Saturday 26 September 2015

یہود کے ساتھ ہمارا معرکہ

یہود وہی یہود ہیں!
یہودی مکر و فریب کے وہی تانے بانے جن سے اِس امت کے اسلاف کو واسطہ پیش آیا تھا، آج اُسی شدت کے ساتھ اِس امت کو درپیش ہیں ۔ عین وہی حربے جو اِس امت کی تاسیس کے وقت اِس کے خلاف آزمائے گئے تھے آج بھی پوری طرح میدان میں ہیں۔ فرق صرف یہ آیا ہے کہ آج یہ امت اُن قرآنی اسباق سے فائدہ نہیں لے رہی جو یہود کے حربوں کو بے اثر کر دینے اور ان کی حقیقت کو آشکار کر دینے کیلئے اِس امت کے اسلاف کو پڑھائے گئے تھے۔ وہ نظر جو اِس کو قرآن سے دستیاب ہوتی تھی اور جس سے مدد لے کر یہ اپنے دشمن کی نہایت خوب پہچان کرتی تھی، اور جس کی بدولت یہ دشمن کے حربوں کو نصف النہار کی مانند دیکھتی تھی، آج اِس کے ہاں ناپید پائی جا رہی ہے۔
چیزیں آج اِس امت کو ویسی نظر نہیں آ رہیں جیسی قرآن کی روشنی میں نظر آیا کرتی تھیں۔ قرآن نے اِس دشمن کا چہرہ اِس امت کو عین ابتدا کے اندر یوں دکھایا تھا:
أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُواْ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ۔وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلاَ بَعْضُهُمْ إِلَىَ بَعْضٍ قَالُواْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ۔أَوَلاَ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ۔ (البقرۃ: 75 - 77)
”مسلمانو! کیا تمہیں امید ہے کہ یہ (یہودی) تمہارا یقین کر لیں گے، حالانکہ ان کے ایک فریق کا یہ حال یہ رہا ہے کہ اللہ کے کلام کو (اپنے کانوں سے) سنتے اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کر دیتے۔ (محمد رسول اللہ ﷺ پر) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی انہیں مانتے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیہ کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے وقوف ہو گئے ہو؟ ان لوگوں کو وہ باتیں بتانے لگے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تا کہ تمہارے رب کے پاس تمہارے خلاف تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں؟ اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے؟“
یہود کی حقیقت سے نقاب کشائی کرنے والے اِن قرآنی اسباق سے آج یہ امت اُس طرح فائدہ نہیں لے رہی جس طرح اِس کے اسلاف نے لیا تھا اور اِن قرآنی اسباق کی مدد سے یہود کی سب تیزی اور چالاکی کو انہی پر پلٹ کر رکھ دیا تھا۔
مدینہ کے اندر یہ مٹھی بھر جماعت ابھی پیر گاڑ رہی تھی، اور عرب میں ظاہر ہونے والا یہ نیا دین ابھی اپنی بنیادیں اٹھا رہا تھا کہ یہود نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اِس کا پتہ صاف کر دینا چاہا کہ قبل اِس کے کہ یہ دین چہار وانگ پھیلے، عین ابتداءمیں ہی اس کا کام تمام کر دیا جائے۔ مگر اِدھر اللہ کے فضل سے قرآنی نظر تھی جس کی بدولت اسلام کی یہ جماعت اپنا ایک ایک قدم خدائی ہدایت کی روشنی میں اٹھا رہی تھی۔ نتیجہ یہ رہا کہ یہود کی ہر سازش خود انہی کیلئے وبالِ جان ثابت ہوئی، اُن کی ساری ذہانت کاٹھ کباڑ نکلی، اور اِس مٹھی بھر جماعت کی بصیرت کے ہاتھوں ”فری میسن“ کے اُن سب پڑدادوں لکڑدادوں کو وہ منہ کی کھانا پڑی کہ صرف مدینہ اور خیبر سے نہیں جزیرۂ عرب سے ان کا پتہ صاف ہو گیا!
یہود جو اِس راز سے خوب واقف ہیں، اور ہمارے خلاف فریب کاری اور منصوبہ سازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، اب کی بار یہ ٹھان کر آئے کہ وہ اِس دین اور اِس قرآن کو ہی ہمارے ہاتھ میں نہ رہنے دیں گے.. وہی دین اور وہی قرآن جس کے دم سے ہمارے اسلاف نے ایک مٹھی بھر جماعت ہوتے ہوئے ان کو ہزیمت سے دوچار کیا اور اُن کے منصوبوں کو خاک میں ملایا تھا۔ اُن کا سارا زور اِس بات پر رہا کہ وہ ہمارے اصل ہتھیار سے ہمیں محروم کر دیں جو کہ ہمارا قرآن ہے اور ہمارا عقیدہ ہے، اور جس کے آگے دنیا کے سب شیاطین بے بس ہو جاتے ہیں اور اُن کے سب تانے بانے بیت العنکبوت ثابت ہوتے ہیں۔سب سے بڑھ کر کسی بات سے یہود کی جان جاتی ہے تو وہ یہی کہ اِس امت کے ہاتھ میں پھر سے وہی ہتھیار اور وہی اوزار دیکھے جا رہے ہوں جن سے کام لے کر ہمارے اسلاف نے ان کا وہ پرانا طلسم کدہ توڑا تھا اور دنیا میں ان کی ساہوکاری کا خاتمہ کر کے رکھ دیا تھا۔ یہودی اپنا آپ اور اپنا مستقبل محفوظ ومامون صرف اُس صورت میں دیکھیں گے جب اُنہیں ہمارے بچوں کے ہاتھ قرآن سے خالی نظر آئیں۔جتنی دیر یہ امت اپنے اصل شفاف منبع سے دور رہے اور طاقت کے اپنے اصل سرچشمہ سے محروم رہے، یہود بھلے چنگے ہیں۔ ان کا مستقبل تب تلک محفوظ و مامون ہے۔ اُن کو جان کے لالے تب پڑیں گے جب وہ اِس امت کے نونہالوں کے ہاتھوں میں قرآن پکڑے ہوئے دیکھیں اور جب اِس قرآنی عقیدہ کی بنیاد پر اِس کے ہاں صفیں بنتی ہوئی نظر آئیں۔ اِس صورت حال کو وجود میں آنے سے روکنے کیلئے آج یہاں ہزار ہا انتظامات ہیں۔ جو کوئی بھی آج اِس امت کو اس کے اصل عقیدے اور اِس کے قرآن سے دور کر دینے کیلئے سرگرم عمل ہے، وہ درحقیقت زمانۂ حاضر کے ایک نہایت گھناؤنے منصوبے کا حصہ ہے، خواہ وہ اِس بات کا ادراک رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ خواہ وہ جان بوجھ کر اور باقاعدہ پروگرام کے تحت یہ کام کر رہا ہو یا محض اپنی کسی ’روٹین‘ کو انجام دینے کی غرض سے۔ دانستہ یا نادانستہ، وہ زمانۂ حاضر کے اُس عظیم ترین منصوبے کی تکمیل کا ذریعہ ہے جس کو کامیاب کروانا یہود کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ وہ منصوبہ جس کے اندر یہود اپنی عالمی ایمپائر ہی نہیں خود اپنی بقاءہی کو مضمر دیکھتے ہیں، یعنی امت اسلام کو اس کی قوت کے اصل منبع و سرچشمہ سے دور رکھنا، جو کہ اس کا قرآن ہے، اس کا ایمانی عقیدہ ہے، اور ایمانی منہج ہے، اور ایمانی شریعت ہے۔ ہر دو فریق کا راستہ ہے تو یہیں سے نکلتا ہے۔ ہر دو راستے کے خدوخال ہیں تو وہ یہیں سے پھوٹتے ہیں۔
مدینہ میں یہود
مدینہ میں یہود ایک بڑی شان کے مالک تھے۔ یہ وہاں کی معیشت پر چھائے ہوئے تھے اور پورے علاقہ کو اپنے سود کے اندر جکڑ رکھا تھا۔ اسلام یہاں پہنچا تو یہود کی دشمنی ابھی عیاں ہو کر نہیں آئی تھی۔ مدینہ کے باشندے جو نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے، ان کے اندر یہ شعور پختہ ہونے کو ابھی کچھ دیر چاہیے تھی کہ ان کا یہ عقیدہ ہی جو ان کو قرآن سے ملا ہے ان کی اجتماعیت کی واحد بنیاد ہے۔ یہ عقیدہ ہی اب ان کا وطن ہے اور یہی ان کا نسب اور یہی وہ بنیاد ہے جو ان کے جملہ تعلقات میں تصرف کرے اور دوستی اور دشمنی کے سب رشتے اب اِسی کے اندر سے پھوٹیں۔ اور یہ کہ اِس عقیدہ سے متعارض سب ناطے اور سب رشتے کالعدم ٹھہریں۔ مدینہ کے باشندے اِس نئے عقیدے سے ابھی یہ اسباق پڑھ ہی رہے تھے اور اِن اسباق کو ان کے اندر گہرا جانے کیلئے کچھ وقت درکار تھا۔ یہاں سے یہود کو ایک سنہری موقعہ ہاتھ آیا کہ یہ جزیرۂ عرب کے اِس نوخیز مسلم وجود کو پٹری سے سرکا دینے کیلئے اپنی سب صلاحیتیں آزمائیں۔ اِس کو شکوک وشبہات میں مبتلا کر دینے کے حربے اختیار کریں ، اِس کے اندر دراڑیں ڈال دینے اور اس کو فتنوں اور مصائب سے دوچار کردینے میں اپنا پورا زور صرف کریں۔اُن کی اِس طالع آزمائی میں مددگار بننے کیلئے، اِس نوخیز مسلم جماعت کی صفوں میں یقینا ایسے لوگ شامل تھے جو یہود کی سنتے تھے اور ان کی باتوں کا گہرا اثر لیتے تھے۔ اِس نوخیز مسلم جماعت کی صفوں میں یقینا ایسے لوگ پائے گئے تھے جو یہودی مفادات کا تحفظ اورمسلمانوں کے مابین اُن کا پورا پورا دفاع کرتے۔ یہاں تک کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ ان کی فریب کاری و بدعہدی پر ان کو کوئی سزا دینا چاہتے اور اُن کی مزید دسیسہ کاریوں کا راستہ بند کرنے کیلئے کسی کارروائی کا عزم فرماتے، یہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ آپ کے آڑے آتے، جیسا کہ ہم کتب سیرت میں دیکھتے ہیں، رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی یہودی قبیلہ بنو قینقاع کیلئے وکالت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے روبرو بدتمیزی کی آخری حد کو چلا گیا تھا۔
حج کے دوران ایرانیوں کا جو نعرہ بکثرت لگتا رہا ہے:
براءۃٌ من المشرکین
اتنے جذبات میں آ آ کر نعرے: براءۃٌ من المشرکین۔ براءۃٌ من المشرکین
بھلا اس کی تفسیر کیا ہے؟
کیا ہندوؤں سے براءت ہو رہی ہے؟ امریکہ سے؟ آخر کس سے؟
نہیں، وہی جن سے ان کی ’براءت‘ تاریخ میں معلوم ہے!
’براءت‘ اصل میں ’تبّرا‘ ہے؛ جوکہ علم والوں کو بخوبی معلوم ہے۔
۔۔۔
اتنی سادگی جو ہمارے بعض دینی طبقے اس قوم کی بابت دکھاتے چلے آ رہے ہیں، ہمارے وارے کی نہ تھی۔
قوم کی راہ نمائی اس کو نہیں کہتے!
[25/09 11:06 pm] s a sagar: ديكهيں کس طرح ايراني شيعہ حجاج مشاعر حج ميں مخالف ٹریک میں جاتے ہوے ، لبيك ياحسين كے نعرے لگاتے ہوے حج انتظامات كي مخالفت كر رہے ہیں.
عینی شاھدین کے مطابق منى حادثے کا سبب یہ بنا کہ ایک بڑے ايراني گروپ نے ون وے ٹریک کی مخالفت کی جس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی. منی میں گرمی کی شدت 50 سینٹی گریڈ سے اوپر ریکارڈ کی گئی ہے جس کے باعث حکومت نے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر یہ اعلان کر رکھا تھا کہ حجاج کرام جمرات کو کنکریاں مارنے کے لیے عصر کے بعد کا وقت منتخب کریں. حجاج کرام کی تھوڑی سی غفلت نے ارنے بڑے سانحے کو جنم دے دیا.
دیکھا جا رہا ہے کہ اس واقعہ کو لے کر سوشل میڈیا پر دشمنان مملکت سعودی عرب نے طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے، ان کی گز گز لمبی زبانیں بلاد حرمین شرمین کے خلاف زہر اگل رہی ہیں جس کی ہمیں حوصلہ شکنی کرنی چاہیے.
اللہ تعالی دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملائے اور انہیں ہدایت نصیب کرے اور اگر ان کے مقدر میں ہدایت نہیں لکھی ہوئی تو اللہ تعالی انہیں نیست ونابود کر دے.
حج کے دوران پیش آنے والے 
سانحات تاریخ کے آئینے میں
حج 2015 کے دوران دو بڑے سانحات میں بڑے پیمانے پر حجاج شہید ہوئے۔ گیارہ ستمبر کو مکہ میں تعمیراتی کام کے لیے منگوائی گئی کرین گر گئی تھی جس سے 107 حجاج نے جام شہادت نوش کیا۔
بعد ازاں عید الاضحی کے روز 24 ستمبر کو جمرات کی رمی کے دوران بھگدڑ مچ گئی تھی جس سے 717 حجاج شہید اور 863 سے زائد زخمی ہوئے۔
رواں برس پیش آنے والے سانحات سے قبل بھی حج کے دوران مختلف سانحات میں حجاج شہید ہوتے رہے ہیں، جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
رمی جمرات میں حادثات
رواں برس 2015 میں رمی جمرات کے دوران بھگدڑ کے باعث 300 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔
سال 2006 میں (12 جنوری کو) حج کے آخری روز منیٰ کے مقام پر بھگدڑ سے 346 حاجی جاں بحق اور 1000 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
2004 میں (یکم فروری کو) منی ہی میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ مچ گئی تھی جس سے 251 حجاج جاں بحق اور 244 زخمی ہوئے۔
2003 میں (11 فروری ) بھی جمرات کی رمی کے دوران بھگدڑ میں 14 حاجی جاں بحق ہوئے جبکہ 2001 میں 35 حجاج بھگدڑ مچنے سے جاں بحق ہوئے تھے۔
2001 میں (5 مارچ کو) رمی کے دوران 5 افراد جان سے گئے تھے۔
1998 میں (9 اپریل کو) جمرات کے پل پر رمی کے دوران بھگدڑ مچ گئی تھی اور 118 حاجی کچل کر جان سے گئے تھے جبکہ 180 زخمی ہوئے تھے.
1994 میں (23 مئی کو) شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران منیٰ میں بھگدڑ سے 270 حجاج جاں بحق ہوئے تھے۔
1990 میں سے بدترین واقعہ پیش آیا تھا جب جمرات کی رمی کے دوران پل پر 1426 حجاج بحق ہوئے تھے، جاں بحق ہونے والے اکثر حجاج کا تعلق انڈونیشیا ، ملائیشیاء اور پاکستان سے تھا.
آتشزدگی کے واقعات
2011 میں (یکم نومبر کو) حاجیوں کی ایک بس میں آگ لگ گئی تھی جس میں سے اکثر حجاج کو باحفاظت اتار لیا گیا تھا البتہ بس کی آخری نشستوں پر موجود شوہر اور بیوی ابھی بس سے اتر ہی رہے تھے کہ بس کے فیول ٹینک میں دھماکا ہونے سے وہ جاں بحق ہو گئے۔
1997 میں منٰی کے میدان میں حاجیوں کے خیموں میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس سے 347 حجاج جاں بحق اور 1500 زخمی ہوئے۔
1975 میں حاجیوں کے خیمے میں ایک گیس سیلنڈر پھٹ گیا تھا جس سے آتش زدگی کے باعث 200 افراد جاں بحق ہوئے تھے.
احتجاج، بد امنی سے ہلاکتیں
1984 میں (9 جولائی کو) مکہ میں 2 دھماکے ہوئے تھے جن میں ایک حاجی جاں بحق اور 16 زخمی ہوئے تھے بعد ازاں سعودی حکام نے ان دھماکوں کے الزام میں 16 کویتی باشندوں کے سر قلم کیے تھے۔
1987 میں (31 جولائی) ایران کے عازمین نے سعودی عرب میں احتجاجی مارچ نکالا تھا جس میں فورسز سے تصادم میں 402 افراد مارے گئے جن میں 275 ایرانی مظاہرین اور 85 سعودی پولیس اہلکار شامل جبکہ 42 دیگر ممالک کے عازمین جاں بحق ہوئے۔
فضائی (جہازوں کے) حادثات
1991 میں (11 جولائی کو) سعودی عرب سے نائیجیریا جانے والی حج پرواز جدہ کے کنگ عبد العزیز ائر پورٹ سے اڑنے کے کچھ دیر بعد ہی کریش ہو گئی تھی جس سے عملے کے 14 افراد سمیت 247 افراد مارے گئے تھے۔
1979 میں (26 نومبر کو) پاکستان انٹر نیشنل ائر لائن (پی آئی اے) کی پرواز جدہ ائر پورٹ سے اڑنے کے چند لمحوں بعد گر گئی جس سے 156 حجاج جاں بحق ہوئے۔
1978 میں آئی لینڈ ائر لائن کی پرواز حٓدثے کا شکار ہوئی، یہ پرواز سعودی عرب سے واپسی پر سری لنکا کے قریب حادثے سے دوچار ہوئی جس سے 170 افراد مارے گئے جن میں اکثر انڈونیشیا کے حجاج تھے۔
1974 میں (4 دسمبر کو) نیدر لینڈ کی مارٹائنائر کا جہاز سری لنکا میں کولمبو کے قریب کریش ہوا، جس سے 182 حجاج جاں بحق ہوئے جبکہ جہاز کے عملے کے 9 افراد بھی مارے گئے۔
1973 میں (22 جنوری کو) اردن کا طیارہ نائجیریا میں کانو کے قریب گرا، جس سے حج سے واپس آنے والے 176 افراد جاں بحق ہوئے۔
تعمیراتی کے دوران حادثات
2015 میں 11 ستمبر کو مکہ کی توسیع کے کام کرنے والی سب سے بڑئ کرین تیز ہوا کے باعث مسجد الحرام کی چھت اور احاطے میں گر گئی جس سے 107 حجاج جاں بحق ہوئے۔
2006 میں 5 جنوری کو مکہ میں مسجد الحرام کا الغزہ ہوٹل زمین بوس ہوا، جس سے ہوٹل میں ٹہرے ہوئے 76 حجاج جاں بحق ہوئے جبکہ 64 زخمی ہوئے۔
[25/09 11:18 pm] s a sagar: دوران حج حادثات و واقعات
باوجود اس کے کہ ہمیں سعودی عرب کے اکثر سیاسی فیصلوں سے شدید ترین اختلاف ھے سعودیوں کی بعض معاملات میں بدترین پا لیسی نے امت کی روح تک کچل ڈالی ھے ، لیکن اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ وہ حج کے امور کو بہترین انداز میں نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر ممکن وسائل اس خدمت پہ لگادیتے ہیں اور وہ ہمیشہ انتہائی سنجیدگی سے نیا جذبہ لیکر میدان عمل میں اترتے ہیں ، بعض احباب کا خیال ھے کہ یہ معاملہ انہوں نے اپنے ہاتھ میں کمائی کے واسطے رکھا ھے تو یہ رائے بھِی تعصب پر مبنی ھے ۔۔ہاں یہ ضرور ھے کہ اس باعث انہیں عالم اسلام کی نمائندگی کا ایک اضافی سبب مل گیا ھے جسے وہ گاھے بگاھے اپنے حق میں خوب استعمال بھی کرتے ہیں ، بلاشبہ سعودیوں سمیت اکثر عرب اپنے عقائد میں بہترین لوگ ہیں دو ٹوک واضح اور کمی بیشی سے پرے ، یہ بھی حقیقت ھے کہ انتظامی طور پہ صرف ترکی ہی اس معاملے میں اس معیار کی برابری کرسکتا ھے یا بہتر بنا سکتا ھے جسے اب تک سعودیوں نے قائم کیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔ دوران حج ایسے حادثات پہ سب سے زیادہ دیسی لبرلز مذھبی فرقہ پرستوں اور ملحدین کو خوشی ہوتی ھے ۔ہر ایک اپنے اپنے انداز سے دلوں کا بغض وحسد نکال رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسمیں تو کوئی شک نہیں کہ جلد ہی سعودی حکام غفلت کے مرتکب افراد کو جالیں گے لیکن اس سنگین غلطی پر جو بھِی کاروائی ہو اسے منظر عام پہ لانا بھی انہی کی ذمہ واری ھے تاکہ معاملہ شفاف رھے
دوسری بات یہ ھے کہ سعودیوں کو قلب وسیع کرتے ہوئے حج کے انتظامی امور میں ترکی ، ملائیشاء جیسے ممالک کے ماہرین کو سرکاری سطح پہ شامل کرنا چاھئیے تاکہ معاملات مزید بہتر ہوں اور دیگر ممالک کی شمولیت سے مسلمانوں کو اچھا پیغام بھی جائے ، کیونکہ اس عبادت سے دنیا بھر کو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے آگاہی ملتی ھے اور اس طرح کے حادثات سے اسلام دشمن عناصر فائدہ اٹھاکر پروپیگنڈہ کرتے ہیں ۔۔۔
سید قطبؒ
استفادہ: حامد کمال الدین

http://www.eeqaz.com/main/articles/11/20110107a_same_old_Jews.htm

No comments:

Post a Comment