Monday, 14 September 2015

حضرات ابو ہریرہ اور کعب احباررضی اللہ عنہم

امام فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ تعالٰی نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا میں نے توریت مقدس کے کسی مقام میں پڑھااے مُوسٰی! فجر کی دو۲ رکعتیں احمد اور اس کی اُمت ادا کرے گی جو انہیں پڑھے گا اُس دن رات کے سارے گناہ اُس کے بخش دُوں گا اور وہ میرے ذمّہ میں ہوگا۔ اے موسٰی! ظہر کی چار۴ رکعتیں احمد اور اس کی اُمّت پڑھے گی انہیں پہلی رکعت کے عوض بخش دُوں گا اور دوسری کے بدلے ان کا پلّہ بھاری کردوں گا اور تیسری کیلئے فرشتے موکل کروں گا کہ تسبیح کریں گے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے، اور چوتھی کے بدلے اُن کیلئے آسمان کے دروازے کشادہ کردُوں گا، بڑی بڑی آنکھوں والی حُوریں اُن پر مشتاقانہ نظر ڈالیں گی۔ اے مُوسٰی! عصر کی چار۴ رکعتیں احمد اور ان کی اُمت ادا کرے گی تو ہفت آسمان وزمین میں کوئی فرشتہ باقی نہ بچے گا سب ہی ان کی مغفرت چاہیں گے اور ملائکہ جس کی مغفرت چاہیں میں اسے ہرگز عذاب نہ دُوں گا۔ اے موسٰی! مغرب کی تین رکعت ہیں انہیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی آسمان کے سارے دروازے ان کیلئے کھول دُوں گا، جس حاجت کا سوال کرینگے اسے پُورا ہی کردوں گا۔ اے موسٰی! شفق ڈوب جانے کے وقت یعنی عشاء کی چار رکعتیں ہیں پڑھیں گے انہیں احمد اور ان کی اُمت، وہ دنیا ومافیہا سے اُن کیلئے بہتر ہیں، وہ انہیں گناہوں سے ایسا نکال دیں گی جیسے اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔ اے موسٰی! وضو کرے گا احمد اور اسکی اُمت جیسا کہ میرا حکم ہے میں انہیں عطا فرماؤں گا ہرقطرے کے عوض کہ آسمان سے ٹپکے ایک جنت جس کا عرض آسمان وزمین کی چوڑائی کے برابر ہوگا۔ اے موسٰی! ایک مہینے کے ہرسال روزے رکھے گا احمد اور اس کی اُمت اور وہ ماہِ رمضان ہے عطا فرماؤں گا اسکے ہر دن کے روزے کے عوض جنت میں ایک شہر اور عطا کروں گا اس میں نفل کے بدلے فرض کا ثواب اور اس میں لیلۃ القدر کروں گا جو اس مہینے میں شرمساری وصدق سے ایک بار استغفار کریگا اگر اسی شب یا اس مہینے بھر میں مرگیا اسے تیس۳۰ شہیدوں کا ثواب عطا فرماؤں گا۔ اے موسٰی! امتِ محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں کچھ ایسے مرد ہیں کہ ہر شرف پر قائم ہیں لاالٰہ الااللہ کی شہادت دیتے ہیں تو ان کی جزا اس کے عوض انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا ثواب ہے اور میری رحمت ان پر واجب اور میرا غضب ان سے دور، اور ان میں سے کسی پر بابِ توبہ بند نہ کروں گا جب تک وہ لاالٰہ الّااللّٰہ کی گواہی دیتے رہیں گے .کسی کو شک ہو تو وہ تنبیہ الغافلین    باب فضل ا مۃ محمد صلی ال علیہ وسلم مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان ص ۴۰۴ سے رجوع کر سکتا ہے. یہ الگ بات ہے کہ منکرین حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ "وہ کعب احبار کے شاگرد تھے ، انہوں نے اکثر روایات کعب احبار سے سنی تھیں لیکن وہ ان کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے۔" کعب احبار کے بارے میں وہ یہ کہتے ہیں کہ "انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا ، فی الحقیقت وہ یہودی تھے اور انہوں نے اسرائیلی روایات کی تشہیر کے لیے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو استعمال کیا۔"
اس الزام کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کو تہمت اور بہتان طرازی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک حضرت کعب احبار کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ قبول اسلام سے پہلے یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے ، لیکن حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد انہوں نے مدینہ میں صحابۂ کرام سے کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کی اور بقل حافظ ذہبی بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے اہل کتاب کے علوم سیکھے۔ کئی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی ان کے تبحر علمی کے معترف تھے اور ان کا احترام کرتے تھے ۔ کبھی کسی نے ان کے اسلام پر شبہ نہیں کیا بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان سے روایت کی ہے۔
حضرت ابو الدرداء انصاری رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ " ابن حمیریہ (کعب الاحبار) کے پاس بڑا علم ہے۔" (طبقات ابن سعد ج7، ق 2، ص 156)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ابو الدرداء حکماء میں ہیں اور کعب علماء میں۔ ان کے پاس سمندر جیسا علم تھا۔ (الاصابہ ج5 ، 333)
امام بخاری نے "تاریخ الکبیر والصغیر" میں حضرت کعب الاحبار کے مفصل حالات لکھے ہیں اور کہیں بھی ان پر اعتراض نہیں کیا۔ ابن ابی حاتم حافظ ذہبی ، امام نووی اور بہت سے دوسرے علماء نے کعب الاحبار کی جلالت علمی کا ذکر بہت اچھے الفاظ میں کیا ہے۔
اس کے باوجود حضرت کعب احبار کے ایمان سے انکار کرنا بڑی ناپاک جسارت ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ بقول ابن صلاح عباد لہ ثلاثہؓ نے کعب الاحبار سے روایت کی ہے۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ کعب الاحبار سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کی ایک جماعت نے روایت کی ہے۔ تابعین میں اصبحی ، عبد اللہ بن رباح انصاری ، عطاء بن ابی رباح ، مالک بن ابی عامر ، عبد اللہ بن حمزہ سلولی ، عبد الرحمن بن شعیب اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ وغیرہم نے ان سے روایت کی ہے۔
یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کعب الاحبار اگرچہ عہد رسالت میں موجود تھے لیکن ان کو شرف صحابیت حاصل نہیں ہوا اس لیے انہوں نے کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست نہیں سنی۔ البتہ قبول اسلام کے بعد بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث ضرور سنیں اور پھر دوسرے صحابہ اور تابعین کے سامنے بیان کیں۔ ان کی روایتوں میں زیادہ تعداد اسرائیلی روایتوں کی ہے۔ ان کے راوی وہ خود ہیں۔ ان میں گزشتہ اقوام کے حالات اور بہت سی عجیب و غریب باتیں ہیں۔ جن صحابہ (بشمول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) نے حضرت کعب احبار سے یہ روایات سنیں ، انہوں نے ان کے نام سے دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کیں۔ یہ غلط ہے کہ وہ ان روایات کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے تھے۔ کوئی حدیث روایت کرتے وقت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہوتا تھا کہ "جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔" ان نفوس قدسی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حضرت کعب احبار سے کوئی حدیث سنیں اور اس کو بیان کرتے وقت کہیں کہ ہم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ اب رہی یہ بات کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب احبار کے شاگرد تھے تو یہ بات بداہۃ غلط ہے۔ ایک صاحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محض اس بناء پر ایک تابعی کا شاگرد ٹھہرانا کہ انہوں نے تابعی سے روایت کی ہے، کج فہمی اور نامعقول جسارت ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت کعب احبار نے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث کی سماعت کی اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے ایسی روایات لیں جن کا تعلق بالعموم تورات یا اقوام ماضی سے تھا۔ اس میں استادی شاگردی کا کوئی سوال نہیں تھا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں:
"کسی مقام و مرتبہ یا عمر کے لحاظ سے بڑی 
شخصیت اپنے ہم عمر یا چھوٹے شخص سے روایت کرے تو ی"
(دفاع ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ صفحہ 261)​
 
کعب احبارؒ اور اسرائیلیات
مفتی محمد بلال بربری 
اہل علم خصوصاً تفاسیر قرآن سے شغف رکھنے والوں کے لیے کعب احبارؒ کوئی غیر معروف نام نہیں، اسرائیلیات کی روایت کے باب میں کعب احبارؒ کا تذکرہ تقریباً تمام تفاسیر میں کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے۔ کعب احبارؒ کے متعلق صحابہ کرام   ؓکے مختلف رویوں کی بنا پر کعب احبارؒ کی شخصیت اور ان کی ثقاہت اہل علم کے ہاں زیر بحث رہتی ہے۔ علامہ کوثریؒ نے کعب احبارؒ کے متعلق اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں ایک مضمون تحریر کیا تھا، جو اپنی جامعیت کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت میں بھی بھرپور ہے۔ اس مضمون میں ’’اسرائیلیات ‘‘کے باب میں ایک فیصلہ کن موقف بیان کیا گیا ہے۔اس عربی مضمون کا ترجمہ اردو دان طبقے کے فائدے کے لیے پیش خدمت ہے۔ (از مترجم)

قریبی علاقوں کے کچھ فضلاء اہل علم کی خواہش تھی کہ میں مندرجہ ذیل سوال کے جواب کے بارے میں اپنی رائے پیش کروں، چنانچہ اس موضوع کے متعلق میں نے اپنی بساط کے مطابق کچھ تحریر کیا۔ ذیل میں سوال کی عبارت اور پھر اس کے متعلق میرا جواب حاضر خدمت ہے:

سوال:

جنت و جہنم کے متعلق اہل اسلام کے افکار و نظریات پرکعب احبار(یہودی یا مسلمان) کی ذکر کردہ روایات کا کس قدر اثر ہے؟ مثلاً قصۂ اسراء و معراج کے بارے میں مولائے مسلمانان ابن عباسؓ سے کعب احبار کی ذکر کردہ روایت جس کا ہماری قوم میں خوب شہرہ ہے، اور ’’التفسیر الحدیث‘‘ (جلد ثانی)میں بھی موجود ہے؟

جواب:

اب میرا جواب ملاحظہ کیجیے: سائل نے ’’التفسیر الحدیث ‘‘ سے اپنی مراد واضح نہیں کی، اور نہ ہی اس قصے ہی کو بتایا ہے جو قوم میں مشہور ہے کہ اس کے متعلق کسی طور پر کھل کر بات کی جا سکے، اگر سائل کی مراد اس قصے سے وہ طویل قصہ ہے جس کو ابن جریرؒ وغیرہ مفسرین نے سورۂ اسراء کی تفسیر میں ذکر کیا ہے، تو اس کی سند میں نہ تو کعبؒ ہیں اور نہ ہی ابن عباسؓ،بلکہ اس روایت میں ابو جعفر عیسی بن ماہان رازی ہیں جو اپنے ضعف حافظہ کی وجہ سے معروف ہیں۔ اسی طرح اس روایت میں ابو ہارون عمارہ بن جوین اور خالد بن یزید بن ابو مالک ہیں، اور یہ دونوں متہم بالکذب ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان روات کی روایت حجت نہیں ہو سکتی، خاص طور پر اس طویل قصے جیسی روایات میں۔ اس طویل قصے کا کعبؒ سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، مزید یہ کہ جنت و جہنم دونوں ایسے موضوعات ہیں جن کے ذکر سے موجودہ تورات کے نسخے جو آج یہود کے پاس ہیں‘خالی ہیں، حتیٰ کہ ان دونوں کے ذکر سے تورات کا خالی ہونا تورات کے محرف ہونے پر واضح دلائل میں سے شمار کیا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ تورات جنت وجہنم کے اس اہم موضوع سے خالی ہے، جو انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کے خاص پہلو ’’ایمان بالبعث بعد الموت ‘‘(موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے عقیدے پر ایمان) سے متعلق ہے۔ لہٰذا یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کعبؒ جنت و جہنم کے متعلق قصے کتب یہود سے نقل کرتے ہوں، بلکہ ’’تلمود ‘‘ میں تو تناسخ (آواگون) کے متعلق بھی نص موجود ہے، جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کے سراسر منافی عقیدہ ہے۔

رؤیتِ باری تعالیٰ اور کعبؒ و ابن عباس ؓکا مکالمہ

البتہ معراج کی رات رؤیتِ باری تعالیٰ کے بارے میں جو گفتگو کعبؒ اور ابن عباسؒ  کے درمیان ہوئی ہے، وہ امام ترمذیؒ نے اپنی جامع میں ’’سورۃ النجم ‘‘کی تفسیر کے ذیل میں روایت کی ہے، لیکن اس کی سند میں مجالد بن سعید موجود ہیں جو حافظے کے کمزور اور مختلط ہیں۔ اس روایت میں جو شعبیؒ کے الفاظ ہیں، وہ اس روایت کے اتصال کا فائدہ نہیں دیتے ہیں اورکچھ احادیث صحاح بھی اس روایت کے معارض مروی ہیں۔

کعبؒ کا تعارف

یہ کعبؒ جو موضوع بحث ہیں، انہیں ’’کعب احبار ‘‘اور ’’کعب حبر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ’’ابن مانع حمیری ‘‘ہیں۔ یہود کے سرکردہ اہل علم میں سے تھے اور کتب یہود کے بارے میں سب سے وسیع اطلاع رکھتے تھے۔ مخضرمین میں سے تھے جنہوں نے زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام دونوں پائے۔ یمن میں پیدا ہوئے، اور وہیں رہائش پذیر رہے، تا آنکہ وہاں سے ہجرت فرمائی، اور سن ۱۲ ہجری حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسلام لائے۔ابن سعد  ؓنے اہل شام کے تابعین میں آپ کو طبقۂ اولیٰ میں ذکر کیا ہے، اور مزید کہتے ہیں کہ :’’آپ دین یہود پر تھے، پھر اسلام لائے اور مدینہ منورہ ہجرت فرمائی، شام کی طرف روانہ ہوگئے اور تاحیات حمص ہی میں رہے۔ سن ۳۲ ہجری حضرت عثمان ؓکے دور خلافت میں آپؒ کی وفات ہوئی۔سن وفات کے بارے میں ایک سے زائد قول ہیں۔

ابن حبان ’’الثقات‘‘میں فرماتے ہیں: آپؒ نے سن ۳۴ ہجری میں وفات پائی، اور ایک قول کے مطابق سن ۳۳ ہجری میں وفات پائی۔ ۱۰۴ سال زندگی پائی۔ ابن سعد ؓ نے ابن مسیب  ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس ؓنے کعبؒ سے فرمایا : آپ کو عہد نبوی، اور عہد صدیقی میں اسلام لانے سے کیا چیز مانع تھی کہ آپ عہد فاروقی میں اسلام لائے؟ تو کعبؒ نے جواب میں کہا: میرے والد نے میرے لیے تورات کے منتخبات سے ایک کتاب تیار کی تھی اور کہا تھا کہ : ’’بس! اس پر عمل کرو‘‘، اور باقی تمام کتب کو مہربند کردیا تھا،اور مجھ سے باپ بیٹے کا عہد لیا تھا کہ میں ان کتب سے مہر کو نہ توڑوں، جب میں نے اسلام کے غلبے کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ شاید میرے والد نے مجھ سے ان کتب میں کوئی علم چھپا کر رکھا ہے، چنانچہ میں نے اس مہر کو کھولا تو اس میں آپ ﷺ اور آپﷺ کی امت کا تذکرہ موجود تھا، چنانچہ میں مسلمان ہو کر آگیا۔



اس قصے کی سند میں حماد بن سلمہ ہیں جو مختلط تھے، اور جن کی روایت سے امام بخاری  ؒو امام مسلم   ؒدونوں پرہیز کرتے ہیں۔البتہ حماد بن سلمہ کی دوسری روایات جو ثابتؒ سے ہیں، وہ چونکہ مرضِ اختلاط کے بعد بھی ویسی ہی تھیں، جیسی مرض اختلاط سے پہلے تھیں، اس لیے وہ روایات بخاری ؒ و مسلمؒ نے ذکر کی ہیں۔ نیز اس روایت میں علی بن زید بن جدعان بھی ہیں، جنہیں کئی اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔

کعب ؒ کی ثقاہت وعدمِ ثقاہت

جمہور اہل علم نے کعبؒ کی توثیق کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ضعفاء و متروکین کی کتب میں آپ کو ان کا تذکرہ نہیں ملے گا۔امام ذہبی  ؒنے انہیں طبقات الحفاظ میں ذکر کیا ہے، اور ان کا مختصر سا تعارف ذکر کیا ہے۔ابن عساکرؒ نے تاریخ دمشق میں آپ کاکھل کر تعارف پیش کیا ہے۔ابو نعیم ؒ نے ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ میں کعب ؒ کے قصص، آپ کے مواعظ، آپ کی مجالس، آپ کی حضرت عمرؓکو نصائح، اور جنت و جہنم کے متعلق آپ کی روایات کو طویل سندکے ساتھ مفصل ذکر کیا ہے، جس سند میں فرات بن سائب بھی ہیں، البتہ ابو نعیم  ؒنے ان کا ماخذ ذکر نہیں کیا۔ ابن حجرؒ نے ’’الإصابۃ‘‘ اور ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں آپ کا تعارف پیش کیا ہے۔ بہرحال نقاد محدثین آپ کی ثقاہت پر متفق ہیں، لیکن امام بخاری  ؒنے اپنی صحیح کی ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں حضرت معاویہ ؓ کا مقولہ نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے کعبؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرما یا :’’ہم اس کے جھوٹ کا امتحان لیتے ہیں‘‘۔ ’’الإصابۃ ‘‘ میں حضرت حذیفہ ؓسے کعبؒ کی تکذیب مروی ہے۔اسی طرح ابن عباس ؓنے بھی کعبؒ کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا ہے۔

ملاعلی قاری ؒموضوعات کبریٰ (صفحہ: ۱۰۰، طبع ہند )میں فرماتے ہیں: حضرت عمرؓنے جب مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو لوگوں سے مشورہ کیا کہ مسجد کی تعمیر’’ صخرہ ‘‘ کے آگے کی جائے یا پیچھے؟ کعبؒ نے حضرت عمرؓسے کہا: امیر المؤمنین! صخرہ کی پچھلی جانب تعمیر کیجیے۔ تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے یہودی عور ت کے بیٹے! تجھ میں یہودیت سرایت کی ہوئی ہے، میں اس مسجد کو صخرہ کی اگلی جانب تعمیر کروں گا، تاکہ نمازی اس صخرہ کا استقبال نہ کریں، چنانچہ حضرت عمرؓنے اس کو اسی طرح تعمیر کیا جس طرح اب تک موجود ہے۔

یہ حضرت عمرؓکی فکر و نظر تھی کہ وہ کعب ؒ کو کسی طور یہ موقع نہ دینا چاہتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی مسجد میں یہود کے قبلے کی طرف رخ کرسکے۔کعبؒ نے حضرت عمرؓکی جانب سے اپنے اوپر لگنے والی تہمت کو دل میں رکھا تھا، حتیٰ کہ حضرت عمرؓکے خلاف سازشیوں کے ساتھ بھی کعبؒ کے تعلقات دیکھے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کعبؒ ، اہل کتاب کی کتب سے نقل کردہ روایت باور کر واکر حضرت عمرؓسے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ عنقریب قتل کیے جائیں گے، حالانکہ حضرت عمرؓاور اہل کتاب کی سابقہ کتب کا کیا تعلق!!! اگر شریعت اسلامیہ میں متہم بالظن کو پکڑنے کی گنجائش ہوتی تو حضرت عمرؓکے قتل کے معاملے میں شرعی عدالت حضرت کعبؒ سے بھی تفتیش کرتی۔حضرت ابو ذر ؓ کوحضرت معاویہ ؓ کی شکایت کی بنا پر دمشق سے مدینہ منورہ بھیج دیاجانا، کعبؒ کا حضرت عثمان ؓ کی مجلس میں حضرت ابوذرؓ کی مال جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کے بارے میں رائے کی تردید اور حضرت ابو ذرؓ کا کعبؒ سے یوں خطاب فرمانا: اے یہودی عورت کے بیٹے! یہ تیرے مسائل میں سے نہیں ہے (کہ تو اس پر گفتگو کرے)، یہ واقعات کتب تاریخ میں معروف ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ عوف بن مالک ؓنے کعبؒ کو قصہ گوئی سے منع کیا تھا، یہاں تک کہ حضرت معاویہ ؓ نے انہیں اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔

مذکورہ بحث کا نتیجہ

ماقبل کی تفصیل سے واضح ہوا کہ حضرت عمرؓ، حضرت حذیفہؓ، حضرت ابوذرؓ، حضرت ابن عباسؓ، حضرت عوف بن مالکؓ اور حضرت معاویہ   ؓکعبؒ پر کلی اطمینان نہیں رکھتے تھے، جب کہ حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہ  ؓ نے کعبؒ سے کچھ روایات بھی نقل کی ہیں، اس لیے کہ تمام اسرائیلیات ایک فیصلہ کن قاعدے کے تحت آتی ہیں کہ ان میں سے جس روایت کی شریعت اسلامیہ تصدیق کرے، اس کی تصدیق کی جائے اور شریعت اسلامیہ جس روایت کی تکذیب کرے، اس کی تکذیب کی جائے، اور اس کے علاوہ دیگر روایات کی تصدیق و تکذیب کے بارے میں توقف کیا جائے۔ صحیح بخاریؒ کی ایک روایت ہے: ’’اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ ہی تکذیب، اور یوں کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، اور اس پر جو ہماری طرف نازل ہوا، اور جو تمہاری طرف نازل ہوا، ہمارا ور تمہارا الٰہ و معبود ایک ہی ہے، اور ہم اسی کے تابعدار ہیں‘‘۔

یہی وہ درست راہ ہے، جس پر اسرائیلیات کے کسی خطرے کا خوف نہیں ہے، اس لیے کہ جنہوں نے اسرائیلیات ذکر کیں، انہوں نے اسی نظریے کے ساتھ ذکر کیں کہ یہ اسرائیلیات اس خالص اور سچی کسوٹی پر پرکھی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ نہ کعبؒ اور نہ ہی اسرائیلیات کا کوئی اور راوی ہی اسلامی افکار، نظریات اور تعلیمات پرکسی بھی طرح اثر انداز ہو سکتا ہے، جب تک کہ ان کی روایات اس دقیق معیار پر جانچی جاتی رہیں گی۔ اسی بنا پر آپ نے بہت کئی مفسرین کو دیکھا ہوگا کہ وہ ہر نفع بخش روایت کو نقل ضرور کرتے ہیں، تاکہ ان مفسرین کے زمانے میں مروج یہودوغیرہ اہل کتاب سے منقول معارف و روایات کی روشنی میں قرآن کریم کی ذکر کردہ اخبار وقصص کے بعض پہلو واضح ہو جائیں، ساتھ ہی یہ مفسرین ان روایات کی چھان بین بعد میں آنے والے نقاد کے حوالے کرتے ہیں۔اس طرح اسرائیلیات کے ذکر کرنے کا مقصد ان کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ کم از کم یہ معارف بعد میں آنے والوں تک پہنچ ضرور جائیں، اس لیے کہ یہ احتمال تو بجا طور پر موجود ہوتا ہے کہ ان اسرائیلیات سے قرآن کریم کے اجمالی بیانات کی وضاحت میں مدد لی جاسکے۔ مفسرین کی یہ غرض نہیں ہوا کرتی کہ ان روایات کو مسلمانوں کی نظر میں حقائق و عقائد کا درجہ دے دیا جائے، جن کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھا جانا ضروری ہو، اور کسی چھان بین کے بغیر ان روایات کو ان کی کمزوریوں کے باوجود قبول کر لیا جائے۔چنانچہ اسرائیلیات کی تدوین کرنے والوں پر۔جب تک کہ ان کا مقصد یہی ہو۔کسی قسم کی ملامت وتنقید نہیں کی جاسکتی۔

سلیمان بن عبد القوی طوفیؒ نے اپنی کتاب ’’الاکسیر فی قواعد التفسیر‘‘میں مفسرین کے اپنی تفاسیر کو اسرائیلیات سے بھر دینے کے بارے میں اعتذار پیش کرتے ہوئے ان کا مقصد یہی بیان کیا ہے۔ ’’الاکسیر فی قواعد التفسیر‘‘مکتبہ قرا حسام الدین جو آستانہ میں واقع ہے، محفوظ ہے۔ انہوں نے مفسرین کے اس طریق کار کی مثال روات حدیث کے طریق کار سے دی ہے کہ جس طرح انہوں نے شروع شروع میں تمام روایات کے بلا کم و کاست نقل کردینے کا اہتمام کیا اور ان روایات کے صحیح و ضعیف ہونے کا معاملہ آنے والے ناقدین پر چھوڑ دیا، یہی طرز عمل ان مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے۔یہ عذر واقعی عمدہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ باطل اسرائیلیات سے صرف وہی شخص دھوکہ کھاسکتا ہے جو کثیر پہلو مباحث میں بھی اہل علم کی طرف رجوع کیے بغیر ہر ایک سے روایات لے لینے کا عادی ہو۔ مزید یہ کہ اہل علم کی ایک کثیر تعداد نے ان کھوٹی روایات کی، جو امت کو کسی طرح نقصان پہنچاتیں، جانچ کا خصوصی اہتمام فرمایا ہے، چنانچہ انہوں نے تفسیر کو باطل اسرائیلیات سے خالی کرنے کی خدمت بھی انجام دی ہے، جیسا کہ شیخ عبد الحق بن عطیہ  ؒنے اپنی تفسیر’’ المحرر الوجیز فی تفسیر کتاب اللّٰہ العزیز‘‘ میں کیا۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیلیات اور اسی قسم کی ساری خرافات اسلامی تعلیمات پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہو سکتی ہیں۔ البتہ ان سے بعض عوام اور وہ حضرات جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتے ہیں اور اہم مسائل و معاملات میں بھی علماء اور مستند مآخذ کی طرف رجوع کرنے سے اپنے آپ کو مستغنی خیال کرتے ہیں‘ ضرور متأثر ہو سکتے ہیں۔اللہ ہی سیدھی راہ دکھلانے والے ہیں۔


بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے صاحب رسولﷺ نے کوئی حدیث بیان کی اور حضرت کعب احبارؒ نے اس کی تائید میں تورات کا حوالہ پیش کر دیا۔ اگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کسی روایت میں کعب احبارؒ کا کوئی اس نوع کا قول نقل کر دیا تو اس کو قبول کرنے میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے؟
جہاں تک حضرت کعب احبارؒ کی مرویات کا تعلق ہے تو بلاشبہ ان میں بہت سی بے سر و پا اسرائیلی حکایتیں بھی شامل ہیں جن کو محدثین نے جرح و تعدیل کی کسوٹی پر پرکھ کر رد کر دیا ہے۔ مولانا حافظ مجیب اللہ ندوی اپنی کتاب "اہل کتاب صحابہ و تابعین" میں لکھتے ہیں:
"کعب کی علمی جلالت میں کوئی شک نہیں۔ وہ یہودی مذہب کے بڑے نامور عالَم تھے لیکن چونکہ خود یہودیوں کا سرمایۂ معلومات بھی تمام تر یہی تھا۔ اس سے ایک نقصان یہ ہوا کہ بہت سی بے سر و پا اسرائیلی روایات ان کے ذریعے اسلامی لٹریچر میں داخل ہو گئیں۔ اسی بناء پر بعض ائمۂ حدیث کعب کو روایات میں ساقط الاعتبار سمجھتے ہیں۔" (ترجمہ : حضرت کعب احبارؒ)
لیکن دوسری طرف جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت کعب احبار کی بعض روایات قرآن و حدیث کی مؤید ہیں تو ایسی روایات کو رد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا مگر یہ بات بڑی عجیب ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے معترضین ان کی بعض مرویات کو محض اس بناء پر "اسرائیلیات" میں شمار کرتے ہیں کہ ان کی حضرت کعبؒ نے تائید کی تھی۔ مثلاً "مسند احمد" میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث:
""رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ایک درخت اتنا بڑا ہے کہ سوار اس کے سایہ میں سو برس تک چلتا رہے گا۔ اگر چاہو تو اس کی تائید میں قرآن کی یہ آیت پڑھ لو وظلٍ ممدودٍ (اور دراز سایہ) "
جونہی یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی ، کعب بولے "آپ نے سچ فرمایا ، اس ذات کی قسم جس نے تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام اور قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا ۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو اسرائیلیات میں شمار کرنا اور اس سے انکار کرنا ، ستم ظریفی کی انتہا ہے۔ اس حدیث کو تو حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ اور کئی دوسرے صحابہ نے بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم)
اگر اس کا انکار اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ جس درخت کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ، اس کا جنت میں پایا جانا ممکن نہیں (یعنی یہ بات خلافِ عقل ہے) تو پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بارے میں کیا کہا جائے گا کہ جنت میں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں اور نہ انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال گزرا۔ (صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۲۱۷۵)
حقیقت یہ ہے کہ جنت کے عجائب اور اس کی حیرت انگیز نعمتوں کا صرف احادیث نبویؐ ہی میں ذکر نہیں ہے بلکہ قرآنِ حکیم میں بھی جابجا ان کا ذکر آتا ہے۔ یہ عجائب اور تحیر خیز نعمتیں انسانی حدِ ادراک سے باہر ہیں لیکن ہر مسلمان کا ان پر ایمان ہے۔
اب اگر کسی حدیث میں کسی ایسی ثیز کا زکر ہو جو انسانی عقل و فکر کے احاطے سے باہر ہو تو اس حدیث کو اسرائیلیات کی قبیل میں شمار کرنا اور اس سے یکسر انکار کر دینا کسی مرد مومن کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ ہاں جو روایات قرآن کریم اور مستند احادیث کے متعارض ہوں ان کو بلا تامل رد کیا جاسکتا ہے۔ محدثین اور ارباب جرح و تعدیل نے ایسا ہی کیا ہے اور کوئی دوسرا بھی ان کو تسلیم کرنے کا مکلف نہیں۔
جیسا کہ ہم اوپر عرض کر چکے ہیں کہ اس بات کو تو قطعاً تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کوئی روایت حضرت کعب احبارؒ سے لی ہو اور اس کو رسول اللہ ﷺ سے منسوب کر دیا ہو۔ ہاں اس بات کا امکان ہے کہ ان کے بعض تلامذہ نے غلط فہمی کی بناء پر ان کی حضرت کعب سے کی ہوگی۔۔۔ بعض روایات کو بعض ایسی احادیث میں گڈ مڈ کر دیا ہو جو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں۔ اس امکان کا اشارہ اس تقریر سے ملتا ہے جو مشہور صحابی حضرت بشیر بن سعد * رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے ایک مجمع کے سامنے کی تھی۔ انہوں نے تقریر میں فرمایا :
"لوگو! اللہ سے ڈرو اور حدیثوں کو خوب یاد رکھو۔ واللہ ہم ابو ہریرہ کی مجلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حدیثیں روایت کرتے اور کعب سے بھی۔ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ جو لوگ ان مجلسوں میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات کو کعب کی طرف اور کعب سے مروی قصص و اخبار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرتے ہیں۔" (سیر اعلام النبلاء جلد صفحہ ۴۳۶)
بعد میں ارباب جرح و تعدیل نے دونوں قسم کی روایات میں فرق و امتیاز واضح کر دیا۔ بہر صورت اگر کسی حدیث نبوی ﷺ اور روایتِ کعب میں کہیں گڈ مڈ ہوگئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رواۃ اور تلامذہ کے سر ہے۔ ان کا اپنا اس میں مطلق کوئی قصور نہیں اس لیے ان پر زبانِ طعن دراز کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ 
__________________________________________________________________________
* حضرت بشیر بن سعد انصاری کا شمار برے عظیم المرتبت صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق خزرج کے خاندان حارث بن خزرج سے تھا۔ ہجرت نبوی سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے اور پھر ۱۳ بعد بعثت میں مکہ جا کر بیعت عقبہ کبیرہ میں شریک ہونے کی عظیم سعادت حاصل کی۔ہجرت نبویﷺ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو حضرت بشیر رضی اللہ عنہ نے بدر سے لے کر تبوک تک تمام غزوات میں رسول اکرم ﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کیا۔ بعض سرایا میں بھی شریک تھے۔ ۱۱ ہجری میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد وہ انصار میں پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ پھر فتنۂ ارتدداد کے استیصال میں بھر پور حصہ لیا۔ ایرانیوں سے معرکہ آرائیؤں کا آغاز ہوا تو حضرت بشیر رضی اللہ عنہ بھی اسلامی لشکر میں شامل ہو کر عراق عرب کے میدان جہاد میں پہنچ گئے اور کئی معرکوں میں داد شجاعت دی۔ اس سلسلے کا آخری معرکہ عین التمر (۱۲ھ) کا تھا۔ انہوں نے اسی میں شہادت پائی۔

No comments:

Post a Comment