Sunday, 6 September 2015

کڑوی سچائی...

ایس اے ساگر
ان دنوں سماجی رابطہ کی سائٹ واٹس سیپ پر 'ایک کڑوی سچائی۔۔۔۔۔' کے عنوان سے بے سروپا پوسٹ گشت کررہی ہے کہ...
"اگر مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر بھی اکبر کی طرح جودھا بائی کی طرح کوئی مینا بائی کو رکھیل  رکھا ہوتا تو آج آر ایس ایس کا داماد ہوتا۔۔۔۔
اور سڑک کا نام تبدیل نا کیا گیا ہوتا۔۔۔۔"
یوں تو مغل حکمرانوں کی کردار کشی میں شر پسندوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن رونا تو اس بات کا ہے کہ جانے انجانے میں دیگر لوگ بھی اس میں شامل ہورہے ہیں.دراصل جودھا اکبر کا قصہ تحقیق طلب ہے...دنیا جانتی ہے کہ اردو ڈراما کی تاریخ میں امتیاز علی تاج کی تخلیق ڈراما ’’انار کلی‘‘ کو جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے وہ اپنی مثال آ پ ہے۔ یہ ڈراما پہلی بار 1932ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اس ڈرامے کی مقبولیت بر قرار ہے۔ بھارت میں انارکلی کی کہانی کی اساس پر ایک فلم ’’مغل اعظم‘‘بنائی گئی جسے فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ اپنی نوعیت کے لحاظ سے انارکلی ایک ایسی رومانی داستان ہے جس کے حقیقی مآخذ کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس تاریخی حقیقت یا دستاویزی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ نور جہاں اور جہانگیر کے کبوتروں والا معاملہ ہے جو کبھی تھا ہی نہیں مگر لوگ اب تک اسے کالنقش فی الجر قرار دیتے ہیں۔ انار کلی کی پوری داستان ایسے واقعات سے لبریز ہے جو سرے سے کبھی وجود میں ہی نہیں آئے۔ خود امتیاز علی تاج نے اس ڈرامے کی حقیقت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کو تاریخی واقعات سے متصادم سمجھتے ہوئے اس کی افسانوی حیثیت کو واضح کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انار کلی کا واقعہ 1599ء میں وقوع پذیر ہوا۔ یورپی سیاح ولیم فنچ جو 1618ء میں لاہور پہنچا، اس نے اپنی یاد داشتوں میں اس المیے کا ذکر بڑے دردناک انداز میں کیا ہے۔ اس نے پوری کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح اس من گھڑت واقعے کے ذریعے مغل شہنشاہ اکبر کو بد نام کیا جائے۔ اس نے اکبر کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس کے بعد 1618ء میں ایک اور یورپی سیاح ایڈورڈ ٹیری لاہور آیا، اس نے بھی اپنے پیش رو سیاح کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس فرضی داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا۔ دراصل یہ ایک سازش تھی جسے مسلسل آگے بڑھایا جا رہا تھا۔ چار سال بعد یعنی 1622ء میں یورپ سے سیاحت کی غرض سے آنے والے ایک اور سیاح ہربرٹ نے بھی اس قصے کو اپنی چرب زبانی سے خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔ اس کے باوجود کسی نے ان بے سروپا الزامات پر کان نہ دھرا۔ اس زمانے میں ادب کے سنجیدہ قارئین نے اس قسم کے عامیانہ نوعیت کے بیانات کو کبھی لائق اعتنا نہ سمجھا۔ پورے دو سو سال تک بر صغیر کے لوگ اس قصے سے لا علم رہے کسی غیر جانب دار مورخ کے ہاں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ نور الدین جہانگیر نے تزک جہانگیری میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس عہد کے ممتاز مورخ والہ داغستانی اور خافی خان جو اکبر اور جہانگیر کی معمولی نوعیت کی لغزشوں پر بھی نظر رکھتے تھے، انھوں نے بھی کسی مقام پر اس قصے کو ذکر نہیں کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام قصہ محض تخیل کی شادابی ہے۔ یورپی سیاحوں نے اپنی منفی سوچ کو بروئے کا لاتے ہوئے سازش کا جو بیج بویا وہ رفتہ رفتہ نمو پاتا رہا۔ 1864ء میں مولوی نور احمد چشتی نے اپنی تصنیف ’’تحقیقات چشتی‘‘میں انار کلی اور اکبر کے اس رومان کا ذکر کیا ہے۔ 1882ء میں کنہیا لال ہندی نے اپنی تصنیف ’’تاریخ لاہور‘‘میں انار کلی، اکبر اور سلیم کے اس المیہ قصے کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ سلسلہ مقامی ادیبوں کے ہاں ایک طویل عرصے کے بعد اس قصے کی باز گشت سنائی دینے لگی۔ سید محمد لطیف نے بہت بعد میں انار کلی اور اکبر کے اس المیے کا ذکر اپنی تصنیف (History of Lahore) میں کیا ہے۔ یہ انگریزی کتاب 1892ء میں شائع ہوئی۔ تاریخ حقائق سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انار کلی، اکبر اور سلیم کا یہ رومانی المیہ جسے ابتدا میں یورپی سیاحوں نے محض تفنن طبع کے لیے اختراع کیا، آنے والے دور میں اس پر لوگوں نے اندھا اعتماد کرنا شروع کر دیا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کو خرافات کے سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ آثار قدیمہ، تاریخی حقائق اور دستاویزی ثبوت اس تمام المیہ ڈرامے کو جھوٹ کا پلند قرار دیتے ہیں۔ وہ دیوار جس کے بارے میں یہ شو شہ چھوڑا گیا کہ اس میں انار کلی کو زندہ دفن کیا گیا۔ اس کے آثار لاہور شہر میں کہیں موجود نہیں۔ انار کلی کے تنازع پر جنرل مان سنگھ اور شہزادہ سلیم کی مسلح افواج کے درمیان جو خونریز جنگ ہوئی اس کے میدان جنگ، مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی علم نہیں۔ جنرل مان سنگھ تو مغل افواج کی کمان کر رہا تھا شہزادہ سلیم نے ایک بڑی فوج کہاں سے حاصل کی اور اس کی تنخواہ اور قیام و طعام کا بندوبست کیسے ہوا؟ جنرل مان سنگھ کی کامیابی کے بعد شہزادہ سلیم کی حامی اور اکبر کی مخالف فوج پر کیا گزری؟کیا اکبر کی سراغ رسانی اس قدر کم زور تھی کہ اسے دلآرام کے علاوہ کسی سراغ رساں نے اس بات کی مخبری نہ کی کہ ولی عہد شہزادہ ایک کنیز کے چنگل میں پھنس کر بغاوت پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ کیا اکبر اعظم کا نظام سلطنت اس قدر کم زور تھا کہ اسے اپنے خلاف سازش اور بغاوت کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ سب سوال ایسے ہیں جو اس قصے کو نہ صرف من گھڑت ثابت کرتے ہیں بلکہ اسے یورپی سیاحوں کی بد نیتی اور ذہنی افلاس پر مبنی ایک صریح جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ لاہور سول سیکرٹیریٹ میں جو انارکلی کے نام سے موسوم ہے وہ انار کلی کا مقبرہ نہیں بلکہ زین خان کوکہ کی صاحب زادی "صاحب جمال "کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ شہزادہ سلیم کی منکوحہ تھی۔ اس کا مقبرہ شہزادہ سلیم نے اپنے عہد میں تعمیر کروایا۔ کسی کو شک ہو تو وہ فضہ پروین کی کتاب’’ادب دریچے ‘‘ سے رجوع کرسکتا.

No comments:

Post a Comment