Friday, 6 March 2015

حضرت عبدالله بن مبارك رحمة الله عليه

حضرت عبداللہ ابن مبارکؒ 118 ھ ( 726ئ) میں ہشام ابن عبدالمالک کے دورِحکومت میں مرو میںپیدا ہوئے۔ آپ کے والد مبارک خراسان کے ایک تاجر کے غلام تھے۔ بعد میں اسی تاجر کی بیٹی ہند سے آپ کی شادی ہو گئی۔آپؒ ایک عالمِ بے بدل، فقیہہ و محدث تھے۔ قدرت نے آپؒ کو زبردست حافظہ عطا فرمایا تھا۔ اس لیے آپ کو امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔آپ ؒکا پڑوسی ایک یہودی تھا۔ آپ اپنے بچوں کو کھلانے سے پہلے اپنے پڑوسی کو کھلاتے تھے۔ لوگوں نے یہودی سے اس کا مکان خریدنا چاہا تو

اس نے دو ہزار دینار قیمت مقرر کی۔ ایک ہزار دینار مکان کے لیے اور ایک ہزار ابنِ مبارک کے پڑوس کے۔امام احمدؒ کہتے ہیں کہ حصولِ علم کے لیے سفر کا شوقین میں نے عبداللہ ابن مبارکؒ سے بڑھ کر نہیںدیکھا۔ حضرت نعیمؒ بن حماد کہتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمنؒ ابن مہدی سے پوچھا عبداللہ ابن مبار کؒ اور سفیان بن عینیہؒ میںسے کون بہتر ہے۔ انھوںنے جواب دیا عبداللہ بن مبارکؒ۔ آپ جلانے کی لکڑی اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے۔ ننگے پاؤں بازار سے سودا سلف لاتے۔ حضرت سفیان بن عینیہ کی موجودگی میں پاسِ

ادب کی وجہ سے کسی کے سوالات کا جواب نہ دیتے۔کسی نے پوچھا ’’تکبّر کیا ہے؟ جواب دیا دوسروں کوگھٹیا سمجھنا‘‘رات کو ساتھی سو جاتے، تو آپ نوافل میں مشغول ہو جاتے، خود روزے سے ہوتے اور ساتھیوںکو نایاب اور لذیذ کھانے کھلاتے، خوفِ خدا سے اتنا روتے کہ داڑھی تر ہو جاتی۔ حضرت احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ اللہ نے عبداللہؒ ابن مبارکؒ کو چھپ کر عبادت کرنے کی وجہ سے بلند مقامات عطا کیے ہیں۔آپ ؒ نے ایک دفعہ فرمایا آدمی جتنا اللہ سے ڈرتا ہے، اتنا ہی بڑا عالم ہوتا ہے‘‘۔

جہاد میں مجاہدین کے اخراجات برداشت کرتے، لیکن مالِ غنیمت میںسے کچھ نہ لیتے۔ایک دفعہ شام میں کسی سے قلم لیا، تو اسے واپس کرنے کے لیے شام کا سفر کیا۔ واپس آکر دیکھا، تو قلم پاس ہی تھا۔ چنانچہ دوبارہ شام کا سفر کیا۔آپ حکمرانوں کی صحبت سے دور رہتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو اپنی قربت عطا کی اور لوگوںکے دلوں کا حکمران بنایا۔ایک دفعہ ہارون الرشید رقّہ شہر میں گیا۔ اتفاق سے حضرت عبدا للہ ابن مبارکؒ بھی وہاں گئے۔ آپ کے دیدار کے لیے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا، دھکم پیل کی وجہ سے

لوگوں کے جوتے ٹوٹ گئے اور دھول اڑنے لگی۔ ہارون الرشید کی ایک لونڈی نے محل کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھا، تو پوچھا یہ کیا ہے؟ اسے بتایا گیا کہ یہ خراسان کے ایک عالم عبد اللہ بن مبارکؒ ہیں۔ تو وہ بے ساختہ پکار اٹھی خدا کی قسم! اصل بادشاہت تو یہ ہے ۔ اس کے مقابلے میں ہارون الرشید کی حکومت کیا ہے۔موت کا وقت قریب آیا، تو اپنے آزاد کردہ غلام سے کہا میرا سر زمین پر رکھ دو۔ غلام رونے لگا تو آپ نے فرمایا ! خاموش ہو جاؤ میںنے اللہ سے دعا کی تھی کہ مجھے مالدار کی زندگی اور مفلسی کی موت عطا کرنا۔‘‘
انھوں نے احادیث جمع کرنے کے لیے دنیا بھر کا سفر کیا۔آپؒ ایک بلند پایہ فقیہہ بھی تھے کیونکہ آپ نے امام بو حنیفہؒ، امام مالکؒ اور سفیان ثوریؒ سے تعلیم حاصل کی تھی۔بد قسمتی سے آپ کی تصنیفات مطبوعہ حالت میں نایاب ہیں۔آپ کا زہدو ورع مثالی تھا۔آپؒ نے 181ھ میں(797ئ) میں رمضان کے مبار ک مہینے میں رحلت فرمائی۔
اقوال:
1۔ اے ابنِ آدم آخرت کی تیاری کر اور اللہ کی اطاعت کر۔
2۔ ہم کبھی اللہ کی کماحقہ تعریف نہیں بیان کر سکتے۔
3۔ میں نے دیکھا ہے کہ گناہ قلب کو موت سے ہمکنار کر دیتے ہیںاور گناہ کرتے رہنے سے ذلت ملتی ہے۔
4۔ ترکِ گناہ سے قلب کو زندگی ملتی ہے۔
5۔ اگر فرصت اور فراغ نصیب ہو ،تو اس کا فائدہ اٹھاؤ اور عبادت کرو تاکہ اللہ کے نزدیک ہو جاؤ۔
6۔ خاموشی کا فائدہ اٹھانا بہتر ہے بہ نسبت اکثر بولنے سے، خواہ تم بولنے میں کتنے ہی اچھے کیوںنہ ہو۔
7۔ ایک عظیم کام بد نیتی کی وجہ سے چھوٹا اور ایک چھوٹا کام اچھی نیت سے عظیم ہو جاتا ہے۔
8 ۔ اگر مجھے کسی کی پیٹھ پیچھے کچھ کہنا ہی ہو، تو میں اپنے والدین کے متعلق کہوں گا کہ میرے اچھے کاموں پر ان کا
زیادہ حق ہے۔
9۔ اپنی زبان سے جنگ کرو۔ زبان کسی شخص کو قتل کرنے میں بہت تیز ہے۔زبان دل کی نقیب ہوتی ہے ۔ یہ انسان کو
اس کی ذہانت سے آشنا کرتی ہے۔

No comments:

Post a Comment