Friday 18 September 2015

مسائل کا حل


حلال جانوروں کی قربانی کا حکم ان جانوروں کے پیدا کرنے والے کا حکم
قانونی پابندی سے پیدا شدہ متفرق مسائل
بڑے جانور کے ذبیحہ پر قانونی پابندی کے نتیجے میں چند اہم سوالات پیدا ہوگئے ہیں جن کا جواب جاننا ہر کشمیری مسلمان کی ضرورت ہے۔ اس لئے ان سوالات میں سے چند سوال یہ ہیں جواب کا انتظار ہے:۔
سوال نمبر ۱:۔اسلام کی نظر میں جانور کی حیثیت اور قدر و درجہ کیا ہے؟از
سوال نمبر ۲:۔قانونی پابندی کو ختم کرنے کے لئے کشمیر کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے؟
سوال نمبر ۳:۔اگر یہ قانون برقرار رہا تو کیا یہاں کے مسلمانوں کو بڑے جانور کی قربانی ترک کرنی چاہئے؟
سوال نمبر ۴:۔جن مسلمانوں نے بڑے جانور قربانی کے لئے طے کررکھے ہیں ان کے لئے کیا حکم ہے کیا وہ اسی جانور کو قربان کریں یا اس کو تبدیل کریں؟
سوال نمبر ۵:۔اگر بڑے جانور کی قربانی کی جارہی ہو تو قانون کی وجہ مسلمان پولیس افسران وملازمین کو جبراً ان کو روکنے کا حق ہے یا نہیں اور ایسی صورت میں محکمہ پولیس کے مسلمان اہلکاروں کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے؟۔
سوال نمبر۶:۔اس قانون کو اگر جوں کا توں رکھنے پر اصرار کیا گیا تو جموں وکشمیر کے مسلمانوں پر اس صورت میں کیا حکم ہے جو اسلام نے ان پر فرض کیا ہے؟
سوال نمبر ۷:۔کشمیرکے بہت سے گھروں میں جب مادہ جانور گابھن ہوتی ہے تو یہ نیت کرتے ہیں کہ اگر زندہ صحیح سلامتی سے بچہ پیدا ہوا تو اسکو قربان کریں گے۔ اسکا حکم کیا ہے؟
سوال نمبر ۸:۔کوئی بڑا جانور نرہویا مادہ اس کے قربان کرنے کی عمر کیا ہے اور یہ کتنے افراد کی طرف سے قربان ہوگا؟
سوال نمبر ۹:۔کشمیر میں چھوٹے جانوروںکے ساتھ بڑے جانور کا گوشت بھی کھایاجاتا ہے۔ بلکہ یہ پورے عالم کی تمام قوموں میں رائج ہے ۔اب اس قانون کی وجہ سے کیا یہاں کے لوگوں کو یہ گوشت کھانا ترک کردینا چاہئے؟۔
سوال نمبر۰ ۱:۔مذہبی رواداری کا تقاضا اور مذہبی آزادی کا تقاضا آپسمیں متضاد ہو ،خصوصاً زیر نظر معاملے میں تو مسلمان کو کیا کرنا چاہئے ۔
حاجی خورشید احمد راتھر ، نوشہرہ سرینگر
جواب
تمام سوالات کے جوابات ترتیب کے ساتھ درج ہیں۔
جواب نمبر ۱:۔جانور اللہ کی قدرت و حکمت کے عجیب نشان ہیں۔ جیسے اللہ کی ہر مخلوق قدرت کا مظہر ہے، چاہے وہ جمادات ہوںنباتات ہوں یا حیوانات، یہ سب خالق کائنات کی رحمت حکمت صناعی کا مظہر اور اُس کی قدرتوں کا واضح ثبوت ہیں اسی طرح جانور بھی ہیں۔پھر جو پالتو جانور ہیں وہ اللہ کی قدرت کی نشانی بھی اور انسانوں کو راحت پہونچانے کا اللہ کا احسان بھی ہیں۔ قرآن کریم میں بہت ساری آیات ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جانور انسانوں کے لئے اللہ کا انعام واحسان ہیں۔ ارشاد ہے۔
”یہ جانور تمہارے لئے پیدا کئے گئے۔ ان میں تمہارے لئے طرح طرح کے فائدے ہیں“( سورہ نحل) دوسری جگہ ارشاد ہے۔”کیا تم دیکھتے نہیں ہم نے اپنے ہاتھوں (قدرت) سے تمہارے لئے یہ جانور پیدا کئے، پھر تم ان کے مالک بن جاتے ہو“۔ (سورہ یٰس )۔ دودھ دینے والے جانوروں کے متعلق ایک مقام پر ارشاد ہے۔ ”بلاشبہ ان جانوروں میں تمہارے لئے عبرت و نصیحت ہے کہ ہم تم کو ان کے پیٹ سے صاف وشفاف دودھ پلاتے ہیں جس میں نہ خون کی ملاوٹ ہوتی ہے نہ گوبر کا اثر“۔(سورہ نحل)۔ ایک جگہ ارشاد ہے جانوروں میں تمہارے لئے بڑے فائدہ ہیں ان کو تم کھاتے ہو۔ غرض جانور ہمارے لئے اللہ کا احسان ہے ۔ بعض جانوروں سے دودھ، اُون ، کھاد، اور ان کے جسمانی اجزاءسے دوائیاں حاصل ہوتی ہیں اور بعض جانوروں کا گوشت انسانوں کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ جیسے بعض جانوروں کا دودھ انسانوںکے لئے اللہ کا تحفہ ہے ایسے ہی بعض کا گوشت بھی نعمت ہے۔
ان جانوروں میں نہ کوئی مقدس ہے نہ متبرک ہے اور نہ کسی میں کوئی پر اسرار عظمت ہے۔ سب اللہ کی مخلوق ہیں سب انسانوں کے لئے پیدا کئے گئے۔ اور جس مقصد کے لئے پیدا کئے وہ مقصد وہ جانورپورا کرتے ہیں۔ سواری کا جانور اپنا کام کرتا ہے۔ دودھ کا جانور دودھ دیتا ہے اور گوشت مہیا کرنے والا گوشت سے فائدہ پہونچاتا ہے۔ اسی لئے جب سے انسان کائنات میں ہے وہ گوشت خور ہے اورا نسانی تاریخ میں کوئی دور کوئی معاشرہ اور کوئی عہد اس سے خالی نہیں۔
ان جانور کے انسانوں کے ذمہ حقوق بھی ہیں۔ چنانچہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان بے زبان جانوروں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہنا یعنی ان کے دانے پانی کی فکر کرنا۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے۔ غذاءپانی کا محتاج ہر جانور جب اُسے کھلایا پلایا جائے تو وہ صدقہ ہے۔
مگر اس سب کے بعد کوئی جانور نہ خدا ہے نہ خدائی مظہر، وہ صرف نفع بخش ہے اور اللہ کی مخلوق ہے۔
جواب نمبر ۲:۔محکمہ پولیس کو جبر کرنے سے پہلے یہ جاننا لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کو اُن کے مذہبی حکم کو پورا کرنے میں رکاوٹ ڈال کر اللہ کی نظر میں کتنے بڑے مجرم بن جائیں گے۔ اللہ سے بڑی نہ کوئی عدالت ہے نہ کوئی حکومت، نہ کوئی افسر اور نہ کوئی اور ادارہ یا کوئی جج ہے۔ محکمہ پولیس کے تمام چھوٹے بڑے افسران و ملازمین کو چاہئے کہ وہ اجتماعی طور پر اس حکم کو نافذکرنے سے معذرت کریں ، اگر پھر بھی جبراً نفاذ قانون کے دباﺅ میں آئے تو اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کریں تاکہ یہ غیر انسانی غیر اخلاقی اور ظلم وجبر والا قانون ختم ہو۔
جواب نمبر ۳:۔یہ قانون ڈوگرہ دور کا ہے وہ ظالمانہ دور کہ جس میں انسان کے قتل کرنے پر سولہ (16) روپے جرمانہ اور بڑے جانور کے ذبح کرنے پر سزائے موت دی جاتی تھی۔ بعد میں دس سال قید کا قانون بنایا گیا۔ آج کے جمہوری اور حقوق انسانی کے حفاظت اور مذہبی آزادی کے دور میں اس فرسودہ اور انسانیت سوز قانون کو ختم کرانے کی مسلسل کوشش مسلمانوںکا فریضہ ہے۔ خصوصاً حکمران طبقے، محکمہ پولیس اور عدلیہ سے وابستہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ حلال کو حرام بنانے اور ظلم کے اس جبری قانون کو ہر حال میں ختم کرائیں۔ ورنہ اسمبلی، عدلیہ اور انتظامیہ تینوں شعبوں سے سارے مسلمان باہر آجائےں ۔
جواب نمبر۷:۔ اس طرح نیت اگر صرف ارادہ ہے تو اس پر عمل کرنے کا اختیار ہے۔اگر یہ نذر بن گئی تو پھر اس کو پورا کرنا لازم ہے۔
جواب نمبر ۸ :۔بڑا جانور دو سال کا، چھوٹا جانور ایک سال ہو تو قربانی درست ہے بڑے جانور میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں اور چھوٹے جانور کی صرف ایک شخص کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔
جواب نمبر ۹:۔جو گوشت اللہ نے حلال کیا ہے وہ حلال ہے۔ ایسے جانور کو ذبح کرنا، فروخت کرنا، گوشت بیچنا اور گوشت کھانا درست ہے۔جیسے مچھلی کھانا،بیچنا اور اس کی تجارت کرنا ہے ایسے حلال جانوروں کا معاملہ ہے ۔
جواب نمبر۱:۔جانور سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں اور سب انسانوں کے لئے فائدہ مند ہیں اور کس جانور سے کیا کیا فائدہ اٹھانا ہے اس کا فیصلہ جانوروں کے خالق نے خود بیان کردیا ہے جیسے مچھلی ہے کہ وہ صرف انسانوں کے کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کی ہے ایسے ہی خشکی کے بہت جانور اللہ نے انسانوں کے کھانے کے لئے پیدا کئے، جیسے گھاس پتے جانوروں کے لئے ہےںاور جانور انسانوں کے لئے پیدا کئے۔ جن جانوروں کا دودھ حلال ہے۔ اُن کا دودھ پیّاجائے جن کا گوشت حلال ہے اُن کا گوشت کھایا جائے۔ چنانچہ جنگلی جانوروں میں ہرن، گاﺅخر، پہاڑی بکرا۔ پانی کے جانوروں میں سے مچھلی اور گھریلو جانوروں میں سے اونٹ، بکرا، بھیڑ، گائے، بیل ،بھینس اللہ نے حلال کئے ہیں ۔ اور سب ذبح کرکے کھائے جائیں گے تاکہ اُن کے خون سے مضر اثرات جسم میں نہ پہونچیں ۔ مچھلی بغیر ذبح کے حلال ہے۔ اس لئے اس میں خون نہیں ہے جب ان کے پیدا کرنے والے نے ان کو حلال کردیا تو یہ سب حلال ہیں
جواب نمبر۲:۔حلال جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی ختم کرانے کے لئے اسمبلی کے تمام ممبران کو باقاعدہ قانون سازی کرکے ڈوگرہ دور کے ظالمانہ شخصی وجبری قانون کو ختم کرنا اس کا واحد حل ہے۔ اور جب تک اسمبلی کے ممبران یہ کام نہ کریں تمام مسلمانوں کے لئے اپنا مطالبہ تسلسل سے جاری رکھنا لازم ہے۔ کیونکہ قانون جب تک باقی ہے ظلم و جبر کا خطرہ ہمیشہ رہے گا۔
جواب نمبر۳:۔حلال جانور چھوٹا ہو یا بڑا اُس کی قربانی کا حکم ان جانوروں کے پیدا کرنے والے کا حکم ہے۔ اسی لئے قربانی تسلسل سے جاری رکھنا مسلمانوں کا دینی فریضہ اور مذہبی حق ہے ، یہ فریضہ روکنے کاکسی کو اختیار نہیں ہے۔ اسلامی مملکت کے خلیفہ کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی حلال کو حرام قرار دے تو کسی غیر اسلامی حکومت یا عدلیہ کو بھی اس کا اختیار نہیں ہے۔
جواب نمبر۴۔ جن مسلمانوں نے بڑے جانورقربانی کے لئے مقرر کردئیے ہیں اگر وہ نذر اور منّت کئے ہوئے ہیں تو اُن کو تبدیل کرنے کی شرعاً اجازت نہیں۔ وہی جانور قربان کرنا لازم ہے کیونکہ نذر پورا کرنا ضروری ہے۔
جوا ب نمبر۵۔ حلال جانور چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا اُس کی قربانی روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے یا جیسے گائے ، بھینس اور بکری کا دودھ حلال ہے اور کوئی اُس کو قانوناً روک نہیں سکتا۔ ایسے جن جانوروں کا گوشت اللہ نے حلال کیا ہے اُس کو کسی انسانی قانون سے کسی کو روکنا شخصی آزادی کے بھی خلاف ہے۔ اور مذہبی آزادی کےے بھی ہے۔
جواب نمبر ۰۱:۔اسلام مسلمانوں کو مذہبی رواداری کا حکم دیتا ہے۔ یعنی مسلمان مملکت میں جو غیر مسلم آباد ہوں اُن کو اپنے مذہب پر چلنے کا حق ہے اور کسی بھی مسلمان حکمران یا افسر یا عام مسلمان کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی غیر مسلم کو اپنے مذہب پر چلنے سے روکے حتی کہ مسلمان ملک میں کوئی غیر مسلم شراب اور خزیر کھائے تو مسلمانوں کو اُن کا دین یہ حکم نہیں دیتا کہ ان کو شراب پینے سے روک دیں۔ چنانچہ ہندوستان میں آٹھ سو سال مسلمانوں کی حکومت میں کہیں کسی غیر مسلم کو اپنی مذہبی زندگی گذارنے میں کہیں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ یہی مذہبی رواداری ہے اس کے برخلاف جب مسلمان اپنے مذہب پر عمل کرے تو دوسروں کی طرف سے روکنا مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم یہ کہے کہ مسلمان غیر مسلموں کی رواداری میں جانور ذبح کرنا بند کردیں۔ تو یہ رواداری کا مطالبہ نہیں بلکہ مذہب پر چلنے پر قدغن لگانے کا مطالبہ ہے۔
اگر یہ پابندی اسی طرح رواداری کے نام پر قبو ل ہونے لگے تو کل کو اذان پر، نمازوں کی جماعت، جمعہ اور عیدین پر بھی پابندی لگانے کا قدم اٹھانے سے کیا دریغ ہوگا۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ بھی کہے کہ قرآن میں بُت پرستی، شرک اور کفر کی سخت مذمت ہے اس لئے اس کتاب پر بھی پابندی لگانا ضروری ہے۔ چنانچہ اس طرح کے مطالبہ کئی مرتبہ پائے گئے ہیں اس لئے مذہبی رواداری کی حدود الگ ہیں۔ اور اپنے مذہب پر چلنے کا حق اور اختیار الگ ہے۔
مسلمان جہاں بھی رہے اُسے اپنے دین کے احکام پورا کرنے کا حکم ہے اور وہ اس کی خلاف ورزی کرنے کا جرم نہیں کرسکتا۔ اور کسی دوسرے کو بھی اس کا حق واختیارنہیں کہ وہ اُسے روکے یا دین پر چلنے کی راہ بند کردے، دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اسلام اُن کے اپنے رسوم پر چلنے سے نہیں روکتا حالانکہ وہ شر کیہ رسوم ہوتی ہیں تو دوسروں کو بھی حق نہیں کہ وہ مسلمان کو اس دنیا کے بنانے والے مالک کا حکم پورا کرنے سے روکے۔
اسلام مسلمان کو حکم دیتا ہے جو غلط راستوں پر چل رہے جنہوں نے مخلوق کو خالق کا درجہ دے رکھا ہے اور جو ہر چیز کے سامنے جھکتے ہیں، اُن کو صرف اللہ خالق کائنات کے سامنے جھکنے والا بنانے کی دعوت دو۔ مگر جب تک وہ اس دعوت کو دل سے قبول نہ کرے اُس وقت تک اُس پر کوئی جبروظلم نہ کرو، یہ اسلام رواداری ہے.....
مبشـــر حسیــن رحیـمی
مفتی نذیر احمد قاسمی

No comments:

Post a Comment