Tuesday 29 September 2015

علمائے کرام اور ان کی ذمہ داریاں

ایس اے ساگر
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء کرام نے انجام دیا ہے او رہر دور میں اللہ تعالی نے ایسے علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مسئلہ مسجد میں امامت کا ہو یا اذان دہنے کا...مکاتب میں درس و تدریس کا یا راہ خدا میں دیر اور دور کیلئے نکلنے کا... اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے جنہوں نے نہ صرف حالات کو سمجھا بلکہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے اور ان کو صحیح رخ پر لانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں جو اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے ۔کسی کو شک ہو تو وہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ کی کتاب دعوت و عزیمت کا مطالعہ کرسکتا ہے. مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ علیہ کی شخصیت بھی ان ہی علمائے ربانیین او ر مجددین ومصلحین کے طلائی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس نے پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کے ہر طبقہ کو راہنما خطوط دیئے ہیں اورپیش آنے والے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ مولانا ابو الحسن ندوی  نے 'علما اور ان کی ذمہ داریاں' کتاب میں بھی حالات کی روشنی میں  علماء کےلیے ان کے کام کی نوعیت واضح فرمائی اور ان کی زندگی کا مقصد او ران کا مرکز عمل بتایا ہے او ردعوت الی اللہ اور اشاعت ِعلمِ دین کی طرف ان کو خاص طور پر متوجہ کیا ہے ۔قریب 4 حصوں پر مشتمل کتب میں اسی موضوع پر مولاناکے مختلف مضامین اورتقریریں ہیں جوعلماء کے مقام اور ان کی ذمہ داریوں کے متعلق ہے جس میں مولانا نے اہم موضوعات پر مفصل گفتگو کی ہے . مختصر یہ کہ تفصیل طلب موضوع ہے جسے معتبر حوالہ کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا. ہر کس و ناکس کو لب کشائی کا موقع دینا مناسب نہیں معلوم ہوتا.
اکابر علماء کی شرکت
جب حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت تڑپ اور دلسوز انداز سے تبلیغی دعوت کا سلسلہ شروع فرمایا. تو بڑے بڑے علماء دین اور بزرگان دین اور مفتیان کرام نے ان کے ساتھ شریک ہو کر تبلیغی اجتماعات میں عامۃ المسلمین کے سامنے حضرت مولانا الیاس صاحب اور ان کے کام کا تعارف کرایا. خلوت میں. جلوت میں. ہر طرح سے اس کام کے خیرو برکات سے امت کو روشناس فرمایا
حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنی علیہ الرحمہ نے دیوبند سے سفر کرکے حضرت مولانا الیاس صاحب کے ساتھ میوات کے علاقے میں اجتماعات میں شرکت فرمائی
اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب مفتئ اعظم ہند دہلی سے بار بار حضرت مولانا الیاس صاحب کے ساتھ دہلی واطراف دہلی اور میوات کے علاقوں میں اجتماعات میں شرکت فرماتے رہے
اسی طرح علامہ سید سلیمان ندوی رح.. اور حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رح.. اور حضرت مولانا عبدالحق صاحب مدنی رح..  اور حضرت امام اہل سنت مولانا عبد الشکور صاحب لکھنوی رح.. اور حضرت مولانا قطب میاں صاحب فرنگی محلی رح.. ان حضرات نے لکھنؤ کے اجتماعات میں حضرت مولانا الیاس صاحب رح کے ساتھ شرکت فرمائی
اسی طرح دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم حضرت مولانا حافظ عمران صاحب. . اور حضرت مولانا جان صاحب مجددی.. اور حضرت مولانا ڈاکٹر سید عبدالعلی صاحب رح.. اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رح.. اور مولانا محمد شفیع صاحب رح.. مہتمم مدرسہ عبدالرب دہلی. اور مولانا عبداللطیف صاحب ناظم اعلی مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور.. حضرت شیخ الادب مولانا اعجاز علی صاحب استاد دارالعلوم دیوبند.. اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رح.. اور حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری رح.. اور حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہم نے اپنے اپنے علاقوں سفر کرکے حضرت مولانا الیاس صاحب کے ساتھ دہلی کے اجتماعات میں شرکت فرما کر تقریریں بھی کیں....... عامۃ المسلمین کو اس کام کی اہمیت سے روشناس فرمایا
نیز حضرت مولانا عبیدا للہ صاحب نور اللہ مرقدہ کو جب پہلی مرتبہ افغانستان روانہ فرمایا تو حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃاللہ علیہ نے افغانستان میں اپنے تلامذہ کے پاس خطوط روانہ فرمائے کہ مولانا عبیداللہ صاحب کو میں بھیج رہا ہوں. آپ لوگ افغانستان کی عوام کو اس کام سے واقف کار کرنے میں مولانا عبیداللہ صاحب کی بھر پور اعانت کریں
چنانچہ وہاں کے بڑے بڑے علماء نے مولانا عبیداللہ کے ساتھ ہوکر افغانستان کے مختلف علاقوں میں عوام کو اس کام سے روشناس کرایا..
نیز حضرت مولانا الیاس صاحب رح کے ہر وقت ساتھ رہنے والے ہونہار نوجوان علماء تھے. حضرت مولانا احتشام الحسن صاحب کاندہلوی جنہوں نے تبلیغی چھ نمبر کی ترتیب دی تھی
حضرت جی مولانا یوسف صاحب رح.. حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رح.. حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح.. حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رح... حضرت مولانا حسن شاہ صاحب رح.. حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رح.. حافظ مقبول احمد صاحب رح.. یہ سب حضرات علماء کرام ہر وقت حضرت مولانا الیاس صاحب کے ساتھ ان کے ہاتھ پیر بنے ہوئے تھے.
اور انہیں حضرات نے کھبی مولانا الیاس صاحب کے ساتھ اور کبھی الگ الگ. عرب دنیا میں جاکر عربوں کو اس کام سے روشناس کرایا
حضرت مولانا احتشام الحسن صاحب رح کاندہلوی بہت بڑے عالم بھی تھے اور عربی زبان کے ماہر بھی تھے. شاہزادوں سے ملاقات کرکے اس کام کی اہمیت ان کے دلوں میں ڈالی.
پھر عرب دنیا میں یہ کام کر نا آسان ہو گیا. شاہ خالد کے آخری دور میں آزادانہ کام کرنے پر پابندیاں شروع ہو گئیں. اور اب تو غیر مقلدین اور سلفی جو اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں. ان کا سخت ترین غلبہ ہے. ان کے غلبہ کی وجہ سے حجاز مقدس میں اس کام پر اور زیادہ پابندی آگئی ہے. اور حنفی مسلک کے علماء کو نہایت غلط نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اور تبلیغی جماعت کے اکابر علماء اور حنفی مسلک کے مفتیان کرام کیلئے حجاز مقدس کی سر زمین کو تنگ کر دیا گیا ہے. اللہ رب العزت کی ذات سے امید ہے کہ حجاز مقدس کی سرزمین میں دوبارہ حنفی مسلک کے علماء اور رہنماؤں کے لئے آزادانہ علمی میدان فراہم فرمادیں
اور تبلیغی جماعت اور تبلیغی دعوت کو آزادانہ طور پر حجاز مقدس میں عام کرنے کا میدان فراہم فرمادیں. آمین یا رب العالمین.
ماخوذ انوار ہدایت

No comments:

Post a Comment