Saturday 14 March 2015

اورنگزیب رحمة الله عليه کی چونّی

مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے استاد تھے۔ اورنگزیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔جب اورنگزیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔ اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہکے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔ استاد کو اپنے ساتھ لیکر اورنگزیب شاہی قلعے کیطرف چل پڑے۔رمضان کا سارا مہینہ اورنگزیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔۔ عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استادکو پیش کی۔ استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔اس کے بعد اورنگزیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔ جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظمنے بتایا۔ مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔یہ سن کر اورنگزیب حیران رہ گئے۔ کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے۔انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔ اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔مُلا احمد کا لباس، بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔ اس لیے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کچھ حوصلہ نہ ہو سکا۔ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے:آپ نے جو چونّی دے تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔ میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔ اورنگزیب یہ سن کر خوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا: اگر اجازت ہو توچونّی کی کہانی سناؤں۔ ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔اورنگزیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ "اتم چند" کو فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔ اسے اورنگزیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ اورنگزیب نے نرمی سے کہا: آگےآجاؤ اور بغیر کسی گھبراہت کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔مُلا احمد جیون اور اورنگزیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔ یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔ اورنگزیب نے نرمی سے پوچھا:ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا: اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟بادشاہ نے کہا : اجازت ہے۔ اس نے کہا: اے بادشاہِ وقت! ایک رات موسلا دھار بارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔ مکان نیا نیا بنا تھا۔ اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔ میں نے بڑی کوشش کی ، لیکن چھت ٹپکتا رہا۔ میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ میں نے مزدورخیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے؟وہ بولا کیوں نہیں۔وہ آدمی کام پر لگ گیا۔اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔ اتنے میں صبح کی آذان شروع ہو گئی۔ وہ کہنے لگا:سیٹھ صاحب! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے ،میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔ میں نے اس سے کہا:اے بھائی! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے ،اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نےاس کی بہت منتیں کیں ۔لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔میں نے مجبور ہو کر چونّی اس دے دیاور وہ لے کر چلا گیا۔اور اس کے بعد سے آج تک نہ مل سکا۔آج اس بات کو پندرہ برس گئے۔ میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا:یہ وہی چونّی ہے۔کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنے ہاتھ سے کمائی ہوگی۔ اورنگزیب نے کہا :ہاں واقعی اصل بات یہی ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لیے کبھی ایک پائی بھی نہیں لی۔ہفتے میں دودن ٹوپیاں بناتا ہوں۔ دو دن مزدوری کرتا ہوں۔o میں خوش ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
بحوالہ:کتاب/تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات
تحریر : محمد سرور

No comments:

Post a Comment