السلام علیکم
ہمارا ایک دوست کہتا ہے کہ ووٹ دینا اور سود کھانا برابر ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
ووٹ دینے اور مشورے میں رائے دینے میں کیا فرق ہے؟
(جیسا کہ وشاورہم فی الامر)
دلائل کے ساتھ جواب کا منتظر ہوں زاہد اللہ
1/2
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلیًا
وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ
ووٹ دینے کی از روئے قرآن وحدیث چند حیثیتیں ہیں : ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپناووٹ دے رہاہے اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہاہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتاہے اور دیانت اور امانت بھی اور اگر واقع میں اس شخص کے اندریہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتاہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے ،جوسخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیاوآخرت ہے ۔
ہمارا ایک دوست کہتا ہے کہ ووٹ دینا اور سود کھانا برابر ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
ووٹ دینے اور مشورے میں رائے دینے میں کیا فرق ہے؟
(جیسا کہ وشاورہم فی الامر)
دلائل کے ساتھ جواب کا منتظر ہوں زاہد اللہ
1/2
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلیًا
وعلیکم السلام ورحمت اللہ و برکاتہ
ووٹ دینے کی از روئے قرآن وحدیث چند حیثیتیں ہیں : ایک حیثیت شہادت کی ہے کہ ووٹر جس شخص کو اپناووٹ دے رہاہے اس کے متعلق اس کی شہادت دے رہاہے کہ یہ شخص اس کام کی قابلیت بھی رکھتاہے اور دیانت اور امانت بھی اور اگر واقع میں اس شخص کے اندریہ صفات نہیں ہیں اور ووٹر یہ جانتے ہوئے اس کو ووٹ دیتاہے تو وہ ایک جھوٹی شہادت ہے ،جوسخت کبیرہ گناہ اور وبالِ دنیاوآخرت ہے ۔
دوسری حیثیت ووٹ دینے کی شفاعت یعنی سفارش کی ہے کہ ووٹر اس کی نمائندگی کی سفارش کرتاہے اور سفارش کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ" من يشفع شفاعة حسنة يكن له نصيب منها ومن يشفع شفاعة سيئة يكن له كفل منها"۔یعنی جوشخص اچھی سفارش کرتاہے اس میں اس کوبھی حصہ ملتاہے اورجو بُری سفارش کرتاہے تو اس کی بُرائی میں اس کابھی حصہ لگتاہے ،اچھی سفارش یہی ہے کہ قابل اور دیانتدار آدمی کی سفارش کرے ،جوخلقِ خداکے حقوق صحیح طور پراداکرے اور بُری سفارش یہ ہے کہ نااہل ،نالائق ،فاسق ،ظالم کی سفارش کرکے اس کوخلقِ خدا پر مسلط کرے ۔اس سے یہ معلوم ہواکہ ہمارے ووٹوں سے کامیاب ہونے والاامیدواراپنے دورِحکومت میں جونیک یابد عمل کرے گا،ہم بھی اس کے شریک سمجھے جائیں گے ۔
تیسری حیثیت ووٹ دینے کی وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والااس امید وار کوپوری قوم کے حقوق کے بارے میں اپنانمائندہ اور وکیل بناتاہے ،اس لئے اگر کسی نااہل کواپنی نمائندگی کے لئے ووٹ دے کرکامیاب بنایاتو پوری قوم کے حقوق کوپامال کرنے کاگناہ بھی اس کی گردن پررہا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہماراووٹ تین حیثیتیں رکھتاہے ،ایک شہادت دوسرے سفارش اورتیسرے حقوق ِمشترکہ میں وکالت ،تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک ،صالح ،قابل آدمی کوووٹ دیناموجب ِثواب عظیم ہے ،اور اس کے ثمرات اس کوملنے والے ہیں ،اس طرح نااہل یاغیرمتدین شخص کوووٹ دیناجھوٹی شہادت بھی ہے،بُری سفارش بھی ہے اور ناجائز وکالت بھی اوراس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ (مأخذہٗ جواہرالفقہ۵؍۵۳۴)
تفسير ابن كثير - (ج 2 / ص 368)
وقوله تعالیٰ : { مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا } أي: من سعى في أمر، فترتب عليه خير، كان له نصيب من ذلك { وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا } أي: يكون عليه وزر من ذلك الأمر الذي ترتب على سعيه ونيته، كما ثبت في الصحيح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "اشفعوا تؤجروا ويقضي الله على لسان نبيه ما شاء".وقال مجاهد بن جَبْر: نزلت هذه الآية في شفاعات الناس بعضهم لبعض
تفسير ابن كثير - (ج 1 / ص 728)
وقوله: { وَلا تَكْتُمُوا الشَّهَادَة } أي: لا تخفوها وتغلوها ولا تظهروها. قال ابن عباس وغيره: شهادة الزور من أكبر الكبائر، وكتمانها كذلك. ولهذا قال: { وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ } قال السدي: يعني: فاجر قلبه، وهذه كقوله تعالى: { وَلا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الآثِمِينَ } [المائدة : 106]، وقال تعالى: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا } [النساء : 135] ، وهكذا قال هاهنا: { وَلا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ }
عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (ج 20 / ص 271)
قوله تعالى ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه والله بما تعملون عليم ( البقرة 283 ) هذا التعليل في محله أي ولا تخفوا الشهادة إذا دعيتم إلى إقامتها ومن كتمانها ترك التحمل عند الحاجة إليه قوله فإنه آثم قلبه ( البقرة 283 ) أي فاجر قلبه وخصه بالقلب لأن الكتمان يتعلق به لأنه يضمره فيه
فيض القدير - (ج 6 / ص 275)
(من كتم شهادة إذا دعى إليها كان كمن شهد بالزور) فكتمان الشهادة
حرام شديد التحريم فهو من الكبائر * (ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه)
ووٹ دینے والے پرلازم ہے کہ وہ کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دے جوعالم ،متقی اور خداتر س ہونے کے ساتھ ساتھ اس عہدے کااہل بھی ہواور اگر امید واروں میں کوئی بھی ایسانہ ہوتو پھرجودوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہلیت اور خداترسی رکھتاہواس کو ووٹ دیناچاہئے خواہ وہ کسی بھی جماعت ،خاندان یابرادری سے تعلق رکھتاہواور اگر کوئی محض ذاتی مفادات یابرادری کی بنیاد پرمتقی ،خداترس اور اہلیت رکھنے والے امیدوار کوچھوڑ کرکسی دوسرے امید وار کو ووٹ دیتاہے یادوسروں کوایسے امیدوارکے حق میں ووٹ دینے پرمجبور کرتاہے تو یہ ناجائز اور گناہ ہے او راس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گےکیونکہ یہ جھوٹی شہادت ،بُری سفارش اور ناجائز وکالت ہےاس لئےووٹ کاصحیح استعمال کرنالازم ہے اور اس کو غلط استعمال کرنے سے بچناضروری ہے ۔ (مأخذہٗ التبویب۱۲؍۲۳۳)
المستدرك للحاكم - (ج 4 / ص 104)
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من استعمل رجلا من عصابة و في تلك العصابة من هو أرضى لله منه فقد خان الله و خان رسوله و خان المؤمنين هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه
تفسير ابن كثير - (ج 2 / ص 368)
وقوله تعالیٰ : { مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا } أي: من سعى في أمر، فترتب عليه خير، كان له نصيب من ذلك { وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا } أي: يكون عليه وزر من ذلك الأمر الذي ترتب على سعيه ونيته، كما ثبت في الصحيح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "اشفعوا تؤجروا ويقضي الله على لسان نبيه ما شاء".وقال مجاهد بن جَبْر: نزلت هذه الآية في شفاعات الناس بعضهم لبعض
تفسير ابن كثير - (ج 1 / ص 728)
وقوله: { وَلا تَكْتُمُوا الشَّهَادَة } أي: لا تخفوها وتغلوها ولا تظهروها. قال ابن عباس وغيره: شهادة الزور من أكبر الكبائر، وكتمانها كذلك. ولهذا قال: { وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ } قال السدي: يعني: فاجر قلبه، وهذه كقوله تعالى: { وَلا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الآثِمِينَ } [المائدة : 106]، وقال تعالى: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا } [النساء : 135] ، وهكذا قال هاهنا: { وَلا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ }
عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (ج 20 / ص 271)
قوله تعالى ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه والله بما تعملون عليم ( البقرة 283 ) هذا التعليل في محله أي ولا تخفوا الشهادة إذا دعيتم إلى إقامتها ومن كتمانها ترك التحمل عند الحاجة إليه قوله فإنه آثم قلبه ( البقرة 283 ) أي فاجر قلبه وخصه بالقلب لأن الكتمان يتعلق به لأنه يضمره فيه
فيض القدير - (ج 6 / ص 275)
(من كتم شهادة إذا دعى إليها كان كمن شهد بالزور) فكتمان الشهادة
حرام شديد التحريم فهو من الكبائر * (ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فإنه آثم قلبه)
ووٹ دینے والے پرلازم ہے کہ وہ کسی ایسے امیدوار کو ووٹ دے جوعالم ،متقی اور خداتر س ہونے کے ساتھ ساتھ اس عہدے کااہل بھی ہواور اگر امید واروں میں کوئی بھی ایسانہ ہوتو پھرجودوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہلیت اور خداترسی رکھتاہواس کو ووٹ دیناچاہئے خواہ وہ کسی بھی جماعت ،خاندان یابرادری سے تعلق رکھتاہواور اگر کوئی محض ذاتی مفادات یابرادری کی بنیاد پرمتقی ،خداترس اور اہلیت رکھنے والے امیدوار کوچھوڑ کرکسی دوسرے امید وار کو ووٹ دیتاہے یادوسروں کوایسے امیدوارکے حق میں ووٹ دینے پرمجبور کرتاہے تو یہ ناجائز اور گناہ ہے او راس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گےکیونکہ یہ جھوٹی شہادت ،بُری سفارش اور ناجائز وکالت ہےاس لئےووٹ کاصحیح استعمال کرنالازم ہے اور اس کو غلط استعمال کرنے سے بچناضروری ہے ۔ (مأخذہٗ التبویب۱۲؍۲۳۳)
المستدرك للحاكم - (ج 4 / ص 104)
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: من استعمل رجلا من عصابة و في تلك العصابة من هو أرضى لله منه فقد خان الله و خان رسوله و خان المؤمنين هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه
امیدوار کے درج ذیل اوصاف ہونے چاہئیں:
۱۔امیدوار عقیدہ کے اعتبار سے پکامسلمان ہو۔
۲۔دیندار ہویاکم ازکم دین ،اہلِ دین اور شعائرِدین کادل سے احترام کرتاہواور ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کاجذبہ رکھتاہو۔
۳۔دیانت دار ہو،ضمیر فراموش نہ ہو۔
۴۔اسلامی قومیت کاحامی ہو۔
۵۔شریف اور بااخلاق ہواور ملک وقوم کی واقعۃً خدمت کرناچاہتاہو۔
۶۔کھلے عام فسق و فجور میں مبتلانہ ہو۔
۷۔سلیم الفکرہواور نظام ِ حکومت کواچھی طرح سمجھتاہو۔ (مأخذہٗ التبویب۴۹؍۲۵۲)
فتاوى قاضيخان - (ج 2 / ص 200)
الوالي اذا فسق فهو بمنزلة القاضي يستحق العزل ولا ينعزل ومع أهلية الشهادة لا بد أن يكون عالما ورعا فان كان جاهلا عدلا أو عالما غير عدل لا ينبغي له ان يتقلد ولا يقلد لقول عليه السلام القضاة ثلاثة واحد في الجنة واثنان في النار وأراد بالأثنين الجاهل وغير العدل*و الجاهل التقي أولى بالقضاء من العالم الفاسق
شرح فتح القدير - (ج 7 / ص 253)
لكن الغزالي قال اجتماع هذه الشروط من العدالة والاجتهاد وغيرهما متعذر في عصرنا لخلو العصر عن المجتهد والعدل فالوجه تنفيذ قضاء كل من ولاه السلطان ذو شوكة وإن كان جاهلا فاسقا وهو ظاهر المذهب عندنا فلو قلد الجاهل الفاسق صح ويحكم بفتوى غيره ولكن لا ينبغي أن يقلد.
اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
۱۔امیدوار عقیدہ کے اعتبار سے پکامسلمان ہو۔
۲۔دیندار ہویاکم ازکم دین ،اہلِ دین اور شعائرِدین کادل سے احترام کرتاہواور ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے کاجذبہ رکھتاہو۔
۳۔دیانت دار ہو،ضمیر فراموش نہ ہو۔
۴۔اسلامی قومیت کاحامی ہو۔
۵۔شریف اور بااخلاق ہواور ملک وقوم کی واقعۃً خدمت کرناچاہتاہو۔
۶۔کھلے عام فسق و فجور میں مبتلانہ ہو۔
۷۔سلیم الفکرہواور نظام ِ حکومت کواچھی طرح سمجھتاہو۔ (مأخذہٗ التبویب۴۹؍۲۵۲)
فتاوى قاضيخان - (ج 2 / ص 200)
الوالي اذا فسق فهو بمنزلة القاضي يستحق العزل ولا ينعزل ومع أهلية الشهادة لا بد أن يكون عالما ورعا فان كان جاهلا عدلا أو عالما غير عدل لا ينبغي له ان يتقلد ولا يقلد لقول عليه السلام القضاة ثلاثة واحد في الجنة واثنان في النار وأراد بالأثنين الجاهل وغير العدل*و الجاهل التقي أولى بالقضاء من العالم الفاسق
شرح فتح القدير - (ج 7 / ص 253)
لكن الغزالي قال اجتماع هذه الشروط من العدالة والاجتهاد وغيرهما متعذر في عصرنا لخلو العصر عن المجتهد والعدل فالوجه تنفيذ قضاء كل من ولاه السلطان ذو شوكة وإن كان جاهلا فاسقا وهو ظاهر المذهب عندنا فلو قلد الجاهل الفاسق صح ويحكم بفتوى غيره ولكن لا ينبغي أن يقلد.
اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
No comments:
Post a Comment