Friday, 29 January 2016

کون ہیں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر ؟

آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام بت پرستی کے خلاف وعظ فرمایا کرتے تھے لیکن آپ کی قوم ان کے خلاف ہر کوچہ و بازار میں چرچا کرتی پھرتی تھی اور حضرت نوح علیہ السلام کو طرح طرح کی ایذائیں دیا کرتی تھی۔ چنانچہ قرآن مجید کا بیان ہے کہ:
وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۬ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسْرًا ﴿ۚ23﴾وَ قَدْ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا ۬ۚ
ترجمہ :۔اور بولے ہرگز نہ چھوڑنا اپنے خداؤں کو اور ہرگز نہ چھوڑنا وَدّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو اور بے شک انہوں نے بہتوں کو بہکایا۔(پ29،نوح:23،24)
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بت پرست ہو گئی تھی۔ اور ان لوگوں کے پانچ بت بہت مشہور تھے جن کی پوجا کرنے پر پوری قوم نہایت ہی اصرار کے ساتھ کمربستہ تھی اور ان پانچوں بتوں کے نام یہ تھے۔
(۱) ودّ
(۲) سُواع
(۳) یغُوث
(۴) یَعُوق
(۵) نسر
جن کا تذکرہ اوپر آیت میں بھی موجود ہے۔ یہ پانچوں بت کون تھے؟ ان کے بارے میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے یہ پانچوں فرزند تھے جو نہایت ہی دین دار و عبادت گزار تھے اور لوگ ان پانچوں کے بہت ہی محب و معتقد تھے۔ جب ان پانچوں کی وفات ہو گئی تو لوگوں کو بڑا رنج و صدمہ ہوا تو شیطان نے ان لوگوں کی تعزیت کرتے ہوئے یوں تسلی دی کہ تم لوگ ان پانچوں صالحین کا مجسمہ بنا کر رکھ لو اور ان کو دیکھ دیکھ کر اپنے دلوں کو تسکین دیتے رہو۔ چنانچہ پیتل اور سیسے کے مجسمے بنا بنا کر ان لوگوں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں رکھ لئے۔ کچھ دنوں تک تو لوگ ان مجسموں کی زیارت کرتے رہے پھر لوگ ان بتوں کی عبادت کرنے لگے اور خدا پرستی چھوڑ کر بت پرستی کرنے لگے۔
(تفسیر صاوی، جلد۶، صفحہ۲۲۴۵،پارہ۲۹، نوح:۲۳)
حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک ان لوگوں کو وعظ سنا سنا کر اس بت پرستی سے منع فرماتے رہے۔ بالآخر طوفان میں غرق ہو کر سب ہلاک ہو گئے۔ مگر شیطان اپنی اس چال سے باز نہیں آیا اور ہر دور میں اپنے وسوسوں کے جادو سے لوگوں کو اس طور پر بت پرستی سکھاتا رہا کہ لوگ اپنے صالحین کی تصویروں اور مجسمے بنا کر پہلے تو کچھ دنوں تک ان کی زیارت کرتے رہے اور ان کے دیدار سے اپنا دل بہلاتے رہے۔ پھر رفتہ رفتہ ان تصویروں اور مجسموں کی عبادت کرنے لگے۔ اس طرح شرک و بت پرستی کی لعنت میں د نیا گرفتار ہو گئی اور خدا پرستی اور توحید خالص کا چراغ بجھنے لگا جس کو روشن کرنے کے لئے انبیاء سابقین یکے بعد دیگرے برابر مبعوث ہوتے رہے۔ اسی لئے ہماری شریعت میں نبی اکرم ﷺ نے جاندار کی تصاویر بنانے سے ہی منع فرما دیا۔ اور حدیث کے مطابق جس گھر میں تصویر یا کتا یا جنب ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
بہت سے علماء نے وڈیو اور کمپیوٹر یاموبائل کی تصاویر کے جواز کا فتویٰ دیا ہے کہ یہ مثل آئینہ ہے کہ موبائل یا ٹی وی بند کیا تو تصویر غائب ہوجاتی ہے۔ جیسے آئینے یا پانی کے سامنے کھڑے ہوں تو آپ کو اپنا عکس نظر آتا ہے اور جب ہٹ جائیں تو عکس یا تصویر غائب ہوجاتی ہے۔اس کے جواز میں علماء نے پورے رسائل لکھے ہوئے ہیں۔اور کچھ علماء کرام نے اس کو بھی حرام ہی لکھا ہے۔ہاں کاغذ کپڑے وغیرہ کے اوپر کسی بھی جاندار کی تصویر سب کے نزدیک ہی ناجائز ہے۔اور بنانے والا گناہ گار ہوگا۔ بہرحال کمپیوٹر موبائل کی تصویر میں علماء کا تھوڑا اختلاف ہے۔ اور حدیث کے مطابق علماء میں اختلاف عامۃ المسلمین یعنی عوام کے لئے باعث رحمت ہی ہوتا ہے۔ 
حضرت نوح علیہ السلام کی دعا اور اس کا جواب
سورة هود آیات۳۶ـ۴۹

قرآن پاک اردو ترجمہ و تفسیر مولانا محمود الحسن
انگلش ترجمہ جسٹس مفتی تقی عثمانی

وَ اُوۡحِیَ اِلٰی نُوۡحٍ اَنَّہٗ لَنۡ یُّؤۡمِنَ مِنۡ قَوۡمِکَ اِلَّا مَنۡ قَدۡ اٰمَنَ فَلَا تَبۡتَئِسۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿ۚۖ۳۶﴾

اور حکم ہوا طرف نوح کی کہ اب ایمان نہ لائے گا تیری قوم میں مگر جو ایمان لاچکا سو غمگین نہ رہ ان کاموں پر جو کر رہے ہیں [۵۰]

And it was revealed to NūH: None of your people would come to believe any more, except those who have already believed. So, be not distressed by what they have been doing.

وَ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ ﴿۳۷﴾ 

اور بنا کشتی روبرو ہمارے اور ہمارے حکم سے اور نہ بات کر مجھ سے ظالموں کے حق میں یہ بیشک غرق ہوں گے [۵۱]

And make an ark under Our eyes and according to Our revelation; and do not speak to Me about those who have crossed the limits, as they are destined to be drowned.”

وَ یَصۡنَعُ الۡفُلۡکَ ۟ وَ کُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ سَخِرُوۡا مِنۡہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ ﴿ؕ۳۸﴾ 

اور وہ کشتی بناتا تھا [۵۲] اور جب گذرتے اس پر سردار اس کی قوم کے ہنسی کرتے اس سے [۵۳] بولا اگر تم ہنستے ہو ہم سے تو ہم ہنستے ہیں تم سے جیسے تم ہنستے ہو [۵۴]

He started making the Ark. Whenever the leaders of his people passed by him, they mocked at him. He said, “If you mock at us, we mock at you like you mock at us:


فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۙ مَنۡ یَّاۡتِیۡہِ عَذَابٌ یُّخۡزِیۡہِ وَ یَحِلُّ عَلَیۡہِ عَذَابٌ مُّقِیۡمٌ ﴿۳۹﴾ 

اب جلد جان لو گے کہ کس پر آتا ہے عذاب کہ رسوا کرے اسکو اور اترتا ہے اس پر عذاب دائمی [۵۵]

So, you shall soon know who will be visited by a scourge that will humiliate him, and upon whom a lasting punishment will settle forever.”


حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَمۡرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوۡرُ ۙ قُلۡنَا احۡمِلۡ فِیۡہَا مِنۡ کُلٍّ زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ اَہۡلَکَ اِلَّا مَنۡ سَبَقَ عَلَیۡہِ الۡقَوۡلُ وَ مَنۡ اٰمَنَ ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۴۰﴾ 

یہاں تک کہ جب پہنچا حکم ہمارا اور جوش مارا تنور نے [۵۶] کہا ہم نے چڑھا لے کشتی میں ہر قسم سے جوڑا دو عدد [۵۷] اور اپنے گھر کے لوگ مگر جس پر پہلے ہو چکا ہے حکم [۵۸] اور سب ایمان والوں کو اور ایمان نہ لائے تھے اس کے ساتھ مگر تھوڑے [۵۹]

At last, when Our command came and the oven overflowed, We said, “Take into the Ark a pair of two from every species, along with your family,-except those against whom the Word has already been pronounced-and (also take into it) those who have believed.” And there were only a few who had believed with him.


وَ قَالَ ارۡکَبُوۡا فِیۡہَا بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖىہَا وَ مُرۡسٰىہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۴۱﴾

اور بولا سوار ہو جاؤ اس میں اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا تحقیق میرا رب ہے بخشنے والا مہربان [۶۰]

He (NūH) said, “Embark it. With the name of Allah it sails and anchors. Surely, my Lord is Most-Forgiving, Very-Merciful.

وَ ہِیَ تَجۡرِیۡ بِہِمۡ فِیۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ ۟ وَ نَادٰی نُوۡحُۨ ابۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا وَ لَا تَکُنۡ مَّعَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۴۲﴾ 

اور وہ لئے جارہی تھی انکو لہروں میں جیسے پہاڑ اور پکارا نوح نے اپنے بیٹے کو اور وہ ہو رہا تھا کنارے اے بیٹے سوار ہو جا ساتھ ہمارے اور مت رہ ساتھ کافروں کے [۶۱]

And it was sailing with them amidst the waves like mountains. And NūH called out to his son, who was at an isolated place, “O my child, come on board with us, and do not be in the company of the disbelievers.”

قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعۡصِمُنِیۡ مِنَ الۡمَآءِ ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الۡیَوۡمَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ ۚ وَ حَالَ بَیۡنَہُمَا الۡمَوۡجُ فَکَانَ مِنَ الۡمُغۡرَقِیۡنَ ﴿۴۳﴾

بولا جا لگوں گا کسی پہاڑ کو جو بچا لے گا مجھ کو پانی سے [۶۲] کہا کوئی بچانے والا نہیں آ ج اللہ کے حکم سے مگر جس پر وہی رحم کرے اور حائل ہو گئ دونوں میں موج پھر ہو گیا ڈوبنے والوں میں [۶۳]

He said, “I shall take shelter on a mountain which will save me from the water.” He said, “There is no saver today from the command of Allah, except the one to whom He shows mercy.” And the waves rose high between the two, and he was among those who were drowned.


وَ قِیۡلَ یٰۤاَرۡضُ ابۡلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقۡلِعِیۡ وَ غِیۡضَ الۡمَآءُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ وَ اسۡتَوَتۡ عَلَی الۡجُوۡدِیِّ وَ قِیۡلَ بُعۡدًا لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۴﴾ 

اور حکم آیا اے زمین نگل جا اپنا پانی اور اے آسمان تھم جا اور سکھا دیا گیا پانی اور ہو چکا کام اور کشتی ٹھہری جودی پہاڑ پر اور حکم ہوا کہ دور ہو قوم ظالم [۶۴]

It was said (by Allah), “O earth, suck in your water, and O heaven, stop.” And water subsided, and the matter was over. It (the Ark) came to rest on the Jūdī, and it was said, “Away with the wrongdoers.”

وَ نَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَ اِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۴۵﴾ 

اور پکارا نوح نے اپنے رب کو کہا اے رب میرا بیٹا ہے میرے گھر والوں میں اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے

NūH called unto his Lord and said, “My Lord, my son is a part of my family, and surely Your promise is true, and You are the greatest of all judges.”

قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۴۶﴾ 

فرمایا اے نوح وہ نہیں تیرے گھر والوں میں اس کے کام ہیں خراب سو مت پوچھ مجھ سے جو تجھ کو معلوم نہیں میں نصیحت کرتا ہو ں تجھ کو کہ نہ ہو جائے تو جاہلوں میں [۶۵]

He said, “O NūH, in fact, he is not a part of your family. Indeed, he is (a man of) bad deeds. So do not ask Me something of which you have no knowledge. I exhort you not to be among the ignorant.”


قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَ تَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۴۷﴾

بولا اے رب میں پناہ لیتا ہوں تیری اس سے کہ پوچھوں تجھ سےجو معلوم نہ ہو مجھ کو [۶۶[ اور اگر تو نہ بخشے مجھ کو اور رحم نہ کرے تو میں ہوں نقصان والوں میں [۶۷]

He said, “My Lord, I seek refuge with You that I should ask You something of which I have no knowledge. If You do not forgive me and do not show mercy to me, I shall be among the losers.”

قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۴۸﴾ 

حکم ہوا اے نوح اتر سلامتی کے ساتھ ہماری طرف سے اور برکتوں کےساتھ تجھ پر اور ان فرقوں پر جو تیرے ساتھ ہیں اور دوسرے فرقے ہیں کہ ہم فائدہ دیں گے انکو پھر پہنچے گا ان کو ہماری طرف سے عذاب دردناک [۶۸]

It was said, “O NūH, disembark in peace from Us and with blessings upon you and upon the peoples (springing) from those with you. And there are peoples whom We shall give some enjoyment, then a painful punishment from Us will visit them.”

تِلۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ ۚ مَا کُنۡتَ تَعۡلَمُہَاۤ اَنۡتَ وَ لَا قَوۡمُکَ مِنۡ قَبۡلِ ہٰذَا ؕۛ فَاصۡبِرۡ ؕۛ اِنَّ الۡعَاقِبَۃَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۴۹﴾

یہ باتیں منجملہ غیب کی خبروں کی ہیں کہ ہم بھیجتے ہیں تیری طرف نہ تجھ کو ان کی خبر تھی اور نہ تیری قوم کو اس سے پہلے [۶۹] سو تو صبر کر البتہ انجام بھلا ہے ڈرنے والوں کا [۷۰]

These are some reports from the unseen (events), which We reveal to you. You did not know them before this, neither you nor your people. So, be patient. Surely, the end is in favor of the God-fearing.



[۵۰]حضرت نوح علیہ السلام کی دعا اور اس کا جواب:

جب قوم کی ایذائیں حد سے گذر گئیں۔ تو نوح علیہ السلام  نے سینکڑوں برس ظالموں کی زہرہ گداز جفائیں جھیلنے کے بعد خدا کے آگے شکوہ کیا اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِر (القمر۔۵۴) کہ میں مغلوب و ضعیف ہوں۔ آپ ان سے بدلہ لیجئے۔ ارشاد ہوا کہ جن گنے چنے افراد کی قسمت میں ایمان لانا تھا، لاچکے ۔ آئندہ ان میں کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے لہذا اب آپ ان کی عداوت و تکذیب اور ایذا رسانی سے زیادہ غمگین نہ رہیں۔ عنقریب خدا کی شمشیر انتقام بے نیام ہونے والی ہے جو سب شرارتوں اور شریروں کا خاتمہ کر ڈالے گی
۔
[۵۱]کشتی بنانے کا حکم:

حق تعالیٰ نے نوح علیہ السلام  سے فرمایا کہ ایک کشتی ہمارے روبرو (یعنی ہماری حفاظت و نگرانی میں) ہمارے حکم اور تعلیم و الہام کے موافق تیار کرو۔ کیونکہ عنقریب پانی کا سخت خوفناک طوفان آنے والا ہے جس میں یہ سب ظالمین و مکذبین یقینًا غرق کئےجائیں گے ان کے حق میں اب یہ فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا۔ آپ کسی ظالم کی سفارش وغیرہ کے لئے ہم سے کوئی بات نہ کریں۔ آنے والا عذاب بالکل اٹل ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام  نے جب قوم لوط علیہ السلام  کے حق میں جھگڑنا شروع کیا تھا۔ ان کو بھی اسی طرح کا ارشاد ہوا تھا۔ یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ اَعۡرِضۡ عَنۡ ہٰذَا ۚ اِنَّہٗ قَدۡ جَآءَ اَمۡرُ رَبِّکَ ۚ وَ اِنَّہُمۡ اٰتِیۡہِمۡ عَذَابٌ غَیۡرُ مَرۡدُوۡدٍ (ہود۔۷۶)

[۵۲]حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی:

کہتے ہیں کشتی سالہاسال میں تیار کی۔ کشتی کیا تھی بڑا جہاز تھا۔ جس میں الگ الگ درجے تھے ۔ مفسرین نے اس کی تفاصیل میں بہت سی مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب روایات بیان کی ہیں جن میں اکثر اسرائیلیات ہیں
۔
[۵۳]قوم کا استہزاء:

کہ دیکھو ! پیغمبر سے بڑھئی بن گئے کبھی ایک عجیب سی چیز دیکھ کر نوح علیہ السلام  سے پوچھتے کہ یہ کیا بنا رہے ہو ؟ آپ فرما دیتے کہ ایک گھر بناتا ہوں جو پانی پر چلے گا اور ڈوبنے سے بچائے گا۔ وہ سن کر ہنسی اڑاتے کہ خشک زمین پر ڈوبنے کا بچاؤ کر رہے ہیں
۔
[۵۴]حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں "وہ ہنستے تھے کہ خشک زمین پر غرق کا بچاؤ کرتا ہے۔ یہ ہنستے تھے اس پر کہ موت سر پر کھڑی ہے اور یہ ہنستے ہیں" اسی تفسیر کے موافق مترجم محققؒ نے فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ الخ کا ترجمہ بصیغہ حال کیا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ نَسْخَرُ مِنْکُمْ میں استقبال کے معنی مراد لیتے ہیں۔ یعنی آج تم ہمیں احمق بناتے اور ہنستے ہو ۔ لیکن وہ زمانہ قریب ہے کہ اس کے جواب میں تمہاری حماقت و سفاہت پر ہم کو ہنسنے کا موقع ملے گا ، جب تم اپنے جرائم کی پاداش میں سزایاب ہو گے۔

[۵۵]یعنی اب زیادہ تاخیر نہیں۔ جلد آشکارا ہو جائے گا کہ دنیا کا رسوا کن اور آخرت کا دائمی عذاب کس پر نازل ہوتا ہے ؟

:[۵۶]تنور سے پانی کا ابلنا

یعنی نوح  علیہ السلام کشتی تیار کرتے رہے یہاں تک کہ وعدہ کے موافق خدا کا حکم پہنچ گیا۔ "بادلوں" کو کہ برس پڑیں اور زمین کو کہ ابل پڑے ، اور فرشتوں کو کہ تعذیب وغیرہ کے متعلق اپنے فرائض منصبی کا سر انجام کریں۔ آخر اوپر سے بارش آئی اور نیچے زمین کی سطح سے چشموں کی طرح جوش مار کر پانی ابلنے لگا۔ حتٰی کہ روٹی پکانے کے تنوروں میں جہاں آگ بھری ہوتی ہے، پانی ابل پڑا (تنبیہ) "تنور" کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض مطلق روٹی پکانے کا تنور مراد لیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک تنور حضرت حوا سے منتقل ہوتے ہوتے حضرت نوح  علیہ السلام کے پاس پہنچا تھا وہ ان کے گھر میں طوفان کا نشان ٹھہرایا گیا تھا۔ کہ جب اس سے پانی ابلے کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ بعض کے نزدیک تنور کوئی خاص چشمہ "کوفہ" یا "جزیرہ" میں تھا ۔ بعض نے دعویٰ کیا ہے تنور صبح کے اجالے اور روشنی کو کہا ہے ۔ یعنی صبح کی روشنی خوب چمکنے لگے۔ ابو حیان کہتے ہیں کہ "فارالتنور" ممکن ہے ۔ "ظہور عذاب" اور "شدت ہول" سے کنایہ ہو جیسے "حمی الوطیس" شدت حرب سے کنایہ ہے۔ ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ تنور کے معنی وجہ ارض (سطح زمین) کے ہیں۔ ہم نے اوپر جو تفسیر کی مقدم اسی معنیٰ کو رکھا ہے اشارہ بعض دوسرے معانی کی طرف بھی کر دیا۔ حافظ ابن کثیر یہ ہی تفسیر لکھنے کے بعد فرماتے ہیں ۔ وہذا قول جمہور السلف و علماء الخلف واللہ اعلم۔

[۵۷]کشتی کے سوار:

یعنی جن جانوروں کی ضرورت ہے اور نسل باقی رہنی مقدر ہے ، ان میں سے ایک ایک جوڑا (نر اور مادہ دونوں) لے کر کشتی پر سوار کر لو
۔
[۵۸]یعنی مقدر ہو چکا ہے کہ وہ ظالموں کے زمرہ میں داخل ہونے کی وجہ سے غرق کئے جائیں گے وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ (المومنون۔۲۷) اس سے مراد ہے نوحؑ کا بیٹا "یام" جس کا لقب کنعان تھا اور کنعان کی والدہ "واعلہ" گھر والوں میں سے یہ دونوں علیحدہ رہے اور غرق ہوئے
۔
[۵۹]یعنی اسّی مرد یا کم و بیش
۔
[۶۰]سوار ہونے کی دعا:

نوح علیہ السلام  نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ بنام خدا کشتی پر سوار ہو جاؤ ، کچھ فکر مت کرو اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب خدا کے اذن و حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے۔ غرقابی کو کوئ اندیشہ نہیں۔ میرا پروردگار مومنین کی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا اور ان پر بے حد مہربان ہے۔ وہ اپنے فضل سے ہم کو صحیح سلامت اتارے گا۔ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کشتی وغیرہ پر سوار ہوتے وقت "بسم اللہ" کہنا چاہئے
۔
[۶۱]حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کو سمجھانا:

یعنی کشتی پہاڑ جیسی موجوں کو چیرتی پھاڑتی بے خوف و خطر چلی جارہی تھی۔ سوار ہونے کے بعد نوح  علیہ السلام نے اپنے بیٹے یام (کنعان) کو جو اپنے باپ بھائی وغیرہ سارے کنبہ سے کنارے ہو کر کافروں کی صحبت میں تھا آواز دی کہ ان بدبخت کافروں کی معیت چھوڑ کر ہمارے ساتھ سوار ہو جا ! تا اس مصیبت عظمیٰ سے نجات پاسکے۔ (تنبیہ) یا تو نوح علیہ السلام  اسے مومن خیال کرتے تھے، اس لئے آواز دی خواہ واقع میں مومن نہ ہو۔ یا کافر جانتے ہوں مگر یہ توقع ہو گی کہ ان ہولناک نشانات کو دیکھ کر مسلمان ہو جائے گا۔ یا وَاَھْلَکَ کے عموم میں داخل سمجھ کر شفقت پدری کے جوش سے ایسا کیا ہو اور اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ کو مجمل ہونے کی وجہ سے اس پر منطبق نہ سمجھتے ہوں۔ واللہ اعلم
۔
[۶۲]وہ اپنے جہل و غبادت سے ابھی یہ خیال کر رہا تھا کہ جس طرح معمولی سیلابوں میں بعض اوقات کسی بلندی پر چڑھ کر آدمی جان بچا لیتا ہے میں بھی کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لوں گا
۔
[۶۳]یعنی کس خبط میں پڑا ہے۔ یہ معمولی سیلاب نہیں۔ عذاب الہٰی کا طوفان ہے۔ پہاڑ کی کیا حقیقت کوئی چیز آج عذاب سے نہیں بچا سکتی ہاں خدا ہی کسی پر رحم کرتے تو بچ سکتا ہے مگر اس ہنگامہ داروگیر اور مقام انتقام میں کٹر مجرموں پر رحم کیسا ہے ؟ باپ بیٹے کی یہ گفتگو پوری نہ ہوئی تھی کہ پانی کی ایک موج نے درمیان میں حائل ہو کر ہمیشہ کے لئےدونوں کو جدا کر دیا
۔
[۶۴]طوفان اور اس کا خاتمہ:

ایک مدت تک اس قدر پانی برسا گویا آسمان کے دھانے کھل گئے۔ اور زمین کے پردے پھٹ پڑے۔ درخت اور پہاڑیاں تک پانی میں چھپ گئیں۔ اصحاب سفینہ کے سوا تمام لوگ جن کے حق میں نوح  علیہ السلام نے دعا کی تھی رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَی الۡاَرۡضِ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا (نوح۔۲۶) غرق ہوئے۔ اس وقت خداوند قدوس نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی نگل جا ! اور بادل کو فرمایا کہ تھم جا ! پھر کیا مجال تھی کہ دونوں اس کے امتثال حکم میں ایک لمحہ کی تاخیر کرتے۔ چنانچہ پانی خشک ہونا شروع ہو گیا۔ کشتی "جودی"پہاڑ پر جا لگی جو بعض کے نزدیک موصل میں تھا۔ اور جو کام خدا نے چاہا (یعنی مجرمین کو سزا دینا) وہ پورا ہو چکا ظالموں کے حق میں کہہ دیا گیا کہ خدا کی رحمت سے دور ہو کر ہمیشہ کے لئے مصیبت و ہلاکت کے غار میں پڑے رہو۔ (تنبیہ) اس میں اختلاف ہے کہ طوفان نوح تمام دنیا میں آیا یا خاص ملکوں میں۔ اس کے فیصلہ کا یہاں موقع نہیں۔ مگر یاد رہے کہ "دائرۃ المعارف" میں بعض محققین یورپ کے ایسے اقوال و دلائل نقل کئے ہیں جو عموم طوفان کی تائید کرتے ہیں۔ جو لوگ عام طوفان کے قائل ہیں ان میں سے اکثر کے نزدیک موجودہ دنیا کے کل انسان نوح علیہ السلام  کے تین بیٹوں سام ، حام ، یافث کی اولاد ہیں۔ وَ جَعَلۡنَا ذُرِّیَّتَہٗ ہُمُ الۡبٰقِیۡنَ (الصافات۔۷۷) طوفان سے جو بچے اور حیوانات ہلاک ہوئے ، ان کا اہلاک بطور تعذیب نہ تھا بلکہ جیسے خدا دوسرے اسباب طبیعیہ کے ذریعہ سے ان پر موت وارد کرتا ہے اور وہ ظلم نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہاں ان کی موت اس ذریعہ سے اس واقع ہوئی آخر اب بھی جو سیلاب اور طوفان آتے ہیں ان میں کتنے جانور اور بچے ہلاک ہو جاتے ہیں
۔
[۶۵]اپنے بیٹے کے بارے میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کے اسباب:

نوح  علیہ السلام نے یہ کس وقت عرض کیا کنعان کے غرق ہونے سے پہلے یا غرق ہونے کے بعد دونوں احتمال ہیں۔ نیز کنعان کو اس کی منافقانہ اوجاع و اطوار دیکھ کر غلط فہمی سے مومن سمجھ رہے تھے یا کافر سمجھتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں یہ گذارش کی۔ دونوں باتوں کا امکان ہے۔ اگر مومن سمجھ کر غرقابی سے پہلے عرض کیا تھا تو مقصود اپنی اضطرابی کیفیت کا اظہار اور خدا سے کہہ کر اس کے بچاؤ کا انتظام کرنا تھا۔ اور اگر غرقابی کے بعد یہ گفتگو ہوئی تو محض معاملہ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کی غرض سے اپنا خلجان یا اشکال پیش کیا ۔ یعنی خداوندا ! تو نے میرے گھر والوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور کنعان مومن ہونے کی وجہ سے اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ کے استثناء میں بظاہر داخل نہیں۔ پھر اس کی غرقابی کا راز کیا ہے ؟ بلاشبہ آپ کا وعدہ سچا ہے۔ کسی کو یہ خیال نہیں گذر سکتا کہ معاذ اللہ وعدہ خلافی کی ہو۔ آپ احکم الحاکمین اور شہنشاہ مطلق ہیں۔ سمجھ میں آئے یہ نہ آئے ، کسی کو حق نہیں کہ آپ کے فیصلہ کے سامنے دم مار سکے ، یا آپ کو وعدہ خلافی پر مجبور کر دے نہ کسی کا یہ منصب ہے کہ آپ کے حکم ناطق کے متعلق کسی قسم کی نکتہ چینی کر سکے فقط قلبی اطمینان کے لئے بطریق استعلام و استفسار اس واقعہ کا راز معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا یہ ان گھر والوں میں سے نہیں جن کے بچانے کا وعدہ تھا بلکہ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ میں شامل ہے۔ کیونکہ اس کے عمل خراب ہیں۔ تم کو اس کے کفر و شرک کی خبر نہیں۔ مقام عجب ہے کہ پیغمبرانہ فراست کی روشنی میں صریح آثار کفر کے باوجود ایک کافر کا حال مشتبہ رہے۔ جس شخص کا واقع حال تمہیں معلوم نہیں اس کے بارہ میں ہم سے ایسی نامناسب رعایت یا اس طرح کی کیفیت مت طلب کرو۔
 مقربین کو لائق نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے ادب ناشناس جاہلوں کی سی باتیں کرنے لگیں۔ آیت کی یہ تقریر اس صورت میں ہے کہ نوح علیہ السلام  کنعان کو مومن سمجھتے ہوں اور اگر کافر سمجھتے تھے تو شائد اس درخواست یا سوال کا منشاء یہ ہو کہ انجاء کے ذکر میں اہل کو چونکہ عام مومنین سے الگ کر کے بیان فرمایا تھا ، اس سے نوح علیہ السلام  نے یہ خیال کیا کہ میرے اہل کو اس دنیوی عذاب سے محفوظ رکھنے کے لئے ایمان شرط نہیں اور اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مجمل تھا۔ اس لئے اس کے مصداق کی تعین نہیں کر سکے۔ بناءً علیہ شفقت پدری کے جوش میں عرض کیا کہ اِلٰہ العالمین ! میرا بیٹا یقینًا میرے اہل میں داخل ہے جس کے بچانے کا آپ وعدہ فرما چکے ہیں۔ پھر یہ کیوں غرق کیا جارہا ہے یا غرق کر دیا گیا۔ جواب ملا کہ تمہارا پہلا ہی مقدمہ (ان ابنی من اہلی) غلط ہے۔ جس اہل کے بچانے کا وعدہ تھا اس میں یہ داخل نہیں کیونکہ اس کے کرتوت بہت خراب ہیں۔ نیز اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ کے مصداق کا تم کو کچھ علم نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں پھر جس چیز کا علم تم نہیں رکھتے اس کی نسبت ایسے محاجّہ کے رنگ میں سوال یا درخواست کرنا تمہارے لئے زیبا نہیں
۔
[۶۶]حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ " آدمی وہ ہی پوچھتا ہے جو معلوم نہ ہو۔ لیکن مرضی معلوم ہونی چاہئے یہ کام جاہل کا ہے کہ بڑے کی مرضی پوچھنے کی نہ دیکھے ۔ پھر پوچھے"۔ مرضی کیوں نہ تھی ؟ اسے ہم فائدہ گذشتہ میں بیان کر چکے ہیں
۔
[۶۷]حضرت نوح علیہ السلام کی توبہ:

حضرت نوح علیہ السلام  کانپ اٹھے اور توبہ کی ، لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسا نہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندہ کو کیا مقدور ہے۔ چاہئے اسی کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو اور دل میں عزم نہ کرنے کا رکھے۔ حضرت آدم علیہ السلام  اور یونس علیہ السلام وغیرہ کی توبہ کے جو الفاظ قرآن میں نقل ہوئے ہیں ان میں یہ ہی ادب ملحوظ رہا ہے
۔
[۶۸]سلامتی اور برکت کا وعدہ:

یعنی کشتی سے جودی پر۔ پھر جودی سے زمین پر اترے۔ برکتیں اور سلامتی آئندہ تم پر اور ان اقوام پر رہے گی۔ جو تمہارے ساتھیوں سے پیدا ہونے والی ہیں۔ فی الحال جو زمین طوفان سے باکل اجڑ گئ ہے خدا دوبارہ آباد کر دے گا اور اس کی رونق و برکت پھر عود کر آئے گی۔ "سلامت" کے لفظ سے گویا حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ پھر ساری نوع انسانی پر قیامت سے پہلے ایسی عام ہلاکت نہ آئے گی۔ مگر بعضے فرقے ہلاک ہوں گے
۔
[۶۹]یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امّی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں
۔
[۷۰]جیسے نوح علیہ السلام  اور ان کے رفقاء کے انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں ، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوح علیہ السلام  نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔




No comments:

Post a Comment