دھوکہ:
جناب قربانی صرف حاجیوں کے لیے ھی درست ھے کیوں کہ وہ مناسک حج کے ساتھ خاص ھے وہ بھی کر لیا تو ٹھیک ہے ورنہ ضروری نہیں ھے قرآن میں ارشاد ھے(فما استيسر من الهدى) استیسار کا لفظ بتارھا ھےکھ اگرُآسانی سے ھدی یعنی قربانی کا جانور مل جائے تو کر لے مدرسے کے احباب کو1/ھزار کا چمڑا چاہئے اسلئ کی انھوں نے قربانی کو واجب بتایا یہ جہالت کا بزنس ھے اور دیگراختلاف کامطالعہ کریں
(شیخ خالق دوسرے گروپ سے)
منھ توڑ جواب:
جن صاحب کا یہ میسج ہے، وہ قرآن و حدیث سے بالکل نابلد ہیں، یا جانتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، قربانی واجب ہے، اس کے دلائل قرآن و حدیث سے ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
قربانی کے وجوب کے دلائل: قرآن وسنت میں قربانی کے واجب ہونے کے متعدد دلائل ہیں،یہاں اختصار کی وجہ سے چند دلائل ذکر کئے جارہے ہیں۔
۱) الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورہٴ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔ اس آیت میں الله تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم ( امر) دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ وَانْحَرْ کے متعدد مفہوم مراد لئے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔ اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کی ہی معنی تحریر کئے گئے ہیں۔ جس طرح فَصَلِّ لِرَبِّکَ سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح وَانْحَرْ سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاء السنن)
۲) حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ کَانَ لَہ سَعَةٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلا یَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا۔۔ جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۳۲۱، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۲/۳۸۹) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر سخت وعید کا اعلان کیا ہے اور اس طرح کی وعید عموماً ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
۳) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنَ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلاةِ فَلْیَذْبَحْ شَاة مَکَانَہَا، وَمَنْ کَانَ لَمْ یَذْبَحْ حَتَّی صَلَّیْنَا فَلْیَذْبَحْ عَلَی اِسْمِ اللّٰہِ۔۔ جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحٰی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہئے۔ (بخاری۔کتاب الاضاحی۔باب من ذبح قبل الصلاة اعاد، مسلم۔کتاب الاضاحی۔باب وقتہا) اگر قربانی واجب نہیں ہوتی تو
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کرنے کی صورت میں دوسری قربانی کرنے کا حکم نہیں دیتے، باوجودیکہ اُس زمانہ میں عام حضرات کے پاس مال کی فراوانی نہیں تھی۔
۴) نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا : یَا اَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ عَلَی اَہْلِ کُلِّ بَیْتٍ اُضْحِیَةٌ فِیْ کُلِّ عَامٍ۔۔۔ اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد ۴/۲۱۵، ابوداوٴد ۔باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی، ترمذی۔ باب الاضاحی واجبة ہی ام لا)
۵) حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱/۱۸۲) مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، اس کے برخلاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی، جیساکہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے۔
۶) حضرت علی رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ (محلیٰ بالآثارج ۶ ص ۳۷، کتاب الاضاحی) معلوم ہوا کہ مقیم پر قربانی واجب ہے۔
قرآنِ کریم میں قربانی کا ذکر:
# فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورہٴ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔
# وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورہٴ الحج ۳۴) قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ، پہلی امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی۔۔۔ ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔۔۔ نسک کے مختلف معنی ہیں، مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اس سے مراد قربانی لی ہے۔
# وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً ہُمْ نَاسِکُوْہُ (سورہٴ الحج ۶۲) ہم نے ہر امت کے لئے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔
# قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (سورہٴ الانعام ۱۶۲) آپ فرمادیجئے کہ یقینا میری نماز، میری قربانی اور میرا جینا و مرنا سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔
# لَن یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآوٴُہَا وَلٰکِن یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (سورہٴ الحج ۳۷) اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اُن کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔
﴿وضاحت﴾: قربانی میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ الله تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ جتنے اخلاص اور الله سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اتنا ہی اجروثواب الله تبارک وتعالیٰ عطا فرمائے گا اور یہ اصول صرف قربانی کے لئے نہیں بلکہ نماز، روزہ،زکاة،حج یعنی ہر عمل کے لئے ہے لہذا ہمیں ریا، شہرت، دکھاوے سے بچ کر خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کیلئے اعمال صالحہ کرنے چاہئیں۔
﴿وضاحت﴾:
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر زمانے اور ہر امت میں الله تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی مشروع رہی ہے، اور یہ ایک اہم عبادت ہے اس کی مشروعیت، تاکید، اہمیت اور اس کے اسلامی شعار ہونے پر عصر حاضر کے بھی تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔
.
No comments:
Post a Comment