جاننا چاہیے کہ منیٰ میں بھگدڑ بدانتظامی کی وجہ سے نہیں، لوگوں کی جلد بازی اور بے صبری کی وجہ سے مچتی ہے۔ یہی انتظامات ہر دفعہ ہوتے ہیں اور حج کے دنوں میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں لیکن ہر دفعہ اور ہر روز ایسے سانحات نہیں ہوتے۔
مزدلفہ سے منیٰ آنے کے بعد تین کام ترتیب سے کرنا ہوتے ہیں: بڑے شیطان کو پتھر مارنا، قربانی کرنا اور بال کٹانا یا ٹنڈ کرنا۔ شیطان کو پتھر مارتے وقت لوگ جلدی میں اس لیے ہوتے ہیں کہ قربانی کی پرچیاں انھیں پہلے مل چکی ہوتی ہیں جن پر قربانی کا وقت لکھا ہوتا ہے۔ کسی وجہ سے پتھر مارنے میں دیر ہوجائے تو قربانی پہلے ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ایک دم پڑ جاتا ہے۔ چنانچہ لوگ پتھر مارنے میں جلد بازی اور بے صبری سے کام لیتے ہیں تاکہ نہ تو اعمال کی ترتیب خراب ہو اور نہ دم ذمے پڑے۔ بس عمومًا اسی دم سے بچنے کی نیت سے جلدی مچانے کے چکر میں یہ حادثہ ہوتا ہے۔
بار بار اعلانات کیے جاتے ہیں کہ شیطان کو پتھر مارنے کے لیے لوگ ذرا ٹھہر ٹھہر کر آئیں اور آنے اور جانے کے راستے بھی الگ کیے گئے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں ہجوم کے بہاؤ میں بے ترتیبی آجاتی ہے۔ اس وقت میں اگر کوئی گر جائے یا راستے سے ہٹنے کے لیے رک جائے یا کوئی طاقتور جوان کسی کمزور یا ہلکی رفتار سے چلتے لوگوں کو اوورٹیک کرنے کی کوشش کرے (جو کہ اکثر ہوتا ہے) اور شومیِ قسمت سے اس وقت ہجوم کا بہاؤ تیز رفتار ہو تو دم گھٹنے کی وجہ سے بعض اوقات لوگ گرنے لگتے ہیں اور یوں ہجوم کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں۔ اور چونکہ پیچھے سے ہجوم کا ہجوم پوری رفتار سے چلا آ رہا ہوتا ہے اس لیے صورتِ حال پر قابو پانے میں چند منٹ لگ جاتے ہیں لیکن اتنی دیر میں نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔
حج کے ان انتظامات کرنے والے سول ڈیفنس کے لوگوں کو نہایت اعلیٰ تربیت دی جاتی ہے۔ یہ لوگ نہایت سرعت سے ہجوم کے بہاؤ کو دائیں بائیں کرتے ہیں اور گر جانے والوں کو گھیرے میں لے کر الگ کر لیتے ہیں۔ ہجوم کے پاؤں تلے کچلے جانے اور بھگدڑ کی یہ صورتِ حال صرف منیٰ میں نہیں، بسا اوقات مطاف میں بھی پیش آ جاتی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کی عملی تربیت کے لیے صرف ایک سال کے بعد منیٰ کا میدان نہیں ہوتا بلکہ یہ تربیت مستقل ہوتی رہتی ہے۔
جن لوگوں کو اللہ نے 1980 کی دہائی میں حجِ بیت اللہ کی سعادت دی اور ان میں سے اب کوئی یہاں آتا ہے تو انتظامات میں زمین آسمان کا فرق دیکھتا ہے۔ انسان کی استطاعت میں جتنا بہتر انتظام ممکن ہے، وہ ان مقامات پر کیا جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ لوگ آج کے سانحہ کو بدانتظامی کا شاخسانہ قرار دے کر ماہرانہ تبصرے کر رہے ہیں جنھیں ایک بھی مرتبہ یہ انتظامات دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ اس پر نہایت افسوس ہے۔
ایک تو حاجیوں حجیانیوں کو دم کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ پورا جانور ذبح کرنا نہیں ہوتا بلکہ بقدرِ استطاعت چند ریال دیا جاتا ہے۔ چنانچہ چند ریال بچانے کے پیچھے جان پر نہیں کھیلنا چاہیے۔ نیز اللہ بہت جزائے خیر دے سعوی علما کو کہ انھوں نے یہ فتویٰ دے کر کہ دن رات کے کسی بھی وقت میں شیطان کو پتھر مارے جاسکتے ہیں، حاجیوں کو سہولت دے دی ہے۔ چاہیے کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے نہ کہ خود تو تنگی و ہلاکت میں ڈالا جائے۔ اللہ سمجھ دے۔
بار بار اعلانات کیے جاتے ہیں کہ شیطان کو پتھر مارنے کے لیے لوگ ذرا ٹھہر ٹھہر کر آئیں اور آنے اور جانے کے راستے بھی الگ کیے گئے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں ہجوم کے بہاؤ میں بے ترتیبی آجاتی ہے۔ اس وقت میں اگر کوئی گر جائے یا راستے سے ہٹنے کے لیے رک جائے یا کوئی طاقتور جوان کسی کمزور یا ہلکی رفتار سے چلتے لوگوں کو اوورٹیک کرنے کی کوشش کرے (جو کہ اکثر ہوتا ہے) اور شومیِ قسمت سے اس وقت ہجوم کا بہاؤ تیز رفتار ہو تو دم گھٹنے کی وجہ سے بعض اوقات لوگ گرنے لگتے ہیں اور یوں ہجوم کے پاؤں تلے کچلے جاتے ہیں۔ اور چونکہ پیچھے سے ہجوم کا ہجوم پوری رفتار سے چلا آ رہا ہوتا ہے اس لیے صورتِ حال پر قابو پانے میں چند منٹ لگ جاتے ہیں لیکن اتنی دیر میں نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔
حج کے ان انتظامات کرنے والے سول ڈیفنس کے لوگوں کو نہایت اعلیٰ تربیت دی جاتی ہے۔ یہ لوگ نہایت سرعت سے ہجوم کے بہاؤ کو دائیں بائیں کرتے ہیں اور گر جانے والوں کو گھیرے میں لے کر الگ کر لیتے ہیں۔ ہجوم کے پاؤں تلے کچلے جانے اور بھگدڑ کی یہ صورتِ حال صرف منیٰ میں نہیں، بسا اوقات مطاف میں بھی پیش آ جاتی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں کی عملی تربیت کے لیے صرف ایک سال کے بعد منیٰ کا میدان نہیں ہوتا بلکہ یہ تربیت مستقل ہوتی رہتی ہے۔
جن لوگوں کو اللہ نے 1980 کی دہائی میں حجِ بیت اللہ کی سعادت دی اور ان میں سے اب کوئی یہاں آتا ہے تو انتظامات میں زمین آسمان کا فرق دیکھتا ہے۔ انسان کی استطاعت میں جتنا بہتر انتظام ممکن ہے، وہ ان مقامات پر کیا جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ لوگ آج کے سانحہ کو بدانتظامی کا شاخسانہ قرار دے کر ماہرانہ تبصرے کر رہے ہیں جنھیں ایک بھی مرتبہ یہ انتظامات دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ اس پر نہایت افسوس ہے۔
ایک تو حاجیوں حجیانیوں کو دم کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ پورا جانور ذبح کرنا نہیں ہوتا بلکہ بقدرِ استطاعت چند ریال دیا جاتا ہے۔ چنانچہ چند ریال بچانے کے پیچھے جان پر نہیں کھیلنا چاہیے۔ نیز اللہ بہت جزائے خیر دے سعوی علما کو کہ انھوں نے یہ فتویٰ دے کر کہ دن رات کے کسی بھی وقت میں شیطان کو پتھر مارے جاسکتے ہیں، حاجیوں کو سہولت دے دی ہے۔ چاہیے کہ اس سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے نہ کہ خود تو تنگی و ہلاکت میں ڈالا جائے۔ اللہ سمجھ دے۔
No comments:
Post a Comment