Tuesday, 31 March 2015

ﻗﺼﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ

کیا (اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا) جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی۔ وہ کہنے لگا :
”اس بستی کی موت کے بعد دوبارہ اللہ اسے کیسے زندگی دے گا (آباد کرے گا)۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی نیند سلا دیا۔ پھر اسے زندہ کر کے اس سے پوچھا :
 ”بھلا کتنی مدت تم یہاں پڑے رہے؟” وہ بولا کہ
”یہی بس ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ”بات یوں نہیں بلکہ تم یہاں سو سال پڑے رہے۔ اچھا اب اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو،یہ ابھی تک باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھو (اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو چکا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ تجھے لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دیں (کہ جو شخص سو برس پیشتر مر چکا تھا وہ دوبارہ زندہ ہو کر آ گیا) اور اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کیسے انہیں جوڑتے،اٹھاتے اور اس پر گوشت چڑھا دیتے ہیں۔” جب یہ سب باتیں واضح ہوگئیں تو وہ کہنے لگا : اب مجھے خوب معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
تفصیل ووضاحت
اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کر سکتا ہے؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خورد و نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کر لی۔
اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : ” بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے؟” اب عزیر علیہ السلام کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے : ” یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو”۔ کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر علیہ السلام نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خورد و نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو گئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہو چکی تھی۔
تذکیر ی پہلو
١۔ حضرت عزیر خود بھی ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے خیال تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہو گیا۔
٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خورد و نوش پر۔چنانچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہو چکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔
٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔
٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔
از پروفیسر محمد عقیل
 تفصیل و وضاحت و ترجمہ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی کی تفسیر تیسیرالقرآن 

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ
ﺩﻭﺭﮦ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﭖ
ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﻮ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﻧﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ۔
ﮨﺎﮞ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﺎﮨﺞ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﮯ
ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ
ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮩﯽ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ
ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﯽ ﮨﺎﮞ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ؟
ﺍﻥ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮨﯽ ﻻﭘﺘﮧ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ
ﮐﺮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺑﮍﮬﯿﺎ! ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻋﺰﯾﺮ ﮨﻮﮞ
ﺗﻮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ! ﺁﭖ ﮐﯿﺴﮯ ﻋﺰﯾﺮ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟ ﺁﭖ
ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺑﮍﮬﯿﺎ! ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺑﺮﺱ ﻣﺮﺩﮦ
ﺭﮐﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﯿﺎ
ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﮨﺮ ﺩﻋﺎﺀ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻓﺎﻟﺞ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺩﻋﺎﺀ ﮐﺮ
ﺩﯼ ﺗﻮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﺎﻟﺞ ﺑﮭﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮ
ﮔﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﯽ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺁﭖ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯽ
ﮨﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﯿﮑﺮ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻣﺤﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺗﻔﺎﻕ
ﺳﮯ ﻭﮦ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﺎ ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﻮ ﺍﭨﮭﺎﺭﮦ ﺑﺮﺱ ﮐﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﭘﻮﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﻧﮯ
ﻣﺠﻠﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ! ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﯾﮧ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ
ﺻﺤﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺎ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻟﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﻣﺴﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ
ﺷﮑﻞ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺴﮧ
ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﻮ ﺗﻮﺭﺍۃ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﯾﺎﺩ
ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻋﺰﯾﺮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﺗﻮﺭﺍۃ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﻨﺎﺋﯿﮯ۔ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﮐﺴﯽ ﺟﮭﺠﮏ ﮐﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﭘﻮﺭﯼ ﺗﻮﺭﺍۃ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺳﻨﺎ ﺩﯼ۔ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ
ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﻮ
ﭼﻦ ﭼﻦ ﮐﺮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ
ﻋﺰﯾﺮ ﻧﮯ ﺗﻮﺭﺍۃ ﺻﺤﯿﺢ ﭘﮍﮬﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﺩﻥ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﻧﮯ
ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﻭﯾﺮﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﺟﮍ ﻣﯿﮟ
ﺗﻮﺭﯾﺖ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﻠﺪ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﺩﺍ ﮐﮯ
ﺍﻧﮕﻮﺭ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺩﮨﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﻠﺪ
ﺑﺮﺁﻣﺪ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﺘﺎ ﭼﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻧﮯ ﺟﻮ
ﺗﻮﺭﺍۃ ﭘﮍﮬﯽ ﻭﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ؟ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮭﻮﺩ ﮐﺮ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﯽ ﺟﻠﺪ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺣﺮﻑ ﺑﮧ ﺣﺮﻑ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮﺭﺍۃ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮧ
ﻋﺠﯿﺐ ﻭ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ
ﺯﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﯾﮩﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﯾﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻏﻠﻂ ﺍﻭﺭ
ﻣﺸﺮﮐﺎﻧﮧ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺎﺫﺍﻟﻠﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ
ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ
ﺍﺱ ﺑﺎﻃﻞ ﻋﻘﯿﺪﮦ ﭘﺮ ﺟﻤﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ
ﮨﯿﮟ۔ ( ﻣﻌﺎﺫﺍﻟﻠﮧ )
( ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺟﻤﻞ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺠﻼﻟﯿﻦ، ﺝ1 ، ﺹ322 ، ﭖ3 ، ﺍﻟﺒﻘﺮۃ: 259
عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیر علیہ السلام
عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیر علیہ السلام 
عصرِ حاضر کے معتزلہ کے واعظین قرآنِ کریم میں بیان کردہ درج ذیل واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر اور سماع عند القبور کا انکار کرتے ہیں‘ حالانکہ اس واقعہ میں قرآنِ کریم نے صاحب ِ واقعہ کا قطعاً تعین نہیں کیا‘ بلکہ مبہم انداز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”او کالذی مر علی قریة وہی خاویة علی عروشہا قال انی یحی ہذہ اللہ بعد موتہا‘ فاماتہ اللہ مائة عام ثم بعثہ قال کم لبثت؟ قال لبثت یوما او بعض یوم‘ قال بل لبثت مائة عام فانظر الی طعامک وشرابک لم یتسنہ‘ وانظر الی حمارک ولنجعلک آیة للناس وانظر الی العظام کیف ننشزہا ثم نکسوہا لحما‘ فلما تبین لہ قال اعلم اللہ اللہ علی کل شئ قدیر“۔ (البقرہ:۲۵۹)
ترجمہ:․․․”اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا جس کا ایک بستی پر گذر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا: اس بستی کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا؟ (آباد کرے گا)۔ بس اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سوبرس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کردیا‘ اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا: تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے؟ اس نے جواب دیا:ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: ایسا نہیں ہے‘ بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے‘ پس تم اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیاہے) اور (یہ سب کچھ اس لئے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لئے ”نشان“ بنائیں‘ اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے (اور آپس میں جوڑتے ہیں) اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں‘ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہوگیا تو اس نے کہا: میں یقین کرتاہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔ 
قارئین کرام! منکرینِ حیات الانبیاء علیہم السلام کا اس قرآنی واقعہ سے استدلال کرنا سراسر باطل اور دھوکہ‘ بلکہ ایک قسم کی تلبیس ہے‘ اور اس تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لئے چند دلائل آپ کی خدمت میں عرض ہیں‘ جن میں غور کرنے سے ہر ذی شعور پر ان کے استدلال کا بطلان اور احقاقِ حق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے صاحب ِ واقعہ کا نام تک نہیں لیا
سب سے پہلی گذارش یہ ہے کہ جس شخص کو یہ واقعہ پیش آیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا نام متعین نہیں فرمایا‘ بلکہ مبہم انداز میں فرمایا کہ ایک شخص کا ویران اور تباہ شدہ بستی پر گذر ہوا ۔
لہذا مفسرین کرام کے متفقہ اصول کے مطابق ”ابہموا ما ابہمہ اللہ“ اس صاحبِ واقعہ کو مبہم رکھنا ہی مناسب ہے اور بلادلیل از خودکسی شخصیت کا تعین کرنا نامناسب ہے‘ کیونکہ کتاب وسنت میں کہیں یہ نہیں بتایاگیا کہ صاحب ِ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ البتہ مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں فرمایا ہے کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ارمیاہ علیہ السلام کا ہے‘ بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ: یہ شخص حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص ایک کافر بادشاہ تھا جو ”بعث بعد الموت“ کا منکر تھا۔
صاحبِ واقعہ کی شخصیت کے تعین کی بنیاد اسرائیلی روایات ہیں
محترم قارئین! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن پاک میں کیاگیاہے اور نہ ہی حدیث نبوی ا میں۔ جب قرآن کریم اورحدیث نبوی میں اس شخص کو متعین نہیں کیا گیا کہ وہ کون تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعین کرنے والوں نے اسے کیسے متعین کیا ؟ جواب واضح ہے کہ اس تعین کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں‘ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی لکھتے ہیں:
”قرآن کریم نے اس بستی کا نام ذکر نہیں کیا‘ اور نبی معصوم اسے بھی اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے‘ اور صحابہ وتابعین سے جو آثار منقول ہیں ان کا ماخذ بھی وہ روایات واقوال ہیں جوحضرت وہب بن منبہ ‘ حضرت کعب احبار اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم تک پہنچتی ہیں اور انہوں نے ان کو اسرائیلی واقعات سے نقل کرکے بیان کیا ہے تو اب واقعہ سے متعلق شخصیت کی تحقیق کے لئے صرف ایک یہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ توراة اور تاریخی مصادر سے اس کو حل کیا جائے “۔ (قصص القرآن:ص:۲۳۹‘ج:۲)
مولانا حفظ الرحمن صاحب کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ حدیث رسول اللہ میں‘ بلکہ اس کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں۔
غلط بیانی کی انتہا
جب صورتِ حال یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ نہیں بتایاگیا کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کو پیش آیا اور حضور اکرم ا نے بھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قصہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے‘ مفسرین کرام بھی یہی فرماتے ہیں کہ: جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا اسے مبہم ہی رکھنا چاہئے‘ اب جبکہ یہ یقینی طور پر معلوم ہی نہیں کہ یہ شخص کون تھا تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بناکر عوام الناس کو یہ تأثر دینا کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ سوسال تک سوئے رہے اور انہیں وقت کا پتہ بھی نہ چلا‘ یہ غلط بیانی کی انتہاء نہیں‘ تواور کیا ہے‘ بلکہ اس واقعہ کو اس رنگ میں پیش کرنا کہ سننے والے یہی سمجھیں کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا نام لے کر یہ واقعہ بیان فرمایا ہے‘یقیناً کتاب اللہ پر اضافہ اور اللہ پر افتراء ہے۔
اسرائیلی روایات: کبھی قرآن کے درجہ میں اور کبھی انکار کی زد میں
عصر ہذا کے معتزلہ کا عجیب مزاج ہے‘ اس واقعہ میں تو ان لوگوں نے اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رکھا ہے اور جب حضرت یوسف علیہ السلام اور عزیز مصر کی گھر والی کے نکاح کا مسئلہ چلتاہے تو یہ حضرات یہ کہہ کرنکاح کا انکار کردیتے ہیں کہ:” حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح نہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے‘ بلکہ اسرائیلی روایات سے ثابت ہے جن پر اعتبار نہیں ہے“۔ اب یہاں تو یہ حضرات اسرائیلی روایات کو ٹھکرا رہے ہیں اور وہاں اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رہے ہیں۔ کوئی ان شرفاء سے پوچھے آخر کیا وجہ ہے؟ ایک ہی چیز کو کبھی قرآن بناتے ہو‘ کبھی قرآن کے مخالف ٹھہراتے ہو۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے: میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑواکڑوا تھو تھو
کیا یہی اشاعت التوحید والسنة ہے کہ جو چیز خواہشِ نفس کے مطابق ہے‘ اسے لیا جارہاہے اور جو چیز خواہشِ نفس کے خلاف ہے‘ اسے ٹھکرایاجارہاہے۔ بندہ عاجز کی دانست کے مطابق اتباعِ قرآن کے نام پر درحقیقت اتباعِ خواہش ہورہی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ
قارئین کرام! جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس آیت میں صاحبِ واقعہ متعین نہیں ہے‘ بلکہ مبہم ہے تو اس سے حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاة والسلام کی حیات وسماع کی نفی کرنا خود بخود باطل ہے۔
بے ڈھنگی چال
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ منکرین حیات انبیاء کرام علیہم السلام نے جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کیا ہے کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ انہیں روایات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی نہ تھے‘ بلکہ ایک نیک صالح مرد تھے‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے! ان لوگوں نے تعین کی حد تک ان روایات کو قبول کیا‘ بلکہ ان کو قرآن کریم کا درجہ دیا اور ان روایات کے برعکس‘ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی قرار دے دیا۔ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
”مگر یہ واضح رہے کہ جن روایات میں حضرت عزیر علیہ السلام کو آیات مسطورہٴ بالا کا مصداق قرار دیا گیا ہے‘ ان میں یہ بھی تصریح ہے کہ عزیر علیہ السلام نبی نہیں تھے‘ بلکہ مرد صالح تھے“ ۔ (قصص القرآن ص:۲۴۷‘ج:۲) 
اگر ان لوگوں میں انصاف کی رتی ہوتی تو یہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہ کہتے‘ کیونکہ انہی کی اپنی پسندیدہ روایات میں یہی لکھا ہے کہ وہ نبی نہیں بلکہ نیک صالح مرد تھا‘ لیکن ان کی بے ڈھنگی چال ملاحظہ فرمایئے کہ جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کرتے ہیں‘ انہیں روایات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔
برسبیل تنزل
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے اور وہ نبی اللہ تھے تو پھر بھی ان لوگوں کا اس واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کا انکار اور ان کے سماع عند القبور کا انکار ثابت نہیں ہوتا‘ کیونکہ اللہ جل شانہ نے اپنے پیغمبر حضرت عزیر علیہ السلام کو عارضی وفات کے بعد لوگوں کی نظروں سے ایسے مستور رکھا کہ پورے سوسال کے عرصہ میں اس دور کا کوئی آدمی ان کے پاس سے نہیں گذرا اگر گذرا‘ تو اس نے حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا نہیں‘ ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ لوگ مردہ شخص کی نعش کو دیکھیں اوراس کو تدفین کا انتظام کئے بغیر‘ ویسے ہی چھوڑ کر چلے جائیں‘ جبکہ تدفینِ میت کا مسئلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم ا تک ہرنبی کی شریعت میں برابر چلا آرہاہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے پاس سے کوئی گذرا ہی نہیں‘ اگر گذرا ہے تو اسے دیکھا نہیں‘ جب اللہ کے نبی کو دیکھنا ثابت ہی نہیں تو کس نے جاکر اللہ کے نبی کے جسد اطہر کو سلام کیا ہوگا؟ جب کسی نے سلام ہی نہیں کیا تو عدم سماع کیسے ثابت ہوا؟ لہذا نہ وہاں سلام کیا گیا اور نہ عدم سماع ثابت ہوا۔ نیز اس واقعہ سے الحیاة بعد الوفات کی نفی بھی نہیں ہوتی‘ کیونکہ قرآن پاک کی پچاس سے زائد آیات اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے حیاتِ قبر ہر مردہ کے لئے ثابت ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ کو رنج وراحت‘ دکھ سکھ اور ثواب وعقاب کا احساس ہوتاہے‘ لہذا اس واقعہ کو بنیاد بناکر کتاب وسنت سے ثابت شدہ عقیدہٴ حیات قبر کی تردید کرنا کسی دانش مند کو زیب نہیں دیتا۔
اگر حضرت عزیر علیہ السلام اس عالم میں زندہ تھے تو وقت کا احساس کیوں نہ ہو سکا؟
منکرینِ حیات قبر کے واعظین کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عزیر علیہ السلام زندہ تھے تو انہیں وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟
جواباً عرض ہے کہ وقت کے صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عدم حیات پر استدلال بالکل باطل ہے‘ حضرت عزیر علیہ السلام تو اس وقت موت کی وجہ سے عالم قبر وبرزخ میں تھے اور اس عالم کی حیات ان کو حاصل تھی‘ لیکن بعض اوقات عالمِ دنیا میں زندہ رہنے والے انسانوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔
دیکھئے! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”قال کم لبثتم فی الارض عدد سنین‘ قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم فسئل العادین‘ قال ان لبثتم الا قلیلاً“۔ (مومنون:۱۱۲‘۱۱۳)
ترجمہ:․․․”ارشاد ہوگا کہ تم برسوں کے حساب سے کس قدر مدت زمین پر رہے ہوں گے وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے‘ سو گننے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ارشاد ہوگا کہ تم تھوڑی ہی مدت رہے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
دیکھئے! اہلِ دنیا اپنی اپنی عمریں پوری کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ‘کوئی ایک سال رہا‘ کوئی پچاس سال رہا‘ کوئی سو سال یا اس سے کم وبیش رہا۔ اب دنیا میں رہنے والوں سے اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں: ایک دن یا بعض دن۔ ظاہر ہے ان کا یہ جواب ان کے غلط اندازے پر مبنی ہے وہ وقت کی صحیح مقدار نہیں بتارہے۔ کیا کوئی احمق اس سے یہ استدلال کرے گا کہ وہ دنیا میں زندہ تھے ہی نہیں‘ بلکہ مردہ تھے۔ یقیناً وہ زندہ تھے‘ البتہ بعض عوارض کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے۔ معلوم ہوا کہ زندہ بھی بعض اوقات وقت کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام اپنے عالم قبر وبرزخ میں زندہ تھے مگر وقت کا صحیح اندازہ نہ کرسکے۔
دوسری دلیل
اصحابِ کہف غار میں مردہ نہیں تھے‘ بلکہ سوئے ہوئے تھے۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں : ”وتحسبہم ایقاظاً وہم رقود“ (کہف:۱۸) اور ان زندہ سونے والوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا ‘جب ان سے پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیا: ”یوماً او بعض یوم“ ”ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“ تو ثابت ہوا کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ لگاسکنے کی وجہ سے کسی کی عدمِ حیات پر استدلال کرنا سراسر باطل ‘بلکہ تلبیس ابلیس ہے۔
الزامی جواب
عصر ہذا کے معتزلہ کے نزدیک روح نہیں مرتی‘ بلکہ وہ زندہ رہتی ہے۔ جب کسی کی روح نہیں مرتی تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح بھی نہیں مری ہوگی؟ظاہر ہے کہ اس وقت روح ان کے جسد میں آچکی تھی‘ اب ہمیں بتایا جائے کہ روح تو زندہ رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرماکر پوچھا کہ تو کتنا ٹھہرا؟تو اسے وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟ اگر ان لوگوں کے استدلال کو درست تسلیم لیا جائے کہ وقت کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے حیات کی نفی ہوجاتی ہے تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح کی حیات کی بھی نفی ہوجائے گی‘ جبکہ یہ لوگ روح کو تو زندہ ہی مانتے ہیں اور اس کی موت کے قائل ہی نہیں۔
بندہٴ عاجز کا مطالبہ
عصر ہذا کے معتزلہ چودھویں صدی کے آواخر کی پیداوار ہیں‘ اور قرآن کریم کے نزول کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے‘ اس پورے عرصہ میں کسی مفسر ‘ کسی محدث‘ کسی فقیہ‘ کسی متکلم اور کسی عالمِ دین نے اس واقعہ سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کی نفی پر استدلال نہیں کیا‘ اگر کسی نے کیا ہے تو ہمیں اس کا نام بتایا جائے (دیدہٴ باید) ظاہر ہے کہ چودہ سوسال کے عرصہ میں کسی عالم دین کواس آیت سے انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیات کی نفی معلوم نہیں ہوئی اور اب صرف انہی کو معلوم ہوئی ہے ۔
ان کے استدلال کے بطلان کی ایک اور دلیل
بندہ ٴ عاجز نے اکابر علما ئے اسلام کی کتب کی روشنی میں پچاس سے زائد آیاتِ قرآنیہ اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد ہرمردے کو درجہ بدرجہ اور حسبِ حیثیت قبر وبرزخ میں ایک قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ انسان عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ البتہ یہ حیات اللہ تعالیٰ نے ہماری نظروں سے مستور کررکھی ہے۔ تفصیل کے لئے بندہ عاجز کی کتاب قبر کی زندگی کا مطالعہ کیجئے‘ اگر ان لوگوں کے کشید کردہ مطلب کو درست مان لیا جائے تو ان کا یہ مطلب قرآنِ کریم کی ان پچاس سے زائد آیات کے خلاف ہوگا جن میں حیات کا ثبوت ہے‘ جبکہ مفسرین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا جو دوسری آیات سے متصادم ہو خود باطل اور غلط ہے ۔
اس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
قارئین کرام! مذکورہ بالا واقعہ سے درحقیقت یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ حضراتِ انبیائے کرام ہوں یا اولیائے عظام وہ عالم الغیب نہیں ہوتے‘ کیونکہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ‘ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اسی طرح اصحابِ کہف اور تمام اولیائے عظام عالم الغیب نہ تھے‘ اسی لئے انہیں وقت کا اندازہ نہ ہوسکا اور یہی عقیدہ قرآنِ مجید میں کئی جگہ بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے‘ پس ثابت ہوا کہ اس واقعہ سے عدم حیاتِ قبر ثابت نہیں‘ بلکہ عدم علمِ غیب ثابت ہے۔
ملکہ سبا اور حضرت سلیمان نبی اللہ علیہ السلام کے حرم سےمنسوب محل کے کھنڈرات

ذیل کی تصاویر ملکہ سبا "بلقیس بنت شراحیل" زوجہ "سلیمان بن داؤد علیہ السلام" سے منسوب محل کے کھنڈرات کی تصاویر ہيں۔ یہ کھنڈرات یمن میں واقع ہیں۔

بلقیس بنت شراحیل دسویں صدی قبل از مسیح یمن کی فرمانروا تھیں اور شہر سبا ان کا دارالحکومت تھا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلامکو معلوم ہوا کہ وہ اور ان کے ملک کے عوام سورج کے پجاری ہیں تو انھوں نے انہيں اسلام اور یکتا پرستی کی دعوت دی جس کے جواب میں بلقیس نے بڑے بڑے تحائف جناب سلیمان علیہ السلام کے لئے بھجوا دیئے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان کے تحائف کو مسترد کیا اور اور فرمایا: 
قران کریم  سورہ نمل کی آیات  ٣٦-٣٧ میں ارشاد باری تعالی ہے 
"فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ ٭ ارْجِعْ إِلَيْهِمْ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَهُم بِهَا وَلَنُخْرِجَنَّهُم مِّنْهَا أَذِلَّةً وَهُمْ صَاغِرُونَ"۔ 

ترجمہ: کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ سو جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے اس (دولت) سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں عطا کی ہے بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفے سے فرحاں (اور) نازاں ہو ٭ تو ان کے پاس (تحفے سمیت) واپس پلٹ جا سو ہم ان پر ایسے لشکروں کے ساتھ آئیں گے جن سے انہیں مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی اور ہم انہیں وہاں سے بےعزت کر کے اس حال میں نکالیں گے کہ وہ رسوا ہوں گے۔

یوں تو ملکہ سبا بہت سمجھدار حکمران خاتون ہو گزری ہیں  چنانچہ انھوں نے جو خدا داد صلاحیت سے  اپنی حکمت اور تدبر سے حضرت سلیمان نبی علیہ السلام کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور ان پر ایمان لائیں اور اللہ رب کریم کی بارگاہ میں عرض گذار ہوئیں: 

"رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ" (سورہ نمل آیت 44)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان (علیہ السلام) کی معیّت میں اس اللہ کی فرمانبردار ہو گئی ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
بعض تاریخی متون میں منقول ہے کہ بلقیس اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت سلیمان (ع) سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور کئی برسوں تک ان کے ساتھ مشترکہ زندگی گذار دی۔ 
 فی زمانہ ان کے محل کے کھنڈرات اور ورثہ  درس عبرت ہیں ہر ذی روح  کے لئے  وہ جان لیں کہ ہر فرد اور ذی روح   جو چیز چاہے جس قدر بھی شاندار اور صاحب جاہ و حشمت رکھتی  ہو ـ اس کے لئے بقا نہیں فنا ہے اور صرف اللہ جو رحمن  کریم 
عزیز الباقی بھی ہے اور کریم بھی اس رہتی دنیا اور تا قیامت باقی رہے گا  جو باقی ہے رہے گا۔ 


No comments:

Post a Comment