Saturday 16 January 2016

ذرا زبان سنبھال کے بولئے!

ایس اے ساگر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله أشرف الأنبياء والمرسلين الخاتم النبیین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
غصہ سے بے قابو انسان کو عام طور مانگے بغیرمشورہ مل جاتا ہے کہ ذرا زبان سنبھال کے بولئے، دراصل اللہ جل شانہ نے یوں تو انسان پر بیشمار احسان کئے ہیں کہ اگر کوئی شخص انھیں گننا چاہے تو اس کی طاقت وقدرت سے یہ باہر ہے جیسا کہ خود اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :
وَِان تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللّہِ لاَ تُحْصُوہَا ِانَّ اللّہَ لَغَفُور رَّحِیْم
اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو کبھی نہ گن سکو گے بلا شبہ اللہ تعالی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.
(سورئہ نحل:١٨)
انہیں نعمتوں میں سے ایک بیش بہا نعمت زبان ہے. بتیس دانتوں کے درمیان محفوظ زبان اللہ تعالی کی بڑی عظیم نعمت ہے. اس کے ذریعہ انسان چاہے تو اپنی آخرت کیلئے نیکیوں کے خزانے جمع کرسکتا ہے اور ذرا سی لاپروائی سے اپنی آخرت برباد بھی کرسکتا ہے،
اس لئے حدیث پاک میں زبان کو قابو میں رکھنے اور کم گوئی کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں،
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
وقت پر نماز ادا کرنا،
میں نے عرض کیا یارسول اللہ، اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
یہ بات کہ لوگ تمہاری زبان سے محفوظ رہیں،
یعنی زبان کو دوسروں کی دل آزاری سے، غیبت سے، دھوکہ دہی سے روکو.
(ترغیب)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ،
نجات کی صورت کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہارا گھر تمہارے لئے کافی ہوجائے اور اپنے گناہ پر روؤ.
(ابو داؤد و ترمذی)
گھر کے کافی ہونے سے مراد یہ ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نکل کر فتنے میں مبتلا نہ ہو اور گناہ پر رونے سے مراد گناہ پر اظہار ندامت اور توبہ کرنا ھے،
اور ایک حدیث میں ہے آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے یوں ارشاد فرمایا کہ ،
کیا میں تمہیں دو ایسے عمل نہ بتاؤں جو زبان پر ہلکے لیکن میزان عمل میں بہت بھاری ہیں؟
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ،
یا رسول اللہ، ضرور بتائیے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
خوش اخلاقی اور کثرت سے خاموش رہنے کی پابندی کرو.
(ترغیب)
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی یہی بات ارشاد فرمائی.
(ایضا بحوالہ ابوالشیخ)
کیا ہے حفاظت کی صورت؟
قرآن اور صحیح حدیث کی روشنی میں زبان کی آفتوں اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنی ضروری ہیں. بھلائی اور برائی میں اس زبان کا بہت بڑا دخل ہے جو شخص اس کو آزاد اور بے لگام رکھتا ہے اسے یہ زبان ہلاکت وبربادی کے گڈھے کی طرف لے جاتی ہے لیکن جو شخص اس پر شریعت کی لگام کستا ہے وہ اس کے شر وفساد سے محفوظ رہتا ہے۔زبان اعضاء انسانی میں سب سے زیادہ بے قابو عضو ہے کیوں کہ اس کے استعمال میں کوئی مشقت نہیں ہوتی ہے اور یہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے شیطان انسان کیخلاف استعمال کرتاہے ۔
یہی زبان ہے جس کے ذریعہ انسان دنیا کے کھانے پینے والی چیزوں کے ذائقہ کونہ صرف معلوم کرتا ہے بلکہ بڑی لذت سے انہیں تناول بھی کرتا ہے، بخار یا کسی مرض کی وجہ سے چند دنوں تک یہ زبان اگر متاثر ہوجاتی ہے تو اس کی اہمیت کا ہمیں فورا اندازہ ہونے لگتا ہے ، یہی زبان جس سے ہم اپنے دل کی بات اور ما فی الضمیر کو ادا کرتے ہیں۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں آپ کو بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کی دینداری ، زہد وتقوی اور عبادت وریاضت کی مثال دی جاتی ہے ،وہ بھی ذرا سی لاپر وائی میں ایسے کلمات بو ل جاتے ہیں جو اللہ کی ناراضگی کا سبب ہوتے ہیں اور پھر بندہ اس ایک کلمہ کے نتیجہ میں مشرق ومغرب کے ما بین کی مسافت سے بھی زیادہ دوری پر اپنے مقام سے نیچے گر جاتا ہے۔
(الجواب الکافی ص١٢٨)
چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
من یضمن لی ما بین لَحْییہ وما بین رجلیہ أضمن لہ الجنة.
جو شخص اپنی زبان اور اپنی شرمگاہ کی (حفاظت) کی ضمانت دے میں اس کیلئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
(صحیح بخاری کتاب الرقاق'باب:٢٣ حدیث:٦٤٧٤)
کبھی کبھی بندہ بغیر سوچے سمجھے ایسی بات کہہ جاتا ہے جو اس کی ہلاکت وتباہی کا سبب بن جاتی ہیں'
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
ان العبد لیتکلم بالکلمة ما یتبین فیہا یزل بہا فی النار أبعد مما بین المشرق والمغرب.
بندہ بغیر سوچے سمجھے ایسی بات کہہ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مشرق ومغرب کے مابین مسافت سے بھی زیادہ دور جہنم میں گرجاتا ہے.
(صحیح بخاری کتاب الرقاق'باب:٢٣ حدیث:٦٤٧٧)
اس طرح جب صحابی رسول عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات کے متعلق پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا،
أمسِکْ علیک لسانَک ولیسَعْک بیتُک وابک علی خطیئتک.
اپنی زبان پر قابو رکھو ،تمہارا گھر تمہارے لئے کشادہ ہو' اور اپنے گناہ پر(نادم ہوکر) آنسو بہاؤ.
(سنن ترمذی کتاب الزہد'باب:٦١حدیث:٢٤٠٦)
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا،
کُفَّ علیک ہذا' فقلت یا نبی اللہ وانا لمواخذون بما نتکلم بہ فقال:ثکلتک أمک یامعاذ وہل یکب الناسَ فی النار علی وجوہہم أو علی مناخرہم الا حصائد ألسنتہم
اس (زبان)کو اپنے قابو میں رکھو.
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا،
اے اللہ کے نبی، جو ہم بولتے ہیں کیا اس پر ہماری گرفت ہوگی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاذ، اللہ تمہارا بھلا کرے ،جہنم بہت سے لوگ منہ کے بل اپنی زبان کی کھیتیوں کی وجہ سےجائیں گے۔
(سنن ترمذی کتاب الیمان'باب:٨ حدیث:٢٦١٦)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ،
ِاذا اصبح ابن آدم فان الأعضا کلہا تکفر اللِسان فتقول اتقِ اللہ فِینا فانما نحن بِک فان استقمت استقمنا وان اعوججت اعوججنا.
جب نبو آدم صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کو یاد دلاتے ہیں اور کہتے ہیں تو ہمارے متعلق اللہ سے ڈر ہمارا انجام تیرے ساتھ ہے اگر تو درست رہی تو ہم بھی درست ہیں او راگر تو راہ راست سے بھٹک گئی تو ہم بھی بھٹک گئے.
(سنن ترمذی کتاب الزہد'باب:٦١حدیث:٢٤٠٧)
یعنی کہ تمام اعضاء انسانی میں زبان کورہنما اور ترجمان کی حیثیت حاصل ہے اور ظاہر سی بات ہے جب رہنما راہ راست سے بھٹکے گا تو اس کا انجام بھی اتناہی بھیانک اور خطرناک ہوگا.
اسی لئے اکثر آفتیں گناہ ِکبیرہ زبان  کے سبب سرزد ہوتے ہیں ؛مثلاغیبت، چغلی، جھوٹ، جھوٹی گواہی، بہتان تراشی، گالی گلوچ، لعن طعن وغیرہ اس میں شامل ہیں اور تقریباان سب زبانی آفتوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور گناہ کبیرہ بغیر توبہ بالخصوص اگر اس کا تعلق کسی بندہ سے ہو تو اس سے معافی مانگے بغیرمعاف نہیں ہوسکتا اس لحاظ سے زبان کی آفتوںسے بچنا بہت ضروری ہے۔
حفاظت زبان کی تدابیر
١۔زبان پر شریعت کا لگام لگانارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
من کان یؤمِن بِاللہِ والیومِ الآخِرِ فلیقل خیرا أو لِیصمت .
جس کا ایمان اللہ اور یوم آخرت پر ہے اسے چاہئے کہ بھلی بات کرے یا چپ رہے.
(صحیح بخاری کتاب الأدب باب:٣١ حدیث:٦٠١٨)
٢۔جس مجلس میں زبان کی فصلیں کٹ رہی ہوں اس کا بائکاٹ کرناارشاد باری تعالی ہے :
وَِإذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْہُ
اور جب بے ہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کرلیتے ہیں.
(سورئہ قصص : ٥٥)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا،
وَِإذَا رَأَیْْتَ الَّذِیْنَ یَخُوضُونَ فِیْ آیَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتَّی یَخُوضُواْ فِیْ حَدِیْثٍ غَیْْرِہِ وَِإمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْْطَانُ فَلاَ تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ.
اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کررہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلادے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔
(سورہ انعام :٦٨ )
3-کراما کاتبین کی موجودگی کا احساس ضروری ہے .اگر آدمی کو یقین ہو جائے کہ اس کی زبان سے نکلی ہوئی ہر چھوٹی بڑی بات لکھی جارہی ہے تو زبان سے نکلے ہوئے ہرہر کلمہ کی اہمیت کو محسوس کرے گا اور بولنے سے پہلے ضرور سوچے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے
إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْد' مَا یَلْفِظُ مِن قَوْلٍ ِإلَّا لَدَیْْہِ رَقِیْب عَتِیْد.
جب دو (فرشتے) لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے سب ریکارڈ کرتے ہیںوہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگراں موجود رہتا ہے
(سورئہ ق:١٧۔١٨)
دوسری جگہ فرمایا:
وَِإنَّ عَلَیْْکُمْ لَحَافِظِیْنَ 'کِرَاماً کَاتِبِیْنَ 'یَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ.
اور تم پر نگراں مقرر ہیں جو معزز ہیں اعمال لکھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو.
(سورئہ انفطار:١٠۔١٢)
4۔قیامت کے دن زبان کے بولنے اور انسان کیخلاف گواہی دینے پر یقینارشاد باری تعالی ہے
یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْْہِمْ أَلْسِنَتُہُمْ وَأَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون.
جس دن مجرموں کی اپنی زبانیں'ہاتھ اور پاؤں ان کے کرتوت سے متعلق ان کے خلاف گواہی دیں گے.
(سورئہ نور:٢٤)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
تم لوگ پوچھوگے نہیں کہ میں کیوں ہنسا؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا،
قیامت کے دن ایک بندے کا رب سے جھگڑنے پر مجھے تعجب ہوا وہ کہے گا اے میرے پروردگار،
کیا تیرا وعدہ نہیں ہے کہ تو میرے اوپر ظلم نہیں کرے گا؟
اللہ تعالی فرمائے گا،
کیوں نہیں،
بندہ کہے گا تو پھرآج میں اپنے نفس کے علاوہ کسی کی گواہی اپنے حق میں قبول نہیں کروں گا.
اللہ تعالی فرمائے گا تیری گواہی کیلئے میں اور میر ے کراماً کاتبین (فرشتے) کافی نہیں ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
یہی با ت بار بار دہرائے گا پھر اس کے منہ پر مہر لگا  دی جائے گی اور اس کے کرتوتوں کی گواہی اس کے اعضاء وجوارح دیں گے (منہ کھلنے کے بعد) بندہ کہے گا تمہارے لئے بربادی ہو میں تو تمہاری خاطر اللہ سے لڑ رہا تھا.
(مستدرک حاکم ج٤/٦٠١' ہذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ )
5-جہنم سے خوف ،
عن أبي ہریرة قال سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ''عن أکثر ما یدخل الناس الجنة فقال تقوی اللہ وحسن الخلق' وسئل عن أکثر ما یدخل الناس النار' فقال الفم والفرج''
(رواہ الترمذی وحسنہ الألبانی)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جنت میں زیادہ جائیں گے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
اللہ کا تقوی اور حسن خلق.
اورپوچھا گیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جہنم میں زیادہ جائیں گے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
منہ اور شرمگاہ.
(سنن ترمذی کتاب البر والصلةباب:٦٢ حدیث:٢٠٠٤)
زبان کے چالیس گناہ :
Zabaan k 40 Gunah
جھوٹ بولنا
Jhut bolna
غیبت کرنا
Gheebat karna
وعدہ خلافی
Wayda khilafi
زیادہ مذاق کرنا
Zyada mazaq karna
بد اخلاقی
Bad akhlaqi
دل توڑنا
Dil todna
بے عزتی کرنا
Be izzati karna
تہمت لگانا
Tohmat lagana
طعنے دینا
Taane dena
حکم ناحق کرنا
Hukm na'haq karna
بے جا سرزنش کرنا
Beja sarzanish karna
کسی کا مذاق اڑانا
Kisi ka mazak udana
ناامید کرنا
Na ummeed karna
دکھاوے کی گفتگو کرنا
Dhikhawe ki guftagoo karna
برائی کا حکم دینا
Bura'ee ka hukm dena
نیکی سے روکنا
Neki se rokna
دل آزاری کرنا
Dil aazari karna
جھوٹی گواہی دینا
Jhuti gawahi dena
شیخی بگھارنا
Shaikhi Bagharna
افواہیں پھیلانا
Afwahein phailana
مسلمان کو رنجیدہ کرنا
Musalmaan ko ranjeeda karna
دین میں بدعات ایجاد کرنا
Deen me badyaat eijad karna
فحش گوئی
Fahish goyee
سخت کلامی
Sakht kalamii
نکتہ چینی
Nukta cheenee
الٹے نام سے پکارنا
Ulte naam se pukarna
نامحرم کے ساتھ رغبت سے گفتگو کرنا
Na mehram ke sath raghbat se guftagoo karna
چاپلوسی اور خوشامد
Chaaploosi aur khushamad
بے جا واویلا کرنا
Beja wawaila karna
لوگوں پر نفرین کرنا
Logon par nafreen karna
حسد اود بخل کا اظھار کرنا
Hasad aur bukhl ka izhar karna
بہانہ جوئی و مکارانہ گفتگو کرنا
Bahanajoyi wa makarana guftagoo karna
مسائل دینی میں ردوبدل کرنا
Masa'le deeni me raddobadal karna
لوگوں کے رازوں کو فاش کرنا
Logon k razon ko fash karna
بغیر تحقیق کے خبر دینا
Baghair tehqeeq k khabar dena
لوگوں کی عیب جوئی کرنا
Logon k aib joyii karna
کفر و شرک کی تصدیق کرنا
kufr wa shirk ki tasdeeq karna
لوگوں کو بدنام کرنا
Logon ko badnaam karna
قسم کھانا
Qasam khana

No comments:

Post a Comment