Friday, 25 September 2015

Busting the myth about ‘pure and natural’ honey کہاں میسر ہے خالص اور قدرتی‘شہد !

ایس اے ساگر
کون نہیں جانتا کہ اللہ تعالی نے شہد کو انسان کیلئے بہت سی بیماریوں سے شفا کا ذریعہ بنایا ہے۔ غنیمت ہے کہ گذشتہ دنوں سی ایس ای CSE یعنی مرکز برائے سائنس اور ماحولیات Centre for Science and Environmentکی پالیوشن مانیٹرنگ لیبارٹری Pollution Monitoring Labنے بازار میں دستیاب مشہور و معروف ڈابر،بیدیا ناتھ،ہمالیہ،کھادی اور پتانجلی جیسے ہندوستانی شہد کے علاوہ بیرون ملک سے منگوائے جانے والے شہد کا پردہ فاش کیا ہے۔ اس انکشاف سے پتہ چلا ہے کہ بازار میں میسر متعدد برانڈڈ شہد نہ صرف مضر صحت ہیں بلکہ ان میں اینٹی بائیوٹک کی مقدار خطرہ کی حدود سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ لوگ کیا کریں جو شہد کو دودھ یا چائے میں ملاکر بھی استعمال کرتے ہیںجبکہ بعض لوگ تو اس کی ایک ایک بوند کو بھی ترجیح دیتے ہیں اور صبح ناشتہ میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگ اسے ڈبل روٹی یا پراٹھے میں بھی لگاکر کھانا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے گھریلو قدرتی علاج کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں جیسے گلے کی دکھن وغیرہ۔ شہد کی افادیت صرف ہمارے جسم کے اندرونی نظام کی مضبوطی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اسے لوگ چہرے کی خوبصورتی کی کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ مارکیٹ میں شہد کی مختلف اقسام دستیاب ہیں۔ کچھ شہد چکھنے میں میٹھے معلوم ہوتا ہے اور کچھ شہد غذائیت سے بھر پور ہوتا ہے لیکن کچھ شہد کا ذائقہ تھوڑا سا کڑوا بھی ہوتا ہے۔ آپ اپنی پسند کے مطابق شہد حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ واقعی اس کی افادیت کو چھوڑ نہیں سکتے جبکہ ماہرین ہمیشہ اس کو کسی چیز میں ملائے بغیر کھانے پر زور دیتے ہیں۔
بیماریوں سے شفا:
 شہد کی اہمیت قرآن اور احادیث سے واضح ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ شہد کے اندر انسان کیلئے بہت سی بیماریوں کی صورت میں شفا رکھی ہے۔شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن پاک کی سورہ النحل، 16 : 69 میں فرماتے ہیں:
فِیہِ شِفَاءلِّلنَّاسِ
یعنی اس میں لوگوں کیلئے شفاہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوںفرمایا۔
شہد ہر جسمانی مرض اک علاج ہے اور قرآن حکیم ہر روحانی مرض کا علاج۔
شہد انسان کیلئے قدرت کی عطا کردہ بیش بہا نعمت ہے جس کانعم البدل کوئی نہیں۔خالق کائنات نے انسان کو جتنی غذائی نعمتیں بخشی ہیں ان سب میں شہد کو ممتاز درجہ حاصل ہے۔شہد ایک قدرتی پیداوار ہے،اس کا رنگ ،ذائقہ اور خوشبو مختلف پھولوں جیسی ہوتی ہے، جن کی مدد سے شہد بنتا ہے۔شہد عموما دو قسم کا ہوتا ہے،
ایک ہلکا زردی مائل اور شفاف، پتلا ، نہایت میٹھا، یہ چھوٹی مکھی کا اعلی درجے کا شہد مانا جاتا ہے،دوسرا بادامی رنگ کا قدرے گاڑھا ہوتا ہے اور اس کے ذائقہ میں فرق ہوتا ہے۔
شہد کے اجزا:
امریکہ کے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے بہت بڑے کیمسٹ ڈاکٹر سی اے براو ¿ن نے شہد میں موجود مندرجہ ذیل غذائی اجزامعلوم کئے ہیں :
1۔پھلوں کی شکر 40 سے 50 فیصد
2۔انگور کی شکر 34.2 فیصد
3۔گنے کی شکر 1,9 فیصد
4۔پانی 17.7 فیصد
5۔گوند وغیرہ 1.5 فیصد
6۔معدنیات 0.18 فیصد
شہد میں فولاد، تانبہ، میگنیز، کلورین، کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، فاسفورس، گندھک،
ایلومینیم اور میگنیشئم بھی مناسب مقدار میں میں پائے جاتے ہیں۔
شہد معدے اور انتڑیوں کی جھلی میں خراش پیدا نہیں ہونے دیتا۔
یہ زود ہضم ہے۔
اس کا گردوں پر کوئی مضر اثر نہیں ہے۔
یہ اعصابِ ہضم پر بغیر بوجھ ڈالے حراروں کا بہترین سرچشمہ ہے۔
شہد تھکاوٹ کو بہت جلد دور کرتا ہے اور اسے باقاعدہ اِستعمال کرنے والا جلدی نہیں تھکتا۔
یہ کسی حد تک قبض کشا بھی ہے۔السر کی صورت میں نہار منہ ایک گلاس ٹھنڈے پانی میں دو چمچے شہد ڈال کر پی لیں،بعد میں ہر کھانے کے بعد ایک چمچ شہد لے لیں۔شہد میں نمک ملا کر آگ پر رکھیں، جب شہد پھٹ جائے تو اسکا پانی لے کر بچوں کو پلائیں یہ کھانسی کےلئے بہترین ہے۔
جلی ہوئی جگہ پر شہد کا لیپ کرنے سے ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے ،شہد کے برابر زیتون کا تیل ملا کر لگانے سے جلن ختم ہو جاتی ہے اور آبلہ کی جگہ نشان باقی نہیں رہتا۔شہد آنکھوں کے جملہ امراض کیلئے بے حد مفید ہے۔
رات کو سوتے وقت خالص شہد کی ایک سلائی سرمہ کی طرح آنکھوں میں پھیر لیں یہ آنکھ کے مختلف امراض جیسے آشوب چشم،آنکھ کا سرخ ہو جانا، موتیا بند، شب کوری، اور آنکھوں کی بینائی تیز کرنے کیلئے بے حد مفید ہے۔
ملیریا بخار کی صورت مین ایک لیٹر پانی میں چار چمچ شہد ملا کر گاہے بگاہے مریض کو پلائیں۔
بچوں میں پیٹ کے درد کی صورت میں ایک چمچ سونف،عرق گلاب ایک چمچ،عرق پودینہ ایک چمچ، شہد آدھا چمچ ملا کر تین دن تک دن میں تین یا چار بار استعمال کروانے سے پیٹ کے درد میں افاقہ ہوتا ہے۔
موٹاپے کا قدرتی علاج :
حسن و صحت کے اضافہ میں شہد کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔شہد موٹاپے کا قدرتی علاج ہے،نہار منہ ایک گلاس نیم گرم پانی میں شہد، لیمو ملا کر پینے سے جسم کی اضافی چربی کم ہوتی ہے اور جسم متوازن ہونے لگتا ہے۔ لیموں پانی کے فوائد کے متعلق تو آپ نے بہت سنا ہوگا لیکن اگر آپ پانی کو نیم گرم کرلیں، اس میں آدھا لیموں نچوڑ لیں اور تھوڑا سا شہد بھی ڈال لیں اور اس مشروب کو صبح نہار منہ پئیں تو اس کے فوائد کا شمار ممکن نہیں۔
1۔لیموں اور شہد میں پائے جانے والے الیکٹرولائٹ، پوٹاشیم، کیلشیم اور میگنیزیم جسم کو تروتازہ کرتے ہیں اور پانی کی کمی فوراً پوری ہوجائے گی۔
2۔جوڑوں اور پٹھوں کا درد غائب ہوجائے گا۔
3۔نظام انہضام بہتر ہوجائے گا۔
4۔جسم میں خامروں کی بہتات ہوجاتی ہے۔
5۔جگر کی صفائی ہوجائے گی۔
6۔گلے کے انفیکشن اور سوزش سے نجات مل جاتی ہے۔
7۔آنتیں صاف ہوجاتی ہیں۔
8۔جسم میں بیماری سے بچانے والے اینٹی آکسیڈنٹ پیدا ہوتے ہیں۔
9۔عصبی نظام مضبوط ہوتا ہے اور ڈپریشن اور ذہنی دباوسے نجات ملتی ہے۔
10۔خون کی شریانوں کی صفائی ہوتی ہے۔
11۔بلڈ پریشر نارمل ہوجاتا ہے۔
12۔یہ مشروب جسم میں PH کا لیول بڑھاتا ہے جس سے بیماریوں کی روک تھام ہوتی ہے۔
13۔وٹامن سی کی مدد سے جلد صاف اور صحتمند ہوجاتی ہے۔
14۔یورک ایسڈ تحلیل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے جوڑوں کے درد سے نجات ملتی ہے۔
15۔یہ حاملہ ماو ¿ں کیلئے بہت ہی مفید ہے، یہ ماں کو وائرس اور فلو سے بچاتا ہے اور بچے کی ہڈیاں اور عصبی نظام خصوصاً دماغ کو مضبوط بناتا ہے۔
16۔سینے کی جلن ختم ہوجاتی ہے۔
17۔گردے اور پینکریاز کی پتھری تحلیل ہوجاتی ہے۔
18۔لیموں کا پیکٹن فائبر وزن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
19۔دانت کے درد اور مسوڑھوں کے مسائل کا خاتمہ ہوتا ہے۔
20۔لیموں کی الکلی خصوصیات کینسر کے خطرات کو کم کردیتی ہیں۔
شہد جلد کی خرابی دور کرتا ہے، سونے سے قبل ایک گلاس دودھ میں ایک چمچ شہد کا مسلسل استعمال کرنے سے جلد کی بیماریاں دور ہوتی ہیں۔
 احادیث میں بھی شہد کے اندر کم سے کم ستر بیماریوں کی شفا کا ذکر کیا گیا ہے۔موجودہ دورکی جدید سائنس ہزاروں سال کے بعد ان باتوں کو ثابت کر رہی ہے۔ حال ہی میں ایمسٹرڈم کے ایک میڈیکل سینٹر میں شہد کے انسانی جسم پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات پر کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شہد میں ایسی صلاحیت موجود ہوتی جو جسم میں موجود جراثیم کو ختم کرسکتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیاں ایک ایسا پروٹین پیدا کرتی ہیں جو انسانی صحت کیلئے انتہائی شفا بخش اور مفید ہے۔
ڈیفنسن نامی یہ پروٹین قدرتی شہد میں پایا جاتا ہے جو جلد کے امراض اور انفیکشن سمیت کئی بیماریوں سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
 شہد کیلشیئم،جس سے دانت اور ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں، اور وٹامن سی،جو نظام انہضام کیلئے فائدے مند ہے ، کی بھرپور طاقت رکھتا ہے۔ یہ مرکباب مضبوط اور کام کاج کے دوران جسم کی زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے میں ایک بااثر کردار ادا کرتا ہے۔ ان سب صحت مندانہ زندگی کیلئے شہد کی وافر مقدار چاہئے ہوتی ہے لیکن ہمیشہ اعتدال میں رہ کر اس کو استعمال کریں۔
شہد کے مزید فوائد :
٭ شہد جسم سے فاسد مادوں کو نکالتا ہے اور زہریلے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔
٭ شہد مثانہ اور گردہ کی پتھری کو توڑ کر نکالتا ہے۔
٭ یرقان، فالج، لقوہ اور امراض سینہ میں مفید ہے۔
٭ شہد جگر کے فعل کو بیدار کرتا ہے۔
٭ عورتوں کیلئے شہد بہترین علاج ہے۔
٭شہد کو سرکے میں حل کر کے دانتوں پر لگایا جائے تو مسوڑھوں کے ورم دور کرنے کے علاوہ دانتوں کو چمکدار بھی بناتا ہے۔
٭عرق گلاب میں شہد کو حل کر کے لگانے سے جوئیں مر جاتی ہیں۔
٭ دمہ کے مرض میں نالیوں کی گھٹن کو دور کرنے اور بلغم نکالنے کیلئے گرم پانی میں شہد سے بہتر کوئی دوا نہیں۔
٭ گلے کی سوزش کیلئے گرم پانی میں شہد ملا کر غرارے کرنا مفید ہے۔
٭ نہار منہ اور عصر کے وقت شہد گرم پانی میں ملا کر پینا توانائی مہیا کرتا ہے اور سانس کی نالیوں کے ورم بھی دور کرتا ہے۔
 جلد کی خوبصورتی :
صدیوں سے شہد کو جرثوموں پیداواری کی خصوصیات اور جلد کی خوبصورتی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں داغ اور دھبے وغیرہ مٹانے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ جلد کی مختلف کنڈیشن پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے جیسا کہ ایگزیما، جلد کا روکھا پند اور جلد کی دیگر بیماری وغیرہ۔ اس کے جادوئی کمالات سے چہرے کی صفائی، لوشن اور فیس ماسک بھی بنایا جاتا ہے۔ گرم پانی میں پتلا شہد سر کی خشکی اور گرتے ہوئے بال کو روکنے کیلئے علاج کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
٭فوری طور پر توانائی کو فروغ دینے کیلئے شہد میں شامل قدرتی شکر توانائی بحال کرنے کیلئے کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین اکثر مشورہ دیتے ہیں کہ شہد کو ایک صاف ستھرے برتن میں رکھ کر کھائیں ورزش سے پہلے اور بعد میں کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہ مذیدار چیز علاج کیلئے اور کھانے کی ہکی پھلکی چیز کے طور پر بہت فائدے مند ہے۔
مدافعاتی نظام کو قوت:
ایک چائے کا چمچ کے برابر شہد فلو، عام سردی اور گلے میں خراش کو ہمارے جسم کے اندر داخل ہونے سے حیرت انگیز طور پر روک سکتا ہے۔ اس کی بھرپورغذائیت کی وجہ سے وٹامن سی ، معدنیات اور انزائم کی ایک مضبوط ڈھال وجود میں آتی ہے جو بکٹیریا اور دیگر بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ ماہرین اکثر مشورہ دیتے ہیں کہ گرم پانی میں شہد ڈالیں اور ساتھ میں لیمو کا رس بھی اس میں ملائیں اور اسے اپنی روز مرہ کی عادت میں شامل کرلیں۔ آپ کے جسم کیلئے شہد کے ساتھ ڈیٹوس مدد کریگا۔ اور ٹوکسن کی صفائی پر اثر انداز ہوگا۔ یعنی آپ کے جسم کے ذہریلے مادوں کو جسم سے باہر نکال دیگا۔
بدہضمی:
شہد آپ کے نظام ہاضمہ پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور کھانا ہضم کرنے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ گیس میں اضافہ کی حاجت اور پیٹ کی تیزابیت کو بے اثربناتا ہے۔ پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد جسم کو آرادم دہ محسوس کرنے کیلئے۔ گرم پانی، لیموں اور شہد کا ایک شربت تیار کریں۔ یہ آپ کے نظام ہاضمہ کو بے حد آرام پہنچائیگا۔ شہد کی اینٹی سیپٹک خصوصیات شہد کی افادیت کا اندازہ لگانے کیلئے مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
دارچینی کیساتھ فوائد:
اس امر کامشاہدہ کیا گیا ہے کہ شہد اورپسی ہوئی دارچینی بہت سی بیماریوں کیلئے اکثیر کا درجہ رکھتے ہیں۔ شہد دنیا کے تقریبا ہر ملک میں پیدا ہوتا ہے۔موجودہ زمانے کے سائنس دان یاڈاکٹرحضرات بھی اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ شہد بہت سی بیماریوں کا شافی علاج ہے۔ شہد کو کسی بھی بیماری میں بغیر کسی نقصان Side Effectکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آج کے دور کے ماہرین طب یاڈاکٹرز اس بات پہ متفق ہیں کہ شہد اگرچہ اپنے اندر مٹھاس رکھتا ہے۔ لیکن اگر اسے بطور دوا مناسب مقدار میں استعمال کیا جائے تو یہ شوگرDiabeticsکیلئے بھی فائدہ مند ہے۔ کینڈا میں چھپنے والے ایک رسالہ ہفت روزہ ورڈنیوز World News کے شمارہ 17جنوری1995میں شہد اور دار چینی کے استعمال سے ڈاکٹروں کے تجربات کی روشنی میں مندرجہ ذیل بیماریوں میں استعمال سے کامیاب علاج ممکن رہا۔ 
 دل کی بیماریاں:Heart Diseases
طریقہ استعمال : 
شہد اور دارچینی کا آمیزہ بنا لیں اس آمیزے کو جام یا جیلی کی جگہ سلائس پر لگا لیں اور اسے ناشتہ میں بلا ناغہ استعمال کریں۔ اس کا استعمال شریانوں سے کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتا ہے اور مریض کو دل کے دورے سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اشخاص بھی جنہیں دل کا دورہ ہوچکا ہو اگر وہ متواتر استعمال کریں تو دوسرے اٹیک سے کوسوں دور یعنی محفوظ رہیں گے۔ اس آمیزے کا لگا تار استعمال ، سانس کی تنگی دور کرتا ہے اور دل کی دھڑکن کو تقویت دیتا ہے۔امریکہ اور کینڈا میں مختلف اسپتالوں میں لوگوں کا کامیاب علاج کیا گیا ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ جوں جوں عمر بڑھتی ہے شریانیں اور دل کی نالیاں سخت ہوتی جاتی ہیں اور ان میں تنگی پیدا ہونے لگتی ہے۔ درج بالا نسخہ سے یہ تکالیف بھی دور ہو جاتی ہیں۔ 
 ہڈیوں کا بھر بھرا پن اور دوسری تکالیف:Arthritis
اتھرائیٹس کے مریض روزانہ صبح و شام دو دوفعہ شہد او ر دارچینی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ 
طریقہ استعمال : 
ایک کپ گرم پانی لیں اور اس میں دو چمچ شہد اور چھوٹا چائے کا چمچ دارچینی پوڈر حل کر لیں۔ اگر اس کا لگا تار استعمال جاری رکھا جائے تو پرانے سے پرانے مریض بھی شفا یاب ہو جاتے ہیں۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈاکٹروں نے صرف ایک چمچ شہد اور آدھے چائے کے چمچ کے برابر دار چینی ایک کپ نیم گرم پانی میں ناشتہ سے پہلے استعما ل کروائی تو ہفتہ کے اندر اندر 200 مریضوں میں سے 73 مریض درد سے مکمل آرام پاگئے اور ایک مہینے کے اندر اندر سارے ہی مریض شفا یاب ہوگئے اور جو اشخاص چلنے پھرنے سے قاصر تھے وہ بھی بغیر تکلیف کے چلنے پھرنے لگے۔ 
مثانہ کا انفیکشن:Bladder Infection
د و کھانے کے چمچے دار چینی پوڈر اورا یک چائے کے چمچ کے برابر شہد کو نیم گرم پانی میں حل کر کے پی لیں۔ یہ مثانے میں موجود مضر جراثیم کو تلف کر دیتا ہے۔ 
دانت درد:Toothache
ایک چائے کے چمچ برابر دار چینی پوڈر کو پانچ چائے کے چمچ برابر شہد میں ملا کر پیسٹ بنا لیں اور اس پیسٹ کو دکھنے والے دانت یا دانتوں پراس وقت تک ملتے رہیں۔ جب تک درد کا آرام نہ آجائے۔ یہ پیسٹ دن میں تین بار تک استعمال کیا سکتا ہے۔
کولیسڑول:Cholesterol
کولیسٹرول کیلئے دو کھانے کے چمچ شہد اور تین چائے کے چمچ دار چینی کے لے کر 16 اونس قہوہ یاچائے میں حل کریں اور محلول جب ہائی کولیسٹرول کے مریض کو پلا یا گیا تو دو گھنٹے کے اندر اندر اس کا بلڈ کولیسڑول دس فی صد تک کم ہوگیا۔ اگر یہ نسخہ دن میں تین بار استعمال کریں تو پرانا اورخطر ناک حدتک بڑھا ہوا کولیسڑول بھی نارمل ہو جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر روزمرہ خوراک کے ساتھ شہد استعمال کیا جائے تو کولیسٹرول کا پرابلم پیدا ہی نہیں ہوتا۔
 نزلہ ، زکام:Cold
جن لوگوں کوعام یا شدید قسم کا نزلہ ، زکام ہو وہ کھانے کے ایک چمچ برابر نیم گرم شہد میں چوتھائی یعنی1/4 چمچ دار چینی کا پوڈر ڈال کر دن میں تین بار استعمال کریں۔ اس کے استعمال سے پرانی ، کھانسی اور نزلہ ، زکام کے علاوہ ناک کی بندش Sinusesوغیرہ بھی دور ہوجاتی ہے۔
 معدہ کی خرابی:Upset Stomach
شہد اور دار چینی کا استعمال معدے کے درد اور السر وغیرہ کو جڑ سے ختم کر دیتا ہے۔
 گیس:Gas
ہندوستان اور جاپان میں کئے گئے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اگر شہد او رپسی ہوئی دار چینی استعمال میں لایا جائے تو معدہ کی گیسز فوری طور پر خارج ہو جاتی ہیں۔
 مدافعتی نظام:Immune system
شہد اور دار چینی کا روزانہ استعمال مدافعتی نظام کو طاقت ور بنا دیتا ہے۔ انسان بیکٹیریا اور وائر ل انفیکشن سے محفوظ رہتا ہے۔ سائنسدانوں نے معلوم کیا کہ شہد میں مختلف وٹامن اور آئرن یالوہا کی ایک بڑی تعداد میں موجود ہے اور اس کا لگا تار استعمال خون کے سفیدذرات کو تقویت دے کر بیکٹیریا اور وائرل انفیکشن کے حملہ سے محفوظ رکھتا ہے۔
 بدہضمی:Indigestion
کھانے کے دو چمچ شہد پر دارچینی پوڈر چھڑک کر کھانے سے پہلے استعمال کرنے سے معدے کی تیزابیت ، بد ہضمی اور پیٹ کے بھاری پن سے نجات ملتی ہے اور ہر قسم کا کھانا ہضم ہو جاتا ہے۔
انفلوئنزا:Influenza
اسپین کے ایک سائنسدان نے ثابت کیا کہ شہد میں ایسی تاثیر ہے جو انفلوئنزا کے جراثیم کو ہلاک کرتی ہے اورانسان فلو سے محفوظ رہتا ہے۔ 
دیر پا ، خوش و خرم زندگی:Logevity
شہد اور دار چینی سے بنائی گئی چائے اگر لگاتار استعمال کی جائے تو اس سے بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ 
o چار چمچ شہد لیں o ایک چمچ دار چینی کا پوڈر oاور تین کپ پانی تینوں کو ابال لیں کہ چائے کی شکل بن جائے۔ ایک چوتھائی کپ یہ چائے دن میں تین بار استعمال کریں اس سے آپ کی جلدتروتازہ رہے گی اور بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات ظاہر نہیں ہوں گے۔ اس سے زندگی کا دورانیہ بھی بڑھنے کی امید ہے اور یہ اتنی طاقتور ہے کہ اس سے سو سال کا بوڑھا بھی بیس سالہ نوجوان کی طرح چاک وچوبند ہو جائے گا۔
وزن کم کرنے کیلئے:Weight loss
روزانہ ناشتہ سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اور رات کو سونے سے پہلے شہد اور دار چینی پوڈر کا ایک کپ ابلے ہوئے پانی میں استعمال کریں۔ اس کے لگاتار استعمال سے بد صورت آدمی بھی خو ش شکل ہوجا تا ہے۔ اس کا لگاتار استعمال جسم میں چربی کو اکٹھا ہونے سے روکتا ہے اگرچہ کہ کوئی شخض زیادہ کولیسٹرول والی خواراک استعمال کر رہا ہو۔ 
 کینسر:Cancer
جاپان اورآسٹریلیا میں ہونے والی تازہ تحقیق کے مطابق معدہ کا پرانا کینسر اور ہڈیوں کا کینسر کامیابی سے کنٹرول کیا گیا ہے۔ اس طرح کی بیماری میں مبتلا اشخاص کو روزانہ ایک چائے کا چمچ دار چینی پوڈر اور ایک کھانے کا چمچ شہد میں ملا کر دن میں تین دفعہ ایک ماہ تک لگا تار استعمال کرنا چاہیے۔
نقاہت ، کمزوری ، تھکاوٹ وغیرہ:Fatiue 
تاز ہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ شہد کا میٹھا نقصان کی بجائے جسم کیلئے مفید ہے خصوصا بڑی عمر کے لوگ جنہوں نے شہد اور دار چینی پوڈر ہم وزن استعمال کیا وہ زیادہ چاک و چوبند نظر آئے۔ ڈاکٹر ولیم جنہوں نے یہ تحقیق کی ہے کہتے ہیں کہ کھانے کا آدھا چمچ شہد ایک گلاس پانی میں حل کر کے اوپر دار چینی کے پوڈر کا چھڑکاوکر کے اگر دانت صاف کرنے کے بعد خالی پیٹ او رپھر سہ پہر 3 بجے تک استعمال کیا جائے توان اوقات میں پیدا ہونے والی مدافعاتی کمی کو کم کر کے قوت مدافعت کو ایک ہفتہ کے اندر اندر بحال کر دیتا ہے۔


CSE lab study: 
Busting the myth about ‘pure and natural’ honey
By: S. A. Sagar
A latest study by CSE’s Pollution Monitoring Lab finds antibiotic contamination in honey; investigations by Down To Earth points to double standards in regulations as foreign brands sold in India also have contamination
 New study by Centre for Science and Environment’s (CSE) Pollution Monitoring Laboratory finds high levels of antibiotics in leading brands of honey sold in Delhi
 Brands include names like Dabur and Patanjali, as well as foreign brands
 Continued long-term exposure to these medicines can lead to serious health effects, besides triggering antibiotic resistance in pathogens
 For this reason most countries have banned antibiotics in food products and reject honey exported with this contamination
 India regulates antibiotics in the honey it exports, but not in the honey sold domestically. Health of Indian public is low on the priority of Indian regulators
 This regulatory indifference allows foreign companies to sell contaminated honey in our country, something which they will not be allowed to do in their own countries
 Food is our business, says CSE. But government wants to hand it over to corporations and big businesses. Study shows food regulators in the country are weak and indifferent to public health concerns and consumer safety
Nectar, a symbol of well-being – the honey that millions buy believing it is pure, natural and healthy - is contaminated with high levels of antibiotics, fed to bees and is bad for our health. This is the finding of a new study done by Centre for Science and Environment’s (CSE) Pollution Monitoring Laboratory, which had earlier tested colas for pesticides and toys for poisonous chemicals. According to reoports from New Delhi, September 15, 2010, the study, which tested leading brands of honey, found high levels of antibiotics – from the banned chloramphenicol to broad spectrum ciprofloxacin and erythromycin – in almost all brands sold in the market. The leading Indian honey producers - Dabur, Baidyanath, Patanjali Ayurveda, Khadi, Himalaya – all had two-four antibiotics in their products, much above the stipulated standards. But what is even worse and shows the regulatory double-standards is that the two foreign brands tested by CSE – from Australia and Switzerland – had high levels of antibiotics and would certainly be illegal in their own countries.
“It is clear that foreign companies are taking advantage of the lack of regulations in India. After all, if our government does not care about the health of its people, why should these companies care?” said Sunita Narain, director, CSE, at the release of the study’s findings here today. “We have standards for antibiotic contamination in the honey we export. Government even tests and certifies that exported honey meets health and safety regulations. But we do not have any standards for domestic honey. This is clearly unacceptable.”
Besides the presence of the contaminants, investigations by CSE has also exposed the murky underbelly of the international honey trade, where fraud, deceit and illegal trade practices rule the roost (see Factsheet on international trade for details).
To begin with, two key questions
1. Antibiotics are medicines. So why are they bad in honey?
Studies have pointed out that chronic exposure to antibiotics – doses taken in small amounts on a daily basis for a long period -- can lead to a variety of health problems. For instance, exposure to oxytetracycline, one of the antibiotics tested by the CSE lab, can lead to blood-related disorders and liver injury. But more importantly, antibiotics in honey (and perhaps other foods as well) have the potential to generate large-scale antibiotic resistance, leading to a collapse of healthcare systems and medications (see Factsheet on antibiotic resistance and health impacts).
“Moreover”, asks Chandra Bhushan, deputy director, CSE, “internationally, regulations consider honey to be a ‘natural’ product. We eat it because we believe it will do us good, because it is ‘pure’. So why should we be finding human-made antibiotics in it?”
He adds: “Regulators in the European Union (EU) and the US say antibiotics in honey are ‘unauthorised’ and therefore ‘illegal’, unless there is a standard regulating their levels. India does not have any standards for domestically marketed honey, which gives a good excuse to our regulators to look the other way while public health gets battered.”
 2. Where does honey get antibiotics from?
The beekeeping industry uses antibiotics to control and prevent outbreaks of diseases in honeybees, and as growth promoters to increase production. And these antibiotics are finding their way into that spoonful which reaches the householder’s table. This is also because the biodiversity of bees has changed – the Indian bee, more adapted to natural environments, has been replaced by the more productive European bee (Apis mellifera). Simultaneously, the trade of honey collection has also changed – from small producers to large cartels of honey producers – contracting small producers and pushing for high productivity and profits. The business is no longer that of health.
The CSE study
CSE’s Pollution Monitoring Lab, or PML, tested 12 branded honey samples for six antibiotics, and found antibiotics in 11 samples. The tested samples were bought randomly from various markets in Delhi in July 2009. Of the 12, 10 were Indian brands and two were imported brands.
The six antibiotics that PML looked for were oxytetracycline, chloramphenicol, ampicillin, erythromycin, eurofloxacin and ciprofloxacin. Among the domestic brands tested were Dabur Honey of Dabur India Ltd, which holds over 75 per cent of the market share in the branded segment; Himalaya Forest Honey of Himalaya Drug Company, one of India’s oldest Ayurveda drug companies; Patanjali Pure Honey of Patanjali Ayurved Ltd, Haridwar; and Baidyanath Wild Flower Honey of Shree Baidyanath Ayurved Bhavan Pvt Ltd (Kolkata), which has about 10 per cent share in the branded honey market (see table for complete list).
The two imported brands were Capilano Pure & Natural Honey of Capilano Honey Ltd, the market leader in Australia, exporting honey to over 40 countries; and Nectaflor Natural Blossom Honey of Narimpex AG with its production site in Biel, Switzerland.
 Oxytetracycline or OTC was found in 50 per cent of the samples in the range of 27 to 250 microgram per kg (µg/kg). This is almost 3 to 25 times higher than the 10 µg/kg standard fixed by the Indian government’s Export Inspection Council (EIC) for exported honey. The highest level was detected in Khadi Honey of Khadi Gram Udyog Sewa Samiti, Madhyapura, Bihar.
 Chloramphenicol, banned by the EU was found in 25 per cent of the samples, with its levels 9 to 15 times higher than the 0.3 µg/kg standard fixed by the EIC. The highest level was detected in Gold Honey of Vardhman Food & Pharmaceuticals.
 Ampicillin was found in 67 per cent of the samples at a concentration of 10 to 614 µg/kg. The highest level was detected in Nectaflor Natural Blossom Honey of Switzerland. There is no standard for ampicillin in honey in any country because it is not supposed to be used in beekeeping. It is, therefore, an unauthorised or illegal substance in honey. Similarly, enrofloxacin, ciprofloxacin and erythromycin, which do not have any standards either, are being illegally used.
 Dabur Honey had 91.3 µg/kg of OTC, which is nine times the EIC standard. It also had 26.6 µg/kg of ampicillin and 88.7 µg/kg of enrofloxacin. Essentially, the sample was found to be non-compliant with the EIC standards and would be rejected if placed for exports to the EU or the US.
 Of the six antibiotics tested, the highest number - five – were detected in the Swiss Nectaflor Natural Blossom Honey sample. It had 112 µg/kg of OTC, 11 times the EIC standard. Chloramphenicol was found at a level of 3.6 µg/kg, which is 12 times over the EIC standard. It also had highest levels of ampicillin and erythromycin. The sample was found to be non-compliant with the EIC as well as EU regulations.
 The Capilano Pure & Natural Honey sample was found to contain three antibiotics and was non-compliant with the EIC export standards as well as some standards imposed in Australia itself.
 The fact that more than one antibiotic was found in the samples indicates that the prevalent practice is to collect honey from different sources and then blend them before packing and distributing for sale. This brings into question the issue of traceability of honey.
  We’re Indians. We don’t need regulations
What’s strange is the reticence of Indian regulators towards setting and enforcing standards. In India, honey is currently regulated under three legislations:
 Prevention of Food Adulteration (PFA) Rules, 1955, which is a mandatory standard.
 The Bureau of Indian Standards (BIS) norms for extracted honey (IS 4941:1994).
 Honey Grading and Marking Rules, 2008 under the Agricultural Produce (Grading and Marking) Act, 1937 (AGMARK).
All three define honey as a “natural product” and lay down standards for its composition and quality (sucrose content, total reducing sugars, hydroxymethyl furfural, moisture content etc) - but there are no standards for antibiotics or other contaminants in honey (see Factsheet on regulations).
The Export Inspection Council (EIC) has however set antibiotic standards for the honey that is exported. This is referred to as ‘Level of Action (LOA)’ - the limit beyond which a sample is deemed non-compliant and rejected for exports. An elaborate system of monitoring (called Residue Monitoring Plan or RMP) has also been put in place, and the EIC, under the Union ministry of commerce and industries, has been entrusted with the task of checking exports.
The country suffers in case of improper monitoring or checks – in June 2010, the EU had banned Indian honey from entering any of its 27 member countries because the consignments were contaminated with antibiotics and heavy metals.
But these monitoring, checks and norms do not apply to honey available in the domestic market. There are hardly any reports on antibiotic contamination of honey consumed within the country. India also imports honey -- but there is no standard to check its quality either. Says Narain: “Food safety regulations are supposed to be monitored by the Food Safety and Standards Authority of India.
But the Authority, despite being in existence for almost four years, has failed to do anything to safeguard consumer health. Says Narain: “In fact, it only works for the benefit of big business to undermine our bodies and our health. Our study on honey is only one indicator of the takeover of our food business and tells us that action is needed fast and urgent. We cannot allow business to be more important than the food we eat.”
http://www.cseindia.org/content/cse-lab-study-busting-myth-about-%E2%80%98pure-and-natural%E2%80%99-honey

270915 kahan muyassar hai khalis aur qudarati shahad by s a sagar 



No comments:

Post a Comment