Monday, 21 September 2015

چهرے کا پرده

عورتوں کے لئے چهرے کا پرده کرنا بهی واجب و ضروری هے
پردے میں چهره بهی شامل هے
" يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَيُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا "
* سوره الاحزاب آیت 59 *
ترجمه.....اے پیغمبر! کہو اپنی بیویوں بیٹیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہ وہ لٹکا دیا کریں اپنے (چہروں کے) اوپر کچھ حصہ اپنی چادروں کا یہ طریقہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جایا کریں پھر ان کو کوئی ایذاء نہ پہنچنے پائے اور اللہ تو بہرحال بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے.
1: تشریح.....تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟ 
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں ۔
2: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔
امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔ 
حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔ 
3: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں ۔
* تفسیر حضرت امام ابن کثیر ...سوره احزاب آیت نمبر 59 *
* تفسیر ابن جریر *
4: اس لئے عورت کو سارا بدن سر سے لے کر پیر تک چهپائے رکهنا هے غیر محرم کے سامنے اپنے هاته پیر ، سر کے بال کهولنا درست نهیں.
آنکهیں بهی زینت میں شامل هے اس لئے بعض بهنیں اس طرح سے چهره چهپاتی که اس کا آدها چهره کهولا هوتا هے لهذا اس سے بهی بچنا چاهیئے بلکه پورا چهره چهپانا چاهیے آج کل ایسے کپڑے سے بهی چادر بنایا گیا هے جس کے پیچهے سے راسته آسانی سے دیکها جاسکتا هے وه کپڑا آنکهوں کے لئے استعمال کیا کریں. تاکه آنکهیں بهی ڈهکی رهے اور راسته بهی آسانی سے نظر آئے.
5: الله تعالی نے فرمایا هے " وَلاَ یُبدِینَ زِینتَهُنَّ اِلاَّ ماَظَهَرَ مِنهاَ "
* سوره النور آیت31 *
ترجمه...عورتیں اپنی زینت کو ظاهر نه کریں مگر جوکهلا رهتا هے .
اس آیت مبارک کی وضاحت یه هے.... عورتیں اپنی زینت کو ظاهر نه کریں مگر جو کچه باَمر مجبوری کهلا رهتا هو... زینت سے مراد هر هو چیز هے جس سے انسان اپنے آپ کو خوبصورت اور خوشنما بنائے.
6: آیت میں " اِلاَّ ماَظَهَرَ " سے مراد حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عںه نے کپڑے ، زیور یا بناو سنگهار کی چیزیں بهی مراد لی هے .
اس کی دلیل بهی آیت سے هے " خُذُوا زِینتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدِِ " الاعراف ...لو اپنی زینت هر نماز کے وقت.
اس آیت میں زینت سے مراد کپڑے هیں اور مسجد سے مراد نماز هے ان معانی کے مطابق عورت کے لئے اپنے کپڑوں اور زیور کی نمائش بهی غیرمردوں کے سامنے منع هے.
پس اس سے ثابت هوا که جسم کو زینت کے جسمانی اعضاء کو ظاهر کرنا تو بدرجه اولی منع هوگا.
اس صورت میں مطلب بالکل صاف هے که اوپر کا کپڑا یعنی " برقعه " یا بیرونی چادر اس چهپانے کے حکم سے مستثنی هے وه اس میں شامل نهیں باقی تمام کپڑوں اور زیور ، اپنے جسم کی زینت کو چهپانا فرض هے.
7: حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه نے زینت سے مراد اعضاء زینت بهی مراد لئے هیں .
اس کی وضاحت یه هے که اگر عورت کو مجبوری کے تحت بیماری کے علاج کے لئے یا شناخت کے لئے یا گواهی دینے کے لئے شرعی قاضی یا حاکم کے سامنے مواضع زینت کو کهولنا پڑے تو مجبوری کے تحت جائز هے .
اور مواضع زینت سے مراد " چهره اور هتیهیلیاں " هے..... اس بات پر علماء متفق هے که جب عورت کے چهرے کی طرف دیکهنا شهوت ابهرنے کا سبب بنے تو ایسی صورت میں عورت کے لئے چهره چهپانا اور مرد کا اس کی طرف نه دیکهنا فرض هے.
حتی کے قاضی یا حاکم بهی شناخت کے لئے اگر دیکهنا پڑا تو پهلی نظر بلاشهوت جائز هوگی دوسری نظر حرام هوگی.
8: بوڑهی عورت کے لئے اتنی گنجائش هے که وه صرف منه ، اور هتهیلی اور ٹخنے سے نیچے پیر کهولنا درست هے باقی اور بدن کا کهولنا کسی طرح سے درست نهیں.
سوره الاحزاب آیت نمبر 33... " وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا "
ترجمه.... " اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکواة دو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے "
9: شریعت نے عورت کے ذمے کوئی ایسا کام نهیں لگایا که جس کی وجه سے اسے چار دیواری نے نکلنا پڑے وقتی ضرورت تو مجبوری اور معذوری میں داخل هے تا هم عورت جس قدر گهر میں رهے گی اتنا هی الله تعالی کا قرب پائے گی.
* ابن حبان *.... میں هے عورت اپنے رب سے سب سے زیاده اس وقت قریب هوتی هے جب وه اپنے گهر کے درمیان میں چهپی هو.
* طبرانی شریف میں هے* ... عورت صرف شرعی ضرورت کے تحت گهر سے نکلے.
10: * امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکهتے هیں
 * که نیک بخت اور صاحب عزت عورت کا نشان گهونگهٹ هے تاکه بدنیت ، فاسق ، فاجر ان کے ساته چیڑ چهاڑ نه کریں.
عورت جب باهر هو تو شیطان اس کو غیرمردو کی طرف اور اس کو بهی غیرو کی طرف مائل کرنے میں لگتا هے اور ان کو بدنظر کا مرتکب کرواتا هے .
* ان المرءته عورته فاذا خرجت استشرفها الشیطان *..... یه نبی علیه السلام نے ارشاد فرمایا .
امام ابن کثیر نے اس کی وضاحت کی هے.... عورت چهپانے کی چیز هے جب گهر سے نکلتی هے تو شیطان اسے جهانکتا هے.
11: دوسرامعنی یه هے که شیطانی شهوانی نفسانی زندگی گزارنے والے لوگ عورت کو گهر سے باهر دیکه کر للچائی نظروں سے دیکهتے هیں ایسے فاسق ، فاجر ، فاحش لوگ شیطان کے نمائندے هوتے هیں ان کے جهانکنے کو شیطان کا جهانکنا کها گیا هے.
* مشکوته شریف * میں نبی علیه السلام کا فرمان هے کتاب النکاح میں....میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے زیاده بڑا فتنه کوئی نهیں دیکها.
یه چند باتیں هے جس سے فتنه پهیلنے کا اور زنا و فحاشی کا راسته کهولنے کا اندیشه هوتا هے.
فاسقین فاجرین بے پرده عورتوں کو دیکه کر هی شر انگیز منصوبے بناتے هیں اس لئے همیں قریب هی نهیں جانا چاهے فحاشی و بدکاری کے کاموں کے.
بلکه ایک اور واضیح روایت نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے عورتوں کو حالت احرام میں چهروں پر نقاب ڈالنے اور دستانے پهننے سے منع فرمادیا تها.
اس سے ظاهر هوتا هے که اس خیرالقرون کے دور میں نبی علیه السلام کے مبارک دور سے هی چهروں کے لئے نقاب اور هاتهوں کو چهپانے کے لئے دستانوں کا رواج عام هوچکا تها.
12: حضرت عائشہ فرماتى ہیں كہ ہم رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ حالت احرام ميں ہوتی تھیں ۔ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے ، جب ہمارے سامنے آتے تو ہم ميں سے ہرایک اپنی چادر اپنے سر سے نیچے لٹکا لیتی ۔ پھر جب وہ گزر جاتے تو ہم پردہ پیچھے ہٹا لیتے۔
( حديث: بحوالہ سنن أبى داود: كتاب المناسك ۔ باب في المحرمہ )
اس لئے یه فتوی هے " عورت کو چهره کهولنے سے روکا جائیگا ان کو اجازت نهیں دی جائی گی که وه اپنا چهره کهولیں کیونکه چهره کهولنے کی صورت میں غیرمردوں کی طرف سے ان پر شهوت بهری نگاه پڑتی هے "
* درمختار جلد اول *
عظمتِ صحابہؓ گروپ
ابو معاویہ
00966507268841
[21/09 11:21 pm] s a sagar:  تکبیر تشریق 
اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ ۔
عرفہ یعنی نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک(یعنی تیئیس (۲۳)نمازوں میں) ہر نماز ِفرض کے بعد بآوازِ بلند ایک مرتبہ یہ تکبیر پڑھنا واجب ہے،فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے اور تنہا پڑھنے والے اس میں برابر ہیں، اسی طرح مردوعورت دونوں پر واجب ہے،البتہ عورت بآوازِبلند تکبیر نہ کہے آہستہ کہے۔(احکامِ قربانی وعیدالاضحی)(شامی ۲/۱۸۰،ایچ ایم سعید)
مسئلہ:تکبیرِتشریق ہرفرض نمازکےبعدفوراًکہنی چاہئیے،اگرکوئی شخص اس وقت کہنابھول جائےتواس کی قضاءنہیں،بلکہ توبہ کرنےسےتکبیرِتشریق چھوڑنےکاگناہ معاف ہوجائےگا،لہذاتوبہ کرلےاورآئندہ خیال رکھے۔( قربانی کےفضائل ومسائل)(البحر الرائق۲/۲۸۸)
تنبیہ:
اس تکبیر کا متوسط بلند آواز سے کہنا ضروری ہے،بہت لوگ اس میں غفلت کرتے ہیں پڑھتے ہی نہیں،یا بالکل آہستہ پڑھ لیتے ہیں،یا پھر بعض جگہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھتے ہیں،اس کی اصلاح ضروری ہے۔(احکامِ قربانی وعیدالاضحی)(شامی ۲/۱۷۸،ایچ ایم سعید)
 (مفتی محمد عاصم)

No comments:

Post a Comment