Saturday 26 September 2015

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ

حضرت شاه ولي الله محدث دهلوي كي ولادت4 شوال المكرم1114ھ 21فروري1703ئ كو يو پي ميں ضلع مظفر نگر كے قصبہ "پھلت" ميں﴿اپنے نانا كے يهاں﴾ به وقت طلوعِ آفتاب هوئي۔)1(آپ كا تاريخي نام عظيم الدين ركھا گيا، آپ جس خاندان ميں پيدا هوئے وه علم و فضل كا گهواره تھا۔ آپ كے والد ماجد حضرت شيخ شاه عبد الرحيم اپنے وقت كے متبحر عالم ، صوفيِ باصفا، قناعت پسند بزرگ، ظاهري و باطني علوم كے حامل اور عقل و فراست ميں يكتاے روزگار تھے۔حضرت شاه ولي الله كا سلسله نسب ، والد بزرگوار كي طرف سے امير المومنين سيدنا عمر فاروق رضي الله عنه اور والده محترمه كي جانب سے امام موسيٰ كاظم سے جا ملتا هے۔شاه ولي الله كي ابتدائي تعليم والد ماجد شاه عبد الرحيم كے پاس بڑي جاں سوزي اور شفقت سے انجام پائي۔شاه ولي الله عالمِ طفوليت هي سے ذهينو فطين، قوي الحافظه اور بزرگانه شرافت كے حامل تھے۔ سات سال كي عمر ميں قرآن پاك حفظ كرنے كے بعد فارسي اور عربي كتابيں پڑھنے كے ساتھ هي ساتھ مذهبي اركان و فرائض بھي تدريجاً سيكھ ليے۔ دس سال كي عمر ميں فوائد ضيا ئيه﴿شرح ملا جامي﴾ اور شرح الكافيه پڑھ لي۔اپني ذهانت و ذكاوت طبع كے باعث صرف و نحو پر عبور حاصل كرنے كے ساتھ ساتھ پندره سال كي عمر ميں تفسير، حديث، فقه، عقائد، كلام اور منطق وغيره علوم كي تعليم سے فراغت حاصل كر لي۔ مروجه درسيات كے علاوه متعدد كتب و رسائل كا بھي مطالعه كيا۔ جب آپ نے سندِ فراغت حاصل كي تو والد ماجد نے ايك عظيم جشن منايا، جس ميں هر خاص و عام كو دعوت دي گئي۔ يه اپني نوعيت كا منفرد جشنتھا۔پندره برس كي عمر ميں شاه ولي الله محدث دهلوينے اپنے والد ماجد شاه عبد الرحيم محدث دهلوي سے بيعت و خلافت حاصل كي اور اشغال صوفيه خصوصاً نقش بنديه ميں مشغول هوئے اور علومِ اسلاميه پر عبور حاصل كيا۔ علومِ اسلاميه سے فراغت كے بعد والد ماجد نے آپ كو درس و تدريس كي اجازت مرحمت فرمائي۔ والد ماجد كي وفات كے بعد آپ باره سال تك كتب دينيه اور معقولات كا درس ديتے رهے، جيسا كه آپ نے خود تحرير فرمايا:٫٫بعد از وفات حضرت ايشاں دوازده سال كما بيشي بدرس كتب دينيه و عقليه مواظبت نمود و درهر علمي خوض واقع شد۔٬٬)2(يعني ان كي وفات كے باره سال تك باقاعدگي سے منقولات و معقولات كي كتابيں پڑھائيں اور هر شعبه ميں غور و خوض كيا۔ آپ نے والد ماجد كے درس و تدريس كے سلسلے كو آگے بڑھايااور لوگوں كو فيض پهنچايا۔ هندستان كے عوام و خواص اور اس عهدكے بڑے بڑے اساتذه اور ماهرينفن آپ سے مستفيد هوتے رهے۔ مدرسه رحيميه ميں باره سال تك درس و تدريس ميں مشغول رهنے كے بعد1143ھ 1731ئ ميں زيارت حرمين شريفين كي سعادت حاصل كي۔چوده مهينے حجازِ مقدس ميں رهنے كے بعد واپس آكر شاه صاحب نے درس و تدريس كا سلسله دوباره شروع كيا۔ طالب علموں كي كثير تعداد كے باعث مدرسه رحيميه كي عمارت اپني وسعت كے باوجود تنگ داماني كا شكوه كرنے لگي۔ تشنگانِ علومِ نبوي دور دراز سے جوق در جوق اپني علمي پياس بجھانے كے ليے آتے رهے اورشاه صاحب كے درس حديث سے استفاده كرتے رهے۔شاه صاحب نے اپنے قيامِ حرمين شريفين ميں مدينهمنوره اور مكه معظمه كے نام ور شيوخ سے شرفتلمذ حاصل كيا۔ شيخ ابراهيم بن الحسن المدني سے حديث مسلسل كي سند و اجازت حاصل كي۔ شيخ ابو طاهر نے شاه صاحب كو خرقه جامعه عنايت فرمايا، جس كو تمام صوفيوں كے خرقوں كا جامع كها جاتا هے۔ اس اثنا ميں روضه رسولِ پاك صلي الله عليه وسلم سے آپ پر فيوض و بركات كي خوب خوب بارش هوئي۔ 1144ھ 1732ئ ميں فريضه حج سے مشرف هو كر 1145ھ 1733 ئ ميں بخيريت وطن واپس تشريف لائے۔درس و تدريس كے ساتھ شاه صاحب نے تصنيف و تاليف كے ذريعه تجديد و احياے دين كا كام كيا۔ وه عارف كامل، علومِ شرعيه كے محقق اماماور ميدانِ حكمت و عمل كے شه سوار تھے۔ شاهصاحب نے محسوس كيا كه لوگ قرآن كريم كا احترام تو كرتے هيںاور خير و بركت كے ليے اس كيتلاوت بھي كي جاتي هے ليكن معني كي طرف توجه نه هونے كے باعث اس كا حقيقي مقصد فوت هوتا جا رها هے۔۔ چناں چه آپ نے قرآن پاك كافارسي زبان ميں ترجمه كيا اور اس كي مختصر تفسير بھي كي۔ شاه ولي الله نے اپني ديني اور اصلاحي جد و جهد كے ليے قرآن كريم كو مشعلِ راه بنايا۔ آپ نے علمِ تفسير پر بھي كئي كتابيں تصنيف كيں، جن ميں ٫٫الفوز الكبير في اصول التفسير٬٬ بهت عمده اور مشهور كتاب هے۔شيخ عبد الحق محدث دهلوي﴿م1642 ئ﴾كے بعد هندستان ميں علمِ حديث كا ذوق و شوق بھي كم هوتا رها۔ شاه ولي الله نے اس كو مسلمانوں كي اخلاقي و روحاني اصلاح كے ليے از سرِ نو زنده كيا۔ شاه صاحب نے قيامِ حجاز كے دوران وهاں كے جليل القدر اساتذه سے علومِ حديث كي سنديں حاصل كيں۔ وطن واپس آنے كے بعد آپ نے خود كو خدمتِ حديث كے ليے وقف كر ديا۔ تشنگانِ علمِ حديث دور دراز سے بڑي تعداد ميں آتے اور آپ كي خدمت ميں ره كر اپني علمي پياس بجھاتے ۔ شاهصاحب كے درس حديث اور ان كي كتابوں سے هندستان ميں تجديد و احياے اسلام كي تكميل هوئي۔قرآن و حديث كے بعد فقه كو بهت زياده اهميت حاصل هے ۔ علمِ فقه ميں شاه صاحب نے متعدد كتابيں تحرير فرمائيں۔ انھوں نے چاروں مذاهبِ فقه كے اختلافات كي بنياد كو واضح كرنے كے ليے ايك كتاب٫٫الانصاف في بيان سبب الاختلاف٬٬ لكھي۔ اس كے علاوه آپ نے علمِ فقه پر متعدد كتابيں تحرير فرمائيں۔شاه ولي الله كا خاندان علمِ تصوف كا گهواره تھا۔ آپ كے والد ماجد شاه عبد الرحيم اپنے دور كے مانے هوئے صوفي تھے۔ شاه صاحب نے انھيں كي صحبت ميں تصوف كے منازل طے كيےاور انھيں سے اشغال سيكھے۔ تصوف كے موضوع پر شاه صاحب نے درجنوں كتابيں تحرير فرما كر تصوف كي عظيم ترين خدمت انجام دي۔حضرت شاه ولي الله بيك وقت مفسر، محدث، فقيه، مجتهد، متكلم اور صوفي تھے۔ انھوں نے اصولو عقائد، علمِ منطق، علمِ معاني، علمِ هندسه و حساباور علمِ هيئت كا به نظر عميق مطالعه كياتھا۔ درس و تدريس اور اپني جليل القدر تصانيف سے شاه صاحب نے علوم و معارف كے دريا بها ديے ۔ ان كي علمي فياضيوں اور عظمت و بزرگي كے باعث دور دور سے طالبانِ علوم و معارف ان كے حلقه درس ميں شامل هو كر علمي بركتيں حاصل كرتے ۔ بر صغير ميں علومِ اسلاميه كي تاريخ ميں شاه صاحب كو منفرد مقام حاصل هے۔حضرت شاه ولي الله بهت هي عظيم الشان اور جليل القدر كتب كے مصنف هيں، انھوں نے ايك سو سے زائد كتابيں تصنيف كيں، جن ميں متعدد كتابيں حوادثِ زمانه كي نذر هو گئيں، جو محفوظ ره گئيں ان ميں چھوٹي بڑي كتابوں كي تعداد پچاس سے كچه زائد هي..

No comments:

Post a Comment