Friday, 18 September 2015

صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم اور قرآنِ كريم

          حضراتِ صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین ايسي مقدس شخصيات هيں،جنہوں  نے حضرت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین پر نہ صرف ایمان لایا؛ بلکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے دیکھا،رسول اللہ ﷺکی زندگی کے تما م پہلوں کاعملی طور سے مشاہدہ کیا،آپ ﷺسے سب سے پهلے دین کوسیکھااور پھیلايا۔
          یہی وہ مبارک اور پاک باز جماعت ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺکی رفاقت اور مصاحبت کے ليے چنا اور منتخب فرمایا؛ چناں چہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم  دین کی بنیاد اور معیا رِ ایمان ہیں؛ بلکہ حضور اقدس ﷺکی مبارک اور پاکیزہ زندگی کو سمجھنے، اور اس پر عمل کرنے کے ليے اگر کسی کی زندگی معیار ہے تو وہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک ومقدس جماعت ہے ۔
          یہی وہ جماعت ہے  جس نے برا ہ راست مشکوٰۃِ  نبوّت سے استفادہ کیا؛ چناں چہ جو فیض انھوں نے پایا اور ایمان کی جو کیفّیت وحلاوت  ان کو حاصل ہوئی، وہ بعد والوں كو میسر نه آئي،اسی وجہ سے اللہ ربّ العزت نے قرآن پاک میں اگر کسی نبی کے ساتھیوں کی سب کے سب کی تعریف بیان کی ہے تو وہ جناب رسول اللہ ﷺکے صحابۂ کرامؓکی جماعت  ہے، اللہ ربّ العزت نے  صحابۂ کرامؓ کي پوری جماعت كو رضامندي كي سند عنايت فرمادی ۔
عدالتِ صحابہؓ
          قرنِ اوّل سے آج تک  امّتِ مسلمہ اہلِ السنه والجماعہ کا یہ اتفاقی و اجماعی عقیدہ رہا ہے کہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تمام  کے تمام عادل ومعتبرہیں،اور ان کا اجماع امت ِمسلمہ کے لیے حجت ہے۔
          صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ  اور مبارک جماعت عادات ِکریمہ، خصائلِ حمیدہ، شمائلِ فاضلہ، اخلاقِ عظیمہ، اور شریعت کے تمام مسائل و دلائل،حقائق و آداب کے بارے میں علماً اور عملاً رسول اللہ ﷺکے کمالاتِ نبوت کی آئینہ دار اور مظہرِ اتم ہے،انہی پاک باز نفوس کی اتباع امت ِمسلمہ کو ضلالت وگمراہی سے بچاسکتی ہے۔
          مفکّرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:
          ’’" یہ ان مردانِ خداکی تاریخ ہے کہ جب ان کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انہوں نےاس کو دل وجان سے قبول کیا اور اس کے تقاضوں کےسامنےسرِتسلیم خم کردیا ’’رَبَّنَاإِنَّنَاسَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوابِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا‘‘(سورۃ آل عمران، آیۃ : ۱۹۳) اور اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺکے ہاتھ میں دے دیا ؛چنانچہ  ان کے ليے اللہ کے راستے کی مشقتیں معمولی اور جان ومال کی قربانی آسان ہوگئی؛حتیٰ کہ  اس پر ان کا یقین اور پختہ ہوگیا اور بالآخر دل ودماغ پر چھاگیا، غیب پر ایمان، اللہ اور اس کے رسول ﷺکی محبت، اہل ایما ن پر شفقت،کفار پرشدت نیز آخرت کو دنیا پر، ادہار کو نقد پر،غیب کو شہود پر اور ہدایت کو جہالت پر ترجیح اورہدایتِ عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب وغریب واقعات رونما ہونے لگے ۔
          اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لانے،مذاہب کے ظُلم وجَورسے اسلام کی عدل گُستری میں پہنچانے،دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے  اور دنیوی مال ومتاع اور زیب وزینت سے بے پرواہ ہوجانے ،اللہ سے ملنے اور جنت میں داخل ہونے کے شوق کے محّیر العقول واقعات سامنے آنے لگے،انہوں نے اسلام  کی نعمت کو ٹھکانے لگانے،اس کی برکتوں کو اقصائے عالم میں عام کرنے اور چپّے چپّے کی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی ودقیقہ رسی کے باعث، اپنے گھربار کو چھوڑا،راحت وآرام کو خیر باد کہا اور اپنی جان ومال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا؛حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہوگئیں،  دل اللہ کی طرف مائل ہو گئے او رایمان کے ایسے مبارک، جاں فزااور طاقت ور جھونکے چلے جس سے توحید وایمان اور عبادات وتقویٰ کی سلطنت قائم ہوگئی،جنت کابازار گرم ہوگیا،دنیا میں ہدایت عام ہوگئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے "‘‘۔
عظمتِ صحابہؓ اور قرآن
          یہاں بطورنمونہ  کے چند آیا ت اور ان کا ترجمہ ذکر کرتے ہیں؛ تاکہ ایک عام مسلمان قاری اس کااندازہ لگاسکے کہ حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم  کو کیا فضل وکمال حاصل تھا ۔
          (۱)’’مُحَمَّدٌرَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِالسُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرعٍ أَخْرَجَ شَطْاَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًاعَظِيمًا"۔(سورۃ الفتح، آیۃ: ۲۹)
          ترجمہ : محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، اور جولوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں،(اور)آپس میں ایک دوسرے کے ليے رحم دل ہیں،تم انھيں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں،اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں،اُن کی علامتیں سجدے کے اثر سے اُ ن کے چہروں پر نمایاں ہیں،یہ ہیں اُن کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں،اور انجیل میں اُن کی مثا ل یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہوجس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی،پھر اپنے تنے پر ا س طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشت كار اس سے خوش ہوتے ہیں؛تاکہ اللہ تعالیٰ ان (کی ترقی )سے کافروں کے دل جلائے،  یہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں،اللہ نے ان سے مغفرت اور زبردست ثواب کا وعدہ کیا ہے۔(آسان ترجمہ ٔ قرآن، ۳/ ۱۵۷۵)
          (۲)’’إِنَّ الَّذِين َآمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّه ِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُم ْأَوْلِيَاءُ بَعْضٍ"۔(سورۃ الانفال ،آیۃ : ۷۲)
          ترجمہ : جولوگ ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے ہجرت کی ہے،اور اپنے مالوں  اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے،وہ اور جنہوں  نے ان کو (مدینہ میں )آبادکیا ، اور ان کی مدد کی،یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (وارث) ہیں۔(آسان ترجمۂ قرآن،۱/۵۵۰)
(۳)’’وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَاتَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّه ِعَلَيْكُمْ إِذْكُنْتُم ْأَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُم ْفَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه ِإِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِه ِلَعَلَّكُم ْتَهْتَدُونَ‘‘(سورۃ آل عمران ،آیۃ: ۱۰۳)
          ترجمہ : اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھو،اور آپس  میں پھوٹ نہ ڈالو،اور اللہ نے جو تم پر انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھاجب تم ایک دوسرے کے دشمن  تھے،پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے اور تم لوگ آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی،اسی طرح اللہ تمہارے ليے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتاہے؛تاکہ تم راہِ راست پر آجاؤ۔(آسان ترجمہ ٔ قرآن ،۱/ ۲۱۲)
          (۴)’’هُوَ لَّذِي أَيَّدَكَم بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِين َوَأَلَّفَ بَيْن َقُلُوبِهِمْ لَوْأَنْفَقْتُمْ مافِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَاأَلَّفْت َبَيْن َقُلُوبِهِم ْوَلَكِنّ َاللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ‘‘
(سورۃ الانفال ،آیۃ: ۶۳)
          ترجمہ : وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے اور مؤمنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط كيے،اور اُ ن کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کردی ،اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کرلیتے تو ان کےدلوں میں یہ الفت پیدا نہ کرسکتے؛لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑدیا، وہ یقیناً اقتدار کامالک ہے،حکمت کابھی مالک۔(آسان ترجمۂ قرآن ،۱/ ۵۴۶)
مذکورہ بالا آیات کا خلاصہ
          قرآن کریم میں اس مضمون کی اور بھی بہت ساری آیا ت موجود ہیں؛لیکن جو آیات ہم نے ذکر کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ  اہل ایمان میں اُخوّت وبرادری کاتعلق ہوتا ہے،ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے تھامے رکھنی چاہيے؛کیونکہ اللہ نے ہی  دیرینہ دشمنیوں کو محبت و الفت میں بدل دیا اور اب ایمان والوں کو ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنادیا،یہی وہ ایمان والےہیں جن کے ذریعے  سے اللہ نے اپنے نبی ﷺکی تائید اور مدد ونصرت فرمائی،ان کے دلوں میں الفت  وشفقت ڈال دی ،پھر بتلایا کہ اہل ایمان کی وہ اولین جماعت جومہاجرین اورانصارہیں، مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں،مہاجرین کو ٹھکانہ  فراہم کرنے والے اور ان کی نصرت وامداد کرنے والے ہیں،ایک دوسرے کے دوست اورامین، معاون ومددگار ہیں،حضور اکرم ﷺکی معیت میں رہنے والے مقدس اور پاک باز لوگوں کی جماعت ہے، کفار کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان، نرم دل اور شیروشکر ہیں ۔
          عبادت خدا وندی میں مصروف رہتے ہیں،اپنے رب  کی رضا کو چاہنے والے ہیں،ان کی بزرگی اور نیکی کے آثار وانوار ان کے مبارک چہروں سے ظاہر وتاباں ہیں، صحابۂ کرامؓ کی یہ صفات صرف قرآن کریم ہی میں نہیں؛ بلکہ اس سے پہلے کی کتابوں،تورات،انجیل ، میں بھی مذکور چلی آرہی ہیں۔
          صحابۂ کرامؓ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے تدریجاً ارتقاء عطا فرمایا ، اسی طرح تدریجاً دینِ اسلام اور اہلِ ایمان کا غلبہ اورارتقاء ہوگا،ان کی ترقی اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ليے باعث خوشی ہے اورکفار کے ليے باعث عداوت ہے،اللہ نے ان صحابہؓ سے مغفرت اور اجرعظیم کاوعدہ فرمایاہے۔
          اللہ رب العزت نے یہ بھی بتلایا کہ  صحابہؓ کی جماعت کو معتدل جماعت بنایا ہے، یہ لوگوں پر گواہ ہوں گے اور رسول اللہ ﷺ ان پر گواہ ہوں گے،یہ صحابہؓ وہ لوگ ہیں جو اُس نبی کی اتباع وپیر وی کرتے ہیں جس کی صفات تورات وانجیل میں مذکور ہوئی ہیں،صحابہ رضی اللہ عنہم جنہوں نے آپﷺپر ایمان لایا،  آپ کی رفاقت اختیارکی، مددونصرت کی اور آپ پر اترے ہوئے قرآن کریم کی اتباع کی،وہی لوگ(صحابۂ کرام )اپنی مراد کو پہنچنے والے اور فلاح پانے والے ہیں۔
          اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی  نبی ﷺ پر ان کے ساتھی مہاجرین  وانصار  پر جو ان کے ساتھ مشکل  وقت میں ساتھ رہے،وہ ایمان والے جنہوں  نے درخت کے نیچے  اللہ کے نبی کے ہاتھ پر بیعت کی اللہ ان سے راضی ہوا، ان پر سکینہ نازل فرمایا،اور صحابہؓ میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے،  ان کی مددکرنے والے انصار، ان کے پیروکار،ان سب سے اللہ راضی ہوااور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،اللہ نے ان کے ليے جنت تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،یہی بڑی کامیابی ہے اور یہی صحابہؓ کامیابی کو پانے والے ہیں۔
          اللہ نے قرآن پاک کو نازل فرمایا،اس سے خوف خدا رکھنے والے صحابۂ کرامؓ کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں،ان کی کھال اور دل اللہ کے ذکر سے نرم ہوجاتے ہیں،اللہ کی آیات پر ایمان لانے والے صحابہؓ جب ان آیات کو سنتے ہیں تو سجدے میں گر پڑتے ہیں، اور اس پاک ذات کو یاد کرتے ہیں،ان کے پہلو اپنے خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں،یہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتےہیں اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں،لہٰذا ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے ليے جو کچھ اللہ نے چھپا رکھاہے وہ کسی نفس کو معلوم نہیں،اور جوکچھ اللہ کے ہاں ہےوہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا بھی۔
          اور یہ ان لوگوں کے ليے ہے جو اپنے رب پر توکل کرتےہیں، بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں، غصہ  آجائے تومعاف کرتے ہیں،اپنے رب کے حکم کو انہوں نے مان لیاہے اور نماز کو قائم کیاہے،ان کے معاملات باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں،ان اہل ایمان صحابہؓ میں سے کتنے ہی وہ مرد ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ كيے ہوئے وعدے کوسچ کر دکھا یا  او ر اپنی ذمہ داری پوری کردی اور کتنے ہی ایسے ہیں جو انتظار میں ہیں،اور ان میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی،اللہ تعاليٰ سچوں کوبدلہ دے گا اور منافقین کو چاہےتو عذاب دےاور چاہےتو معاف فرمادے،اللہ تعالیٰ بخشنےوالے اور مہربان ہیں،کیاوہ جو رات کی گھڑیوں میں بندگی میں لگاہو ا ہے سجدے کرتاہے، قیام کرتا ہے، آخرت سےڈرتاہے، اپنے رب کي رحمت کی امید رکھتاہے، تو کیا سمجھ رکھنے والےاور ناسمجھ برابر ہوتے ہیں،ہرگز نہیں ۔
          ایمان اور دیگر ایمانی صفات، نماز، روزہ، حج،زکوٰۃ، جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تقویٰ، پرہیزگاری، انفاق فی سبیل اللہ،اور اخلاص نیت وغیرہ پر حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ کاربند اور عمل پیرا رہے اور باہمی الفت ومحبت،شفقت ورحمت کی صفت پر بھی ان کاعمل دائمی رہا ؛کیونکہ اللہ نے ان پر پرہیزگاری کی بات کولازم کر ردیاتھا  اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ كا فرمان
          انھيں اوصافِ کریمہ اور خصالِ حمیدہ کی وجہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے:
          ’’من كان  مُستنًّا فليَستنَّ بِمَن ْقد مَاتَ ؛ فإنَّ الحَيَّ لاتُؤمَنُ عليها الفتنة، أولئك أصحابُ محمَّدٍ صَلَّى الله عليه وسلمَ كانوا أفضلَ هذه الأمَّة، أبرَّهَا قلوبًا وأعمقَها علمًا وأقلَّها تكلّفًا، اختارهُمُ اللهُ لصحبةِ نبيهٖ ولإقامةِ دينهٖ فاعرِفُوا لهم فضْلَهمْ و اتبعوهم على آثارهِم وتمَسَّكوا بمااستطعتُم من أخْلاقِهم و ِسيَرِهِم فإنَّهم كانواعلى الهدى المستقيمِ‘‘(جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر،رقم : ۱۸۱۰، ۲/۱۳۴)
(مشکاۃ المصابیح، باب : الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، رقم: ۱۹۳، ۱/۱۱۱)
          ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جسے دین کی راہ اختیا ر کرنی ہے تو اُن کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزرچکے ہیں اور وہ حضرت محمدﷺکے صحابہ ہیں،جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے، اُن كے قلوب پاک تھے، ان كا علم گہر اتھا، ان ميں تکلف اور تصنع  نه تھا،اللہ جلّ شانہ نے انھيں اپنے نبی ﷺکی صحبت اور دین کی اشاعت کے ليے چنا تھا؛اس ليے ان کی فضیلت اور بر گذیدگی کو پہچانو،ا ن کے نقشِ قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو؛اس ليے کہ وہی ہدایت کے راستے پر تھے۔
           حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے دلوں پر پہلی دفعہ نگاہ ڈالی تو ان میں سے محمدﷺکو پسند فرمایااور انھيں اپنارسول بناکر بھیجااور ان کو اپنا خاص علم عطافرمایا،پھر دوبارہ لوگوں کے دلوں پر نگاہ ڈالی اور آپ کے ليے صحابۂ کرام کو چنا اور ان کو اپنے دین کامددگا ر اور اپنے نبیﷺکی ذمہ داری کا اٹھانے والابنایا،لہٰذا جس چیز کو مؤمن (یعنی صحابۂ کرام )اچھاسمجھیں گے وہ چیز اللہ کے يہاں بھی اچھی ہوگی اور جس چیزکو بُر اسمجھیں گے، وہ چیزاللہ کے يہاں بھی بُری ہوگی (حلیۃ الاولیاء ، رقم الترجمہ :۸۴،  الطفاوی الدوسی، ۱/ ۳۷۶)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد
          حضرت ابو اِراکہ  فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے اور داہنی طرف رخ کرکےبیٹھ گئے تو ایسا لگ رہاتھا کہ آپ بے چین اور غمگین ہیں،حتیٰ کہ جب سورج مسجد کی دیوار سے ایک نیزہ بلند ہوا تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی،پھر اپنے ہاتھ کو پلٹ کر فرمایاکہ اللہ کی قسم میں نے حضرت محمدﷺکے صحابہ کو دیکھاہے آج ان جیسا کوئی نظر نہیں آتا ہے، صبح کےوقت ان کی یہ حالت  ہوتی تھی کہ رنگ زرد اوربال بکھرے ہوئے اور جسم غبار آلود ہوتاتھا،ان کی پیشانی پر (سجدہ کا)اتنا بڑا نشان نمایا ہوتاتھاجتنا بڑانشان بکری کےگھٹنے پر ہوتا ہے،ساری رات اللہ کے سامنے سجدہ کرتے اور کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے گزار دیتےتھے اور سجدہ اور قیام ہی  میں راحت حاصل کرتے تھے،جب صبح ہوجاتی اور وہ اللہ کاذکر کرتے تو ایسے جھومتے جیسے کہ تیز ہوا کے دن (یاباد صباکے وقت)درخت جھومتا ہےاور اس طرح روتے کہ کپڑے گیلے ہوجاتے، خدا کی قسم (ان کے رونے سے یوں نظر آتا تھا کہ )گویا انہوں نے رات غفلت میں گزاردی ہو،پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اس کے بعد کبھی  آہستہ ہنستے ہوئے بھی نظر نہ آئے،  یہاں تک کہ اللہ کےدشمن ابن ملجم فاسق نے آپ کو شہید کردیا۔ (حلیۃ الاولیاء، رقم الترجمہ : ۴، علی ابن  ابی طالب،۱/ ۷۶)
صحابہؓ كي صفات
          قرآن وحدیث  میں مذکور  ان تمام صفات میں بے شک تما م کے تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہیں، خواہ مہاجرین ہوں یا انصار،مکه کے رہنے والے ہوں یا مدینہ کے، قریشی ہوں یا کسی اور قبیلے کے،عربی ہوں یا عجمی ، وہ تمام کے تما م باہمی خیرخواہی، ہمدردی،غم خواری اور خوش خلقی میں بے نظیر و بے مثال تھے،زمانہ ان کی مثال لانے سے عاجز ہے، پھر ان سب میں خصوصاً خلفائے اربعہ حضور اقدس ﷺکے بعد تمام  امت میں بہترین اور افضل ترین لوگ ہیں،یہ لوگ آپس میں شیروشکر تھے،ایک دوسرے کے معاون ومددگا ر تھے،ان میں کسی طرح کا اختلاف وانتشار نہ تھا،یہی وجہ  ہے کہ ان میں باہمی رشتے بھی ہوئے،حضرات شیخین حضرت ابو بکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ عنہما کے بابرکت دور میں امت مسلمہ متفق ومتحد تھی، اس مبارک دور میں امت میں دُور  دُور تک کہیں بھی کسی طرح کے نظریا تی اختلاف کا وجود نہ تھا،پوری امت یک جان ودل  کفر کے مقابلے میں  سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مقابلہ کے ليے سینہ سپر تھی ۔
نظریاتی اختلافات کی ابتدا
          سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا ابتدائی زمانہ ٔخلافت بھی اختلافات سے محفوظ تھا؛البتہ ان کے خلافت کے آخری زمانہ میں" ابن سبا" نامی ایک یہودی  الاصل شخص نے" آلِ رسول ﷺ" کے خوشنما نعرے کی آڑ  میں امت میں اختلاف و افتراق اور انتشار کا بیچ بویا ،اسی نقطۂ نظر پر ایک  مستقل اور اسلام کے متوازی مذہب کی بنیاد رکھی گئی،ابتدامیں بہت سادہ اور عام الفاظ میں یہ کہا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور اکرمﷺکے عزیز وقریب ہیں، لہٰذا وہی جانشینی  وخلافت کے زیادہ حقدارو مستحق ہیں؛حالا نکہ  قرابت اور آلِ رسول کے لبادہ میں لپٹا ہوا یہ نعرہ جتنا سادہ اور خوشنما ہے، اتناہی یہ تعلیماتِ الٰہی اور حضور اقدسﷺکی ۲۳ سالہ مبارک زندگی اور آپ کے لائے ہوئے دین اور اس کے منشا کے بھی خلاف تھا؛ اس ليے کہ اللہ  اور اس کے رسول ﷺنے نسلی امتیاز اور خاندانی  فخر وغرور کےتمام بتوں کو نہ صرف پاش پاش کردیا؛  بلکہ عزت وشرافت، بزرگی وبڑائی، سیادت وقیادت کامدار" تقویٰ" کو قراردیا۔
’’"الأتقیٰ‘‘ "کا مقام
           قرآن کریم کا واضح اور ببانگ دہل یہ اعلان ہے کہ صفت ِتقویٰ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام جماعت صحابۂ کرام میں ممتاز وفائق اور سب کے سرتاج و سرخیل تھے،قرآن نے ’’"الاتقیٰ‘‘"سب سے زیادہ متقی کا تاج انہی کے سر پر سجایا ہے، قرآن کی یہ کوئی من گھڑت اور تراشیدہ تفسیر نہیں؛  بلکہ خود سیدناحضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب کوفہ کی جامع مسجدمیں بر سر ِمنبر سوال کیا گیا کہ آپ لوگوں نے آنحضرت ﷺکے بعد حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کیوں بنایا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نےفرمایا:دین کے کاموں میں سب سے اہم تر نماز ہے، حضور اقدسﷺ نے اپنےمرض الوفات میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو ہمارا"امام نماز "بنایا تھا؛ حالانکہ میں وہاں موجودتھا،حضور ﷺکو میری وہاں موجودگی کاعلم بھی تھا؛مگر اس کام کے ليے آپ نےمجھے یادنہیں فرمایا؛بلکہ حضرت ابوبکر کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں،لہٰذا جس شخص کو حضور اقدس ﷺنے ہمارے دین کی امامت کے ليے منتخب فرمایاہے،ہم نے دنیا کی امامت وقیادت کے ليے بھی اسی کو منتخب کرلیاہے ۔
جھوٹا پروپیگنڈہ
          حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان تعلیمات کے بر عکس ابن سبا ء اور اس کے پیروکاروں نے تب سے آج تک عوام اور جاہل طبقہ میں بڑی شدّ ومد کے  ساتھ یہ پرو پیگنڈہ کیاکہ خلافت صرف حضرت علی کاحق تھا،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے خصوصاً خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے العیاذ باللہ ان کے حق کو غصب کیا،ان کے ساتھ نارواسلوک کیا،خاندانِ نبو ت پر بڑے بڑے مظالم ڈھائے، جوزبان وبیان سے بالاترہیں،اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کےدرمیان اختلاف تھا، وغیرہ وغیرہ، انہوں نے ان مبارک ہستیوں اور پاک بازنفوس کے درمیان کشیدگی اور رنجیدگی کے نہ جانے کتنی داستانیں گھڑلیں ہیں،اور انھيں حق وباطل کامعیار قرار دے کربڑے زور شور سے بیان کرتے پھرتے ہیں؛ حالاں کہ یہ سب محض جھوٹ اورمن گھڑت ہے،اس کاحقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔
صحابہؓ کے آپس میں تعلقات
          خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم خاص طور سے اور باقی تمام صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم اور ان کے خاندان نہ صرف باہم شیر وشکر تھے؛ بلکہ ہر ایک دوسرے  کا غم خوار، غم گسار،ہمدرد، مہربان اور حقوق کو ادا کرنے والاتھا،خو د حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فریقین کی کتابوں میں سيکڑوں احادیث وروایات مروی ہیں،جن سے صحابۂ کرامؓ کی عمومی اور خلفائے ثلاثہ کی خصوصی فضیلت،منزلت و مرتبت اوربزرگی وتقویٰ کااظہار ہوتاہے،یہ بات صرف اہل سنت کي معتبرکتابوں سے ہی ثابت نہیں؛ بلکہ اہل تشیع کی بنیادی اور معتبر کتابوں میں بھی هيں، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جن کو وه كبھي نہیں جھٹلا سکتے۔
جوچیزنص قرآنی اور سنت مشہورہ  کےخلاف ہو وہ مردود ہے
          حضرات صحابۂ کرام اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت ومنقبت،بزرگی وتقویٰ، قرآن وسنت سے ثابت ہے؛البتہ روایات اور تاریخی روایات میں ان حضرات کے درمیان  مشاجرات کا شائبہ نظر آتا ہے، یہ لوگ ان کےدرمیان تنازعات ورنجیدگی کےجو نقشے کھینچتے ہیں، نصوص قرآنیہ اور سنت مشہورہ کے مقابلہ میں ان کی چنداں حیثیت نہیں اور نہ ہی وہ قرآن وسنت کے معارض بن سکتی ہیں؛ اس ليے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کا اس بات پر اتفاق ہے اور یہ فریقین کے يہاں  مسلّم ہے کہ جو روایت بھی نصِ قرآنی اور سنتِ مشہورہ مسلّمہ کے خلاف مروی ہو اور اس کی کوئی تاویل ممکن نہ ہو، یاتطبیق وموافقت کی کوئی صورت نہ بن سکتی ہو، تووہ قابلِ تسلیم نہیں۔
جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد
          ابن صباء کے پیروکار چونکہ جھوٹی روایات گھڑگھڑ کر آلِ بیت کی طرف منسوب کرتے تھے، اسی وجہ سے ائمۂ اہل بیت نے اس بات پر خاص طورسے لوگوں کو متنبہ کیا کہ  جو چیز بھی کتاب اللہ،سنتِ نبوی کے خلاف ہو اس کو ہماری طرف منسوب کرکے مت قبول کرو،چنانچہ شیعوں کی معتبر کتاب"میں حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے:
          ’’فاتَّقُوا اللهَ وَلَا تَقْبِلُوا عَلَيْنَا مَا خَالفَ قولَ ربِّناتعالى وسَّنةَ نبيِّنا مُحمَّدٍ ـ صلَّى اللهُ عليه وسلم ـ‘‘(تذکرہ مغیرہ  بن سعید، ص : ۱۴۶)
          ترجمہ :  اللہ تعالیٰ سے خوف کرو؛ جو چیز کتاب اللہ اور سنت نبوی کے خلاف ہو اس کو ہماری طرف منسوب کرکے مت قبول کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد
          ’’"امالی شیخ صدوق‘‘"میں حضرت جعفر صادق ومحمدباقر رحمہمااللہ کی سند سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
          ’’فَمَا وافَقَ كتَابَ اللهِ فخُذوهُ ومَا خَالفَ كتابَ اللهِ فدَعُوهُ‘‘
(مجلس :الثامن والخمسون ،ص:۲۲۱)
          ترجمہ :وہ بات جوکتاب اللہ کےموافق هو اسے قبول کرو اورجو بات کتاب اللہ کے مخالف ہو اسے چھوڑدو۔
          ’’"احتجاج طبرسی‘‘ "میں حضرت باقررحمۃ اللہ علیہ نےحضور اکرم ﷺسے خطبۂ حجۃ الوداع کے سلسلے میں یہی بات نقل کی ہے :
          ’’فإذَا أتَاكُم الحديثُ فاعْرِضُوه عَلىٰ كتابِ الله عزَّ وجلَّ و سُنَّتي، فمَا وافَقَ كتابَ اللهِ و سنَّتي فخُذُوا به وما خَالفَ كتابَ الله و سنَّتي فلاتأخُذُوا به‘‘.
(احتجاج ابی جعفر محمد بن علی الثانی علیہما السلام فی انواع شتّٰی ص: ۲۲۹)
          ترجمہ :امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایاکہ جب تمہارے پاس کوئی حدیث پہنچے  تو اس کو کتاب اللہ اور میری سنت پر پیش کرو،جو کتاب اللہ اور میري سنت کے موافق ہو اس کو قبول کرو اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے خلاف ہو اس کو قبول مت کرو۔
اہل السنه والجماعہ کا مسلمہ قاعدہ
          اہل السنہ والجماعہ کے نزديك تو یہ ایک مستقل قاعدہ اور مسلّمہ حقیقت ہے کہ نص قرآن اور سنت مشہورہ کے خلاف جو روایت پائی جائے تووہ  مردود ہے وه هرگز قابل التفات نہیں؛ چنانچہ حافظ المشرق علامہ خطیب  بغدادی (المتوفیٰ ۴۶۳ھ)  "الکفایۃفی معرفۃ أصولِ علمِ الروایۃ "میں لکھتے ہیں :
          ’’عن أبي هريرة عن النَّبي صلَّى الله عليه وآله وسلم أنَّه قال: سَيَأْتِيْكُمْ عنِّي أحاديثُ مختلفةٌ فَمَا جَاءَكُمْ موافِقًا لِكتابِ الله وَسُنَّتي فهو مِنِّي وَ مَا جَاءَكُمْ مُخَالفًا لكتابِ الله تَعَالٰى وَسُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنِّي‘‘
          ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺسے نقل کرتےہیں کہ حضورﷺنے فرمایا کہ میری طرف منسوب شدہ مختلف قسم کی روایات عنقریب تمہارے پاس پہنچیں گی،  جو کتا ب اللہ اور میری سنت (مشہورہ )کے مطابق ہوں وہ درست ہوں گی اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے معارض ہوں، وہ صحیح نہ ہوں گی۔ (بابٌ فِیْ وُجُوْبِ إِطْرَاحِ الـمُنْكَرِ وَالمستحيلِ مِنَ الْأَحَادِيْثِ،رقم الحدیث:۱۳۰۹، ۲/ ۵۵۲)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد
          حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابو الطفیل  نے نقل کیاہے:
          ’’حدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُوْنَ وَدَعُوْا مَا يُنكِرُوْنَ أتُحِبُّونَ أنْ يُكذَّبَ اللهُ وَ رَسُوْلُه‘‘
          لوگوں سے مشہور ومعروف چیزیں بیان کرو اور غیر معروف یعنی منکر باتیں عوام میں ذکر مت کرو،کیا تم یہ پسندکرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تکذیب کی جائے ؟۔
علامہ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ کا قول
          علامہ ذہبی  رحمۃ اللہ علیہ "تذکرۃ الحفاظ "میں حضرت علی  رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد گرامی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
          ’’فَقدْ زَجَر الإمامُ عليٌّ ـ رضي الله عنه ـ عَنْ رِوايةِ الـمُنكرِ ، و حَثَّ عَلى التَّحْدِيْثِ بِالْمَشْهُوْرِ، وَهٰذا أصلٌ كبيرٌ في الكفِّ عَنْ بَثِّ الأشْيَاءِ الوَاهِيَةِ و الْمُنكَرَةِ مِنَ الأحاديثِ في الفَضَائلِ و العَقَائدِ و الرِّقائقِ‘‘
(امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ۱/ ۱۳)
          ترجمہ : ہمارے امام ومقتدیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں شاذ ومنکر روایات کے بیان کرنے سے سختی سے منع فرمایاہے اور مشہور ومعروف چیزوں کے بیان  کرنے میں رغبت دلائی ہے اور بے سروپا  روایات کے پھیلانے اور تشہیر کرنے سے روکنے کے ليے یہ شان دار قاعدہ بیان فرمایاہے، یہ روایا ت خواہ عقائد سے تعلق رکھتی ہو ں، یا فضائل اور ترغیبات کے باب سے ہوں، سب کی خاطر یہ قانون قابلِ عظمت ہے ۔
از: مولانا ابوعبيدالرحمن عارف محمود‏،  استاذ جامعه فاروقيہ، كراچی
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/04-Sahaba%20Kiram%20aur%20Quran_MDU_01_January_13.htm

No comments:

Post a Comment