Sunday 13 September 2015

حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ تعالٰی عنہ

غزوہ خندق کے مقام پر مسجد سلمان فارسی
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشت مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشینگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللّہ تعالٰی عنہ کا مجوسی نام مابہ تھا،ان کے والد اصفہان کے ایک گاؤں جی کےرہنےوالےزمیندارتھے-باپ کوبیٹےسےازحدمحبّت تھی-چونکہ آتش پرست تھےاسلئےآتشکدہ کی نگرانی انھیں کےسپرد تھی-حضرت سلمان بچپن سے مذہبی شوق رکھتےتھے،جب تک آگ کےپجاری رہےبڑی سختی سےآگ کوپوجاکئےاورکبھی آگ کو بجھنے نہ دیتےتھے-
             ایک دن باپ کوکسی ضروری کام سےگھرجاناپڑا،اوربیٹےکوکھیتوں کی دیکھ بھال کےلیےبھیج دیا،راستےمیں ایک گِرجاتھاجہاں عیسائی بڑےخشوع خضوع سےعبادت کررہےتھے-سلمان گرجےکےاندرچلےگئےاورلوگوں کوعبادت کرتےدیکھ کربہت متاثرہوئے-ان کی زبان سےنکلاکہ یہ مذہب ہمارےمذہب سےبہترہےکھیتوں کاخیال چھوڑکرعیسائیوں سےچندباتیں دریافت کیں،پھرپوچھاکہ اس مذہب کاسرِچشمہ کہاں ہے؟جواب ملا ملک شام-
              باپ نےخیال کیاکہ کہیں ایسانہ ہوکہ بیٹااپنامذہب تبدیل کردےاسلیے اُن کوبیڑیاں پہناکرگھرمیں مقیّدکردیا-حضرت سلمان کےدل میں تلاشِ حق کی تڑپ بیحدتھی انھوں نےعیسائیوں کو کہلا  بھیجاکہ جب بھی شام سے  کوئی قافلہ آئےتومجھےضرور
اطلاع دینا-     کچھ دن بعدایک کاروانِ تجارت آیااورجب واپس جانے
لگاتوسلمان کواطلاع مل گئی-
وہ بیڑیوں کی قیدسےنکل کر
اس قافلےسےجاملے،اوراس
طرح شام پہنچ گئے-وہاں پہنچ کرلوگوں سےدریافت کیاکہ یہاں مذہب کا سب سےبڑاعالم
کون ہے؟لوگوں نےکہا بشپ!یہ بشپ کےپاس جاپہنچےاورکہا
کہ میں آپ کےپاس اسلیےآیا
ہوں کہ مجھےآپ کامذہب بہت
پسندآیاہےاورچاہتاہوں کہ آپ
کےپاس رہ کرعیسائی مذہب کا
مطالعہ کروں چنانچہ انھوں نے
مجوسیت ترک کرکے عیسائی
مذہب اختیارکرلیا-
     بشپ جوکہ کرداراوراخلاق
کااچھانہ تھافوت ہوگیااسکی جگہ دوسرابشپ مقررکیاگیا
یہ بڑاعابدوزاہدنیک سیرت
انسان تھا-دن رات خداکی عبادت میں مشغول رہتاتھا
سلمان اس سےبڑی محبت کرنے
لگے-جب اس کی موت کاوقت
قریب آیاتوسلمان نےعرض کیا
کہ اب میرےلیےکیاارشادہے-
کس کےپاس ٹھہروں اورتعلیم
حاصل کروں-بشپ نےکہایہاں
توکوئی نیک عیسائی خداکا
بندہ نظرنہیں آتااللّہ والےسب
بیت گئےہیں اورباقی طالبِ
دُنیاہی رہ گئےہیں جنہوں نے
مذہب میں ردّوبدل کرڈالا ہے
اورنفسانی خواہشات کےپیچھے
پڑگئےہیں البتّہ موصل میں ایک
دین کا سچااورمخلص عامل
ضرورہےتم اسکےپاس چلےجاؤ-
     اس نیک بشپ کی وفات کے
بعد حق کی تلاش اورتحصیلِ
علم کےلیےسلمان موصل جا
پہنچےاور اس صالح انسان سے
ملاقات کی-یہ بشپ بڑا نیک،پرہیزگاراورخداپرست تھا
کچھ عرصہ سلمان ان کےپاس ٹھہرےاوربڑافائدہ پایا-خداکی
قدرت اس کا وقتِ ارتحال بھی
قریب آیا-سلمان نے عرض کیا-
اب میری مذہبی ہدایت کہاں ہوگی،اس نیک پادری نےکہاتم
نصبین میں فلاں شخص کے
پاس چلےجاؤ-
       پادری مذکور کی وفات کے
بعدسلمان نصبین کوروانہ ہو
گئےاوروہاں نئےاسقف سےملے-
یہ پہلےپادریوں سےبڑھ کرعالم،زاہداورپرہیزگارتھا-سلمان نےاس سےبڑی تسکین
پائی ابھی تھوڑاہی وقت اس
کی خدمت میں گزراتھاکہ اس نےبھی داعئی اجل کولبّیک کہا
جب اس کےمرنےکاوقت قریب
آیاتوسلمان سےکہاکہ تم عموریہ کےاسقف کےپاس چلے
جاؤوہ بہترآدمی ہے-سلمان اس
اسقف کی وفات کےبعدعموریہ
کوروانہ ہوگئےاوروہاں کے
اسقف سےمل کرساری داستانِ
شوق سُنائی وہ بڑی محبت سے
پیش آیااور انھیں اپنےپاس
ٹھہرالیا-سلمان نےکچھ بکریاں
مول لیں ان کادودھ پیتےاور
اسقف سےروحانی غذاپاتے تھے
خداکی شان اس اسقف کا پیراہن زندگی بھی چاک ہوگیا-
آثارِموت نمایاں ہوئےتوتلاشِ
حق کی خاطرجتنےسفرکئےتھے
سب کی کیفیت سُنائی اور
عرض کیاکہ اب میں کدھر
جاؤں؟
       اس نیک اورپاکبازاسقف نےسلمان کووصیّت کی"بیٹا!بندگانِ خداکاقحط ہے اللّہ سب چل بسے ہیں اب میں تم کوکس کاپتہ دوں ہاں اب اس نبی(صلی اللّہ علیہ وسلّم) کےظہورکاوقت قریب ہےجواس صحرائے عرب سےاُٹھ کردینِ ابراہیم علیہ السلام کوزندہ کرےگاوہ کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کرےگاوہ صدقہ کواپنےلیے حرام جانےگااورہدیہ قبول
کرےگااس کےدونوں شانوں
کےدرمیان مہرِنبوت ہوگی-اب
اگرتم اس سےمل سکوتوضرور
مل لو-“
      اسقف مذکور کی رحلت کے
بعدایسااتفاق ہواکہ بنوکلب کے
تاجروں کاادھرجاناہوا-سلمان
ان سےملےاورکہاکہ اگرآپ مجھ
کوملکِ عرب لےچلیں تومیں اپنی سب بکریاں اورگائیں آپ
کودےدونگاانھوں نےمان لیااور
سلمان ان کےساتھ عازمِ عرب
ہوگئے-
      بنوکلب کےتاجروں نے
سلمان کودھوکہ دیااوروادی
القریٰ میں لاکران کوبحیثیتِ
غلام ایک یہودی کےہاتھ بیچ
ڈالااورخودچلےگئے-سلمان یہاں
ابھی کچھ دن ہی ٹھہرےتھےکہ
ان کےیہودی آقاکابھائی مدینے
سےاس سےملنے آیا-اس یہودی
نےسلمان کواپنےبھائی کےہاتھ
فروخت کردیااوروہ ان کوغلام
بناکرمدینےلےآیا-
    سلمان دوباربِکے،اوراب دوہری غلامی کی ذِلّت اُٹھاتے
ہوئےمدینہ آپہنچے-انھیں کیا
معلوم تھاکہ یہ غلامی ان کو
حضرت محمّدصلی اللّہ علیہ وسلّم کےقدموں میں لارہی ہے-
   سلمان اسقف کی نشاندہی کے مطابق اب کھجوروں والی
زمین میں آگئےلیکن رسالت کا
مہرِتاباں ابھی مکّہ کی سرزمین
میں ضوفشاں تھااورظلم وستم کےتاریک بادل میں پنہاں تھا-
سلمان کوان کاآقااتنامصروف
رکھتا،اس قدرمحنت لیتاکہ ان
کو"اس نبی“کاحال پوچھنےکا
وقت نہ ملتا،سلمان اسی انتظار
میں تھےکہ آفتابِ نبوّت مدینے
کےاُفق پرضیاءبارہوگیااور
سلمان کےانتظارکی گھڑیاں ختم ہوگئیں-شبِ ہجرکےسینے
سےصبحِ وصال کی روشنی پھوٹ نکلی-حضورصلی اللّہ علیہ وسلّم ہجرت فرمائےمدینہ
طیّبہ آگئے-
     کھجوروں کےباغ میں سلمان
درخت پرکچھ کام کےلیےچڑھے
ہوئےتھےاوران کایہودی آقا
درخت کےنیچےبیٹھاہواتھاکہ ایک شخص نےاس سےکہاکہ بنی قیلہ کوخداتباہ کرےوہ سب ایک شخص کےپاس اکٹھے
ہوئے ہیں جومکہّ سےآیاہے یہ اس کوپیغمبرکہتےہیں-سلمان نےجوں ہی یہ مژدہ جاں فزاء
سُناتوان کاپیمانۂ جستجولبریز
ہوا-"وہ نبی“کی بشارت سن کر
فرط مسرّت سےقریب تھازمین
پرآرہتے،بڑی جلدی درخت سے
اُترے-اپنےآقاسےپوچھاکہ آپ کیاذکرکررہےتھے-اس نےڈانٹ پلائی اورکہاکہ تم اپناکام کرو-
    اب سلمان کےلیےصبرکرنامشکل تھا-فرصت پاکرکھانےکی کچھ اشیاءلےکربارگاہِ رسالت میں جاپہنچے،عرض کیا،حضورصل
اللّہ علیہ وسلّم!آپ خدا کےچنے
ہوئےبندےہیں میں کچھ کھانے
کی چیزیں صدقہ کےطورپر
لایاہوں انھیں قبول فرمائیے-
آپ صلی اللّہ علیہ وسلم نے
صدقہ قبول نہ کیااور فرمایاکہ
دوسرے محتاجوں کودےدیا
جائے-سلمان نےاسقف کےکہنے
کےمطابق نبوت کی ایک علامت کوپہچان لیاکہ وہ
"نبی“صدقہ قبول نہ کرےگا-
     دوسرےروزسلمان ہدیہ لے
کرحاضرہوئےاورعرض کیا
"کل جناب نےصدقہ قبول نہیں کیاتھاآج ہدیہ لایاہوں قبول
فرمائیے“حضورصلی اللّہ علیہ وسلّم نےہدیہ قبول کرلیا-خود
بھی نوش فرمایااوردوسروں کو بھی دیا-اب سلمان نےایک
نشانی اوردیکھ لی جونبوت پر
شاہدتھی یعنی مُہرِ نبوت کی
زیارت بھی کرلی-اس وقت تو
ان کی آنکھیں محبت کےاشکوں
کےموتی پرونے لگیں-
      نبوت کی تینوں نشانیاں پا
لیں-مُہرِنبوت کی زیارت کے
وقت چومنےکےلیےجھکےتو
حضورصلی اللّہ علیہ وسلّم نے
فرمایا"سلمان! سامنےآؤ“سلمان سامنےآئےاوراپنی تمام داستانِ
محبت اور سفروں کی سرگزشت سنائی-انھوں نےاتنی
منزلیں طےکرنےکےبعداب گوہرِ
مقصودپالیا-کلمہ پڑھ کرمسلمان ہوگئے-
چونکہ غلام تھے،اسلیے اسلامی
فرائض بجانہیں لاسکتےتھے
یہی وجہ ہےکہ بدراوراحدکے
غزووں میں شامل نہ ہوسکے-
رسولِ رحمت صلی اللّہ علیہ
وسلّم نےان سےفرمایا"بہتر ہے
کہ اپنےآقاکوکچھ دےکرآزادہو
جاؤ-“انھوں نےاپنےآقاکوآزادی
کیلئےکہاتواس نےتین سو
کھجورکےدرخت اورچالیس
اوقیہ،سونالےکرآزادکرنامنظور
کرلیا-
    اللّٰہ تعالیٰ نےایسےاسباب پیدا
کردیےکہ ایک ہی سال میں تین سودرخت کھجورکےمہیاہوگئے
باقی سونارہ گیا-ایک غزوہ سے
مرغی کےانڈےکےبرابرسوناآیا-
حضور صلی اللّہ علیہ وسلم نے
اس پراپنی زبانِ مبارک پھیرکر
دعائےبرکت فرمائی اورسلمان
رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کودےدیا
انھوں نےیہودی کےحوالےکردیا-
تولاتوچالیس اوقیہ ہوا-اب حضرت سلمان فارسی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آزاد ہوگئےاور
سرورِکائنات صلی اللّہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنےلگے-
پیشکش:
سفیان احمدعبدالدّیان
معاون معلم:ضلع پریشداردو
اسکول پلکھوڑتعلقہ چالیسگاؤں ضلع جلگاؤںِ
ِ

No comments:

Post a Comment