بامبے میں الیکٹریکل انجنیئر پروفیسر گریش کمار کا کہنا ہے کہ موبائل ریڈیشن سے جو پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہیں ان میں سردرد، سر میں جھنجھناہٹ، مسلسل تھکن محسوس کرنا، چکر آنا، ڈپریشن، نیند نہ آنا، آنکھوں میں ڈرائنےس، کام میں توجہ کا فقدان، کانوں کا بجنا، سماعت میں کمی، یاداشت میں دیوالیہ پن،نظام ہضم میں خرابی، بے قاعدہ حرکت قلب اور جوڑوں میں درد جیسے سنگین عوارض شامل ہیں۔
دیگر خطرات بھی 
ہیں درپیش؟
اسٹڈی کہتی ہے کہ موبائل ریڈیشن سے طویل کے بعد بچوں کی پیدائش کی صلاحیت میں کمی، کینسر، برین ٹیومر اور مس کیرےج کا خدشہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔ دراصل انسانی جسم میں 70 فیصد پانی ہے جبکہ دماغ میں بھی 90 فیصد تک پانی ہوتا ہے۔ یہ پانی بتدریج باڈی ریڈئیشن کو جذب کرتا ہے حتی کہ مستقبل میں صحت کیلئے کافی نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ گزشتہ سال جاری عالمی تحفظ صحت ادارہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن یا ڈبلیواےچ او کی رپورٹ کے مطابق موبائل سے کینسر تک ہونے کا خدشہ لاحق ہے جبکہ انٹرفون اسٹڈی میں کہا گیا کہ روزانہ آدھے گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت کیلئے موبائل فون کا استعمال کرنے پر 8تا10 سال کے دوران دماغ ٹیومر کا خدشہ 200تا400 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
موبائل فون کینسر کا سبب بن سکتے ہیں:
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کیڑے مار دوا ڈی ڈی ٹی، انجن کے دھویں اور کافی کی طرح موبائل فون بھی کینسر کا باعث بننے والے عناصر میں شمار کئے جا سکتے ہیں۔کینسر کا شکار ہونے کے خطرات کئی طرح کے عناصر پر منحصر ہوتے ہیں۔ کینسر ریسرچ ایجنسی نے الکوحل کے حامل مشروبات کو’معلوم‘جبکہ رات کے وقت کام کرنے کو’ممکنہ‘طور پر کینسر کا باعث بننے والے عناصر میں شمار کیا ہے۔ موبائل فون، مائیکرو ویو اوون اور راڈار میں استعمال ہونے والی برقناطیسی ریڈئیشن کی تحقیق سے محدود تعداد میں شواہد سامنے آئے ہیں کہ موبائل فون دو طرح کے برین ٹیومر کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے موبائل فون سے کینسر لاحق ہونے کا غیر مصدقہ نتیجہ اخذ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس غیر مصدقہ نتائج کی وجہ سے تحقیق جاری ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے فیصلے کے مطابق اگرچہ موبائل فونز کے کینسر سے منسلک ہونے کے چند شواہد سامنے آئے ہیں لیکن وہ اس قدر کمزور ہیں کہ ان کی بنا پر کوئی واضح نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
کتنی طرح کا ہوتا ہے
ریڈئیشن؟
مائکروو
یو ریڈئیشن ان الیکٹرومیگنیٹک ویوس کی وجہ سے ہوتا ہے جن کی فریکوئنسی 1000 سے 3000 مےگاہرٹز ہوتی ہے۔ مائکرووےو اوون، اے سی، وائرلیس کمپیوٹر، کورڈلےس فون اور دیگر وائرلیس ڈیوائسیں بھی ریڈئیشن پیدا کرتی ہیں لیکن مسلسل بڑھتے ہوئے استعمال، جسم سے نزدیکی اور بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے موبائل ریڈئیشن سب سے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ موبائل ریڈئیشن2قسم کا ہوتا ہے، پہلاموبائل ٹاورسے جبکہ دوسرا موبائل فون سے۔
 کسے ہوتا ہے ریڈئیشن سے زیادہ نقصان؟
میکس ہیلتھ کئیر میں کنسلٹینٹ نیورولجسٹ ڈاکٹر پنیت اگروال کے مطابق موبائل ریڈئیشن ہر عمر کے افراد کیلئے نقصان دہ ہے لیکن بچے، خواتین، عمر رسیدہ افراد اور مریضوں کو اس سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ کے فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوعمروں کو موبائل پرزیادہ وقت نہیں گزارنا چاہئے اورا سپیکر فون یا ہینڈسیٹ کا استعمال کرنا چاہئے تاکہ سر اور موبائل ہینڈ سیٹ کے درمیان فاصلہ قائم رہے جبکہ بچوں اور اور حاملہ خواتین کو بھی موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچنا چاہئے۔
موبائل ٹاور یا موبائل فون؛ 

کس سے زیادہ ہے نقصان؟
پروفیسرگریش کمار کے مطابق بظاہرموبائل فون انسانی جسم کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لئے اس سے نقصان زیادہ ہونا چاہئے جبکہ زیادہ پریشانی موبائل فون کے ٹاوروں سے ہوتی ہے کیونکہ موبائل کا استعمال مسلسل نہیں کیا جاتا لیکن موبائل فون کے ٹاور مسلسل چوبیس گھنٹے ریڈئیشن پھیلاتے رہتے ہیں۔ موبائل پر اگر کوئی شخص گھنٹہ بھر بات کرتا ہے تو اس سے پیدہ شدہ نقصان کی تلافی کیلئے 23 گھنٹے درکار ہوتے ہیں جبکہ ٹاور کے قریب رہنے والے اس سے نکلنے والی لہروں کی زد میںمسلسل پھنسے رہتے ہیں۔ اگر گھر کے سامنے ٹاور نصب ہے تو اس میں رہنے والے لوگوں کو 2تا3 سال کے اندر صحت سے متعلق دشواریاں پیش ہونی شروع ہو سکتی ہیں۔ ممبئی کی اوشا کرن بلڈنگ میں کینسر کے کئی معاملے سامنے آنے سے جو بیداری پیدا ہوئی ہے اسے موبائل ٹاور ریڈئیشن سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معروف فلم اداکارہ جوہی چاولہ نے تو سردرد اور صحت سے متعلق دیگرپریشانیاں درپیش آنے پر اپنے گھر کے آس پاس سے 9 موبائل ٹاور کو ہٹوایا۔
موبائل فون کے ٹاور کس علاقہ میں ہیں زیادہ نقصان دہ ؟
موبائل ٹاور کے 300 میٹرکے دائرے میں سب سے زیادہ ریڈئیشن ہوتا ہے۔ا ی ٹ ی نا کے سامنے والے حصے میں سب سے زیادہ لہریں خارج ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ سامنے کی جانب ہی نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے بمقابلہ پیچھے اور نیچے کے۔ موبائل ٹاور سے درپیش نقصان میں یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ گھر ٹاور پر لگے ا یٹےنا کے سامنے ہے یا پیچھے۔ اسی طرح فاصلے بھی بہت اہم ہے۔ ٹاور کے ایک میٹر کے ایریا میں 100 گنا زیادہ ریڈیشن ہوتا ہے۔ ٹاور پر جتنے زیادہ ا ٹےنانصب ہوں گے، ریڈئیشن بھی اتنازیادہ ہوگا۔
کتنی دیر تک موبائل کا استعمال درست ہے؟
دن بھر میں 24 منٹ تک موبائل فون کا استعمال صحت کے لحاظ سے مفید ہے۔ یہاں یہ بھی اہم ہے کہ آپ کے موبائل کی SARویلیو کیا ہے؟ زیادہ SAR ویلیو کے فون پر کم دیر بات کرنا کم SAR ویلیو والے فون پر مزید بات کرنے سے مزید نقصان دہ ہے۔ لمبے وقت تک بات چیت کیلئے لینڈ لائن فون کا استعمال ریڈیشن سے بچنے کا آسان طریقہ ہے۔ اسے ایسے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آفس یا گھر میں لینڈ لائن فون کا استعمال کریں۔
کورڈلیس فون کے استعمال سے گریز کریں۔
اعداد و شمارخود دیتے ہیں گواہی:
2010 میں ڈبلیوا
یچ اوکی ایک ریسرچ میں انکشاف ہوا کہ موبائل ریڈیشن سے کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔
2: ہنگری میں سائنس دانوں نے پتہ چلایاہے کہ جو نوجوان بہت زیادہ موبائل فون کا استعمال کرتے تھے، ان کے اسپرم کی تعداد کم ہو گئی۔
3: جرمنی میں ریسرچ کے مطابق جو لوگ ٹرانس میٹر ا یٹےنا کے 400 میٹر کے دائرہ میں رہ رہے تھے ‘ ان میں کینسر ہونے کے خدشات تین گنا بڑھ گئے جبکہ 400 میٹر کے ایریا میں ٹرانس میشن دیگرعلاقوں سے 100 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
4: کیرالہ میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق موبائل فون ٹاوروں سے ہونے والے ریڈئیشن سے شہدکی مکھیوں کی تعدادکمرشل آلودگی 60 فیصد تک گر گئی ہے۔
5: موبائل فون ٹاور کے قریب جن گوریوں نے انڈے دئے، 30 دن گذرنے کے باوجود بھی ان میں سے بچے نہیں نکلے، جبکہ عام طور پر اس کام میں 10تا14 دن لگتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ ٹاورس سے کافی ہلکی فریکوئنی یعنی900 سے 1800 مےگاہرٹز کی الیکٹرو میگنیٹک و
یوز خارج ہوتی ہیں لیکن یہ بھی چھوٹے چوزوں کو کافی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
6:2010 کی انٹرفون اسٹڈی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ طویل عرصے تک موبائل کے استعمال سے ٹیومر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
ریڈئیشن کے سلسلہ میں کیا ہیںرہنما خطوط؟
جی ایس ایم ٹاور کیلئے ریڈئیشن لمٹ 4500 ملی واٹ فی میٹر اسکوائر طے کی گئی لیکن انٹرنیشنل کمیشن آن نان آیونائزنگ ریڈئیشن یاآئی سی اےن آئی آرپی کے رہنماخطوط جوہندوستان میں نافذ کئے گئے ہیں، وہ دراصل شارٹ ٹرم یا ایکسپوزریا قلیل المدتی اخراج کیلئے تھیں جبکہ موبائل ٹاور سے تو مسلسل ریڈئیشن ہوتا ہے۔ اس لئے اس لمٹ کو کم کر 450 ملی واٹ / مربع میٹر کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ حالانکہ پروفیسر گریش کمار کا کہنا ہے کہ یہ حد بھی بہت زیادہ ہے اور صرف 1 ملی واٹ /مربع میٹر ریڈئیشن بھی نقصان دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریا میں 1 ملی واٹ / مربع میٹر اور ساو تھ ویلز، آسٹریلیا میں 0.01 ملی واٹ /مربع میٹر لمٹLimitیا حد ہے۔
کس لیول پر ہے دہلی میں موبائل ریڈئیشن ؟
2010 کے دوران ایک میگزین اور کمپنی کے سروے میں دہلی میں 100 جگہوں پر ٹےسٹنگ کی گئی تو پتہ چلا کہ دہلی کا ایک چوتھائی حصہ ہی ریڈئیشن سے محفوظ ہے لیکن ان جگہوں میں دہلی کے وی وی آئی پی علاقے ہی زیادہ ہیں۔ ریڈئیشن کے لحاظ سے دہلی کا کناٹ پلیس، نئی دہلی ریلوے اسٹیشن، خان مارکیٹ، کشمیری گیٹ،وسنت کنج،کڑکڑڈوما،حوض خاص، گریٹر کیلاش مارکیٹ، صفدر جنگ اسپتال،سنچار بھون، جنگ پورا، جھڈے والان، دہلی ہائی کورٹ کو ڈےنجر ایریا میں شامل کیا گیاہے جبکہ دہلی کے نامی گرامی اسپتال بھی اسی ریڈئیشن کی زد میں ہیں۔
کس طرح کم کر سکتے ہیں موبائل فون ریڈئیشن؟
ریڈئیشن کم کرنے کیلئے اپنے فون کے ساتھ فےرائٹ بیڈ یاریڈئیشن خشک کرنے والا ایک آلہ بھی لگا سکتے ہیں۔دوسرے موبائل فون ریڈئیشن شیلڈ کا استعمال بھی اچھا طریقہ ہے جبکہ آج کل بعض کمپنیاں مارکیٹ میں اس طرح کے آلات فروخت کر رہی ہیں۔تیسرے ریڈیشن بلاک ا ےپلی کیشن کا استعمال کر سکتے ہیں۔ دراصل یہ خاص طرح کے سافٹ ویئر ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت تک وائی فائی، بلیو ٹوتھ، جی پی ایس یاا یٹےنا کو بلاک کر سکتے ہیں۔
ٹاور کے ر
یڈ یشن سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
موبائل ریڈئیشن سے بچنے کیلئے یہ طریقہ کارگر ہو سکتے ہیں:
1: جتنا ممکن ہوموبائل ٹورو سے دور رہیں۔
2: ٹاور کمپنی سے ا یٹےنا کا پاور کم کرنے کیلئے کہیں۔
3: اگر گھر کے بالکل سامنے موبائل ٹاور ہے تو گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کر کے رکھیں۔
4: گھر میں ریڈیشن ڈٹیکٹر کی مدد سے ریڈیشن کا لیول چیک ڈاو ن لوڈکرنا، جس علاقے میں ریڈئیشن زیادہ ہے، وہاں کم وقت گذاریں۔
5:Detex نام کا ریڈیشن ڈٹیکٹر قریب 5000 روپے میں دستیاب ہے۔
6: گھر کی کھڑکیوں پر مخصوص قسم کی فلم نصب کر سکتے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ ریڈئیشن گلاس کے ذریعے آتا ہے۔ ایک کھڑکی کیلئے اینٹی ریڈئیشن فلم کی قیمت قریب 4000 روپے میںپڑتی ہے۔
7: کھڑکی دروازوں پر شیلڈنگ پردے لگوا سکتے ہیں۔ یہ پردے کافی حد تک ریڈئیشن کو روک سکتے ہیں۔ متعدد کمپنیاں ایسی مصنوعات تیارکرتی ہیں۔
کیا کم سگنل بھی ہو سکتے ہیں مہلک؟
اگر سگنل کم آ رہے ہوں تو موبائل کا استعمال نہ کریں کیونکہ اس دوران ریڈیشن زیادہ ہوتا ہے۔ پورے سگنل آنے پر ہی موبائل استعمال کرنا چاہئے۔ موبائل کا استعمال کھڑکی یا دروازے کے پاس کھڑے ہو کر یا کھلے میں کرنا بہتر ہے کیونکہ اس سے لہروں کو باہر نکلنے کا راستہ مل جاتا ہے۔
اسپیکر پر بات کرنا کتناہے مددگار؟
موبائل جسم سے جتنا دور رہے گا، اس کا نقصان بھی کم ہوگا، اس لئے فون کو جسم سے دور رکھیں۔ بلیک بیری فون میں ایک میسیج بھی آتا ہے جو کہتا ہے کہ موبائل کو جسم سے 25 ملی میٹر یاتقریبا 1 انچ کی دوری پر رکھیں۔ سیمسنگ گےلیکسی ایس 3 میں بھی موبائل کو جسم سے دور رکھنے کا میسیج آتا ہے۔ راک لینڈاسپتال میں ای این ٹی اسپیشلسٹ ڈاکٹر دھیریدر سنگھ کے مطابق الیکٹرو میگ نیٹک ریڈئیشن سے بچنے کیلئے ا سپیکر فون یاہینڈنس فری کا استعمال کریں۔ ایسے ہیڈ سیٹ استعمال کریں جن میں ایئر پیس اور کانوں کے درمیان پلاسٹک کی ایئر ٹیوب نصب ہو۔
کیا موبائل تکیہ کے نیچے رکھ کر سونادرست ہے؟
موبائل کو ہر وقت جیب میں رکھ کر نہ گھومیں، نہ ہی تکیہ کے نیچے یا بغل میں رکھ کر سوئیں کیونکہ موبائل ہر منٹ گذرنے پر ٹاور کو سگنل بھیجتا ہے۔ بہتریہ ہے کہ موبائل کو جیب سے نکال کر کم سے کم دو فٹ یعنی تقریبا ایک ہاتھ کی دوری پر رکھیںجبکہ سونے کے دوران بھی اس فاصلہ کو قائم رکھیں۔
کیاجیب میں موبائل رکھنا دل کیلئے نقصان دہ ہے؟
ایسکارٹس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں کارڈیک سائنسز کے چیئرمین ڈاکٹر اشوک سیٹھ کے مطابق ابھی تک موبائل ریڈئیشن اور دل کی بیماری کے درمیان براہ راست طور پر کوئی ٹھوس تعلق سامنے نہیں آیا ہے لیکن موبائل کے بہت زیادہ استعمال یا موبائل ٹاور کے قریب رہنے سے دیگر مسائل کیساتھ ساتھ دل کی دھڑکن کا بے قاعدہ ہونے کا خدشہ ضرورلاحق رہتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم احتیاط برتے اور موبائل کا استعمال کم کریں۔
پی
س میکر لگا ہے تو کیا موبائل زیادہ نقصان دہ ہے؟
ڈاکٹر سیٹھ کا کہنا ہے کہ اگر جسم میں پےس میکر نصب ہے تو ہینڈسیٹ سے 1 فٹ تک کافاصلہ رکھ کر بات کریں۔ جسم میں لگاہوا آلہ الیکٹرک سگنل پیدا کرتا ہے، جس کے ساتھ موبائل کے سگنل دخل دے سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ جسم کو کم یا زیادہ سگنل پہنچا سکتے ہیں جو نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ لہذابلیوٹوتھ یاہینڈس فری آلہ کے ذریعہ یا پھرا سپیکر آن کرکے بات کریں۔ پےس میکر جس طرف لگاہوا ہو، اس جیب میں موبائل فون نہ رکھیں۔
پینٹ کی جیب میں رکھنے سے کیاا سپرم پر اثر ہوتا ہے؟
مشہور و معروف سیکسو لوجسٹ ڈاکٹر پرکاش کوٹھاری کا کہنا ہے کہ موبائل ریڈیشن سے نقصان ہوتا ہے یا نہیں، اس کا کوئی ٹھوس ثبوت میسر نہیں ہیںتاہم احتیاط کے طور پر آپ اپنے موبائل کو کمر پر بیلٹ کے ساتھ لگائیں تو بہتر ہوگا۔
کیا بلیوٹوتھ کا استعمال نقصان کو بڑھاتا ہے؟
اگر بلیوٹوتھ کا استعمال کیا جاتاہے تو جسم میں ریڈئیشن ذرا کم جذب ہوگا۔ اگر بلیوٹوتھ آن کریں تو 10 ملی واٹ پاور ایڈیشنل خارج ہوگی۔ موبائل سے نکلنے والی پاور کیساتھ ساتھ جسم اسے بھی آبزرب کرے گا۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ بلیوٹوتھ پر بات کرنے کے دوران موبائل فون کو اپنے جسم سے دور رکھیں۔ ایک فٹ کی دوری ہو تو اچھا ہے۔
کیاکھیل یا نیٹ سرفنگ کیلئے موبائل خطرناک ہے؟
موبائل پرگیم کھیلنا صحت کیلئے بہت نقصان دہ نہیں ہے لیکن انٹرنیٹ سرفنگ کے دوران ریڈئیشن ہوتا ہے اس لئے موبائل فون سے زیادہ دیرتک انٹرنیٹ سرفنگ نہیں کرنی چاہئے۔
SAR کا موبائل ریڈئیشن میں کیا کردار ہے؟
 کمSAR تعداد والے موبائل فون خریدیں کیونکہ ان میں ریڈئیشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ موبائل فون کمپنی کی ویب سائٹ یا فون کے یوزرمینول میں یہ تعداد شائع ہوتی ہے۔ ویسے بعض ہندوستانی کمپنیاں ایسی بھی ہیں جوایس اے آر تعداد کا انکشاف نہیں کرتیں۔
آخرکیا ہے یہ SAR:
امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ سٹیڈرڈس کے مطابق، ایک متعینہ وقت کے اندر کسی انسان یا جانور کے جسم میں داخل ہونے والیالیکٹرو میگنیٹک لہروں کی پیمائش کو ایس اے آر یااس پیسی فک آبزرپشن ریشیو کہا جاتا ہے جبکہ ایس اے آر تعداد وہ توانائی ہے جو موبائل فون کے استعمال کے وقت انسانی جسم جذب کرتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس موبائل فون کیایس اے آر تعداد جتنی زیادہ ہوگی، وہ جسم کیلئے اتنا ہی نقصان دہ ہوگا۔
ہندوستان میں ایس اے آر کیلئے کیا ہیں ضابطے؟
ابھی تک ہینڈسیٹوں میں ریڈئیشن کے یوروپی معیاروں کا نفاذ ہوتا ہے۔ ان کے معیار کے مطابق ہینڈسیٹ کا ایس اے آر لیول 2 واٹ فی کلو سے زیادہ قطعی نہیں ہونا چاہئے لیکن ایکسپرٹ اس معیار کو درست تسلیم نہیں کرتے۔ اس کے پس پشت یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ معیارہندوستان جیسے گرم ملک کیلئے مفید نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ یوروپی لوگوں کے مقابلے ہندوستان میں باڈی فیٹ کم پایاجاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم پر ریڈیوفریکوئنسی کازیادہ مہلک اثر پڑتا ہے۔ تاہم مرکزی حکومت کی جانب سے گائڈلائنس میں یہ حد 1.6 واٹ فی کلوگرام کر دی گئی ہے جو کہ امریکی اسٹینڈرڈ ہے۔
میٹرو یا لفٹ میں موبائل استعمال کرتے وقت کیا یاد رکھیں؟
لفٹ یا میٹرو میں موبائل کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ لہروں کے باہر نکلنے کا راستہ مسدودہونے سے ان کا جسم میں داخل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان مقامات پر سگنل کم ہونا بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
موبائل فون کو کہاں رکھیں؟
موبائل کو کہاں رکھا جائے، اس بارے میں ابھی تک کوئی عام رائے قائم نہیں ہوئی ہے۔ یہ بھی ثابت نہیں ہوا ہے کہ موبائل کوجیب وغیرہ میں رکھنے سے براہ راست نقصان پہنچتاہے، پیس میکر کے معاملے کو چھوڑ کر۔ پھر بھی احتیاط کے طور پر خواتین کیلئے موبائل کو پرس میں رکھنا اور مردوں کیلئے کمر پر بیلٹ پر سائیڈ میں لگائے گئے پاوچ میں رکھنا درست سمجھا جاتا ہے۔
کس موبائل کا کتنا ہے ایس اے آر؟
زیادہ تر موبائل فونوں کا ایس اے آر الگ الگ ہوتا ہے:موٹورولا V195s: 1.6‘نوکیا E710: 1.53‘اےل جی یرومر 2: 1.51‘سونی ایرکسن W350a: 1.48‘ایپل آئی فون4 :1.51‘سیمسنگ Soul: 0.24‘نوکیا 9300: 0.21‘سیمسنگ گیلیکسی S:2 0.338‘بلیک بیری کرو8310 ‘0.72۔اس سلسلہ میںاگر اب بھی آپ کا کوئی سوال باقی ہے تو آپ اپنا سوال اس شعبہ کے ماہرین سے دریافت کر سکتے ہیں۔
 رازداری اور سیکیورٹی:
بدقسمتی سے موبائل فونز کو رازداری اور سیکیورٹی کیلئے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا ۔ نہ صرف وہ اپنے مواصلات کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ وہ آپ کو نئی قسم کی نگرانی کے خطرات سے بھی دوچار کرتے ہیں ،خاص طور پرمقام سے باخبر رہنا۔زیادہ تر موبائل فونز صارف کو ایک ذاتی ڈیسک ٹاپ یا لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے مقابلے بہت کم کنٹرول دیتے ہیں۔اس کا عمل کاری نظام بدلنے کیلئے مشکل ہوتا ہے۔ میلویئر حملے کی تحقیقات کرنا بہت مشکل ہے، نامناسب بنڈل سافٹ ویئرہٹانا یا تبدیل کرنا مشکل, اور موبائل آپریٹر کی طرح کے فریقین کو آلہ کی نگرانی کرنے سے روکنابھی مشکل ہے ۔ دراصل آلہ بنانے والا آپ کے آلہ کو متروک قرار دے سکتے ہیں اور آپ کو سافٹ ویئر اپ ڈیٹس فراہم کرنے سے رک سکتے ہیں۔ حفاظتی اصلاحات سمیت۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ کہیں سے بھی ان اصلاحات کو حاصل نہیں کر سکتے۔ان مسائل میں سے کچھ کو تیسرے فریق کی رازداری کے سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے لیکن ان میں سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہاں کچھ طریقوں کی وضاحت کی جارہی ہے جو فون کی نگرانی میں مدد کر سکتے ہیں اور اپنے صارفین کی رازداری کو کمزور کر سکتے ہیں۔
مقام سے باخبر رہنا:
موبائل فونز سے رازداری کو گہرا خطرہ ،ابھی تک جو اکثر مکمل طور پر پوشیدہ ہے،وہ یہ ہے کہ وہ پورا دن(اور رات ) آپ کا اتا پتہ سگنلوں کے ذریعہ نشر کرتے رہتے ہیں۔ کم از کم چار طریقے ہیں جن کی مدد سے ایک انفرادی فون کے محل وقوع کا دوسروں کی طرف سے سراغ لگایا جاسکتا ہے۔
1۔موبائل کے سگنل ٹاورز کا پتہ لگانا:
تمام جدید موبائل نیٹ ورکس میںہیں، جہاں ایک خاص صارف کا فون واقع ہے آپریٹر تخمینہ لگا سکتے ہیں ۔ جب بھی فونآن ہوتا ہے اور نیٹ ورک کیساتھ رجسٹرڈ ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کی صلاحیت موبائل نیٹ ورک کی تعمیر کا طریقہ کا نتیجہ ہے، اور عام طور پر triangulation کہا جاتا ہے ۔ایسا کرنے کیلئے آپریٹر کے پاس ایک راستہ ہے کہ کسی مخصوص صارف کے موبائل فون سے مختلف ٹاورز کی نگرانی کرنے والے سگنل کی طاقت کا مشاہدہ کرنا، اور پھر حساب کرنا جہاں اس فون کو واقع ہونا چاہئے ان مشاہدات کا محاسبہ کرنے کیلئے۔آپریٹر کی صارف کے مقام کا پتہ چلانے کی درستگی بہت سے عوامل پر منحصرہوتی ہے بشمول ٹیکنالوجی جو آپریٹر استعمال کر رہا ہو اور ایک علاقے میں کتنے موبائل ٹاورز ہیں ۔اکثریہ ایک شہر کی سطح تک درست ثابت ہوسکتا ہے ، لیکن کچھ نظاموں میں یہ زیادہ صحیح ہو سکتا ہے ۔اس طرح کے سراغ راہ سے چھپانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے جب تک آپ کے موبائل فون پر طاقت ہے اور کسی آپریٹر کے نیٹ ورک کو سگنل ترسیل کررہا ہے ۔ اگرچہ عام طور پر صرف موبائل آپریٹر بذات خود اس قسم کی ٹریکنگ انجام دے سکتے ہیں، ایک حکومت آپریٹر کو کسی صارف کے بارے میں مقام کوائف پر کرنے کیلئے مجبور کر سکا (تاریخی ریکارڈ کے طور پر یا حقیقی وقت میں)۔ 2010 میں مالٹی ا سپاٹز نامی جرمن رازداری ایڈووکیٹ نے پرائیویسی قوانین کا استعمال کیا۔ اپنے موبائل آپریٹر سے ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے جو اس کے اپنے ریکارڈ کے بارے میں تھے۔اس نے انہیں شائع کرنے کا انتخاب کیا ایک تعلیمی وسائل کے طور پر تاکہ دوسرے لوگ سمجھ سکیں کہ موبائل آپریٹرز کس طرح صارفین کی نگرانی کر سکتے ہیں ۔حکومت کے اس طرح کے مشمول تک رسائی حاصل کے امکان نظریاتی نہیں ہے: یہ پہلے ہی بڑے پیمانے پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے زیر استعمال ہے۔ایک اور متعلقہ قسم کی حکومت کی درخواست کو ایک ٹاور ڈمپ کہا جاتا ہے۔ اس معاملے میں، ایک حکومت ایک موبائل آپریٹر سے سارے موبائل آلات کی فہرست کیلئے پوچھتی ہے جو ایک متعینہ وقت میں کسی مخصوص علاقے میں موجود تھے۔ اسے جرم کی تحقیقات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، یا کون لوگ ایک خاص احتجاجی مظاہرے میں موجود تھے یہ تلاش کرنے کیلئے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کے موبائل فونز کی ایک فہرست بنانے کیلئے جو حکومت مخالف احتجاج میں موجود تھے، یوکرینی حکومت نے اس مقصد کیلئے 2014کے دوران ایک ٹاور ڈمپ استعمال کیا۔ترسیل کار بھی محل وقوع جس سے فی الحال ایک آلہ جڑا ہے کے بارے میں ایک دوسرے کیساتھ کوائف کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ یہ ڈاٹا اکثرنگرانی رکھنے سے کسی حد تک کم درست ہے جو کہ کثیر ٹاورز مشاہدات کے مجموعات ہوتے ہیں , لیکن یہ اب بھی بنیاد کے طور پر ایک انفرادی آلہ کی نگرانی کی خدمات کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے ؛بشمول تجارتی خدمات جو کہ ان کے ریکارڈ کی چھان بین کرتی ہیں جہاں ایک فرد کا فون اس وقت موبائل نیٹ ورک سے جڑ رہا ہے ہے تلاش کرنے کیلئے، اور نتائج کو سرکاری یا نجی گاہک کیلئے دستیاب بناتی ہیں۔ دی واشنگٹن پوسٹ کی اطلاعات کے مطابق کس طرح پر آسانی سے دستیاب معلومات سراغ راہ بن چکا ہے۔ پچھلے ٹریکنگ کے طریقوں کے برعکس یہ سراغ راہ صارف کے کوائف پر کرنے کیلئے کیریئر کو مجبورکرنے میں ملوث نہیں، اس کے بجائے یہ تکنیک مقام کے اس ڈاٹا کو استعمال کرتی ہے جسکو کمرشل بنیادوں پر دستیاب بنایا جا چکا ہے۔
2۔IMSI پر نظر،موبائل سگنل کا سراغ لگانا :
ایک حکومت یا کوئی اور تکنیکی نفیس تنظیم بھی مقام کے کوائف براہ راست جمع کر سکتے ہیں, جیسا کہ ایکIMSI catcher کیساتھ (ایک حقیقی جیسا پورٹیبل جعلی سیل فون ٹاورکسی مخصوص صارف کے موبائل فون کو پکڑنے کیلئے اور ان کی جسمانی موجودگی اور/یا ان کے مواصلات پر جاسوسی کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ IMSI کا مطلب بین الاقوامی موبائل صارف شناخت نمبر جو ایک خاص رکن کے سم کارڈ کو شناخت کرتی ہے۔ اگرچہ ایکIMSI catcher آلے کی دیگر خصوصیات کا استعمال کرتے ہوئے بھی آلہ کو ہدف بنا سکتا ہے۔IMSI catcherکو کسی مخصوص محل وقوع پر موجود آلات کا پتہ لگانے کیلئے اس مقام پر لے جانے کی ضرورت ہے ہوتی۔اسوقت IMSI catcher کے خلاف کوئی قابل اعتماد دفاع نہیں ہے’لہذاان کی موجودگی کا پتہ لگانے کے بعض اطلاقات کا دعویٰ ہے لیکن یہ تلاش دائمی ہوتی ہے۔وہ آلات جو اسے اجازت دیتے ہیں، یہ 2جی کی حمایت کو نااہل بنانے کیلئے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں (تاکہ وہ آلہ صرف 3 اور 4 جی نیٹ ورک سے رابطہ کر سکتے ہیں)اور رومنگ نااہل بنانے کیلئے اگر آپکو اپنے گھر کے ترسیل کار کے سروس کے علاقے سے باہر سفر جا کرنے کی توقع نہیں ہے۔ہی اقداماتIMSI catcher کی بعض اقسام سے آپکو تحفظ دے سکتے ہیں۔
3۔ وائی فائی اور بلوٹوتھ سراغ کاری:
جدید اسمارٹ فونز میں موبائل نیٹ ورک انٹرفیس کے علاوہ دیگر ریڈیو ترسیلکار بھی ہیں۔ وہ عام طور پر وائی فائی اور بلوٹوت کی بھی توثیق کرتے ہیں۔ ایک موبائل سگنل سے کم طاقت کیساتھ ان کے سگنل متقل ہوتے ہیںاور عام طور پر صرف ایک مختصر حد اطلاق کے اندر اندر موصول کر سکتے ہیں ،جیسا کہ ایک ہی کمرہ یا اسی عمارت کے اندر۔اگرچہ بعض اوقات ایک نفیس اینٹینا کا استعمال کرتے ہوئے یہ سگنل غیر متوقع طور پر طویل فاصلے سے بھی پتہ لگائے جا سکتے ہیں۔ 2007کے دوران ایک مظاہرہ میں وینزویلا میں ایک ماہر نے237 ایم آئی یا 382کلومیٹر کے فاصلے پر ایک وائی فائی کے سگنل موصول کئے، چھوٹی سے ریڈیو مداخلت کیساتھ دیہی حالات کے تحت۔ دونوںطرح کے وائرلیس سگنل کی قسم کے آلہ کیلئے ایک منفرد سیریل نمبر شامل ہیں، جسے میک ایڈریس کہا جاتا ہے جو کسی کی طرف سے جو سگنل موصول کر سکتے ہیں، دیکھا جا سکتا ہے۔ آلہ کے مصنوعہ کار اس وقت اس پتے کا انتخاب کرتے ہیں جب یہ آلہ بنایا جا رہا ہوتا ہے اور اسے موجودہ اسمارٹ فونز کیساتھ آئے ہوئے سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔بدقسمتی سے میک ایڈریس وائرلیس سگنل میں مشاہدہ ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ اگر ایک آلہ سرگرمی کیلئے ایک خاص وائرلیس نیٹ ورک سے جڑا ہوا بھی نہیں ہے، یا یہاں تک کہ اگر یہ فعال ڈاٹا ترسیل نہیں کر رہا ہے۔ جب بھی وائی فائی ایک عام اسمارٹ فون پر آن ہے،ا سمارٹ فون کبھی کبھار سگنل کی ترسیل کریں گے جن میں میک پتہ شامل ہوگا اور اسی طرح دوسرے قریبی موجود لوگوں کو پتہ چلے گا کہ یہ مخصوص الا کہیں قریب میں موجود ہے ۔ یہ تجارتی سراغ کاری ایپلی کیشنز کیلئے استعمال کیا گیا ہے، مثال کے طور پر اعداد و شمار کا تعین کیلئے دوکاندار کو بتانے کیلئے کہ کتنی بار میں مخصوص گاہکوں نے دکان کا دورہ کیا اور کتنی دیر تک وہ دکان میں خرچ کرتے ہیں۔ دو ہزار چودہ تک سمارٹ فون مصنوعہ کاروں نے تسلیم کیا کہ اس طرح باخبر رہنے نے پریشانی شروع کر دی ہے، لیکن اگر کبھی کیا بھی گیا تو یہ ہر آلہ میں کئی سال تک بھی صحیح نہیں کیا جا سکتا ۔جی ایس ایمGSM کی نگرانی کے مقابلے سراغ راہ کی یہ شکلیں حکومت کی نگرانی کیلئے لازمی طور پر مفید نہیں ہیں۔ یہ اس لئے ہے کیونکہ وہ مختصر فاصلے پر بہترین کام کرتی ہیں اور ان کیلئے پیشگی علم یا مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی مخصوص فرد کے آلے میں کیا میک ایڈریس تعمیر کیا جاتا ہے،اس کا تعین کرنے کیلئے۔ تاہم، سراغ راہ کی ان شکلوں کو جب ایک شخص ایک عمارت میں داخل ہوتا ہے اور کب نکلتا ہے کو بتانے کیلئے ایک انتہائی درست کہا جا سکتا ہے۔ وائی فائی اور بلوٹوتھ آف کر کے ایک اسمارٹ فون کی طرف اس قسم کے سراغ راہ کی روک تھام کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ان صارفین جو اکثر یہ ٹیکنالوجی استعمال کرنا چاہتے ہیں،ان کیلئے نا مناسب ہو سکتا ہے۔وائی فائی نیٹ ورک آپریٹرز ہر آلہ کا میک ایڈریس بھی دیکھ سکتے ہیں جو ان کے نیٹ ورک کا ملاپ کرتا ہے،جس کا مطلب ہے کہ وہ مخصوص آلات کو ہر وقت شناخت کر سکتے ہیں اور بتا سکتے ہیں کہ آیا آپ نیٹ ورک میں ماضی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔یہاں تک کہ اگر آپ اپنا نام یا ای میل پتہ کہیں بھی ٹائپ نہ کریں یا کسی طرح کی سہولیات کیلئے سائن ان نہ بھی کریں۔چند آلات پریہ میک ایڈریس تبدیل کرنا فزیکل طور پر ممکن ہے تاکہ دوسرے لوگ آپ کے وائی فائی آلہ کوآسانی سے نہیں پہچان سکیں وقت کیساتھ ساتھ; ان آلات پر, صحیح سافٹ ویئر اور ترتیب کیساتھ, ہر روز ایک نئے اور مختلف میک ایڈریس کا انتخاب کرنا ممکن ہو جائے گا، مثال کے طور۔ اسمارٹ فون پر, عام طور پر مخصوص سافٹ ویئر کی ضرورت ہے جیسا کہ MAC address-changing ایپ۔ اس وقت یہ اختیار اسمارٹ فون ماڈلز کی اکثریت کیلئے میسر نہیں ہے۔
4۔ اطلاقات اور ویب براو ¿ز کاری سے محل وقوع کا انکشاف:
اسمارٹ فونز کے جدید طریقے فون کو اس کے اپنے مقام کا تعین کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔عام طور پر GPS کا استعمال کرتے ہوئے اور بعض اوقات محل وقوع کمپنیوں کی طرف سے فراہم کردہ دوسری خدمات کا استعمال کرتے ہوئے جو عام طور پر فون کے محل وقوع کیلئے اس کمپنی سے پوچھتی ہیں سیل فون ٹاورز اور/یا وائی فائی نیٹ ورک کی فہرست پر مبنی کہ یہ فون کہاں ہے سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایپس فون سے اس مقام کی معلومات کیلئے پوچھ سکتی ہیں اور اسے محل وقوع پر مبنی خدمات فراہم کرنے کیلئے استعمال کرسکتی ہیں ، جیسے وہ maps جو آپ کو نقشے پر آپ کے مقام کی نمائش کریں۔ان اطلاقات میں سے کچھ تو آپ کی جگہ ایک سروس فراہم کرنے والے کیلئے نیٹ ورک پر ترسیل کرے گاجو بدلے میں دوسرے لوگوں کو آپ کی نگرانی کیلئے ایک طریقہ مہیا کرتا ہے۔ اپلی کیشن ڈویلپرز کی صارفین کو ٹریک کرنے کی خواہش نہ بھی ہو، لیکن وہ اب بھی ایسا کرنے کی صلاحیت کیساتھ منتج ہو سکتا ہے۔ اور وہ اپنے صارفین کے مقام کی چونکا دینے والی معلومات کو حکومتوں یا ہیکروں کو دینے پر منتج ہو سکتا ہے۔ کچھ اسمارٹ فونز اطلاقات پر آپ کو کنٹرول دیں گی کہ آیا ایپس آپ کے طبعی مقام کا پتہ لگا سکتی ہیں یا نہیں۔ جو اطلاقات یہ معلومات دیکھ سکتے ہیں کو محدود کرنے کی کوشش کرنا ایک اچھا رازداری کی مشق ہے۔ اور یہ یقینی بنانے کیلئے کم از کم آپ کی جگہ صرف جن پر آپ کو بھروسہ ہے اور یہ کہ جن کے پاس آپ کہاں ہیں معلوم کرنے کی ایک معقول وجہ ہے ان اطلاقات کیساتھ اشتراک کریں۔ہر معاملہ میں، مقام سے باخبر رہنا کہ کوئی شخص ابھی فی الحال کہاں ہے،محض تلاش کرنے کے بارے میں ہی نہیںبلکہ ایک دلچسپ فلم میں پیچھا کرنے کا منظر کی طرح جہاں ایجنٹ سڑکوں کے ذریعے کوئی ایسی کوششیں کررہے ہیں۔ یہ لوگوں کی تاریخی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات کا جواب دینے کے بارے میں بھی ہو سکتی ہے اور ان کے عقائد، واقعات اور ذاتی تعلقات میں شمولیت کے متعلق بھی۔ مثال کے طور پر، مقام سے باخبر رہنا ،آیا کہ بعض لوگ ایک رومانوی تعلق میں ہیں تلاش کرنے کی کوشش کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، ان کو تلاش کرنے کیلئے جو خاص طور پر ایک اجلاس میں شریک تھے یا کسی مخصوص احتجاج میں تھے۔ یا ایک صحافی کی خفیہ ذرائع کی شناخت کرنے کی کوشش۔واشنگٹن پوسٹ کی دسمبر 2013 کے دوران این ایس اے محل وقوع ٹریکنگ کے آلات پر رپورٹ کے مطابق جو بڑے پیمانے پردنیا بھر میں موجود سیل فون کے محل وقوع کے بارے میں معلومات مجتمع کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر فون کمپنیوں کے انفراسٹرکچر بروئے کار لاتے ہوئے ان ٹاورز کا مشاہدہ کرنے کیلئے جو کسی مخصوص فون سے کب سے جڑیں۔ ایک آلہ جسے CO-TRAVELERکہا جاتا ہے یہ ڈاٹا کو مختلف لوگوں کی نقل و حرکت کے درمیان تعلقات کو تلاش کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے ،جاننے کیلئے کہ کن لوگوں کے آلات ایک دوسرے کیساتھ سفر کرتے ہوئے لگتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ کہیں ایک شخص دوسرے شخص کا پیچھا تو نہیں کر رہا ۔
فونز کو بند کرنا:
ایک بڑے پیمانے پر تشویش ہے کہ فونزکو لوگوں کی نگرانی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے جب بھی کال کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ نتیجے کے طور پرلوگ اگرایک حساس بات چیت کر رہے ہوں ان سے ان کے فون مکمّل طور بند کرنے کیلئے کہا جا تا ہے یہاں تک کہ ان کے فون سے بیٹریاں ہٹانے کیلئے بھی کہا جاتا ہے۔بیٹری کو ہٹانے کیلئے سفارش بنیادی طور پر میلویئر کی موجودگی پر توجہ مرکوز کرنا لگتا ہے جو فون کی درخواست پر آف کرنا ظاہر کرتا ہے ۔آخر میں صرف ایک خالی ا سکرین دکھاتا ہے، جبکہ درحقیقت وہ چل رہا ہوتا ہے اور بات چیت کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے اور یہاں تک کہ کال کر سکتا ہے اور موصول کر سکتا ہے ۔ اس طرح، صارفین سوچتے ہیں کہ انہوں نے کامیابی کیساتھ فون بند کر دیا تھا میں کرکے دھوکہ دے جا سکتا جبکہ وہ وقعتا نہیں تھا۔اگرچہ اس طرح کا میلویئر موجود نہیں، کم از کم کچھ آلات کیلئے کس طرح کام کرتا ہے یا کس طرح بڑے پیمانے پر اسے استعمال کیا گیا ہے،اس بارے معلومات کا فقدان ہے۔
فون بند کر دینے کا ممکنہ نقصان :
اگر ایک جگہ سب بہت سے لوگ بیک وقت فون بند کرتے ہیں، یہ موبائل ترسیل کار کیلئے نشانی ہے کہ وہ سب لوگ کوئی ایسا کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں فون بند کرنا پڑا ۔ایساکسی تھیٹر میں فلم کے آغازپر بھی ہو سکتا ہے یا ایک ہوائی اڈے پر جہاز کی روانگی کے وقت بھی جبکہ یہ ایک حساس ملاقات یا بات چیت بھی ہو سکتا ہے۔اس کا ایک متبادل یہ ہے، جو کم معلومات دے سکتا ہے کہ ہر شخص کا فون دوسرے کمرے میں چھوڑ دیں جہاں فونز کے مائکروفون بات چیت سننے کے قابل نہیں ہوں۔
برنر فونز:
 عارضی طور پرجو فونز استعمال کئے جاتے ہیں اور پھر مسترد کر دئے جاتے ہیں انھیں عام طورپربرنر فونز یا برنرز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بعض اوقات حکومتی نگرانی سے بچنے کیلئے کوشش کر رہے لوگ فونز(اور فون نمبرز) کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اپنی شناخت چھپانے کیلئے بھی ایسا کرتے ہیں ۔ انہیں پری پیڈ فونز استعمال کرنے کی ضرورت ہو گی (ایک ذاتی کریڈٹ کارڈ یا بینک اکاو ¿نٹ سے وابستہ نہ ہوں، اور فون اور سم کارڈ اپنی شناخت کیساتھ رجسٹرڈ نہ ہوں ،بعض ممالک میں درج ذیل مراحل براہ راست ہیں۔ جبکہ بعض مواقع پر گمنام موبائل فون سروس کو حاصل کرنے کیلئے قانونی یا عملی مشکلات ہوسکتی ہیں ۔
اس ٹیکنالوجی کیلئے حدود:
یہ بہت سے طریقوںمحدود کیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر، ایک تجزیہ کار دو آلات کے اکٹھے بڑھنے کیلئے پڑتال کرسکتے ہیں,،یا کہ آیا یہاں تک کہ اگر وہ مختلف اوقات میں زیر استعمال تھے، وہ ایک ہی جسمانی مقامات پر تھے۔لوگوں کی کالنگ نمونے کا انتہائی ممتاز ہونا کامیاب گمنام ٹیلی فون کال کیلئے مزید مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر، آپ عادتاً اپنے اہل خاندان اور اپنے کام کیساتھیوں کو کال کریں ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں میں سے ہر ایک لوگوں کی ایک وسیع حد اطلاق سے کال وصول کرتا ہے , آپ ممکنہ طور پر دنیا میں واحد شخص ہیں جو عام طور پر ان دونوں کو ایک ہی نمبر سے کال کر رہے ہیں۔ سو یہاں تک کہ اگر آپ نے اچانک آپ کا نمبر تبدیل کر دیا، اگر آپ نے پھر ایسے ہی نمونے بنائے کال کرنے میں یا وصول کرنے میں , یہ نیا نمبر آپ کا ہے یہ بات جاننا بہت آسان ہے۔ یاد رکھیں کہ اس بات کا استدلال صرف اس حقیقت کی بنیاد پر کیا نہیں ہے کہ آپ ایک خاص نمبر پر کال کرتے ہیںلیکن بجائے تمام نمبروں پر کال کرنے کے مجموعہ کی انفرادیت پر۔ بلاشبہThe Intercept کی اطلاعات کے مطابق کہ ایک خفیہ امریکی حکومت کا نظام جسے PROTON کہا جاتا ہے،فون ریکارڈ کا استعمال کرتے ہوئے بالکل یہی کرتا ہے۔اسی طرح ایک مخصوص ہدف کیلئے نئے فون نمبروں سے فون کالز کرنے والے لوگوں کی شناخت کرنا۔ ایک اضافی مثال پائی جا سکتی ہے یہاںHemisphere FOIA document۔ یہ دستاویز Hemisphere databaseکی وضاحت کرتی ہے ۔تاریخی کال ریکارڈ کا ایک بہت بڑا ڈاٹابیس اور کس طرح اسے چلانے والے افراد کی ایک خصوصیت برنر فون کال کے ان نمونوں کی مماثلت پر عمل کرتے ہوئے لنک کر سکتے ہیں ۔ ادستاویز برنر فون کو’دروپپد فون ’کہتے ہیں کیوں کہ اسکا صرف ان فونز کو استعمال کرنے کے بعد گرا دیتا یعنی ڈراپ کردیتا ہے اور دوسرا استعمال کرنا شروع کردیتا ہے،لیکن جب ایسا ہوتا ہے تو کوائفیہ analytics کا الگورتھم ایک فون اور دوسرے کے درمیان تعلق بنا سکتا ہے، جب تک کہ دونوں فون نمبروں کے مماثل سیٹ پر کالیں موصول کرنے یا کال کرنے کیلئے استعمال کیا گیاہو۔
ایک دوسرے کیساتھ ان حقائق کا مطلب ،حکومتی نگرانی سے چھپانے کیلئے برنر فونز کے مو ¿ثر استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،کم از کم سم کارڈ یا آلات کو دوبارہ استعمال نہ کرنا ؛ مختلف آلات ایک دوسرے کیساتھ لے کر نہیں چلنا۔ مقامات جہاں مختلف آلات استعمال کیا جاتے ہیں،آلات کے درمیان ایک جسمانی ایسوسی ایشن کی تخلیق نہیں کرنا۔ اور مختلف آلات کو استعمال کرتے ہوئے انہی لوگوں کو کال کرنا یا ان کی کال موصول کرناشامل ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ ایک مکمل فہرست ہے، مثال کے طور، جہاں فون فروخت ہوااس جگہ کی جسمانی نگرانی کے خطرہ کوابھی نہیں سمجھا یا مقامات جہاں یہ استعمال کیا جاتا ہے, یا کسی خاص شخص کی آواز کا تعین کرنے کیلئے جو ایک مخصوص فون کے ذریعے بات کرتا ہے کی پہچان کیلئے سافٹ ویئر کے ایک خودکار طریقہ کے استعمال کا امکان ہوتاہے۔
GPS کے بارے میں یادرکھیں:
عالمی مقامیابی نظام عرف جی پی ایس GPS آلات کو دنیا میں اپنے اپنے مقامات کا کہیں بھی فوری اور درست تعین کرنے دیتا ہے۔GPS کا کام مصنوعی سیارہ سے سگنل کے تجزیہ پر مبنی ہے جو ہر ایک کیلئے عوامی خدمت کے طور پر امریکی حکومت کی طرف سے چلائے جاتے ہیں۔ ایک عام غلط فہمی ہے کہ یہ سیٹلائٹس کسی نہ کسی طرح GPS کے صارفین کے دیکھتے ہیں یا جہاں GPS صارفین ہیں،انھیں جانتے ہیں۔ حقیقت میںجی پی ایس مصنوعی سیارہ صرف سگنل ترسیل کرتے ہیں، سیارچہ آپ کے فون سے کسی بھی چیز کا مشاہدہ نہیں کرتے نہ کسی چیز کو حاصل کرتے ہیں ،مصنوعی سیارچہ اور GPS نظام آپریٹرز کو جہاں کوئی مخصوص صارف یا آلہ واقع ہے یا یہاں تک کہ کتنے لوگ اس نظام کا استعمال کر رہے ہیں معلوم نہیںہوتا۔
یہ اس لئے ممکن ہوتا ہے کیونکہ اسمارٹ فون کے اندر کی طرح انفرادی GPS ریسیورزاپنے مقامات کا مدت کا تعین کرنے سے کب تک ریڈیو سگنل کو مختلف مصنوعی سیارہ سے پہنچنے کیلئے تخمینہ لگاتے ہیں۔
 عمومااسمارٹ فون پر یہ سراغ رسانی اطلاقات کی طرف سے کی جاتی ہے۔وہ GPS کے ذریعے متعینہ فون کے آپریٹنگ سسٹم سے اس کے محل وقوع کو طلب کرتے ہیں۔پھر اطلاقات یہ معلومات کسی اور کو انٹرنیٹ پر منتقل کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔چھوٹے GPS وصول آلات بھی ہوتے ہیں جو کسی کے پاس پوشیدہ ہوسکتے ہیں یا ایک گاڑی کیساتھ منسلک بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ ریسیورز اسے اپنے مقام کا تعین اور پھر فعال طور یہ ایک نیٹ ورک پر بھیجتے ہیں، جو عام طور پر موبائل فون نیٹ ورک ہوتا ہے۔
موبائل کمیونیکیشن پر جاسوسی:
موبائل فون نیٹ ورکس اصل میں جاسوسی کے خلاف صارفین کی کالز کی حفاظت کیلئے تکنیکی ذرائع کو استعمال کرنے کیلئے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔اس کا مطلب صحیح قسم کے ریڈیو رسیور کیساتھ کوئی بھی شخص کالیں سن سکتا تھا۔
یہ صورت حال آج کسی حد تک بہتر ہے۔, لیکن بعض اوقات صرف تھوڑی سی۔ خفیہ کاری ٹیکنالوجیز موبائل کمیونیکیشن کے معیار کیلئے شامل کر دی گئی ہیں جاسوسی کو روکنے کی کوشش کے طور پر۔لیکن ایسی بہت سی ٹیکنالوجیز been غیر تسلی بخش ڈیزائن کی گئی ہیں(بعض اوقات مضبوط خفیہ کاری استعمال نہ کرنے کیلئے جان بوجھ کر، حکومت کے دباو کے باعث!)۔ وہ غیر مساوی وقفوں کے حامل تعینات کیا گیا ہے،یوں وہ ایک کیریئر پر دستیاب ہے لیکن کسی اورپرنہیں ہو سکتا، یا ایک ملک میں لیکن کسی اور میں نہیں،اور بعض اوقات غلط نافذ کئے جا رہے ہیں۔۔ مثال کے طور پر،بعض ممالک میں کیریئرز خفیہ کاری اہل نہیں بناتے،یا وہ متروک تکنیکی معیار استعمال کرتے۔اس کا مطلب ہے یہ اکثر اب بھی صحیح طریقے کے ریڈیو رسیور کیساتھ کسی کیلئے ممکن ہے کال اور ٹیکسٹ پیغامات کو روکنا۔
یہاں تک کہ جب صنعت کے سب سے بہترین معیار استعمال کیا جا رہا ہے ، جیسا کہ کچھ موبائل کیریئر پر اور بعض ممالک میں ہیں ۔وہاں اب بھی لوگ ہیں جو سن سکتے ہیں۔ کم از کم موبائل آپریٹرز کے پاس سب کے کوائف روکنے میں مدد کیلئے اورریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہے کہ کب کیا کس نے کس سے کہا میسج یا کال کے ذریعہ۔یہ معلومات باضابطہ یا غیر رسمی انتظامات کے ذریعے مقامی یا غیر ملکی حکومتوں کیلئے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ بعض صورتوں میں غیر ملکی حکومتیں بھی موبائل آپریٹرز کے نظام خفیہ کو صارفین کے کوائف تک رسائی حاصل کرنے کیلئے ہیک کیا ہے۔ اس کے علاوہ IMSI catcher(مذکورہ بالا) کو قریبی جسمانی طور پر کسی شخص کی طرف سے استعمال کیا جا سکتا۔ یہ آپکے موبائل آپریٹر کے قانونی ڈھانچے کی بجائے اپنی جعلی ’ٹاور‘ استعمال کرنے میں آپ کے فون کو جھانسہ دے سکتے ہیں، اس صورت میں IMSI catcher کو چلانے والا شخص آپکی مواصلتیں روکنے میں مدد کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
روایتی کالز اور ایس ایم ایس ٹیکسٹ پیغامات جاسوسی یا ریکارڈنگ سے محفوظ نہیں یہ فرض کرنا محفوظ ترین عمل ہے۔ اگرچہ تکنیکی تفصیلات جگہ سے دوسری جگہ اور نظام کی نظام سے نمایاں طور پر مختلف ہیں، اس کے تکنیکی تحفّظات اکثر کمزور ہوتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ دیکھیں دوسروں کیساتھ بات چیت جاننے کیلئے متن اور بات کس طرح اور زیادہ بحفاظت ہوسکتے ہیں ۔
صورتحال مختلف ہوسکتی ہے جب آپ بات چیت کیلئے محفوظ مواصلات اطلاقات استعمال کر رہے ہوں (خواہ آواز یا متن سے)،کیوں کہ یہ اطلاقات آپکی مواصلات کیلئے خفیہ کاری فراہم کر سکتے ہیں۔اس خفیہ کاری میں زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے اور زیادہ بامعنی تحفّظات فراہم کر سکتی ہے۔ آپ کو بات چیت کیلئے محفوظ مواصلات اطلاقات استعمال سے ملنے والی تحفظ کی سطح جو اطلاقات آپ استعمال کرتے ہیں اور وہ کام کس طرح کرتی ہے پر نمایاں طور پر منحصر ہے۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا ایک مواصلاتی اپلی کیشن شروع سے آخر تک آپ مواصلات کے تحفظ کیلئے خفیہ کاری استعمال کرتا ہے۔اور کیا ایپلیکیشن ڈویلپر کیلئے کوئی راستہ ہے کہ وہ چاہے کسی بھی طرح کالعدم کریں یا خفیہ کاری کو نظرانداز کرسکیں ۔
میلویئر کیساتھ فونز کو متاثر کرنا:
وائرس اور دیگر قسم کے میلویئر (آلودہ سافٹ ویئر)فونز حاصل کر سکتے ہیں یا کیونکہ صارف آلودہ سافٹ ویئر کی تنصیب کرکے دھوکہ کھا گیا, یا کیونکہ کوئی شخص موجودہ آلے میں سافٹ ویئر کا کوئی سیکورٹی دوش استعمال کرتے ہوئے آلہ کو ہیک کرنے کے قابل تھا۔ کمپیوٹنگ آلہ کی دیگر اقسام کے طور پر، آلودہ سافٹ ویئر پھر آلہ کے صارف پر جاسوسی کر سکتے ہیں۔مثال کے طور ایک موبائل فون پر آلودہ سافٹ ویئر آلہ پر ذاتی کوائف پڑھ سکتا ہے(ذخیرہ شدہ ٹیکسٹ پیغامات یا تصاویر کی طرح)۔ یہ ڈیوائس کے سینسر بھی چالو کر سکتے ہیں(جیسے مائیکروفون،کیمرے، GPS) جہاں فون ہے تلاش کرنے کیلئے یا ماحول کی نگرانی کیلئے, یہاں تک کہ فون میں مسئلہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔یہ ٹیکنالوجی کچھ حکومتوں کی طرف سے لوگوں پر ان کے اپنے فون کے ذریعہ جاسوسی کیلئے استعمال کی گئی ہے اور حساس گفتگو ہونے کے بارے میں تشویش پیدا کی ہے جب موبائل فونز کی کمرے میں موجود گی ہو ۔ کچھ لوگ اس امکان کو کسی دوسرے کمرے میں موبائل فونز کو حرکت کرتے ہوئے ، یا فون بند کر کے جواب دیتے ہیں جب ایک حساس بات چیت کر رہے ہوں۔سرکاری ملازمین کوبھی ذاتی سیل فونز کو بعض حساس مقامات میں لانے سے حکومتیں خود اکثر لوگوں کو منع کرتی ہیں ،بنیادی طور پر اس تشویش پر مبنی کہ فون گفتگو ریکارڈ کرنے والے سافٹ ویئر سے آلودہ ہوسکتے ہیں ۔مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ آلودہ سافٹ ویئر فون کو بند ظاہر کر سکتا ہے جبکہ خفیہ طور پر وو چالو ہو ،جبکہ ا سکرین کو سیاہ ظاہر کرتا ہے تا کہ صارف اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ فون بند ہے۔ یہ تشویش بعض لوگوں کو ان کی بیٹریاں فون سے ہٹانے پر مجبور کرتی ہے،ایسی صورت میں جبکہ بہت حساس گفتگو کر رہے ہوں ۔
جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ، فونز کو احتیاطی تدبیر کے طور پر بند کرنا فون آپریٹرز محسوس کر سکتے ہیں ؛ مثال کے طور پر اگر تمام دس لوگ ایک ہی عمارت کی طرف سفرکرتے ہیں اور سب ایک ہی وقت پر اپنے فون بندد کرتے ہیں، تو موبائل آپریٹر یا کوئی بھی جو اس کے ریکارڈز کی نگرانی کر رہا ہے ، نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ وہ تمام لوگ ایک ہی میٹنگ میں ہیں اور شرکااسے حساس سمجھتے ہیں لیکن اس بات کا پتہ لگانا مشکل ہوگا اگر شرکا اپنے فون گھر یا دفتر میں ہی چھوڑ کرجائیں۔
قبضے میں لئے گئے فون کا فرانزک تجزیہ:
موبا ئل کے آلات کا فرانزک تجزیہ ایک اچھی طرح ترقی یافتہ خصوصیت ہے۔ ایک ماہر تجزیہ کار قبضے میں لئے گئے آلہ کو ایک خاص مشین سے جوڑیں گے, جو آلہ کے اندر ذخیرہ شدہ کوائف پڑھتی ہے، بشمول پچھلی سرگرمی کا ریکارڈ ،فون کالز اور ٹیکسٹ پیغامات فارنسک تجزیہ ریکارڈ کو بحال کرنے کے قابل ہوسکتا ہے جو صارف عام طور پر دیکھ یا رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ حذف شدہ ٹیکسٹ پیغامات جیسے جو نا حذف کئے جا سکتے ہیں۔ عام طور پر فرانزک تجزیہ سکرین کے قفل کی سادہ شکلوں کو نظرانداز کر سکتا ہے۔بہت سے ا سمارٹ فون اطلاقات اور سافٹ ویئر میں خصوصیات موجود ہیں کہ کچھ ڈاٹا اور ریکارڈ کے فارنسک تجزیہ کو روکنے کی کوشش کریں , یا ایک تجزیہ کار کیلئے یہ ناقابل مطالعہ کرنے کیلئے کوائف کی خفیہ کاری۔ اضافی طور پہ, ریموٹ وائپ سافٹ ویئر ہے۔, جو فون مالک یا مالک کی طرف سے نامزد کی درخواست پر مخصوص ڈاٹا مٹانے کے قابل بناتا ہے۔یہ سافٹ ویئرآپ کے فون کے کوائف کو جرائم پیشہ افراد کی طرف سے حاصل ہونے سے بچانے کیلئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم،نوٹ کریں کہ ثبوت کی تباہی کا قصداً یا تحقیقات کی رکاوٹ ایک علیحدہ جرم کے طور پر چارج کر سکتے ہیں ، بہت ہی سنگین نتائج کیساتھ اکثر۔ بعض صورتوں میں یہ ثابت کرنا اس مبینہ جرم کے اصل ہونے کی تحقیقات حکومت کیلئے آسان ہو سکتی ہیں اور کافی سے زیادہ کو سزا دلوا سکتی ہیں ۔
فون کے استعمال کے نمونہ کا کمپیوٹر تجزیہ:
حکومتیں بھی ڈاٹا کا تجزیہ کرنا میں دلچسپی لیتی ہیں کمپیوٹر کے ذریعہ متعدد صارفوں کے فونز کے بارے میں بعض نمونوں کو خود بخود تلاش کرنے کیلئے۔ حکومت کے تجزیہ کار کو نمونوں کی مدد سے ایسے مقدمات کو تلاش کرسکتے ہیں جس میں لوگوں نے ایک غیر معمولی انداز میں ان کے فونز استعمال کئے ہیں، جیسے خاص طور پر نجی نوعیت کی احتیاطی تدابیراختیار کرنی ہوتی ہیں۔کچھ مثالیں جنہیں حکومت کوائف کا تجزیہ کر کے حاصل کر سکتی ہے:خود بخود پتہ لگانا کہ لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہیں ؛ یہ پتہ لگانا کہ ایک ہی شخص متعدد فون استعمال کر رہا ہو یا فون تبدیل کر رہا ہو؛اس بات کی تحقیق کرنا جب لوگوں کا ایک گروپ ساتھ میں سفر کر رہا ہو یا جب لوگ آپس میں با قاعدگی سے ملاقاتیں کر رہے ہوں؛جب لوگوں کا ایک گروہ غیر معمولی یا مشکوک انداز میں ان کے فونز استعمال کر رہا ہو،کاپتہ لگانا ؛ایک صحافی کے خفیہ ذرائع کی نشاندہی کرنا۔مختصر یہ کہ آپ کی کنٹیکٹ فہرست ، دن بھر کی کوئی بھی حرکت محفوظ نہیں ہے۔
http://sasagarurdutahzeeb.blogspot.in/2012/06/why-juhi-cry-against-mobile-towers.html

By: S. A. Sagar
The repercussions of mobile phone radiation have been a cause of worry, since a while now and the U.S. Federal Communications Commission now has a task ahead of them. According to Bloomberg Business week, the U.S. FCC now plans to ascertain if their standards protect humans from mobile phone radiation. Seeking answers to them is more crucial now for the U.S. FCC than ever, owing to an increase in smartphone usage.
In this connection, actress Juhi Chawla and residents of four buildings in plush Malabar Hill in south Mumbai have approached the government to regulate mobile communication towers after 14 towers were installed in the state guest house in their neighbourhood. According to reports, Thursday , November 3 , 2011, the residents, calling themselves Neighbours of Sahyadri Guest House, have put up hoardings outside their buildings around the guest house, requesting the state government to remove the cellphone towers amid concerns about electromagnetic radiation from the towers. The guest house hosts prominent state guests visiting the city. Chawla, who first wrote to the chief minister and MP Milind Deora in 2010, after conducting an independent audit of the radiation level, hopes that the government steps in soon to regulate the high levels, especially in residential areas. We had heard of the harmful effects of radiation but wanted to be statistically sure. After conducting an audit through an independent agency in our house, which is just 40 metres away from the towers, we found out that the radiation level in the house was very high, said Chawla. The residents are demanding that the standard for radiation through mobile tower boosters should be at 1 milliwatt per square metre. According to experts, the exposure limits to radio frequency fields prescribed by India is 9.2 watts per square metre, in contrast to much lower levels in other countries, i.e., 3 in Canada, 2 in Australia, 1.2 in Belgium, 0.1 in China, Italy, 0.095 in Switzerland and 0.02 in Russia. The demand from Malabar Hill appears to echo a recommendation by a government expert panel that warned last month that regulation of mobile towers has not kept pace with the growth of the cellphone industry and India needs to revise its currently prescribed exposure limits. According to the panel’s report, Salzburg city in Austria has a precautionary limit of 0.001, which is what the Malabar Hill residents are demanding. New South Wales in Australia has a much lower limit, 0.00001, the report says. Chawla said that after the results of her audit, she sent the findings to the chief minister and also wrote letters to the neighbourhood to request them to conduct such audits and create awareness. We will not see the immediate effects of radiation but it would have long-term hazards. In a densely populated country like ours, there has to be regulation on clusters of towers installed on buildings in residential areas or near hospitals and schools, she said. Chawla said she had been supported by Deora, who said he would take steps towards regulation, but nothing substantial has happened. Other departments too have washed their hands of it, she said. The panel of experts tasked by the Union environment ministry to assess the likely impact of mobile phone towers recommended in a report last month that India’s guidelines on exposure limits need to be revised as they are based on standards set by an international commission that looked at only the thermal impacts of radio frequency and are dismissive of current evidence on impacts of non-thermal nature from chronic exposure to mobile towers. Studies have indicated significant non-thermal long-term impacts of electromagnetic fields on some species, especially at the genetic level which can lead to various health complications including tumours, reduction in sperm counts and congenital deformities, the panel said. However, the panel said there is no long-term data on the environmental impacts of exposure to mobile towers. Studies on the impact of cellphone towers on birds and other wildlife are almost non-existent in India, it said, calling for further research to guide policy. The Malabar Hill residents are also planning on using RTI to get the government into action. Prakash Munshi, a resident, approached the public works department which responded through a letter on November 1, giving details of the mobile tower companies which have installed small boosters on the guest house. They have said that they would be responding after getting information from other departments of the state, said Munshi. We should be taking proactive than reactive steps. After taking up the cause, apart from approaching the government, we can only create awareness so that others would demand action and take necessary steps, said Chawla. A news report said minister of state for Environment Sachin Ahir said radiation from mobile towers is not hazardous to health. The issue had figured in the legislative assembly as well and a expert committee was set up to look into the complaints. As per the report, radiation from mobile towers do not cause health problems, he said. Besides removal of towers, Juhi demanded clarity in specifications like height and number of towers in a given cluster, besides their distance from residential buildings and schools across the state. The condition of local residents living nearby the mobile towers was like staying in a microwave oven, the actress said, adding standards of radiation should be reconsidered in the densely-populated areas.
U.S. FCC to assess mobile phone radiation safety:
Reportedly, it was back in 1996 that the FCC made changes last to its guidelines that set a limit to maximum radiation-exposure levels based on the amount of heat emitted by mobiles. The report adds that the agency's chairman, Julius Genachowski will "ask fellow commissioners today to approve a notice commencing a formal inquiry. Quoting Tammy Sun, a spokeswoman for the agency, the report added, The notice won’t propose rules. Our action today is a routine review of our standards. We are confident that, as set, the emissions guidelines for devices pose no risks to consumers. The Indian government, too has been taking active steps towards tightening the noose around norms, which specify the levels of radiation in every handset. Hands-free, till now may have been just another accessory bundled up with a mobile phone, but they will have become mandatory with all mobile phones. Reason? Using hands-free, as opposed to answering calls the usual way is being seen as an effective method of steering clear of radiation emissions. That or, switching over to SMSes as your mode of communication, altogether is preferable, too, since this way one can evade radiation. Reportedly, the SAR levels or Specific Absorption Rate,i.e. the rate at which a normal human body absorbs radio frequency (RF), is currently at 2 watts/kg in India. Now, the government aims to crunch this number down further to 1.6 watts/kg average over a six minute period. These levels are decided on in compliance with the norms of the International Commission on Non-Ionizing Radiation Protection Association or, ICNIRP. Importantly, featuring SAR levels on every mobile handset will soon become mandatory. This calls in for an amendment to the Indian Telegraph Act, 1885. The Delhi government, too ordered manufacturers to ensure that all new handsets will be sold with a tag that displays the amount of radiation emitted by it. Also, as part of the new reform, a certain restraint will be put on mobile phone towers in and around the capital as a lot of complaints against cell phone towers have been registered in the recent past. At an international conference organised by The Associated Chambers of Commerce and Industry of India, ASSOCHAM, Telecom minister, Kapil Sibal confirmed that the cell phone, tower radiation levels in the country are well within the prescribed limits, hence safe. No one has forgotten the tragedy that befell Japan last year and the radiation leaks at the Fukushima plant. A year on, things seem to be getting back to normal and it is from Japan now that the world's first radiation sensing smartphone has been introduced, called Pantone 5(107SH). The highlight of this smartphone by Sharp is its ability to measure radiation in one's vicinity, be it a park or even within one's home, either automatically or manually. To enhance the use of this feature, the smartphone also sports a dedicated button for measuring radiation. On pressing and holding down the button on the smartphone, one can measure radiation (gamma rays) in the 0.05?Sv/h to 9.99?Sv/h range. As aforementioned, the user can either manually measure it constantly, or if he chooses to can view it automatically displayed on their map history. Radiation from mobile phones has been a topic of debate, for a while now; with some even claiming that they may be carcinogenic. That, however remains debatable.

No comments:

Post a Comment