Monday, 14 September 2015

انسداد گو کشی کی بدولت...

گؤکشى کے خلاف قانون کے ضمنی اثرات منظر عام پر آنے شروع ہوگئے ہیں. ذرائع ابلاغ میں شائع ایک تاز رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ مارچ ٢٠١٥ء ميں مہارشٹرا حکومت کى پہل پر صدر ہند پرنب مکھرجى کے ’’مہارشٹرا تحفظ جانور (ترميمى) بل ١٩٩٥‘‘ کو منظورى دينے کے ساتھ ہى حکومتِ مہاراشٹرانے رياست ميں گائے کے ذبيحہ پر پابندى عائد کردى۔ جس کے بعد اب مہاراشٹرا ميں گائے کا ذبيحہ قابل دست انداز اور ناقابل ضمانت جرم تصور کيا جائے گااور اس کے مرتکب کو قيد وجرمانہ کى سزا ہوسکتى ہے۔

 دراصل گائے کے ذبيحہ پر پابندى کى حمايت کرنے والوں کے تمام تر دلائل کا ارتکاز اکثريتى فرقہ کے جذبات کا پاس ولحاظ رکھنے پر منحصر ہے۔ جبکہ اس پابندى کى مخالفت کرنے والوں کے دلائل متنوع اور گوناگوں ہيں۔ جن ميں مذہبى، طبى وسائنسى، معاشى اور ماحولياتى دلائل شامل ہيں۔ اس سلسلے کے مذہبى اور طبى وسائنسى پہلوؤں پر ہم نے ايک الگ مضمون ميں روشنى ڈالى ہے جو ’تعمير فکر‘ کے اسى شمارے ميں ’’گائے اور اس کا گوشت :مذاہب عالم اور جديد سائنسى تحقيقات کى روشنى ميں ايک مطالعہ‘‘کے عنوان کے تحت شامل کيا گيا ہے۔جس سے يہ واضح ہوجائے گا کہ گائے کشى حقيقتا کسى بھى مذہب کے خلاف نہيں ہے بلکہ وہ انسان کى ايک طبى ضرورت ہے جس کو نظر انداز کرناايک بہت بڑى غلطى کے مترادف ہوگا۔

 بہر کیف جہاں تک اس کے معاشى وماحولياتى پہلوؤں کا تعلق ہے تو وہ بھى انتہائى اہم ہونے کے ساتھ ساتھ چونکانے والے ہيں۔ اس سلسلے کے بعض اعداد شمار جو سامنے آرہے ہيں وہ حسب ذيل ہيں: ايک تخمينے کے مطابق آج ہندستان ميں تقريبا ٢٩٩ ملين (٣٠ کروڑ)مويشى پائے جاتے ہيں ، جن کے چرنے کے لئے تقريبا ٣٠ ملين (٣ کروڑ) ہيکٹر زمين کى ضرورت ہے ۔ اسى طرح تقريبا اتنى ہى مزيد زمين ان کے چارے کى ضروريات کو پورا کرنے کے لئے درکار ہے۔ ہندوستان ميں کل ملا کر ١٩٠ ملين (١٩ کروڑ)ہيکٹرقابل کاشت زمين ہے۔ لہذا اگر گاؤ کشى پر روک لگادى جائے تو غير سودمند وغير منافع بخش مويشيوں کى جانب سے پہلے سے کمياب زمين کى طلب ميں اضافہ ہوگا۔

جبکہ اس سلسلہ کا دوسرا نقطہ يہ ہے کہ آج ہندوستان ميں ٨٠ ملين (آٹھ کروڑ) غير سود مند وغير منافع بخش جانور پائے جاتے ہيں جن کے ساتھ انتہائى بے رحمانہ سلوک کيا جاتا ہے اور انہيں بے يار ومددگار چھوڑ ديا جاتا ہے يہاں تک وہ بھوک يا بيمارى سے نہ مرجائيں۔ ظاہر ہے کہ غير منافع بخش جانوروں کى اتنى بڑى تعداد بہت بڑى معاشى ذمہ دارى ہيں، جن کو برقرار رکھنا کروڑوں افراد کى روزى روٹى اور ذريعہ معاش کو چھينے کے مترادف ہے۔ لہذا گاؤ کشى کى اجازت سے نہ صرف يہ کہ يہ معاشى ذمہ دارىliability معاشى موقع opportunityميں تبديل ہوجائے گى اور کروڑوں افراد کو روزگار کے نئے موقع مليں گے بلکہ اس سے ايک بہت بڑا ماحولياتى مسئلہ بھى ماحولياتى حل ميں تبديل ہوجائے گا۔

No comments:

Post a Comment