ایس اے ساگر
48 لاکھ روپے خرچ کردئے قربابانی کا ایک بکرا خریدنے پر! ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی اسلام سکھاتا ہے؟ بقول شخصے عید الاضحٰی کی آمد کے ساتھ ہم لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں...
1: اللہ کی رضا کیلئے قربانی کرنے والے
2:ریاکاری کے لیے مہنگے جانور خریدنے کر قربانی کرنے والے
3: قربانی کو پیسے کا ضیاع سمجھنے والے
پہلی قسم تو چودہ سو سال پرانے سیدھے راستے پر چل کر سرخرو ہو جاتی ہے. جبکہ دوسری اور تیسری قسم افراط و تفریط کا شکار ہو جاتی ہے جو دین و دنیا کے کسی بھی کام میں مناسب نہیں.
افراط کے مرض کا شکار حضرات مہنگے سے مہنگے، نایاب، اور خوبصورت جانور کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جس پر نظر پڑے تو ٹھہر جائے. لوگ چلتے چلتے ٹھٹھک جائیں. انکی خریداری سے لے کر قربانی تک.... ہر عمل میں محبت الہی سے زیادہ ریاکاری کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے
تفریط کا شکار لوگ قربانی کو فضول کام سمجھ کر یہی پیسہ کسی فلاحی کام میں لگانے پہ زور دیتے ہیں. جبکہ حقیقی فلاح تو رب کعبہ کا حکم پورا کرنے میں ہے. اور عید الاضحٰی کے تین دنوں میں جانور کا راہ خدا میں خون بہانے سے زیادہ اللہ کو اور کوئی عمل محبوب نہیں.
اب اللہ نے جس کام میں اپنی رضا بتا دی اس کو چھوڑ کر اپنی عقل و قیاس کے گھوڑے دوڑانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ آسمانی وحی کے ذریعے نازل کردہ شرعی احکام انسانی عقل سے بالاتر ہیں جن کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے سے انسان روحانیت سے محروم ہوجاتا ہے. اور اگر انکی تابعداری کرے تو باری تعالٰی کی رضا و بے حساب رزق کا حقدار بن جاتا ہے...
http://totalbreaking.com/४८-लाख-का-बकरा/
No comments:
Post a Comment