ایس اے ساگر
بعض لوگ شعروشاعری کو برا سمجھتے ہیں جبکہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کی نگاہ میں یہ کوئی برا عمل نہیں ہے.شیخ عرب و عجم حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ عنہ نے اپنی تصانیف میں متعدد جگہ اشعار نقل کئے ہیں.ان میں سے بعض مصرعے تو ایسے بھی ہیں جن کے دوہرانے سے سننے والے کو فلمی گانہ کا گمان ہوتا ہے. اس میں علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ کا بھلا کیا قصور ہے کہ تجارت پیشہ فلمی صنعت نے
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
جیسے معرفت کے کلام کو طبلہ کی تھاپ پر گا دیا جبکہ
دل ڈھونڈتا ہے فرصت کے رات دن
جب 80 برس قبل یہ مصرعہ فضائل اعمال میں شامل کیا گیا تو حضرت شیخ تو کیا کسی جمن شبراتی کے بھی وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ یہ ایک دن گانے کی شکل میں ریڈیو پر بج رہا ہوگا...تلاش کی جائیں تو ایسی بیشمار مثالیں منظر عام پر آسکتی ہیں...غنیمت ہے کہ اہل علم نے اس موضوع پر امت کو پیاسا نہیں چھوڑا ہے جبکہ شاعری بمثل کلام کے ہے،اچھی شاعری اچھی کلام ہوتی ہےshair o shairi اور بری شاعری بری کلام ہوتی ہے۔بذات خود شاعری مذموم یا ممدوح نہیں ہے،اس کا حکم اس کے معانی اور موضوع کے مطابق ہوگا۔جس طرح بری کلام ممنوع اور حرام ہے اسی طرح بری شاعری ممنوع اور حرام ہے۔امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:
“وليس في إباحة الشعر خلاف، وقد قاله الصحابة والعلماء، والحاجة تدعو إليه لمعرفة اللغة العربية والاستشهاد به في التفسير، وتعرف معاني كلام تعالى وكلام رسوله صلى الله عليه وسلم، ويستدل به أيضاً على النسب والتاريخ وأيام العرب” ا.هـ
شعر کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف میں سے بھی مکرم لوگ شعر کہا کرتے تھے،نیز لغت عرب کی معرفت اور تفسیر میں استشہاد کے لئے شعر عربی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ شعر سے کلام الہی اور کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی کی معرفت ہوتی ہے اور اس سے نسب ،تاریخ اور ایام عرب پر استدلال کیا جاتا ہے۔
متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو آپ نے خود حکم دے کر شعر کہنے کو کہا۔
قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی ہے ان سے مراد ایسے شعر ہیں جو خلاف شرع ہوں ،شرک و بدعت اورجھوٹ پر مبنی ہوں اور ان میں پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائی گئی ہو یا عشق و محبت سے مزین ہوں۔
لیکن جن شعروں میں تفقہ فی الدین ،اسلام کی سربلندی ،شان صحابہ اور عظمت اسلام کے موضوعات بیان کئے گئے ہوں ایسے اشعار مستحسن اور جائز ہیں۔ بس مسئلہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنے کا ہے....سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں حرام و حلال کا شائبہ کہاں سے آیا؟
ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺑﺪﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺷﻌﺮ ﻭﺍﺩﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﻋﺮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﺒﯿﺪ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺷﺎﻋﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﯾﺐ ﺗﮭﺎ ۔ﺍﮨﻞ ﺯﺑﺎﻥ ،ﺍﮨﻞ ﺍﺩﺏ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺷﻌﺮ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﻮ
ﺳﻮﻕ ﻋﮑﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﯿﺎ ۔
ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺭِﯾﺖ ﺗﮭﯽ ،ﺍﯾﮏ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﺷﺎﻋﺮﻏﯿﺮﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﻗﺎﺑﻠﯿﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﻣﻠﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﺭﯾﺸﻤﯽ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﮑﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺎﺕ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ
ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﮑﺎﯾﺎ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﺒﻌﮧ ﻣﻌﻠﻘﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻭﻓﺎﻕ ﺍﻟﻤﺪﺍﺭﺱ ﮐﮯ ﻧﺼﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻟﺒﯿﺪ ﺳﺒﻌﮧ ﻣﻌﻠﻘﮧ ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﮭﺎ ﺁﺭﺗﮭﺮ ﺍﯾﻦ ﻭﻻﺳﭩﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺩﯼ ﺳﻮﺭﮈ ﺁﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺒﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﺁﺭﺗﮭﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻟﺒﯿﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﺎﺯﮦ ﮐﻼﻡ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺁﻭﯾﺰﺍﮞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﭼﻨﺪ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﮟ ۔ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺭﻭﺯ ﺟﺐ ﻟﺒﯿﺪ ﮐﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮨﻮ ﺍ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﭼﻨﺪ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺁﻭﯾﺰﺍﮞ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﺟﺮﺍﺕ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﺁﮔﮯ
ﺑﮍﮬﺎ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ۔ ﺑﺲ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺣﻠﻘﮧ ﺑﮕﻮﺵ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ﺧﯿﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ۔
ﻃﻔﯿﻞ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺩﻭﺳﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﺎﻋﺮﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﭖ ﺑﯿﺘﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮈﯾﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﺑﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ” ﻣﺤﻤﺪ ﷺ“ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﺎ ۔ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺁﭖ ﷺ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺟﻤﻠﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻥ ﻣﺮﺩ ﮨﻮﮞ ﻋﻘﻞ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﭽﮧ ﺗﻮﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻏﻠﻂ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﯽ ﺗﻤﯿﯿﺰ ﻧﮧ ﮐﺮﺳﮑﻮﮞ ۔ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺗﮏ ﺟﺎﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﷺ ﺫﺭﺍﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎ ﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔
بعض لوگ شعروشاعری کو برا سمجھتے ہیں جبکہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کی نگاہ میں یہ کوئی برا عمل نہیں ہے.شیخ عرب و عجم حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ عنہ نے اپنی تصانیف میں متعدد جگہ اشعار نقل کئے ہیں.ان میں سے بعض مصرعے تو ایسے بھی ہیں جن کے دوہرانے سے سننے والے کو فلمی گانہ کا گمان ہوتا ہے. اس میں علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ کا بھلا کیا قصور ہے کہ تجارت پیشہ فلمی صنعت نے
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
جیسے معرفت کے کلام کو طبلہ کی تھاپ پر گا دیا جبکہ
دل ڈھونڈتا ہے فرصت کے رات دن
جب 80 برس قبل یہ مصرعہ فضائل اعمال میں شامل کیا گیا تو حضرت شیخ تو کیا کسی جمن شبراتی کے بھی وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ یہ ایک دن گانے کی شکل میں ریڈیو پر بج رہا ہوگا...تلاش کی جائیں تو ایسی بیشمار مثالیں منظر عام پر آسکتی ہیں...غنیمت ہے کہ اہل علم نے اس موضوع پر امت کو پیاسا نہیں چھوڑا ہے جبکہ شاعری بمثل کلام کے ہے،اچھی شاعری اچھی کلام ہوتی ہےshair o shairi اور بری شاعری بری کلام ہوتی ہے۔بذات خود شاعری مذموم یا ممدوح نہیں ہے،اس کا حکم اس کے معانی اور موضوع کے مطابق ہوگا۔جس طرح بری کلام ممنوع اور حرام ہے اسی طرح بری شاعری ممنوع اور حرام ہے۔امام ابن قدامہ فرماتے ہیں:
“وليس في إباحة الشعر خلاف، وقد قاله الصحابة والعلماء، والحاجة تدعو إليه لمعرفة اللغة العربية والاستشهاد به في التفسير، وتعرف معاني كلام تعالى وكلام رسوله صلى الله عليه وسلم، ويستدل به أيضاً على النسب والتاريخ وأيام العرب” ا.هـ
شعر کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف میں سے بھی مکرم لوگ شعر کہا کرتے تھے،نیز لغت عرب کی معرفت اور تفسیر میں استشہاد کے لئے شعر عربی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ شعر سے کلام الہی اور کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی کی معرفت ہوتی ہے اور اس سے نسب ،تاریخ اور ایام عرب پر استدلال کیا جاتا ہے۔
متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو آپ نے خود حکم دے کر شعر کہنے کو کہا۔
قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی ہے ان سے مراد ایسے شعر ہیں جو خلاف شرع ہوں ،شرک و بدعت اورجھوٹ پر مبنی ہوں اور ان میں پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائی گئی ہو یا عشق و محبت سے مزین ہوں۔
لیکن جن شعروں میں تفقہ فی الدین ،اسلام کی سربلندی ،شان صحابہ اور عظمت اسلام کے موضوعات بیان کئے گئے ہوں ایسے اشعار مستحسن اور جائز ہیں۔ بس مسئلہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنے کا ہے....سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں حرام و حلال کا شائبہ کہاں سے آیا؟
ﺟﺎﮨﻠﯿﺖ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺑﺪﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺷﻌﺮ ﻭﺍﺩﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻧﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﻋﺮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﺒﯿﺪ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺷﺎﻋﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﺩﯾﺐ ﺗﮭﺎ ۔ﺍﮨﻞ ﺯﺑﺎﻥ ،ﺍﮨﻞ ﺍﺩﺏ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ ﻣﺎﻧﺘﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺷﻌﺮ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﻮ
ﺳﻮﻕ ﻋﮑﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﯿﺎ ۔
ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺭِﯾﺖ ﺗﮭﯽ ،ﺍﯾﮏ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﻮ ﺷﺎﻋﺮﻏﯿﺮﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﻗﺎﺑﻠﯿﺖ ﮐﺎ ﺣﺎﻣﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﻣﻠﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﺭﯾﺸﻤﯽ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺩﮬﺎﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﮑﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺎﺕ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ
ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﮑﺎﯾﺎ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﺒﻌﮧ ﻣﻌﻠﻘﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻭﻓﺎﻕ ﺍﻟﻤﺪﺍﺭﺱ ﮐﮯ ﻧﺼﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻟﺒﯿﺪ ﺳﺒﻌﮧ ﻣﻌﻠﻘﮧ ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﮭﺎ ﺁﺭﺗﮭﺮ ﺍﯾﻦ ﻭﻻﺳﭩﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺩﯼ ﺳﻮﺭﮈ ﺁﻑ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺒﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻧﻘﻞ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ۔ﺁﺭﺗﮭﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻟﺒﯿﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﺎﺯﮦ ﮐﻼﻡ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺁﻭﯾﺰﺍﮞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﭼﻨﺪ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﮟ ۔ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺭﻭﺯ ﺟﺐ ﻟﺒﯿﺪ ﮐﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮨﻮ ﺍ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﭼﻨﺪ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺁﻭﯾﺰﺍﮞ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﺟﺮﺍﺕ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﺁﮔﮯ
ﺑﮍﮬﺎ ﻗﺮﯾﺐ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻠﻤﺎﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﯽ ﺁﯾﺎﺕ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ۔ ﺑﺲ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺣﻠﻘﮧ ﺑﮕﻮﺵ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ﺧﯿﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ۔
ﻃﻔﯿﻞ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺩﻭﺳﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﺎﻋﺮﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﭖ ﺑﯿﺘﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮈﯾﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﺑﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ” ﻣﺤﻤﺪ ﷺ“ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﺎ ۔ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺁﭖ ﷺ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮪ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺟﻤﻠﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻥ ﻣﺮﺩ ﮨﻮﮞ ﻋﻘﻞ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﭽﮧ ﺗﻮﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻏﻠﻂ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﯽ ﺗﻤﯿﯿﺰ ﻧﮧ ﮐﺮﺳﮑﻮﮞ ۔ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﺗﻮ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺗﮏ ﺟﺎﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﷺ ﺫﺭﺍﺗﻔﺼﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻟﮯ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎ ﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺒﯿﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﻮﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔
جاری...
No comments:
Post a Comment