Thursday 17 September 2015

کیوں کھاتے ہو میز کرسی پر؟

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت والد صاحب رحمہ لله نے ایک دن سبق میں ہمیں ایک واقعہ سنایا کہ ایک دن میں اور میرے کچھ رفقاء دیوبند سے دہلی گئے، جب دہلی پہنچے تو وہاں کهانا کهانے کی ضروت پیش آئی، چونکہ کوئی اور جگہ کهانے کی نہیں تهی اس لیے ایک ہوٹل میں کهانے چلے گئے اب ظاہر ہے کہ ہوٹل میں میز کرسی پر کهانے کا انتظام ہوتا ہے اس لیے ہمارے دو ساتھیوں نے کہا کہ ہم تو میز کرسی پر بیٹھ کر کهانا نہیں کهائیں گے کیونکہ زمین پر بیٹھ کر کهانا سنت ہے چنانچہ انہوں نے یہ چاہا کہ ہوٹل کے اندر زمین پر اپنا رومال بچهاکر وہاں بیرے سے کهانا منگوائیں -حضرت والد صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو منع کیا کہ ایسا نہ کریں بلکہ میز کرسی پر بیٹھ کر کهانا کهالیں انہوں نے کہا کہ ہم میز کرسی پر کهانا کیوں کهائیں؟ جب زمین پر بیٹھ کر کهانا سنت کے زیادہ قریب ہے تو زمین پر بیٹھ کر کهانے سے کیوں ڈریں اور کیوں شرمائیں ؟
حضرت والد صاحب رحمہ لله نے فرمایا کہ شرمانےاور ڈرنے کی بات نہیں بات دراصل یہ ہے کہ جب تم لوگ یہاں اس طرح زمین پر اپنا رومال بچهاکر بیٹھوگے تو لوگوں کے سامنے اس سنت کا مزاق بناؤ گے اور لوگ اس سنت کی توہین کے مرتکب ہو گےاور سنت کی توہین کا ارتکاب کرناصرف گناہ ہی نہیں بلکہ بعض اوقات انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے
اللہ تعالیٰ بچائے-
پهر والد صاحب نے رحمہ اللہ نے ان سے فرمایا کہ میں تم کو ایک قصہ سناتا ہوں ایک بہت بڑے محدث اور بزرگ گزرے ہیں جو"سلیمان اعمش"کے نام سے مشہور ہے-اور امام ابوحنیفہ رحمہ لله کے استاد بهی ہیں تمام احادیث کی کتابیں ان کی روایتوں سے بهری ہوئی ہیں،  عربي میں "اعمش" چندهے کو کہا جاتا ہے. جس کی آنکھوں میں چندهیاہٹ ہو جس میں پلکیں گر جاتی ہیں اور روشنی کی وجہ سے اس کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، چوں کہ ان کی آنکھیں چندهیائی ہوئی تھیں، اس وجہ سے"اعمش"کے لقب سے مشہور تهے ان کے پاس ایک شاگرد آگئے وہ شاگرد "اعرج" یعنی لنگڑے تهے .پاؤں سے معذور تهے شاگرد بهی ایسے تهے کہ جو ہر وقت استاد سے چمٹے رہنے والےتھے جیسے بعض شاگردوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر وقت استاد سے چمٹے رہتے ہیں جہاں استاد جارہے ہیں وہاں شاگرد بهی ساتھ ساتھ جارہے ہیں یہ بھی ایسے تهے-
چنانچہ امام اعمش رحمہ لله جب بازار جاتے تو یہ "اعرج" شاگرد بهی ساتھ ہوجاتے، بازار میں لوگ فقرے کستے کہ دیکهو استاد "چندها" ہے اور شاگرد "لنگڑا" ہے چنانچہ امام اعمش رحمہ لله نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ جب ہم بازار جایا کریں تو تم ہمارے ساتھ مت جایا کرو شاگرد نے کہا کیوں؟ میں آپ کا ساتھ کیوں چهوڑ دوں؟
امام اعمش رحمہ لله نے فرمایا کہ جب ہم بازار جاتے ہیں تو لوگ ہمارا مزاق اڑاتے ہیں کہ استاد چندها اور شاگرد لنگڑا ہے-
شاگرد نے کہا:حضرت! جو لوگ مزاق اڑاتے ہیں ان کو مزاق اڑانے دیں-
اس لیے کہ اس مزاق اڑانےکے نتیجے میں ہمیں ثواب ملتا ہے اور ان کو گناہ ہوتا ہے اس میں ہمارا تو کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے-
حضرت امام اعمش رحمہ لله نے جواب میں فرمایا کہ ارے بهائی!
وہ بهی گناہ سے بچ جائیں یہ بہتر ہے اس سے کہ ہمیں ثواب ملے اور ان کو گناہ ہو-
میرے ساتھ جانا کوئی فرض و واجب تو ہے نہیں اور نہ جانے میں کوئی نقصان بهی نہیں-البتہ فائدہ یہ ہےکہ لوگ اس گناہ سے بچ جائیں گے اس لیے آئندہ میرے ساتھ بازار مت جایا کرو-
یہ ہے دین کی فہم،
اب بظاہر تو شاگرد کی بات صحیح معلوم ہورہی تھی کہ اگر لوگ مزاق اڑاتے ہیں تو اڑایا کریں. ..
لیکن جس شخص کی مخلوق خدا پر شفقت کی نگاہ ہوتی ہے وہ مخلوق کی غلطیوں پر اتنی نظر نہیں ڈالتا، بلکہ وہ سوچتا ہے کہ جتنا ہوسکے میں مخلوق کو گناہ سے بچالوں، یہ بہتر ہے. اس لئے انہوں نے بازار جانا چهوڑ دیا-
بہرحال! جس جگہ یہ اندیشہ ہو کہ لوگ اور زیادہ ڈهٹائی کا مظاہرہ کریں گے تو اس صورت میں کچھ نہ کہنا بہتر ہوتا ہے-
(معاشرتی حقوق وفرائض :ص 302 تا 304)

No comments:

Post a Comment