کم سن شامی بچے کی لاش،کیا دنیا کا ضمیر جاگے گا؟ جبکہ اطلاعات کے مطابق کم سن بچے کا تعلق ترک سرحد کے نزدیک واقع شامی قصبے کوبانی سے تھا۔ تاہم معروف نیوز پورٹل لعربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ترکی کے ساحلی علاقے میں ایک کم سن شامی بچے کی تیرتی ہوئی لاش کی تصویر نے ہر صاحبِ درد کو افسردہ کردیا ہے۔اس تصویر کی بدھ سے سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل تشہیر جاری ہے اور دنیا بالخصوص یورپ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جو اب تک تارکینِ وطن کے سنگین مسئلے سے پہلوتہی کرتا چلا آ رہا ہے۔
اس بچے سمیت بارہ شامی مہاجر ترکی سے یوناںی جزیرے کوس کی جانب جانے کی کوشش کے دوران سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے تھے۔وہ ایک کھچا کھچ بھری ہوئی کشتی پر سوار ہوئے تھے اور یہ کشتی حادثے کا شکار ہوگئی۔مرنے والوں میں پانچ بچے اور ایک خاتون بھی شامل تھی۔
ترکی کے ساحلی محافظوں نے حادثے کے بعد پندرہ افراد کو زندہ بچا لیا ہے اور لاپتا مزید تین افراد کی تلاش جا؛ری ہے۔ترک میڈیا نے اس تین سالہ بچے کی شناخت ایلان کردی کے نام سے کی ہے۔اس کا پانچ سالہ بھائی بھی کشتی کے حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھ؛ا ہے۔اس بچے کا تعلق ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع شام کے کرد اکثریتی قصبے کوبانی (عین العرب) سے تھا۔کوبانی میں داعش کے جنگجوؤں اور کردوں کے درمیان گذشتہ مہینوں کے دوران میں خونریز لڑائی کے بعد ہزاروں افراد ہجرت کرکے ترکی چلے گئے تھے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنے والی ایک تصویر میں ایلان کردی ترکی کے اہم سیاحتی مقام بودرم میں ریت پر اوندھے مُنھ پڑا ہے۔کشتی کے الٹنے کے بعد سمندری لہروں نے اس کی لاش کو اس جانب دھکیل دیا تھا۔ایک تصویر میں ایک ترک پولیس افسر اس کو اٹھا رہا ہے۔
اس شامی بچے کی تصویر کو ٹویٹر پر بڑی تعداد میں شئیر کیا گیا ہے۔ٹویٹر پر ''انسانیت ساحل سمندرپر دھل گئی'' کے عنوان سے ہیش ٹیگ گذشتہ روز دنیا بھر میں موضوعات کے لحاظ سے پہلے نمبر پر رہا ہے۔
برطانیہ کے قریباً تمام بڑے اخبارات نے اس تصویر کو صفحہ اول پر شائع کیا ہے اور ان اخبارات نے بھی ایسا کیا ہے جو قبل ازیں تارکین وطن کے بحران کے حوالے سے سخت گیر مؤقف رکھتے تھے اور ان کی یورپی ممالک میں آبادکاری کے مخالف تھے۔
دی انڈی پینڈینٹ نے ''کس کا بچہ؟'' کے عنوان سے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے کہ ''اگر مردہ شامی بچے کی یہ غیر معمولی طاقتور تصاویر یورپ کے مہاجرین کے بارے میں رویّے کو تبدیل نہیں کرتی ہیں تو پھر کیا ہوگا؟''
واضح رہے کہ برطانیہ نے دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں کم تعداد میں ایشیائی یا افریقی تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے کے دوران شام ،افغانستان ،پاکستان اور افریقا سے یورپی ممالک کی جانب جانے والے تارکین وطن کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔وہ ترکی سے سمندر کے راستے یونان کی جانب اس امید میں جارہے ہیں کہ وہاں سے وہ یورپی یونین کے دوسرے رکن ممالک کا سفر کرسکیں گے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس سال اب تک بحرمتوسطہ ( بحر روم) کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔یہ افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں مسافروں سے کچھا کھچ بھری کشتیوں یا چھوٹے بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے جو سمندری لہروں کے مقابلے میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور حادثات کا شکار ہوگئے۔یوں ان افراد کو بہتر زندگی تو نہ ملی مگر وہ زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوگئے۔
ایس اے ساگر
سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آنے والی ایک تصویر میں ایلان کردی ترکی کے اہم سیاحتی مقام بودرم میں ریت پر اوندھے مُنھ پڑا ہے۔کشتی کے الٹنے کے بعد سمندری لہروں نے اس کی لاش کو اس جانب دھکیل دیا تھا۔ایک تصویر میں ایک ترک پولیس افسر اس کو اٹھا رہا ہے۔
اس شامی بچے کی تصویر کو ٹویٹر پر بڑی تعداد میں شئیر کیا گیا ہے۔ٹویٹر پر ''انسانیت ساحل سمندرپر دھل گئی'' کے عنوان سے ہیش ٹیگ گذشتہ روز دنیا بھر میں موضوعات کے لحاظ سے پہلے نمبر پر رہا ہے۔
برطانیہ کے قریباً تمام بڑے اخبارات نے اس تصویر کو صفحہ اول پر شائع کیا ہے اور ان اخبارات نے بھی ایسا کیا ہے جو قبل ازیں تارکین وطن کے بحران کے حوالے سے سخت گیر مؤقف رکھتے تھے اور ان کی یورپی ممالک میں آبادکاری کے مخالف تھے۔
دی انڈی پینڈینٹ نے ''کس کا بچہ؟'' کے عنوان سے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے کہ ''اگر مردہ شامی بچے کی یہ غیر معمولی طاقتور تصاویر یورپ کے مہاجرین کے بارے میں رویّے کو تبدیل نہیں کرتی ہیں تو پھر کیا ہوگا؟''
واضح رہے کہ برطانیہ نے دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں کم تعداد میں ایشیائی یا افریقی تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو کڑی تنقید کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے کے دوران شام ،افغانستان ،پاکستان اور افریقا سے یورپی ممالک کی جانب جانے والے تارکین وطن کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔وہ ترکی سے سمندر کے راستے یونان کی جانب اس امید میں جارہے ہیں کہ وہاں سے وہ یورپی یونین کے دوسرے رکن ممالک کا سفر کرسکیں گے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس سال اب تک بحرمتوسطہ ( بحر روم) کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔یہ افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں مسافروں سے کچھا کھچ بھری کشتیوں یا چھوٹے بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے جو سمندری لہروں کے مقابلے میں اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور حادثات کا شکار ہوگئے۔یوں ان افراد کو بہتر زندگی تو نہ ملی مگر وہ زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوگئے۔
ایس اے ساگر
No comments:
Post a Comment