Wednesday, 9 September 2015

شیخ البانی | شیخ شعیب ارنؤوط کی نظر میں



گزشتہ صدی میں عرب دنیا کے معروف عالم گزرے ہیں۔ابتدائے عمر میں ہی ان کا خاندان البانیہ سے ہجرت کر کے شامی شہردِمشق میںآ بسا اور وہیں شیخ کی علمی نشوونما ہوئی، بعد میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منوّرہ اور دیگر تعلیمی اداروں کی رونق بنے۔ ان کا اختصاصی فن ’’علمِ حدیث‘‘ تھا،آغازِشباب میں ہی اس علم سے رشتہ جوڑا اورپھرتادمِ آخراسی کے ہو رہے،اکثر علمی کاوشیں اسی علم کی خوشہ چینی کا ثمرہ ہیں۔ اپنی بعض منفرد تحقیقات کی بنا پر معاصر اہلِ علم کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں(۱)، انہی ناقدین میں سے ایک عصرِحاضر کے معروف محقق شیخ شعیب ارنؤوط بھی ہیں، جو خود بھی البانوی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا خاندان بھی شام کی طرف ہجرت کر کے یہیں بس گیا تھا۔ شیخ البانیؒ کے ساتھ ان کے خاندانی تعلقات استوار رہے ہیں، کچھ عرصہ قبل شیخ ارنؤوط کے ایک شاگرد شیخ ابراہیم زیبق نے ان کے حالات اور علمی خدمات پر ایک کتاب ترتیب دی تھی،جو ’’المحدّث العلّامۃ الشیخ شعیب الارنؤوط،سیرتہ فی طلب العلم وجہودہ فی تحقیق التراث‘‘ کے نام سے عالم عرب کے معروف اشاعتی ادارے’’ دار البشائر الإسلامیّۃ ، بیروت‘‘ سے شائع ہوکر منظرِعام پرآچکی ہے، اس کتاب کے ایک حصے میں شیخ البانی vکی تحقیقات کے متعلق ان کی بعض تنقیدی آرا کا تذکرہ ہے۔ علمی دنیا میں اختلاف کوئی اَنہونی چیز نہیں،’’ آدابِ اختلاف‘‘ کی رعایت رکھتے ہوئے متانت کے ساتھ شائستہ لب و لہجے اور سنجیدہ اسلوب میں اپنی آرا کا اظہار، معتدل مزاج اہلِ علم کا امتیاز ی خاصہ رہا ہے۔شیخ ارنؤوط کی یہ تحریر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے، چونکہ شیخ بذات خود ایک نام وَر محقق ہیں، شیخ البانیؒ سے ان کے خاندانی مراسم رہے ہیں، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کام کرنے کے مواقع انہیں حاصل رہے ہیں اور ان کی کتب و تحقیقات پربھی وہ گہری نگاہ رکھتے ہیں،اس لیے تحریر کے مندرجات سے کلی اتفاق نہ ہونے کے باوجود ان کا یہ علمی نقدوتبصرہ‘ فائدے سے خالی نہ ہوگا۔اسی نقطۂ نظر کے تحت کتاب کے اس حصے کو اردو ترجمانی کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا جا رہا ہے۔ (مرتب)

شیخ البانی vکا امتیازی کارنامہ
مجھے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تردّد نہیں کہ شیخ ناصرالدین البانی v کو بیک وقت اپنے موافق ومخالف دونوں طبقوں میں علمِ حدیث کے مطالعے اور اس میں مزید تحقیق وجستجو کا شوق ورغبت پیدا کرنے کا شرف حاصل ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ(ماضی قریب میں) انہیں کے دم قدم سے مصر وشام میں حدیثی مشاغل کو دوبارہ توانائی نصیب ہوئی ہے۔ اس کارنامے پراللہ تعالیٰ ان کو مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے اوراس کا اجروثواب ان کے نامۂ اعمال میں محفوظ فرمائے۔ لیکن وہ اس میدان کے پہلے شہسوار نہیں تھے، ان سے قبل مصر میں شیخ محمد رشید رضا، شیخ احمد شاکر اور ان جیسے دیگر ازہری علما اور شام میں شیخ جمال الدین قاسمی اور شیخ محمد بہجۃ البیطار جیسے (محدثین) گزر چکے ہیں، بنابریں انہیں ترکِ تقلید ورجوع الی السنۃ کا داعئی اول نہیں قرار دیا جاسکتا، لیکن انہوں نے اپنے ان پیش رؤوں کے سنجیدہ واطمینان بخش اسلوب سے استفادہ نہیں کیا،بلکہ مخالفین کے ساتھ اشتعال انگیز انداز اپنایا، گویا (اس طرزِعمل سے)وہ انہیں قائل کرنے کی بجائے شکستہ کردینا چاہتے تھے، نتیجتاً (مسلمانوں کے)دو طبقوں کے درمیان ایسی معرکہ آرائی ہوئی کہ جس میں علمی مباحثہ ومناقشہ کی بجائے سب وشتم تک نوبت جا پہنچی۔
مجھے اس بات سے بھی انکار نہیں کہ شیخ کتاب وسنت کے داعی تھے جو بلاشبہ خوش آئند راہ ہے، لیکن در حقیقت وہ اپنی تحقیق کی روشنی میں صحیح قرار پانے والی احادیث وسنن کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کی چاہت تھی کہ ان کی تصحیح کو ائمہ متبوعین کے اجتہاد کے برابر کا درجہ حاصل ہو اور متنازع مسائل میں انہی کی رائے ’’قولِ فیصل‘‘ قرار پائے۔ لیکن یہ مقام نہ انہیں حاصل ہوا اورنہ ان کے علاوہ کسی کے حصے میں آیا، اس لیے کہ (ائمہ فقہا کا) یہ اختلافِ محمود اللہ تعالیٰ کاپسندفرمودہ ہے اوراسی کے پیدا کردہ اسباب کے تحت وجود میں آیا ہے۔ 
(غور کیجیے کہ)صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو محض بارگاہِ رسالت (l) سے علم حاصل کرنے والے تھے، لیکن اس کے باوجود بعض مسائل میں ان کے درمیان بھی اختلاف ہوا ہے۔ نیزاختلافی مسائل میں سے جس مسئلے میں بھی ائمہ نے نصوص کی بنیاد پر کوئی قول اختیار کیا ہے، اس کی نظیرصحابہؓ وتابعینؒ میں ملتی ہے۔ فقہی مسائل میں اختلاف کا آغاز عہدِ صحابہؓ میں ہی ہوچکا تھا اور یہ عین منشأ خداوندی کی تکمیل تھی، اسی کا ثمرہ ہے کہ ہماری اسلامی تہذیب میں تنوع اور فہم کے دائروں میں وسعت دکھائی دیتی ہے، جس میں فکری واختراعی مقابلے کے لیے کھلامیدان مہیا ہے۔ اگر علمی اختلافات نہ ہوتے تو یہ عظیم تالیفات منظرِعام پر نہ آتیں، جن کی بدولت دورِتدوین سے آج تک ہمارے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔
علمِ حدیث اور شیخ البانیv
شیخ ناصر الدینvکا امتیازی فن ’’علمِ حدیث‘‘ ہے، اس علم کے مطالعہ وتحقیق میں شیخ نے اپنی زندگی کی طویل مدت تقریباً ساٹھ برس صرف کیے ہیں، البتہ شیخ کو اس فن میں دیگر محدثین کا سا مقام ہی حاصل ہے، یعنی ان سے بھی خطأ وصواب دونوں کا صدو ر ہوا ہے۔
’’نقدِ متن‘‘ کی طرف عدمِ التفات
مجھے شیخ کی اس بات سے بے حد تعجب ہے کہ انہوں نے ’’علم مصطلح الحدیث‘‘ میں ضرور پڑھاہوگا کہ ’’حدیثِ صحیح وہ ہے کہ جس کی سند راوی سے لے کر نبی کریم a تک متصل ہو اور وہ روایت‘ علت یا شذوذ سے خالی ہو‘‘۔لیکن افسوس یہ ہے کہ احادیث پر حکم لگانے کے سلسلے میں انہوں نے ’’شذوذ‘‘ اور’’ علت ‘‘کی طرف توجہ کی، نہ متنِ حدیث پر نقد کرتے ہوئے ان سے اعتناکیا، لہٰذا ان کے ہاں اسناد ’’صحیح‘‘ ہو تو حدیث بھی ’’صحیح‘‘ قرار پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایسی بہت سی احادیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے، جن کے متون پر علماکوکلام ہے،مثلاً:
۱۔’’مشکٰوۃ المصابیح‘‘ (۲)اور’’صحیح الجامع الصغیر‘‘(۳)کی روایت ہے: ’’الوائدۃ والموؤدۃ فی النار‘‘۔ (بچی کوزندہ گاڑنے والی عورت اورجس کو گاڑاگیا ہو دونوں دوزخ میں ہیں)شیخ البانیv نے اس روایت کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے،حالانکہ یہ حدیث، قرآنی آیت ’’وَإِذَا الْمَوْؤُدَۃُ سُءِلَتْ‘‘(۴)(اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جاوے گا)کے صراحتاً خلاف ہے، اگرچہ شیخ نے اس کی د ل نہ لگتی توجیہ وتاویل پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
۲۔ ’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ (۵)میں شیخ نے درجِ ذیل روایت کو’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے: ’’إن اللّٰہ خلق التربۃ یوم السبت‘‘ (اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا کیا ہے) اس روایت کو امام مسلمvنے بھی ’’صحیح مسلم‘‘ (۶)میں اسی طرح نقل کیا ہے، لیکن یہ حدیث‘ قرآنِ کریم کے متعارض ہے۔نیز سند میں اسماعیل بن امیہ کی وجہ سے اس کو ’’معلول‘‘ بھی کہا گیا ہے، اس لیے کہ اسماعیل نے اس کو درجِ ذیل سند کے ساتھ روایت کیا ہے:’’إسماعیل،عن أیوب بن خالد،عن عبد اللّٰہ بن رافع ۔مولٰی أم سلمۃ۔عن أبی ہریرۃؓ مرفوعاً ‘‘۔
اسماعیل ہی نے اس روایت کو ’’عن إبراہیم بن أبی یحیی، عن أیوب بن خالد‘‘ کے طریق سے بھی نقل کیا ہے اور چونکہ ابراہیم ’’متروک‘‘ ہیں،اس لیے اسماعیل نے ان کو سند سے ساقط کردیا۔ امام بخاری vنے بھی ’’التاریخ الکبیر‘‘(۷)میں اسماعیل بن امیہ ہی سے یہ روایت نقل کی ہے، امام موصوف نے بعض محدثین کا قول نقل کیا ہے کہ:’’عن أبی ہریرۃؓ عن کعب‘‘،اصح ہے‘‘، یعنی یہ روایت کعب احبارv کی اسرائیلیات میں سے ہے، لیکن شیخ ناصر الدینvنے امام بخاریvپر رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:’’یہ بعض کون ہیں؟ اور حفظ وضبط کے اعتبار سے ان کا کیا مقام ہے، تاکہ اس روایت کو عبد اللہ بن رافع کی روایت پر ترجیح دی جاسکے؟‘‘۔ آگے لکھتے ہیں کہ: ’’یہ حدیث‘قرآنِ کریم کے خلاف نہیں ، جیساکہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے‘‘۔ لیکن عدمِ مخالفت پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
۳۔’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ (۸)میں درج ذیل روایت کو شیخ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے: ’’أمتی أمۃ مرحومۃ، لیس علیہا عذاب فی الآخرۃ، وإنما عذابہا فی الدنیا‘‘۔(میری امّت پر خداکی خاص رحمت ہے،اس کے لیے آخرت میں کوئی عذاب نہیں،اس کا عذاب دنیا میں ہی ہے) اور تصحیح کی علت بیان کرنے کی کوشش یوں کرتے ہیں کہ: ’’امت سے مراد امت کی اکثریت ہے، اس لیے کہ یہ بات تو قطعی ہے کہ بعض لوگ گناہوں سے پاکی حاصل کرنے کے لیے جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ ہم نے’’مسند احمد‘‘ (۹)کی تعلیق میں اس حدیث کوضعیف قرار دیا ہے،اور فنِ حدیث کے ماہر‘ امام بخاری vنے بھی ’’التاریخ الکبیر‘‘(۱۰)میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے، اس لیے کہ انہوں نے اس حدیث کے طرق اور ان میں اضطراب بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’والخبر عن النبی a فی الشفاعۃ، وأن قومًا یعذبون ثم یخرجون أکثر وأبین وأشہر‘‘۔ یعنی ’’شفاعت اورکچھ لوگوں کو عذاب دے کر جہنم سے نکالے جانے کے متعلق بہت سی احادیث ہیں،جو زیادہ واضح اور مشہور ہیں‘‘۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری vنے سند کا اضطراب بیان کرنے کے ساتھ متن پر بھی نقد کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ روایت ان صحیح احادیث کے خلاف ہے جو(کثرت کی بنا پر) تواتر کے قریب ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ: ’’امتِ محمدیہ کے کچھ لوگ ابتداءً جہنم میں داخل ہوں گے اور پھر نبی کریم a کی شفاعت سے نکالے جائیں گے‘‘۔
بہر کیف شیخ ناصر الدینv’’نقدِ متن‘‘ کی طرف چنداں توجہ نہیں کرتے تھے(۱۱)، ان کا دعویٰ تھا کہ متقدمین نے ’’نقدِ متن‘‘ کے لیے کوئی منہج متعین نہیں کیا اور نہ ہی ا س کے طے شدہ ضوابط ہیں ، حالانکہ یہ ایک کمزور نکتہ نظر ہے، ہمارے اس موقف کی دلیل کے طور پر شیخ کی کتاب ’’الإجابۃ فیما استدرکتہ عائشۃؓ علی الصحابۃؓ‘‘کافی ہے، جس کا موضوع ’’نقدِ متون‘‘ ہی ہے۔
’’شذوذ ‘‘ اور ’’زیادتِ ثقہ‘‘ میں عدمِ تفریق
میرے نزدیک ایک اور قابلِ گرفت بات یہ ہے کہ شیخ ’’لفظِ شاذ‘‘ اور ’’زیادتِ ثقہ‘‘ کے درمیان فرق نہیں کرتے، اس مسئلے میں ان کا حال متاخر محدثین جیساہے، حالانکہ ’’شذوذ‘‘ اور ’’زیادتِ ثقہ‘‘ دونوں واضح اصطلاحات ہیں اور (محدثین کے ہاں) معروف ہے کہ ’’لفظِ شاذ وہ ہے جس کو کسی شیخ کا ایک راوی اکیلا اپنے شیخ سے روایت کرے، جبکہ دیگر شاگرد اس کو نقل نہ کرتے ہوں‘‘۔ اب اس راوی سے کہا جائے گا کہ آپ یہ لفظ کہاں سے لائے، جس کو ایک بڑی جماعت آپ کے شیخ سے روایت نہیں کرتی؟۔
ائمہ متقدمین، امامِ متقِن کی ’’زیادتِ ثقہ‘‘ کو قبول کرتے تھے ،نیز ’’زیادتِ ثقہ‘‘ اور ’’شذوذ‘‘ کے درمیان فرق کے قائل تھے۔اس سلسلے میں مجھے حضرت وائل بن حجرqکی حدیث یاد آرہی ہے،جو بحالتِ تشہد انگشتِ شہادت کو حرکت دینے کے متعلق ہے،اس روایت میں عاصم بن کلیب سے صرف ایک راوی زائدہ بن قدامہ نے ’’یحرّکہا‘‘ کا لفظ نقل کیا ہے، عاصم کے باقی شاگرد: عبد الواحد بن زیاد، شعبہ، سفیان ثوری، زہیر بن معاویہ، سفیان بن عیینہ، سلام بن سلیم ابو احوص، بشر بن مفضل، عبد اللہ بن ادریس،قیس بن ربیع، ابوعوانہ اور خالد بن عبد اللہ واسطی ’’یحرّکہا‘‘ کی بجائے ’’یشیربہا ‘‘کے الفاظ نقل کرتے ہیں، میں نے ’’مسند احمد‘‘ کی تعلیق میں ان تمام طرق کی تخریج کی ہے(۱۲)۔
شیخ ناصرؒ نے ’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ (۱۳)میں لفظِ ’’یحرّکہا‘‘ کو ’’صحیح‘‘ قرار دینے کی علت یہ بیان کی ہے کہ: ’’لفظِ اشارہ‘ تحریک کے منافی نہیں ، زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اشارہ کے الفاظ ’’تحریک‘‘ کے متعلق صریح نہ ہوں گے، لیکن منافی بھی نہیں‘‘۔
کیا متقدمین علمائے حدیث کے منہج کے موافق اس شاذ لفظ کو ’’صحیح‘‘قرار دینے کے لیے یہ تعلیق کافی ہے؟
اپنے مذہب کی مؤیّد روایات کی تصحیح اور ائمہ مجتہدین پر بے جا تنقید
بعض اوقات شیخ ایسی احادیث کی بھی تصحیح کرجاتے ہیں، جو ان کے مذاہب کے موافق ہوں، اگرچہ ان کا کوئی قوی شاہد موجود نہ ہو۔ اس سلسلے میں مجھے حضرت عدی بن حاتمq کی حدیث یاد آئی کہ: ’’جب انہوں نے نبی کریم a کو یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کرتے ہوئے سنا:’’اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘(۱۴) (انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علما اور مشائخ کو رب بنارکھا ہے) تو حضرت عدیqنے عرض کیا کہ: ہم تو ان کی عبادت نہیں کرتے تھے؟ نبی کریم a نے ان سے فرمایا: ’’ہاں وہ لوگ بھی اپنے علما کی عبادت نہیں کرتے تھے، لیکن جب علمائے یہود ونصاریٰ ان لوگوں کے لیے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ اسے حلال سمجھتے تھے اور جب ان پر کسی چیز کو حرام کردیتے تو وہ اسے حرام سمجھتے تھے، یہی ان کی عبادت کرنا ہے‘‘۔
اس حدیث کو امام ترمذیvنے ’’جامع الترمذی‘‘(۱۵) میں ضعیف کہا ہے اور اس کا کوئی قوی شاہد بھی نہیں ہے، اس کے باوجود شیخ ناصرv نے اپنی کتاب ’’صحیح الترمذی‘‘(۱۶) میں اس کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔اور ’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ (۱۷) میں تفسیر’’روح المعانی‘‘(۱۸) کے حوالے سے علامہ آلوسی v کا قول نقل کیا ہے:
’’والآیۃ ناعیۃ علی کثیر من الفرق الضالۃ الذین ترکوا کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ ۔علیہ الصلاۃ والسلام۔ لکلام علماء ہم ورؤساء ہم، والحق أحق بالاتباع، فمتی ظہر وجب علی المسلم اتباعہ، وإن أخطأ اجتہاد مقلدہ‘‘۔
’’اس آیت میں ان گمراہ فرقوں کو مطعون کیا گیا ہے،جنہوں اپنے علماورؤسا کی باتوں کی بنا پرخدا کی کتاب اور نبی کی سنّت سے روگردانی اختیار کر لی تھی،حالانکہ حق اتباع کا زیادہ حقدار ہے،لہٰذا جب حق ظاہر ہو جائے تو مسلمان پراس کی اتباع واجب ہے،اگرچہ اپنے امامِ مقلَّد کو غلط قرار دینا پڑے۔‘‘
شیخ ناصرv مندرجہ بالاحدیث سے استشہاد کرتے ہوئے ائمہ متبوعین پر نکتہ چینی کرتے تھے، اس موضوع پر میری ان سے گفتگوبھی ہوچکی ہے، میں نے ان سے کہا تھاکہ خدا کو چھوڑکرعلما ومشائخ کو رب بنانے اور ائمہ مجتہدین (کی تقلید) میں بڑا فرق ہے، اس لیے کہ علمائے یہود ونصاریٰ تو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو ان لوگوں کے لیے حلال قرار دیتے تھے، جبکہ یہ ائمہ اپنے اجتہادات میں کتاب وسنت پر اعتماد کرتے تھے، لہٰذا (مشہور حدیثِ مبارکہ کی بنا پر) جس کا اجتہاد درست ہو تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور جس سے خطأ واقع ہوئی تواس کے لیے بھی ایک اجر ہے۔ ان ائمہ کو علمائے یہود ونصاریٰ کے برابرقرار دینا بڑی ناانصافی ہے۔
غیر واضح منہجِ تحقیق
چند چھوٹے رسائل کے علاوہ دیگر حدیثی کاوشوں میں شیخ ناصر الدینvکا کوئی واضح منہج نہیں تھا، بہت پہلے وہ امام سیوطیv کی ’’الجامع الکبیر‘‘ اور ’’الجامع الصغیر‘‘سے ضعیف احادیث تلاش کرکے ’’مکتبۂ ظاہریہ‘‘ میں موجود ’’أجزاء حدیثیۃ‘‘ میں ان کے متعلق جو مطالعہ کرتے تھے، اسے ایک الگ کاغذ پر لکھ لیا کرتے تھے، یوں جب ان کے پاس سویا زیادہ احادیث جمع ہوجاتیں تو ایک چھوٹے رسالہ کی صورت میں چھاپ دیتے تھے، ان میں موضوع اور باطل احادیث بھی ہوتی تھیں۔
میری دانست میں ان احادیث کونئے سرے سے لوگوں میں پھیلانے کی چنداں ضرورت نہ تھی، اس لیے کہ وہ بھلائی جاچکی تھیں اور اہلِ زمانہ میں سے کوئی ان سے واقف نہ تھا، مثلاً : ’’علیکم بالعدس، فانہ قدس علی لسان سبعین نبیًا‘‘۔(دال کو لازم پکڑو،اس لیے کہ یہ ستر انبیاء ؑ کی زبانی مقدّس(غذا )ہے)(۱۹) اور اس جیسی دیگر احادیث۔ شیخ نے ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ‘‘ میں ایسی احادیث کو شائع کر دیا ہے، بہتر ہوتاکہ یہ موضوع احادیث نسیان کے پردوں میں ہی گم رہتیں، البتہ لوگوں کے درمیان معروف ومشہور احادیث کا حال بیان کرنے اور ان پر نقد کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سلسلے میں ان کی محنت قابل قدر ہے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
اسی طرح ’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘ میں بھی ان کا کوئی واضح منہج نہیں ہے، ا س لیے کہ شیخ کوکوئی بھی صحیح حدیث ملتی تووہ(اپنے تئیں) حدیثی نقطۂ نظر سے اس کی تحقیق کر کے اسے اس سلسلے میں درج کرلیتے تھے، ان احادیث کو جمع کرنے کا مشترک پہلو صرف یہ تھا کہ شیخ کو ان کی صحت کا اعتقاد ہے(اور ان کی تحقیق کے مطابق یہ صحیح احادیث ہیں)، میری رائے میں محض یہ بات ایک مستقل کتاب میں احادیث جمع کرنے کے لیے کافی نہ تھی، نیز(اس کتاب کی احادیث میں کسی موزوں ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا،بلکہکیفمااتفق ذکر دی گئی ہیں ) اگروہ ان احادیث کو موضوع وار جمع کردیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
تقسیمِ احادیث اور اسانید کا حذف
شیخ کی قابل مواخذہ باتوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ موصوف نے جب’’ سننِ اربعہ‘‘ (سننِ ابوداؤد،سننِ ترمذی،سننِ نسائی اورسننِ ابنِ ماجہ) کی ’’صحیح وضعیف‘‘ احادیث کو جداجدا شائع کیا تو ان کی اسانید حذف کرڈالیں، حالانکہ علمی دیانت کا تقاضہ تھا کہ وہ سندوں کو حذف نہ کرتے، اس لیے کہ ’’صحیح وضعیف‘‘ کی پہچان کا اہم مدار سند ہی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس طرزِ عمل سے گویا وہ لوگوں کو آمادہ کرناچاہتے تھے کہ وہ شیخ کی تحقیق پر ہی اعتماد کریں، اور ان کی تحقیق جس حکم تک پہنچی ہے وہ حق اور ناقابلِ مناقشہ ہے۔
نیز حدیثِ صحیح وضعیف کے درمیان(شیخ کا اختیار کردہ ) یہ فرق محض تکلف ہے، شاید پس پردہ ’’سننِ اربعہ‘‘ کی ضعیف احادیث کو مہمل (وناقابل استدلال) قرار دینا مقصود ہو، حالانکہ بہت سی ضعیف احادیث‘ احادیثِ صحیحہ کے لیے ’’شواہد‘‘ ہیں،لہٰذا ان کو صحیح احادیث سے یوں ممتاز کرنا مناسب نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنی کتابوں کی تالیف کے موقع پر خود امام ابوداؤد، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ w کے بھی قطعاً یہ عزائم نہ تھے، اس لیے کہ وہ چاہتے تو محض صحیح احادیث پر بھی اکتفا کرسکتے تھے۔ بنا بریں ’’سنن‘‘ سے متعلق شیخ ناصرالدین vکے اس کام کو میں ان کے غیر مستحسن کاموں میں شمار کرتاہوں۔
حکمِ حدیث کے متعلق دیگر ائمہ کے اقوال سے بے اعتنائی
ایک اور قابل گرفت بات یہ ہے کہ شیخ جب کسی ایسی حدیث کو’’ صحیح ‘‘قرار دیتے ہیں، جس کو دیگر حفاظ نے’’ ضعیف‘‘ کہا ہو تو دیگر اقوال کا تذکرہ نہیں کرتے، اگر وہ ذکر کردیتے تو لوگوں کو ان کے اور دیگر حفاظ کے ا حکام کے درمیان آزادانہ موازنے کی چھوٹ مل جاتی، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو محض اپنے اقوال کی اتباع پر کھڑاکرناچاہتے ہیں، جو کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ۔
شیخ البانیvکے علمی کام پر نظرِثانی کی ضرورت
انہی امور کی بنا پر میری دانست میں شیخ ناصرالدین البانی v کے کام پر درج ذیل انداز سے نظر ثانی ہونی چاہئے:
۱۔جن احادیث کو شیخ نے صحیح یا ضعیف قرار دیا ہے اور ان سے پہلے ائمہ متقدمین نے بھی ان کو صحیح یا ضعیف ہی کہا ہے، انہیں اپنے حال پر رہنے دیا جائے۔
۲۔جن احادیث پر ائمہ متقدمین کے برخلاف شیخ نے صحت یا ضعف کا حکم لگایاہے تو دونوں حکموں میں موازنہ کیا جائے اور دلائل وقرائن کی روشنی میں شیخ ناصر کے موافق یا مخالف حکم بیان کیا جائے۔
اپنی سابقہ بات دہراتے ہوئے میں پھر کہتا ہوں کہ شیخ ناصر الدینv ’’محدث‘‘ تھے، میں نہیں کہتا کہ وہ ’’حافظُ العصر‘‘ تھے، انہوں نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس اس علم کے پڑھنے پڑھانے میں صرف کئے ہیں اور اس طویل صحرانوردی نے ان میں فن کی بہترین مہارت ولیاقت پیداکر دی تھی، اس لیے اس میدان میں ان کی مہارت کو کلی طور پر نظراندازکرناحق ناشناسی ہوگی۔
شیخ البانیvکا فقہی مقام
رہا فقہی میدان تو مجھے ان کا کوئی بھی ایسا مسئلہ یاد نہیں، جس میں ان کی دلیل سے مطمئن ہوکر میں نے ان کی تحقیق قبول کرلی ہو، اس لیے کہ فقہ ان کا فن ہی نہیں، نہ ہی علمِ حدیث کی طرح فقہ میں ان کا انہماک رہاہے،درحقیقت انہوں نے بعض علما کے شاذ مسائل لے کر ان کے ذریعے اپنے فقہی منہج کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
۱۔مثال کے طور پر سامانِ تجارت میں زکوٰۃ کے عدمِ وجوب کے قول کو ہی لے لیجئے، ان سے پہلے علامہ ابن حزمv ’’المُحلّٰی‘‘(۲۰)میںیہ قول ذکر کر چکے ہیں۔امام شوکانیv نے ’’الدُّرَر البَہِیَّۃ‘‘ (۲۱)میں اور نواب صدیق حسنvنے اس کی شرح ’’الرَّوضۃ النَّدِیَّۃ‘‘(۲۲) میں ابن حزمv ہی کی اتباع کی ہے۔ اور اپنے اس قول کے لیے ان کے پاس سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں کہ سامانِ تجارت میں زکوٰۃ کے متعلق نبی کریم a سے کوئی حدیث ثابت نہیں۔
۲۔زرعی پیداوار پر کن صورتوں میں زکوٰۃ واجب ہے؟ شیخ نے امام شوکانیv(۲۳)کی اتباع میں ان کو صرف چار اجناس میں منحصر کردیا ہے:۱۔ گندم، ۲۔ جو، ۳۔کھجور، ۴۔کشمش ۔اس لیے کہ نص صرف ان چار اشیا کے متعلق ہے، اور دیگر اشیا کو ان پر قیاس کرنا درست نہیں۔ جبکہ جمہور فقہا سامانِ تجارت میں وجوبِ زکوٰۃ کے قائل ہیں، نیز وہ شہر کی دیگر مذکورہ اجناس اربعہ پراشیاء خوردنی کو قیاس کرتے (ہوئے ان میں بھی زکوٰۃ کو واجب قرار دیتے) ہیں۔
مجھے تعجب ہے کہ شیخ نے یہ قول کیسے اختیار کرلیا!!حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ تاجر اپنا مملوکہ مال صندوق میں نہیں رکھا کرتا، بلکہ نقصان سے بچاؤ کے لیے ہمیشہ اسے سامانِ تجارت میں بدلتا رہتا ہے، تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاجرصرف اسی مال کا مالک ہے جو اس کے صندوق میں ہے،جبکہ اس کے گودام سامانِ تجارت سے اَٹے پڑے ہوں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فریضۂ زکوٰۃ کے متعلق مقاصدِ شریعت پر ان کی نگاہ کوتاہ تھی، نہ ہی وہ اسلام کے اقتصادی نظام سے واقف تھے۔
۳۔انہیں شاذاقوال میں سے ایک عورتوں پر حلقہ بنے سونے کے زیورات کو حرام قرار دینے کا قول ہے۔
اس مسئلے میں شیخ نے علامہ ابن حزمv کی ’’المحلّٰی‘‘(۲۴)کی پیروی کی ہے، چنانچہ ’’سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘‘(۲۵)میں بزعمِ خود حرمت کے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’کوئی مسلمان نبی کریم a سے ثابت شدہ بات کے خلاف کسی قول کی طرف نگاہِ التفات نہیں ڈال سکتا، خواہ اس کا قائل علم وفضل اور نیکوکاری میں کیسی ہی شان کا حامل کیوں نہ ہو، اس لیے کہ بہر حال وہ معصوم تو نہیں ، یہی چیز ہمارے لیے اپنے موقف پر جماؤ کا باعث ہے، (ہمارا طرزِ عمل یہ ہے کہ) کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے ان کے علاوہ کسی کا کوئی اعتبار نہ کیا جائے‘‘۔
فہمِ حدیث میں فقہا کا منہج
شیخ کا خیال ہے کہ کسی حدیث کو صحیح قرار دینے سے مشکل حل ہوجاتی ہے، حالانکہ یہ وسعت بہت سے امور میں خلل کا باعث بن سکتی ہے۔ ائمہ متقدمین معاذ اللہ ’’حدیثِ صحیح‘‘ کے تارک ہرگز نہ تھے، بلکہ وہ ہرحدیث کو اس کا مناسب مقام دیتے تھے، مثلاً حضرت انس qکی اِس روایت کو ہی لے لیجئے کہ جب نبی کریم a سے بعض صحابہؓ نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ ہماری خاطر (اشیا کی) قیمتوں کا تعیّن فرما دیجئے، تو آپ a نے جواباً ارشاد فرمایا کہ:’’إن اللّٰہ ہو المسعِّر القابض الباسط الرزاق‘‘۔ (اللہ تعالیٰ ہی قیمتیں مقررکرنے والا،(رزق میں) تنگی اور کشادگی کرنے والاہے اور وہی رزق دینے والا ہے)اِس حدیث کو امام ترمذی vنے ’’جامع الترمذی‘‘(۲۶)میں نقل کیا ہے، اس کے باوجود ائمۂ مجتہدین ’’نرخ بندی‘‘ کے قائل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ: ’’بلاشبہ یہ حدیث، حق وسچ اور نبی کریم a کا فرمان ہے، لیکن یہ ’’عام مخصوص منہ البعض‘‘ کی قبیل سے ہے،انہوں نے اس حدیث کو اُس صورت کے ساتھ خاص کیا ہے جس میں بائع ومشتری کا باہمی معاملہ صلاح پر مبنی ہو اور دورِ حاضر کی طرح ان میں حرص ولالچ نہ ہو، بلاشبہ ایک ایسے معاشرے میں ’’نرخ بندی‘‘ ترک کردی جائے گی، لیکن معاشرتی تبدیلی کی صورت میں قیمتوں کا تعین ناگزیر ہے۔
شیخ محمد بخیت مطیعیvنے امام نوویv کی ’’المجموع‘‘ کے ’’تکملۃ‘‘(۲۷)میں اس مسئلے کے متعلق علما کے مختلف اقوال جمع کردیئے ہیں۔ لیکن شیخ ناصر الدینv ایسے امور کی طرف التفات نہیں فرماتے، ان کے نزدیک (سنداً)صحیح حدیث کی مخالفت جائز نہیں، حالانکہ ائمہ سلف بھی صحیح احادیث کے مخالف ہرگزنہیں تھے، بلکہ وہ احادیثِ رسول کو واضح فرماتے تھے اور اس سلسلے میں وظیفۂ نبوت کی پیروی کرتے تھے،(جس کا اِس آیت میں ذکر ہے) فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’وَأَنْزَلْنَاإِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ‘‘ (۲۸)’’اے پیغمبر!ہم نے تم پر بھی یہ قرآن ا س لیے نازل کیا ہے، تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں‘‘۔ یعنی لوگوں کے سامنے مرادِ باری تعالیٰ واضح کریں، چنانچہ ائمہ مجتہدین بھی یہی وضاحت کا فریضہ ادا کرتے تھے، لیکن وہ معصوم نہیں ہیں، خطأ وصواب دونوں ہی احتمال رکھتے ہیں، البتہ نصوص کے فہم کے لیے جو منہج انہوں نے اختیار کیا ہے، وہ شریعت کے درست فہم تک پہنچاتا ہے۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ائمہ مجتہدین نے اگر کسی حدیث کو رد کیا ہے تو صحابہsمیں بھی اس کے رد کرنے والے ملیں گے اور وہ ایسی احادیث کو لیتے ہیں جس پر کسی نہ کسی صحابیؓ کا عمل ہو، مثلاً: درج ذیل حدیث کو دیکھئے: ’’من مسّ ذکرہ فلیتوضأ‘‘ ۔(جس نے اپنے ذکر کو چھوا تو اسے چاہیے کہ وضو کرے )اس حدیث کو امام احمدvنے ’’مسند احمد‘‘ ۔(۲۹)میں نقل کیا ہے اور (سنداً) ’’صحیح‘‘ حدیث ہے، اسی پر امام شافعی v کا عمل ہے۔
اب ایک اور حدیث پر نظر ڈالیے: ’’إنما ہو بضعۃ منک‘‘۔(وہ توتیرے جسم کے گوشت کا ہی ایک ٹکڑا ہے)اس حدیث کو بھی امام احمدvنے ’’مسند احمد‘‘ ۔(۳۰)میں نقل کیا ہے اور (سنداً) یہ ’’حسن‘‘ ہے، امام ابوحنیفہvاسی کو لیتے ہیں، چنانچہ امام شافعیv کے ہاں ’’مسِ ذکر‘‘ ناقضِ وضو ہے ،جبکہ امام ابو حنیفہv کے نزدیک ناقض نہیں ،اور دونوں نے اپنے مذہب کے سلسلے میں اپنے تئیں صحیح احادیث پرہی اعتماد کیا ہے، اسی طرح صحابہsوتابعینw میں سے بھی بعض نے ان میں سے ایک حدیث کو لیا اور بعض نے دوسری حدیث پر عمل کیا ہے۔
یہ (فقہی) اختلاف تو دورِ صحابہؓ سے چلا آرہا ہے،اور صحابہ کرامsکی تعریف خود اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے: ’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ‘‘ ۔(۳۱)(تم وہ بہترین امّت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے)میرا اعتقاد ہے کہ یہ ’’خیریت‘‘ محض سلوک میں منحصر نہیں، بلکہ علم بھی اس کے تحت داخل ہے، اس لیے کہ سلوک کی بنیادتوعلم ہے اور وہ علم کاہی ثمرہ ہے۔ لہٰذا اختلاف جب تک عقل وفہم کے دائرے میں رہے تو وہ تنوع کا کرشمہ اور اجتہاد وابداع کی جلوہ گاہ ہے، اسلام اس کو پسند کرتا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ البتہ جب اختلاف‘عقل سے قلب کی طرف سرایت کرجائے اور اس کی کوکھ سے باہمی کش مکش، سب وشتم، قطع تعلق اور کینہ وعداوت جیسے موذی باطنی امراض جنم لینے لگیں تو وہ شرعاً ممنوع ہوجاتا ہے، اسلام ایسی چیزوں کو کبھی بھی پسند نہیں کرتا۔
بعض دیگرفقہی آرا
شیخ کی بعض فقہی آرا گرد وپیش کے زمانے سے ان کی دوری کی دلیل ہیں، ان کے کئی قریبی شاگردوں کے واسطے مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ حرمتِ اختلاط کی بنیاد پر کسی طالبِ علم یا طالبہ کے جامعات اور یونی ورسٹی جانے کو حرام قرار دیتے تھے، گویا اس طرح وہ یونی ورسٹیوں کومسلمان طلبہ سے خالی کرنا چاہتے تھے۔ نیز وہ مسلمان طلبہ کے ذہنوں میں اسلام کے عمومی اصول راسخ کرنے اور اس کا منہج واضح کرنے کی بجائے بعض ایسی چیزوں کے داعی تھے، جن کے ترک سے دورِ حاضر میں کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا، مثلاً:داڑھی چھوڑنا اور پتلون ترک کرنا، وغیرہ۔ (حاشیہ ملاحظہ فرمائیں)
چنانچہ جس طرح وہ اسلام کے اقتصادی نظام سے ناواقف تھے، اسی طرح اسلام کے اجتماعی ومعاشرتی نظام سے بھی نابلدتھے، بلکہ ان کے ہاں اس عظیم دین کا کوئی جامع نظریہ ہی نہیں ملتا، کیونکہ اس موضوع کو نہ تو انہوں نے پڑھا اور نہ ہی اس طرف توجہ کی ہے۔ 
شیخ ناصرvکی ’’سلفیت‘‘ نصوصِ شرعیہ کے گہرے فہم کی بنیاد پر ہے، نہ امت پر طاری تقلید جامد کو توڑنے کے لیے، بلکہ یہ’’ نصوص کی حرف بحرف اتباع‘‘ ہے، جس سے (آج کے دور میں) داؤد ظاہریv اور ابن حزمv کی یادیں تازہ ہوگئیں ہیں، ایک ایسی اتباع جس میں دیگر تاویلی وجوہ کاکوئی اعتراف ہی نہیں،اس معنی کے اعتبار سے گویا ’’سلفیت‘‘ فقہی مذاہب کی وسعتوں کو مزید تنگی وتشدد پر مبنی جمود کی خاطر ترک کرنے کا نام ہے‘‘۔ 
مخالفین کے ساتھ شدت آمیز رویہ
ان تمام باتوں کے باوجود میں انہیں ایک مخلص انسان سمجھتا ہوں، جس نے حصولِ جاہ ومنزلت کی بجائے محض رضائے خداوندی کی خاطر علم حاصل کیا، لیکن میں انہیں(ہر نوع کی غلطیوں سے) پاک نہیں سمجھتا،ان کے اخلاص کے پورے اعتراف کے باوجود ان کا اپنے مخالفین کے ساتھ سخت رویہ ‘جو اہل علم میں ہمیں نہیں دکھائی دیتا، میرے نزدیک قابلِ نقد ہے، آپ کاکسی مسئلے میں ان سے اختلاف کرناہی ان کے نزدیک (زبان کے نشتر لگانے کے لیے)کافی ہے، پھر وہ آپ کو ایسے اوصاف سے نوازیں گے جن سے وہ ہمیشہ اپنے مخالفین کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں، مثلاً جمہور فقہا کی رائے اختیار کرنے والے کو یوں یاد کرتے ہیں:’’ہذا جمہوری‘‘(یہ جمہور کا پیروکار ہے)گویا یہ کوئی عیب ہے، اسی طرح ’’ہذا لایفقہ ‘‘(اس کو سمجھ بوجھ ہی نہیں) ،’’ ہذا لیس بفنہ‘‘ (یہ اس فن کا آدمی ہی نہیں)، ’’ہذا لیس عندہ تحقیق‘‘ (اس شخص کے ہاں تحقیق کا کوئی گزر نہیں) او را ن کے علاوہ ایسے اوصاف کہ جن کو ایک عالم کجا، عام آدمی بھی زبان پر نہیں لاسکتا۔

(حاشیہ) زیرِبحث مسائل کے متعلق اتنی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اسلام غیر محرم مرد وعورت کے اختلاط کو ناپسند کرتا ہے اور اس پہلو سے اسلامی احکام کا فلسفہ بالکل واضح ہے ،لہٰذا دورِحاضر میں عصری تعلیمی اداروں کا مخلوط تعلیمی نظام ،اسلامی مزاج سے قطعاًموافقت نہیں رکھتا،یہ نظام بے شمار شرعی، اخلاقی معاشرتی خرابیوں کا باعث ہے، آئے دن کے احوال واقعات سے اس بات کی تصدیق ہوتی رہتی ہے، اسی بنا پر اہل علم کی اکثریت نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اور اس کی اصلاح کی تدابیر بھی تفصیلاً تحریری صورت میں آچکی ہیں، جن کی رعایت کی صورت میں ہی مشروط جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے، البتہ اس نظام کی حوصلہ افزائی نہ کرنے کے باوجوداس کوقطعی حرام بھی نہیں کہاجاسکتا، نیزلباس کے متعلق اسلام نے جو اصولی رہنمائی کی ہے،اس کی عملی تطبیق امت میں متوارث چلی آرہی ہے،جس میں ا قوامِ غیر کے ساتھ تشبّہ سے اجتناب ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے کارفرماہے ۔رہاداڑھی کا مسئلہ تو اس کے متعلّق نرم موقف رکھنے والے علماکے ساتھ ایک عرصے سے مباحث جاری ہیں اور جمہور اہلِ علم وجوب ہی کے قائل ہیں ،بہر کیف ان مسائل میں شیخ ارنؤوط کی تعبیرو تشریح سے کلّی اتّفاق نہیں کیا جا سکتا۔
شیخ کی یہی شدت ان کے پیروؤں میں بھی سرایت کرگئی ہے، ان کی آرا کی بنا پرآئے دن مساجد میں ہونے والے جھگڑوں کا ہرایک تذکرہ کرتا ہے کہ ان کی وجہ سے کیسے باہمی عداوتوں تک نوبت جا پہنچتی ہے!!
ہماری معلومات کے مطابق ائمہ متقدمین بھی اپنی آرا کا اظہار کرتے تھے،لیکن دیگراہلِ علم کی آرا کا احترام بھی کرتے تھے، وہ اپنے مخالفین کے خلاف جارحانہ کلمات زبان پرنہیں لاتے تھے، ان ائمہ کا یہ جملہ سب کو یاد ہوگا، جو ان سے منقول اور مشہور ہے کہ: ’’رأیی صواب یحتمل الخطأ، ورأی غیری خطأ یحتمل الصواب‘‘۔(میری رائے درست لیکن غلطی کا احتمال ہے اور دیگر آرا غلط لیکن درستگی کا امکان رکھتی ہیں) نیز امام اسحاق بن راہویہv کے متعلق امام احمد بن حنبلv کا یہ جملہ بھی ہمیں یاد ہے کہ : ’’ما عبر جسر بغداد أحد أعلم من إسحاق بن راہویہ ، غیر أننا نخالفہ فی أشیاء‘‘۔(اسحاق بن راہویہv سے بڑا عالم اس شہرِ بغداد کے پل سے نہیں گزرا، لیکن کچھ مسائل میں ہمارا ان سے اختلاف ہے)۔
شاید شیخ البانیv کایہ تشدد ائمہ کبار کے بیان کردہ اس قاعدہ سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ’’لاینکر المختلف فیہ‘‘ (سلف کے درمیان مختلف فیہ مسئلے پر انکار نہیں کیا جائے گا) یعنی اختلافی مسائل میں کسی مجتہد پر نکیر نہیں کی جائے گی، لیکن شیخ کا رویہ اس قاعدے کے برخلاف ہے، وہ اختلافی مسائل پر بھی نکیر کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے ۔ إنہ خیر مسؤل، والحمد للّٰہ رب العالمین۔
مآخذومراجع
۱:.....ملاحظہ فرمائیں:
۱۔الألبانی شذوذہ وأخطاۂ لمولانا حبیب الرحمن الأعظمی، مکتبۃ دارالعروبۃ کویت ، ۱۴۰۴۔۱۹۸۴ء۔
۲۔تناقضات الألبانی الواضحات فیما وقع لہ فی تصحیح الأحادیث و تضعیفہا من أخطاء وغلطات للشیخ حسن السقّاف،دارالإمام النووی عمان الأردن ، ۱۴۱۳ھ۔۱۹۹۲ء۔
۳۔خطبۃ الحاجۃ لیست سنّۃ فی مستہلّ الکتب والمؤلفات للشیخ عبدالفتّاح أبوغدّۃ رحمہ اللّٰہ، دارالبشائر الإسلامیۃ بیروت،۱۴۲۹ھ،۲۰۰۸ء۔
۴۔التعریف بأوہام من قسّم السنن إلی صحیح وضعیف للشیخ محمود سعید ممدوح، دارالبحوث للدراسات الإسلامیّۃوإحیاء التراث دبئی ،۱۴۲۱ھ۔۲۰۰۰ء ۔
۵۔تنبیہ المسلم إلی تعدی الألبانی علی صحیح مسلم للشیخ محمود سعید الموقر۔
۶۔ إباحۃ التحلّی بالذھب المحلق للنساء والردّ علی الألبانی فی تحریمہ للشیخ اسماعیل الأنصاری۔رحمہ اللّٰہ۔
۷۔ تصحیح حدیث صلاۃ التراویح عشرین رکعۃ ، والرد علی الألبانی فی تضعیفہ ، للشیخ اسماعیل الأنصاری۔ رحمہ اللّٰہ ۔
۲:.....مشکٰوۃ المصابیح بتحقیق الشیخ الألبانی،کتاب الإیمان،باب الإیمان بالقدر،ج:۱،ص:۳۹، رقم الحدیث:۱۱۲، المکتب الإسلامی ، ۱۳۹۹ھ۔۱۹۷۹ء۔
۳:.....صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ،۲/۱۲۰۰،رقم الحدیث:۷۱۴۲، المکتب الإسلامی ۱۴۰۸ھ۔ ۱۹۸۸ء۔
۴:.....التکویر:۸۔
۵:.....سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ،۴/۴۴۷۔۴۴۸،رقم الحدیث:۱۸۳۳، مکتبۃ المعارف ریاض ، ۱۴۱۵ھ۔ ۱۹۹۵ء۔
۶:.....صحیح مسلم،کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار،باب ابتداء الخلق وخلق آدم علیہ السلام،۷/۴۴۹، رقم الحدیث:۷۰۴۹،مکتبۃ البشری کراتشی۔
۷:.....التاریخ الکبیر،۱/۴۱۳۔۴۱۴،دائرۃ المعارف العثمانیۃ حیدرآباد دکن ۱۳۶۱ھ۔
۸:.....سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ،۲/۶۴۸۔۶۴۹،رقم الحدیث:۹۵۹۔
۹:.....مسندأحمد بتحقیق الشیخ شعیب الارنؤوط،رقم الحدیث:۱۹۶۷۸،مؤسّسۃ الرّسالۃ بیروت۔
۱۰:.....التاریخ الکبیر،۱/۳۸۔۳۹۔
۱۱:.....یہی بات ان کے متعلق ایک اور معاصر عالم معروف محقق و محدّث شیخ عبدالفتّاح ابوغدّہ رحمہ اللہ (متوفی ۱۴۲۰ھ)نے بھی لکھی ہے: ’’وإنما أدی إلی ھذا الشذوذ اعوجاجُ فھمہ لبعض النصوص لضعف معرفتہ بأصول الفقہ، بل أصول الروایۃ والدرایۃ أیضا‘‘. (خطبۃ الحاجۃ لیست سنّۃ فی مستہلّ الکتب والمؤلفات ،ص:۵۲)۔(بعض نصوص میں کج فہمی نے ان (شیخ البانی رحمہ اللہ) کو اس شذوذ تک پہنچادیا ہے، اور اس کی وجہ اصول فقہ، بلکہ اصولِ روایت ودرایت سے واقفیت کی کمی ہے)
۱۲:.....مسندأحمد،رقم الحدیث:۱۸۸۷۰۔
۱۳:.....سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ،۷/۵۵۲،رقم الحدیث:۳۱۸۱۔ ۱۴:.....التوبۃ:۳۱۔
۱۵:.....سنن الترمذی بتحقیق الدکتور بشارعواد معروف،أبواب تفسیر القرآن،باب:’’ومن سورۃ التوبۃ‘‘ ۵/۱۷۳،رقم الحدیث:۳۰۹۵،دار الغرب الإسلامی بیروت ، ۱۹۹۸ء۔
۱۶:.....صحیح الترمذی،۳/۵۶،رقم الحدیث:۲۴۷۱، المکتب الإسلامی ۱۴۰۸ھ۔۱۹۸۸ء۔
۱۷:.....سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ،۷/۸۶۶،رقم الحدیث:۳۲۹۳۔
۱۸:.....روح المعانی، تفسیر قولہ تعالی:’’اتخذوا أحبارہم‘‘(التوبۃ:۱۳)۵/ ۲۷۶،دارالکتب العلمیّۃ بیروت ۱۴۲۶ھ۔ ۲۰۰۵ء۔
۱۹:.....سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ،۱/۵۷،رقم الحدیث:۴۰،و ۲/۶،رقم الحدیث:۵۱۰،المکتب الإسلامی ۱۴۰۵ھ ۔ ۱۹۸۵ء۔
۲۰:.....المحلی،کتاب الزکوۃ،باب أحکام التجارۃ،۵/۲۳۳۔ ۲۴۰، دارالتراث القاھرۃ۔
۲۱:.....الدررالبھیّۃ،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الذھب والفضّۃ،ص:۲۲، مکتبۃ الصحابۃ طنطا مصر ۱۴۰۸ھ ۔ ۱۹۸۷ء ۔ و السموط الذھبیّۃ الحاویۃ للدرر البھیّۃ للشوکانی، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الذھب والفضۃ، ۱۰۷، مؤسّسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴۱۰ھ۔۱۹۹۰ء۔
۲۲:.....الروضۃ الندیّۃ شرح الدررالبھیّۃ،کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الذھب والفضۃ،۱/۲۸۶،المکتبۃ العصریّۃ بیروت ۱۴۱۸ھ۔۱۹۹۷ء۔
۲۳:.....نیل الأوطارشرح منتقی الأخبار من أحادیث سیّد الأخیار،کتاب الزکوۃ،باب الزروع والثمار،۴/۱۶۱، مکتبۃ مصطفی البابی مصر۔
۲۴:.....المحلّی،باب أحکام لبس الحریر والذھب،۱۰/۸۴۔
۲۵:.....سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ،۱/۵۹۶، رقم الحدیث:۳۳۷۔
۲۶:.....سنن الترمذی، أبواب البیوع، باب ماجاء فی التسعیر،۲/۵۷۲، رقم الحدیث:۱۳۱۴۔
۲۷:.....تکملۃ المجموع شرح المہذب،کتاب البیوع،باب النجش،۱۲/۱۰۹۔۱۲۱،دارإحیاء التراث العربی ۱۹۹۵ء۔
۲۸:.....النحل:۴۴۔ ۲۹:.....مسندأحمد،رقم الحدیث:۲۷۲۹۳۔
۳۰:.....مسندأحمد،رقم الحدیث:۱۶۲۸۶۔ ۳۱:.....آل عمران:۱۱۰۔
مضمون نگار : 
مولانا محمد یاسر عبداللہ

No comments:

Post a Comment