Tuesday, 15 September 2015

غریب کی عید الاضحی

ایس اے ساگر
حقیقت کے کتنے قریب ہوکر منظر کشی کی ہے کسی نے کہ گھر میں تمام مرد اور عورتیں اور بچے اداس بیٹھے ہوئے قربانی کے گوشت کا انتظار کر رہے ہیں ....
صبح کے 10 بج گئے،
پھر 11 بھی بج گئے،
راہ تکتے ہوئے ایک گھنٹہ اور گزر گیا کہ شاید قربانی کا گوشت کھانے کو مل جائے، اور جو خوشی جانور کی قربانی سے وابستہ ہوتی ہے، اس کا احساس ہو، شاید کوئی گوشت لے کر آتا ہو،لیکن اس کا کیا کیجئے کہ طویل انتظار میں بھوک کے سامنے ذائقہ کے حصول کی خواہش دم توڑ دیتی ہے اور غربت اور مایوسی کے حالات میں دال چاول پکانے کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ جس طرح انتظار کرتے کرتے دوپہر گزر جاتی ہے اسی طرح شام بھی امید کے دھندلکے میں گزر جاتی ہے اور یوں عید الاضحی کا پرمسرت دن گزر جاتا ہے۔ یہ کوئی افسانہ نہیں ہے بلکہ سچے حالات ہیں جو شہر کے بیرونی علاقوں اور کچی بستیوں کے زیادہ تر گھروں میں عید الاضحی کے دنوں میں سامنے آتے ہیں۔ اس دن غریبوں کی پریشانی دوگنی بھی ہو جاتی ہے کہ بازار میں گوشت نہیں ملتا اور سبزی ترکاری والے بھی دکان نہیں لگاتے اور شاید رنج و غم اور مایوسی کی وجہ سے سبزی ترکاری لینے بازار جانے کا بھی دل نہیں کرتا۔
شہری علاقوں کا حال:
ادھر شہری علاقوں میں حال یہ ہوتا ہے کہ ایک خاندان میں کئی کئی جانور ذبح ہو رہے ہیں جن کے گوشت ان رشتہ داروں کے یہاں بھی بھیجے جا رہے ہیں جنھوں نے خود قربانی کی ہے اور گوشت گھروں میں بھرا پڑا ہے اور یہ رشتہ دار آپ کے صاحب حیثیت رشتہ داروں کے یہاں گوشت پہنچا رہے ہیں۔ایک اور رسم ہے کہ بیٹی کے سسرال میں پوری پوری رانیں ہی نہیں بلکہ پورے پورے بکرے’عیدی‘ کے طور پر بھیجے جا رہے ہیں، اگرچہ بیٹی کی سسرال میں کئی کئی قربانیاں ہوتی ہوں۔ یہ ایک ایسی رسم ہے کہ جس پر عمل کرنا فرض سمجھا جاتا ہے۔
پیشہ ور بھکاریوں کاظلم:
اس کے علاوہ بہت سے پیشہ ورانہ بھکاری مذہب کے نام پر گھر گھر پہنچ کر گوشت کا اچھا خاصہ ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اس ہوتا یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کا ایک بڑا حصہ بیکار جگہوں پر استعمال ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ غریب اور ضرروتمند محروم رہ جاتے ہیں جو مانگنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ عام مسلمانوں تک گوشت پہنچانے کی زحمت سے بچا لیتے ہیںیہ بھکاری، اور اگر قربانی کرنے والے کو غریبوں سے ہمدردی اور محبت کا جذبہ نہ ہو تو بات مزیدتکلیف دینے والی ثابت ہوتی ہے۔ عید الاضحی میں پوشیدہ قربانی کے جذبہ کا مقصد تو یہ ہے کہ اس کا فائدہ غریبوں تک پہنچے، ان کو اپنی خوشی میں شامل کرنے کا خاص انتظام کیا جائے، تاکہ اس ایک دن تو کم سے کم ان کو اپنے نظر انداز کئے جانے کا احساس نہ ہو اور وہ قربانی کے گوشت کے انتظار میں دال چاول کھانے پر مجبور نہ ہوں۔
عام غربا کی بے بسی:
لیکن سفید پوشی میں اپنی غربت چھپانے والے جمن شبراتی ہی جانتے ہیں کہ اسلام کی دو اہم عیدوں میںکوئی بھی انھیں راس نہیں آتی۔ عیدالفطر کا فطرہ اور زکوة چور راستوں سے ادھر ادھر شہر کور بستیوں سے باہر نکل جاتے ہیں اور مقامی مستحقین منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ جبکہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کومنائی جانے والی عید الاضحی بھی عالم اسلام کے غربا کو ترسا کے،تڑپا کے اور رلا کے چلی جاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے آنسو کسی کو نظر نہیں آتے۔
کیا کہتا ہے ماضی؟
کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل اہل مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہوو لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔ابوداود کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ عہد جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کئے ہیں،ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن۔گویایہ اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حضور پیش کی تھی۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کے دل میں حضرت حاجرہ سے شادی کے بعد اولاد کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کا اظہار آپ نے الصٰفٰات میں اللہ تعالی سے ان الفاظ میں کیا:
رب ھب لی من الصٰلحین کہ’ائے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحین میں سے ہو‘۔
 زمزم کا چشمہ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔جب آپ کچھ بڑے ہوئے تو اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش کا سلسلہ شروع ہوا۔حکم ملا کہ اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آ۔ آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جب ان کو چھوڑ کر لوٹنے لگے تو پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ مبادا فطری جذبہ سے دل بھر آئے اور ارادے میں تنزل پیدا ہوجائے۔سیدہ حاجرہ آپ کے پیچھے پیچھے چلیں اور پوچھا کہ آپ ہمیں کس پر چھوڑے جاتے ہیں؟ جواب ملا،اللہ پر‘ تو انہوں نے فرمایا ،میںاللہ پر راضی ہوں۔ جب آپ اس آزمائش پر کھرے اترے تو اللہ تعالی نے انعا م کے طور پر اس بے آب وگیاہ آبادی میں زمزم کا چشمہ جاری کردیا اور قبیلہ جرہم کو آباد کیا۔
 شاید کہ یہ شکر گذار بنیں:
گویا کہ اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کیلئے بڑا سے بڑا خطرہ مول لینے میں کبھی جھجکنا یا تکلف برتنانہیں چاہئے، خواہ اس کیلئے بیوی بچوں سے جدائی یا بھوک پیاس براشت کرنا پڑے اور جان ومال کی قربانی دینی ہوتو بھی پس و پیش نہ کریں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھاکہ،ربنا انی اسکنت .... من الثمرات لعلھم یشکرون کہ ’ائے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصہ کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنااور انہیں کھانے کو پھل دے۔ شاید کہ یہ شکر گذار بنیں،لیکن اس کا کیا کیجئے کہ انھیں لوگوں کی فکر تھی اور ہمیں اغراض کی پڑی ہے۔
اطاعت و فرمانبرداری:
دوسری آزمائش حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یوں ہوتی ہے کہ آپ نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں ذبح کر رہے ہیں۔آپ اسے وحی ِ الٰہی سمجھ کر فوراً اس کی تکمیل کیلئے تیار ہو گئے اور اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ کیا تو انہوں نے بھی اللہ تعالی کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیا۔ قرآن کریم نے واضح کیا ہے کہ،فلما بلغ معہ.... ان شاءاللہ من الصابرین،’ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہا،بیٹا خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب بتا تیرا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا، ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالئے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘
 نیکی کرنے والوں کو جزا :
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اس عظیم قربانی کیلئے تیار ہو گئے اور آپ نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لیٹا دیا کہ چہرہ دیکھ کر پدرانہ محبت ہاتھوں میں لرزش نہ پیدا کر دے اور قریب تھا کہ چھری اپنا کام کر جاتی کہ اللہ تعالی نے فرمایا، ابراہیم تم اس آزمائش میں بھی سرخرو ہو نکلے اور ایک مینڈھا آپ کی جگہ بطور فدیہ قربانی کیلئے جنت سے بھیج دیا۔ قرآن نے اس کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے،فلما اسلما و تلہ للجبین.... بذبح عظیم،’ غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے (باپ نے)اس کو(بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا،تو ہم نے آواز دی اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ در حقیقت یہ کھلا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا۔‘
 نام و نمود کاجذبہ؟
تاریخ انسانی میں یہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے پہلی قربانی تھی کیونکہ یہ محض اللہ تعالی کیلئے تھی۔باپ اپنے بیٹے کو خود اپنے ہاتھوں ذبح کر نے کو تیار تھا ورنہ عموماً ا س کام کو دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں اور یہ کہ قربان ہونے والا بذاتِ خود تیار تھا ،ورنہ اس سے پہلے قربانی کیلئے زبردستی پکڑ کر لایا جاتا تھا۔ یہی وہ سنت ابراہیمی ہے جس کی یاد میں ہر سال مسلمان عید الاضحی کے موقع پر دہراتے چلے آئے ہیںکہ اللہ تعالی کی راہ میں اپنی محبوب ترین چیز پیش کی جائے جس کا مقصد صرف اور صرف اس کی خوشنودی و رضا کا حصول ہو۔لیکن اس کا کیا کیجئے کہ کوئی اگر اس وجہ سے عمدہ مہنگے جانور خریدتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف اور ستائش کریں اور اسے سراہا جائے تو کیااللہ تعالی سے اس کا کوئی اجرملے گا؟بڑے سے بڑے عدد کو اگر صفر سے تقسیم کر دیا جائے تو حاصل ضرب صفر ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ اس میں جان ومال، اولاد،وقت اور صلاحیتیں وغیرہ کی بھی قربانی شامل ہے۔
 اسراف اور فضول خرچی کیوں؟
دور میں فسادات ہونا ایک عام بات ہے ،تب توہم اپنے دفاع میں اس وقت قدم اٹھا سکتے ہیں؟یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کر جائیں، کیمپوں میں پڑے رہیں اور واویلا مچاتے رہیں یا جن کی سرپرستی میں ہو رہا ہو ،انہیں سے زندگی کی بھیک مانگیں۔ اسی وقت تو سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کا امتحان ہوتا ہے۔ ورنہ ہر سال ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو اد ا کرنے کا کیا مطلب ہے ؟صرف جانور لا کر ذبح کر دینا تواس کا مقصد نہیں ہے۔ کیا والدین اپنے بچوںکی عید کی تیاری میںغربا پروری کا خیال رکھ رہے ہیں،ان کے لباس اور زیب و زینت کے سامان میں اسراف و تبذیر اور نمائش سے کیوںکام لے رہے ہیں جبکہ یہ اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے اور جس کو شیطانی عمل کہا گیا ہے یا حکمت اور تدبر سے ان کے دلوں کو خوش کر رہی ہیں کہ یہ ان کا حق ہے۔قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔
کہاں گیا حقیقی جذبہ؟
آیت کریمہ شاہد ہے کہ’فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے‘۔کیا اللہ تعالی نے آپ کویہ مال اس لئے عطا فرمایا ہے کہ اس کی اتنی نمائش کی جائے کہ غریبوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے، قیمتی کپڑے اور دیگر چیزیں اپنے بچوں پرنچھاورکردیںکہ ان کو دیکھ کرغربا کو خود پر رونا آئے،اسی لئے کہا گیا ہے کہ غریب کے گھر کے سامنے گوشت کی ہڈیاں یا پھلوں کے چھلکے نہ پھیکے جائیں کہ اس کے بچے بھی دیکھ کر مانگنے لگیں اور وہ بے چارہ غم کے آنسو پی کر جلتا رہے۔
بے جا دعوتیں کیوں؟
خوشحال لوگوں پرقربانی واجب ہے جبکہ گوشت کا ایک حصہ غربا کیلئے مخصوص ہوتا ہے تو ایک حصہ اپنے اقرباو رشتہ داروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ لوگوں نے گوشت کو فرج میں جمع کرکے رکھنا شروع کر دیا ہے۔کیااس سے اجتناب نہیں برتنا چاہئے اور صاحب مال کو غریبوں کا خاص خیال رکھنا نہیںچاہئے تا کہ غربا ان کے بچے بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں؟کیاانھیں اس دن اپنے گھروں میںنہیں مدعو کرنا چاہئے اور خو دبھی ان کے یہاں جانا نہیںچاہئے، تاکہ ان کو الگ تھلگ ہونے کا احساس نہ ہو۔ یہ نہ بھولیں کہ آج مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت نے زکوة دینا چھوڑ دی ہے۔اس’ سنہرے اصول‘ کودیگر قوموں نے اپنا لیا ،اسی وجہ سے سکھوں میں بھکاری ڈھونڈھنے پر شاید ہی آپ کو ملے۔
بدلہ کا لین دین کیوں؟
نوبت یہ آگئی ہے کہ لوگ اپنے ہم پلہ دوست احباب کو بلاتے اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور غریبوں کو درکنار کر دیتے ہیں۔ایسے غیر مسلموں کو گوشت کا ہدیہ دیا جاتا ہے جن سے دنیاوی مفادات وابستہ ہوتے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کی بارہا تاکید کی ہے۔ قربانی کا گوشت عام طور پر ان کے یہاں ضرور بھیجا جاتا ہے جہاںسے ہمیں حصہ مل چکا ہے،گویا بدلہ چکایا جاتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’بیواوں اور مسکینوں کی خبرگیری کرنے والا،اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔بخاری کی حدیث میں راوی حدیث کہتے ہیںکہ میرا گمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اس عبادت کرنے والے کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا۔‘
کیا ہیںعید کی سنتیں؟
(1)غسل کرنا
(2)حسب استطاعت نئے کپڑے پہنا
(3)خوشبو لگانا
راستہ بدل کے آنا:
(4)خالی پیٹ جاناجیسا کہ ترمذی کی حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کیلئے اس وقت تک نہ نکلتے جب تک کہ کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحی میں اس وقت تک نہ کھاتے جب تک کہ نماز نہ ادا کرلیتے۔
(4)شہروں میںمحلہ کی مسجدوں نے بھلے ہی عید گاہ پیدل جانابھلا دیا ہو لیکن ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنے کا اہتمام تو کیا ہی جاسکتا ہے۔ابن ماجہ میں حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کیلئے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستہ سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستہ سے واپس آتے تھے۔
اذکار سے بے التفاتی کیوں؟
(5)ادھر ادھر کی گپ شپ ،بکروں کے بھاو،قصاب کے نخروں کا تذکرہ تو عام ہے جبکہ راستہ میں اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمدپڑھتے ہوئے جاناتھا،اس پہ طرہ یہ کہ نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا چلتا ہے۔کیا اس سے اجتناب نہیں کرنا چاہئے، تا کہ اللہ تعالی کی حمد ہو اوغریروں کو یہ پیغام پہنچے کہ آج کوئی خاص دن ہے۔اس سے نہ صرف رحمت اترتی ہے بلکہ اغیار پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
خطبہ سے بے رغبتی:
(6) حالانکہ نمازعید الاضحی کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہئے،لیکن اس کا کیا کیجئے کہ قصاب کی الجھن میںاکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الاضحی سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالی سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالم اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کیلئے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔کاش ہم ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوںمیں شامل کرتے جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیںہوتی ، وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر تے۔
بے بسوں کی بیکسی:
کاش ہمیں علم ہوتا کہ ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے، ان کے گھروں میں قربانی کا گوشت لازمی دی جاتی جن کے ہاں قربانی نہیں ہوئی ہے!دنیانکے گوشہ گوشہ میں امت مصائب سے دوچار ہے۔شام سے لیکر فلسطین تک،مظفر نگر کے فساد زدگان سے لیکر برما کے مہاجرین تک امت کی عید کیسے گزرے گی؟ ان کی بے بسی،حالت زار،بے گھر ہونا ، بے سہارا ہونا ، وہ کیسے عید کی خوشیاں منائیں گے ،ایک بے گھر کی عید کیسی ہوتی ہے ،ایسی ہی عید ان کی ہے۔ابھی تک ان کی بحالی شروع نہیں ہوئی ،اور جب شروع ہو گی تو ان کو نئے سرے سے زندگی شروع کرنا ہو گی!

No comments:

Post a Comment