ایس اے ساگر
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی (دیہاتی شخص) آیا اور کہاکہ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل سکھائیں جسے کرکے میں جنت میں داخل ہوجاو ¿ں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کی عبادت کر اور کسی چیز میں اس کے ساتھ شرک نہ کر ، فرض نماز قائم کر اور فرض زکوة ادا کر، رمضان کے (مہینے کے) روزے رکھ۔
اس نے کہا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میں نہ اس سے زیادہ کروں گا اور نہ کم کروں گا۔ پس جب وہ واپس چلا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اس شخص کو دیکھ لے۔‘
تصدیق کیلئے البخاری:1397، مسلم: 14/5 سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
فقہ الحدیث:
1: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ارکانِ اسلام ادا کرنے والا شخص (اگر نواقضِ اسلام کا ارتکاب نہ کرے) ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ چاہے ابتداسے ہی اس کے سارے گناہ معاف کرکے اسے جنت میں داخل کردیا جائے یا اسے گناہوں کی سزا دے کر آخر کار جنت میں داخل کیا جائے۔ کافر و مشرک اگر بغیر توبہ کے مرگیا تو ابدی جہنمی ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
2: اس اعرابی کے نام میں اختلاف ہے، جس کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔ بعض کہتے ہیں سعد ہے اور بعض کہتے ہیں کہ عبداللہ بن اخرم ہے۔ کچھ لوگوں کی تحقیق میں اس سے مراد لقیط بن عامر یا ابن المنفق ہے، حوالے کیلئے دیکھئے التوضیح لمبھمات الجامع الصحیح لابن العجمی ،قلمی صفحہ82۔
اعرابی کے نام میں اختلاف چنداں مضر نہیں ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ ضرور بالضرور اس کا نام معلوم ہوجائے۔
3: اللہ کی عبادت سے مراد اس پر ایمان، مکمل اطاعت اور شرک و کفر سے کلی اجتناب ہے۔
4: اس حدیث میں حج کا ذکر نہ ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا۔
5: احادیث سابقہ کی طرح یہ حدیث بھی مرجئہ پر زبردست رد ہے جو اعمال کو ایمان سے خارج سمجھتے ہیں۔
6: ایک روایت میں ایک چیز کا ذکر نہ ہو اور دوسری میں ذکر ہو تو اس حالت میں عدمِ ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔
7: بعض لوگ اس حدیث سے استنباط کرتے ہیں کہ سنتیں اور نوافل ضروری نہیں ہیں۔
مسند علی بن الجعد:945 وسندہ صحیح کے مطابق سیدنا سعید بن المسیب رحمة اللہ علیہ،تابعی فرماتے ہیں کہ:
”اوتر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ولیس علیک وضحی ولیس علیک و صلی الضحی ولیس علیک وصلی قبل الظھر ولیس علیک“
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے وتر پڑھا ہے اور یہ تجھ پر لازم نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی اور یہ تجھ پر واجب نہیں ہے۔ آپ نے چاشت کی نماز پڑھی، یہ تجھ پر ضروری نہیں ہے۔ آپ نے ظہر سے پہلے نماز پڑھی اور یہ تجھ پر لازم نہیں ہے۔
تاہم بہتر اور افضل یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا جائے اور تمام سنن ثابتہ کو اپنی زندگی میں اپنایا جائے۔ قیامت کے دن فرائض کی کمی سنن و نوافل سے پوری کی جائے گی۔
8: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے سے ہی انسان اپنے رب کے فضل سے جنت کا حقداربن سکتا ہے۔
9: مبشرین بالجنة کا عدد دس میں محصور نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث سے جن کا جنتی ہونا ثابت ہے وہ جنتی ہے۔
10: اللہ پر ایمان اور عقیدہ توحید کے بعد ہی اعمالِ صالحہ فائدہ دے سکتے ہیں۔
اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوقات :
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا کہ میں نے انسان وجنات کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔اہل علم کے نزدیک اللہ تعالی نے روز ازل میں اٹھارہ ہزار مخلوقات پیدا فرمائیں۔کسی کو شک ہو تو وہ’ انوار ہدایت ‘ صفحہ283 ،مو ¿لف حضرت مولانا شبیر احمد صاحب قاسمی استاد حدیث جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد،سے رجوع کرسکتا ہے۔ ان میں سے تین قسم کی مخلوق کو اپنی عبادت کیلئے منتخب فرمایا
انسان
جنات اور
فرشتہ
قرآن کریم میں خاص طور پر انسان اور جنات کا تذکرہ ہے فرشتوں کا نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں کی تو غذا ہی عبادت ہے جبکہ انسان جنات کے ساتھ خواہشات نفسانی بھی لگی ہوئی ہیں بلکہ اکثر وبیشتر انسان وجنات پر خواہشات کا غلبہ ہے۔
اس لئے اللہ تعالی نے فرشتوں کا ذکر نہیں فرمایا،محض انسان وجنات کا ذکر فرمایا۔صاحب روح المعانی نے حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث شریف نقل فرمائی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان وجنات کو دو قسموں پر بنایا ہے
(1)اہل سعادت؛ ان کیلئے اللہ نے اپنی عبادت کو آسان فرمادیا ہے
(2)اہل شقائ؛ ان کیلئے معصیت آسان اور عبادت مشکل ہے
لیکن اللہ تعالی نے تمام ہی انسان وجنات کو عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے اس کو اللہ تعالی نے اپنی کتاب کے اندر ان الفاظ سے ارشاد فرمایا ہے، وما خلقت الجن والا نس الا لیعبدون، ہم نے انسان اور جنات کو صرف اور صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے
پھر اللہ تبارک و تعالی نے انسان،جنات اور فرشتہ ان تینوں مخلوقات کو تہتر حصوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے بہتر حصے فرشتوں کی تعداد میں ہو گئے، اور ایک حصہ انسان وجنات کی تعداد میں آیا۔
پھر انسان وجنات کو تہتر حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں بہتر حصے جنات کی تعداد میں چلے گئے. اور ایک حصہ انسان کی تعداد میں آیا. پھر اس ایک حصہ کو تہتر حصوں میں تقسیم کیا گیا. ان میں سے بہتر حصے ایسے ہیں جنہوں نے حضرات انبیاءعلیہم السلام پر ایمان نہیں لایا،اور ایک حصہ وہ ہے جوحضرات انبیاءعلیہم السلام پر ایمان لایا ہے۔
اور پھر جو حصہ حضرات انبیاءعلیہم السلام پر ایمان لایا ہے اس کو تہتر حصوں میں منقسم کیا گیا۔ ان میں سے بہتر حصے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔
اور ان میں سے ایک حصہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔
چنانچہ حدیث پاک کے اندر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ یہود بہتر قسم کی برائیوں میں مبتلا ہو نے کی وجہ سے بہتر فرقوں میں بٹ گئے
اسی طرح نصاری بھی بہتر قسم کی برائیوں کی وجہ سے بہتر حصوں میں بٹ گئے
اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے بہتر فرقے اپنی بداعمالیوں کی بنا پر جہنم میں جائیں گے،
اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے معلوم کیا کہ وہ کون سا فرقہ ہے جو جنت میں جائے گا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو فرقہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والا ہے وہی جنت میں جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ترمذی میں وارد ہے:
تفترق امتی علی ثلث و سبعین فرقہ۔ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی۔
ایک دوسری جگہ روایت میں آتا ہے: ’کلھم فی النار الا ملة واحدة۔ وہ تمام فرقے جہنم میں جائیں گے ایک فرقہ کے سوا۔‘
ترمذی کی روایت میں اس فرقہ ناجی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بیان فرمایا: ”ما انا علیہ و اصحابی، کہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔‘اس فرقہ ناجی کو اہل سنت و الجماعت کہا جاتا ہے۔
اہل:یہاں پر اہل سے مراد اتباع، مقلدین اشخاص ہیں۔
سنت:اس کا معنی تو راستہ کے آتے ہیں اور سنت طرزعمل کو بھی کہتے ہیں جیسے کہ قرآن مجید میں آتا ہے: ’....وَلَن تَجِدَ لِس ±نَّتِ اللہ تَحویلًا.... اور اللہ کی سنت میں تم تبدیلی نہیں پاو ¿گے۔‘
اور دینی اصطلاح میں لفظِ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ترمذی کی طرززندگی اور طریقِ عمل کو کہتے ہیں،
جماعت:اس کے معنیٰ گروہ کے ہیں، یہاں پر جماعت سے مراد صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔
اہل سنت و الجماعت کا مطلب اور مفہوم کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’اس فرقہ کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے جن کے اعتقادات، اعمال اور مسائل کا محور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتِ صحیحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثر مبارک ہے، یا یوں کہئے کہ جنہوں نے اپنے عقائد اور اصولِ حیات اور عبادات و اخلاق میں اس راہ کو پسند کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم عمر بھر چلتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر چل کر منزلِ مقصود کو پہنچے۔
درالمنثور کے مطابق’یوم تبیضّ ± وجوہ۔ قیامت کے دن بعض چہرے خوبصورت ہوں گے‘، اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ فرماتے ہیں اس سے مراد اہل سنت و الجماعت ہیں۔‘
اور پھر اہل سنت و الجماعت اولاً نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا مقتدیٰ مانتے ہیں اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ارشاد فرمایا تھا کہ ”ما انا علیہ و اصحابی“ تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی معیارِ حق مانتے ہیں، خاص کر کے ابوادو ¿د، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی اورمسند احمدمیں خلفاراشدین جن کے بارے میں خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی موجود ہے۔
’علیکم بسنتی و سنةالخلفاالراشدین المھدیین تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالنواجذ ۔‘
یعنی کہ’میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفاراشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں ان کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو۔‘
اور پھر اس کے بعد اہل سنت و الجماعت ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ علیہم کو حق تسلیم کرتے ہوئے کسی ایک کی مسائل میں اتباع کو ضروری قرار دیتے ہیں، نیز اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ادلہ شرعیہ چار ہیں، ان چاروں کو ہی ماننا ہے:
(1)قرآن۔
(2)حدیث۔
(3)اجماعِ امت(جس پر اتفاق ہوچکا ہو)۔
(4)قیاس
کہ بعض فقہی مسائل کے حل موجود نہیں ہیں تو جن کا حل موجود ہے اس کی علت دیکھ کر اس پر بھی وہی حکم لگادیتے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ منہاج السنة میں فرماتے ہیں
’فان اھل السنة تتضمن النص و الجماعة تتضمن الاجماع فاھل السنة والجماعة ھم المتبعون للنص و الاجماع۔‘
یعنی اہل سنت میں سنت سے مراد نص ہے، یعنی کتاب و سنت ہے اور جماعت سے مراد اجماع ہے، پس اہل سنت و الجماعت نص اور اجماع کی اتباع کرتے ہیں۔
عقد الجید کے مطابق ائمہ اربعہ کا اتفاق صحابہ رضی اللہ عنہم کے اتفاق پر مبنی ہے اور ائمہ اربعہ کا اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم کے اختلاف پر مبنی ہے، اور جن مسائل میں صحابہ اور ائمہ اربعہ کا اجماع ہے ان سے اختلاف کرنا بھی اجماع سے نکلنا ہے اور جن مسائل میں ائمہ اربعہ میں اختلاف ہے ان میں کوئی نیا اختلاف پیدا کرنا بھی اجماع کے خلاف ہے اور جو ان سے خارج ہیں وہ اہل سنت و الجماعت میں سے نہیں ہیں۔
اسی کو بعض روایات میں سوادِ اعظم کہا گیا ہے اور اسی سوادِ اعظم کی ہی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے معلوم ہوتا ہے:
1۔الحاکم فی المستدرک 1/200 کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور فرمایا اللہ کی مدد جماعت پر ہوتی ہے، لہٰذا تم امت کے سواد اعظم کا (یعنی بڑی جماعت کا) اتباع کرو اور جو اس سے الگ رہے گا الگ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
2۔الحاکم فی المستدرک 1/20 کے مطابق حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعایٰ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کی مدد اسی جماعت پر آتی ہے، لہٰذا تم امت کے سواد اعظم (بڑی جماعت) کا اتباع کرو، جو اس سے الگ ہوگا اسے الگ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
3۔ المستدرک للحاکم1/20 کے مطابق’ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو یا یہ فرمایا کہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کریں گے اور تم سب سے بڑی جماعت (سواد اعظم) کی اتباع کرو، جو اس سے الگ ہوگا اسے الگ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
4۔ابن ماجہ کے مطابق حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، جب تم اختلاف دیکھو تو اپنے آپ کو سواد اعظم کے ساتھ لازم کرلو۔
فرقہ ناجیہ کے بارے میں حجة اللہ البالغہ میںحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کا فرمان
میں کہتا ہوں کہ نجات حاصل کرنے والا فرقہ وہی ہے جو عقیدہ اور عمل دونوں میں اس چیز کو لیتا ہے جو کتاب اور سنت سے ظاہر ہو اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کا اس پر عمل ہو۔
نیز’اور غیر ناجیہ فرقہ وہ ہے جس نے سلف یعنی صحابہ اور تابعین کے عقیدہ اور ان کے عمل کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل اپنالیا ہو۔
اس طرح شرح عقائد میں کہا ہے کہ جبائی لا جواب: ہوگیا اور اشعری نے ان کا مذہب چھوڑدیا، پھر وہ اور ان کے متبعین، معتزلہ کی رائے کو باطل کرنے میں اور اس عقیدہ کو ثابت کرنے میں مشغول ہوگئے، جس کے ساتھ سنت وارد ہوئی ہے اور جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین چلے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فرقہ ناجیہ وہ ہے جو عقائد و احکام میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مسلک پر ہوں اور قرآن کے ساتھ سنتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی صحیح مانتے ہوں اور اس پر عمل کرتے ہوں۔
No comments:
Post a Comment