Tuesday 17 March 2015

مروجہ پاجامے اور شلوار کاحکم

کیا مروجہ شلوار صحابہ کرام سے ثابت ہے یا مروجہ پاجامہ؟ نیز آج کل پہنے جانے والی شلوار یا پاجامہ خلاف سنت رسول یا خلاف سنت صحابہ ہے؟مجھے ایک صاحب نے کہا ہے کہ مولانا مکی حجازی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہادت کے وقت شلوار پہنے ہوئےتھے، کیا یہ صحیح ہے؟
سیرت کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام معمول تہبند لنگی پہننے کا تھا، پاجامہ کا خریدنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن پہننا ثابت نہیں، البتہ صحابہ سے پاجامہ کا پہننا بھی ثابت ہے، لیکن وہ پاجامہ ڈھیلا ڈھالا ہوا کرتا تھا، جیساکہ لباس کی شرائط میں سے ہے کہ ڈھیلا ڈھالا ہو اور اس سے جسم نہ جھلکے، لہذا اگر مروجہ پاجامہ اور شلوار ان شرائط پر پورے اترتے ہوں تو وہ عین سنت تونہیں کہلائیں گے، لیکن سنت کے قریب اور صلحاء کا لباس ضرور ہیں۔
نیز اس موقع پر ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کسی عمل کا سنت کے مطابق نہ ہونا اور چیز ہے اور اس کا خلافِ سنت ہونا الگ شے ہے، اگر لباس شرعی اصولوں کے مطابق ہے تو  ضروری نہیں کہ وہ عین سنت کے مطابق بھی ہو، کیوں کہ سنت کے مطابق تو اسی صورت میں کہا جاسکتا ہے جب وہی لباس ہو جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہنا ہے۔ البتہ شرعی اصلوں کے مطابق ہونے کی بنا پر ایسے لباس کو خلافِ سنت بھی نہیں کہا جائے گا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بوقتِ شہادت پاجامہ پہننے کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے: زاد المعاد از امام ابن قیم رحمہ اللہ اور شمائلِ کبری از مفتی ارشاد احمد قاسمی۔ واللہ اعلم

http://fatwa.banuri.edu.pk/masla/murawwaja-pajamay-or-shalwar-ka-hukam/2014-10-24
بحث نہ کیا کرو
رسول صلي الله تعالٰی عليه و اٰلہِ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی سے (خوامخواہ) بحث نہ کیا کرو اور نہ اس سے (ایسی) دل لگی کرو جو اس کو ناگوار ہو اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کر سکو ( ترمذی، حیات المسلمین)
ماخوذ از:اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم" تالیف ڈاکٹر محمد عبدالحی " صاحب رحمۃ اللہ علیہ صفحہ 380

 پانچ چیزیں۔
عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: “كَانَ يُقَالُ: “خَمْسٌ كَانَ عَلَيْهَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعُونَ بِإِحْسَانٍ: لُزُومُ الْجَمَاعَةِ، وَاتِّبَاعُ السُّنَّةِ، وَعِمَارَةُ الْمَسَاجِدِ، وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ، وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ” (أصول اعتقاد أهل السنة، رقم 48)
اوزاعیؒ راوی ہیں، کہا: یہ مقولہ رہا ہے کہ: پانچ چیزیں ایسی ہیں جو محمدﷺ کے صحابہؓ اور تابعین باحسان کا دستور رہیں: الجماعۃ کو لازم پکڑنا، سنت کی اتباع، مسجدوں کو آباد رکھنا، تلاوت قرآن کرتے رہنا، اور اللہ کے راستے میں جہاد۔

No comments:

Post a Comment