Tuesday 24 March 2015

اردو رسم الخط کو رواج دیں

رومن رسم الخط کو چھوڑیں
23مارچ 2015ء کو جامعۃ الرشید کراچی کے آڈیٹوریم میں مولانا سید عدنان کاکاخیل صاحب کی سربراہی میں UMMAH CYBER TEAM کا اجتماع ہوا۔ ایک سیشن میں اپنے دوست رشید احمد کے ساتھ شریک ہوا۔ اس سیشن میں سوال و جواب ہو رہے تھے۔ شرکاء سوال کر رہے تھے اور ہر دل عزیز میزبان مفتی سید عدنان کاکاخیل صاحب کاتسلی بخش جوابات دے رہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں رومن رسم الخط چھوڑ کراُردو رسم الخط کو رواج دینا ہوگا۔پھر اس کی مختلف وجوہات بتائیں۔اسی موضوع پر چند دن پہلے ہم نے بھی بات کی تھی ۔آئےے وہ پڑھیں ۔
ہر زبان اپنے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت لے کر آتی ہے۔ آج آپ انگریزی سیکھنے کا ارادہ کرلیں۔ انگلش سیکھنے کے لیے لینگویج سینٹر جانے لگیں۔ ایک ماہ تک روزانہ جاتے رہیں۔ ٹھیک ایک مہینے بعد اپنا جائزہ لیں۔ آپ کے رویے، طرزِ گفتگو اور تراش خراش میں غیرمحسوس طریقے سے تبدیلی آچکی ہوگی۔ سر سے ٹوپی اُترنے لگے گی، شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹک رہی ہوگی، شلوار کے بجائے ٹراؤزر پہننے کو ترجیح دینے لگیں گے۔ کنگھی سے بار بار سر کے بال اور ڈاڑھی سیدھی کررہے ہوں گے۔ کھڑے ہوکر پانی پینے لگیں گے۔ نماز باجماعت کی پابندی میں سستی آجائے گی۔ خدمت کی جگہ عجب پسندی آچکی ہوگی۔ شرم و حیا کی جگہ بے باکی اور بدتمیزی آنے لگے گی۔ دودھ کی جگہ چائے اور کافی پینے لگیں گے۔
اسی طرح اگر آپ عربی زبان سیکھنے کے لیے دو ماہ کسی مدرسے میں واقع سینٹر چلے جائیں۔ دو مہینے تک مسلسل عربی سیکھتے رہیں۔ ٹھیک دو مہینے بعد اپنا جائزہ لیں۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں گے۔ ہر ایک کو السلام علیکم کہنے لگیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے لگیں گے۔ مسجد جاکر نماز پڑھنے لگیں گے۔ رومال، جبہ اور خوشبو کو پسند کرنے لگیں گے۔ دورانِ گفتگو موقع بموقع سبحان اللہ، ماشاء اللہ، الحمدللہ کہنے لگیں گے۔ غیرمحسوس طریقے سے مذہب اسلام کے طور طریقوں، رہن سہن اور بودوباش کو اپنانے لگیں گے۔ بحراللہ ہزاروی نے لکھا ہے کہ جب سعودی عرب میں تیل کی تلاش کے لیے امریکی ماہرین آئے۔ آنے سے پہلے ان کو عربی زبان سکھائی گئی تھی، چنانچہ ان میں سے کئی امریکی مسلمان ہوگئے تھے۔
انگریز بڑا چالاک، عیار اور ہشیار ہے۔ اس تجربے کے بعد اس نے کبھی بھی اپنے ماہرین کو عربی نہیں سکھائی بلکہ اس نے اپنی انگریزی عربوں کو سکھائی۔ انگریز کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے، اپنی زبان وہاں کے مقامی لوگوں کو سکھاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں میں انگریزوں سے محبت ہونے لگتی ہے یا کم از کم ان کے دلوں سے نفرت نکل جاتی ہے۔ انگریز جب برصغیر آیا تو اس نے یہاں بھی یہی کام کیا۔ مقامی زبان کو تبدیل کرکے اس کی جگہ جبراً انگریزی زبان رائج کروائی۔ نتیجے کے طور پر 99 فیصد پڑھے لکھے جاہل قرار پائے اور انگریزی جاننے والا ایک فیصد طبقہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کہلوایا۔ آج بھی یہی ہورہا ہے۔ امریکا نے پوری دنیا میں اپنی زبان انگریزی پھیلانے کا وسیع نیٹ ورک قائم کیا ہوا ہے۔ اور تو اور دینی مدارس جہاں پر ساری دینی تعلیم ہی عربی زبان میں ہوتی ہے، قرآن سے حدیث تک، درجہئ اوّل سے درجہ تخصص تک ساری کتابیں اور ساری تعلیم عربی میں ہی ہے، وہاں پر انگریزی مسلط کی جارہی ہے۔ یو ایس ایڈ کی مدد سے مدارس میں سینٹر کھل رہے ہیں۔
آپ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا یہی کام مسلمان کیا کرتے تھے۔ مسلمان جہاں بھی جاتے وہاں کے لوگوں کو عربی زبان سکھاتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہاں کے لوگ غیرمحسوس طریقے سے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو پسند کرنے لگتے۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد وہ مسلمان ہوجاتے۔ مسلم فاتحین نے کبھی بھی دوسروں کی زبانیں نہیں سیکھی بلکہ ہمیشہ یہی کوشش کی کہ اپنی زبان دوسروں کو سکھائیں۔ دوسری زبانوں میں موجود علم و فن، علوم و معارف کو حاصل کرنے کے لیے دارالتراجم قائم کیے۔ ان علوم و فنون کو اپنی زبان عربی میں منتقل کرکے ان سے استفادہ کیا۔ صحیح طریقہ ہے بھی یہی کہ اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کو نہ چھوڑا جائے۔
اب آتے ہیں اردو کی طرف! ہمارے ملک پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ اردو رواداری، اپنائیت، محبت، ایثار، ہمدردی اور خلوص سے بھرپور ہے۔ اردو زبان نے کم وقت میں زیادہ ترقی کی ہے۔ اردو زبان کو ترقی دینے والوں میں میرا من دھلوی، رجب علی بیگ، مرزا اسد اللہ خان غالب، مولانا محمد حسین آزاد، سیّد مہدی علی محسن الملک، ڈپٹی مولوی نذیر احمد، خواجہ الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، مولانا عبدالحق، غلام عباس، سر سیّد احمد خان، علامہ اقبال، مؤمن خان مومن، حسرت موہانی، میر تقی میر، خواجہ میر درد، نظیر اکبر آبادی، احسان دانش، داغ دہلوی، خواجہ حیدر علی آتش جیسے بیسیوں، سیکڑوں نام شامل ہیں۔
اس وقت اردو کا شمار دنیا کی بڑی اور اہم ترین زبانوں میں ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں اردو بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 2005ء میں شروع ہونے والی سماجی رابطے کی مشہور و معروف ویب سائٹ فیس بک کو اردو زبان میں بھی متعارف کروانا پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق فیس بک کی انتظامیہ اپنی سروس اب اردو میں بھی ترتیب دے رہی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عالمی سطح پر بھی اردو کو بڑی اہمیت دی جانے لگی ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ پر موجود وکی پیڈیا میں کسی بات کو تلاش کرنے کے لیے جو زبانیں اور لغتیں دی گئی ہیں، ان میں انگریزی، عربی، فرانسیسی، جرمن، چینی کے ساتھ ساتھ اُردو بھی ہے۔ مجھے کئی انٹرنیشنل لائبریریوں میں کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ دنیا بھر کی بڑی لائبریریوں میں اردوزبان میں کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ گویا اردو زبان کی اہمیت، اس کے پھیلاؤ اور اس کی وسعت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اردو نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوالیا ہے۔
''اردو'' پاکستان کی قومی زبان ہے۔ زندہ دل قومیں اور ملک اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت پر فخر کیا کرتی ہیں۔ اس کی بقا اور سلامتی کے لیے کوششیں کیا کرتی ہیں۔ اپنی قومی زبان کی ترویج اور اس کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہ کس قدر ناانصافی بلکہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہماری قومی زبان تو ہے اردو، لیکن دفتری زبان انگریزی کو بنایا ہوا ہے۔ جب تک قومی زبان کو دفتری زبان قرار دے کر رائج نہ کیا جائے اس وقت تک اس کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ہم نے فرنگیت سے مرعوب ہوکر انگریزی کو دفتری زبان بنایا ہوا ہے۔ ہم خوامخواہ احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔
چند سال سے اردو کے خلاف ایک گہری سازش شروع ہوگئی ہے۔ جب سے انٹرنیٹ، موبائل اور دیگر جدید ترین ذرائع ابلاغ وجود میں آئے ہیں تب سے عموماً اور نائن الیون کے بعد خاص طور پر اردو کے خلاف یہ سازش بڑے منظم طریقے سے شروع کی گئی ہے۔ وہ سازش ہے اردو کے رسم الخط کو تبدیل کرنا۔ ترکی میں جب کمال اتاترک نے سلطنتِ عثمانیہ کو ختم کیا، عربی تہذیب و ثقافت اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلا جو کام کیا وہ تھا ترکی کے رسم الخط کی تبدیلی۔ پہلے ترکی زبان کو عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ کمال اتاترک نے عربی رسم الخط کو غیرسائنٹفک اور ترکی زبان کا دُشمن قرار دے کر اسے تبدیل کر ڈالا۔ عربی رسم الخط کی جگہ لاطینی رسم الخط کو پورے ملک میں بزور بازو رائج اور نافذ کیا۔
اب یہی کچھ ہماری قومی زبان اردو کے ساتھ ہونے جارہا ہے۔ کام وہی ہے، بس انداز اور طریقہ کار بدل گیا ہے۔ غیرمحسوس طریقے سے اردو رسم الخط کو ''رومن'' میں بڑی تیزی سے تبدیل کیا جارہا ہے۔ بھارت میں تو اتنی جلدی یہ کام ہوا ہے کہ اب نوعمر بچوں کو معلوم بھی نہیں کہ اردو رسم الخط کیا ہے۔ بھارت میں اردو رسم الخط کو ''دیوناگری'' میں تبدیل کیا گیا ہے، اور پاکستان میں ''رومن رسم الخط'' سے تبدیل کیا جارہا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ پر میسجز میں تو رومن رسم الخط کو استعمال کیا ہی جارہا تھا۔ اب تو رومن رسم الخط میں باقاعدہ کتابیں اور ناول آنے شروع ہوگئے ہیں۔ کل اردو بازار گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کتنی تیزی سے اردو رسم الخط کی جگہ رومن رسم الخط میں کتابیں آرہی ہیں۔ جہاں مجبوری ہو وہاں تو سمجھ میں آتا ہے چلو رومن میں لکھ لیں۔ آج کل بہت سے موبائل سیٹ ایسے آرہے ہیں جن میں اردو رسم الخط نہیں ہوتا ہے۔ وہاں رومن کی گنجائش نکلتی ہے، لیکن ناول اور کتابیں رومن رسم الخط میں شائع کرنے کو اردو کے خلاف سازش کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
ویسے تو پاکستان میں قومی زبان اردو کے فروغ اور اردو کی ترویج و حفاظت کے لیے مقتدرہ قومی زبان، اُردو لغت بورڈ، انجمن ترقی اردو جیسے کئی ادارے موجود ہیں، لیکن دیگر قومی اداروں کی طرح یہ بھی کمزور اور مختلف بحرانوں کا شکار ہیں۔ ان اداروں کو نئے سرے سے مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادیبوں کی سرپرستی میں ایک آزاد ادارہ بنایا جائے۔ یہ بااختیار بھی ہو اور فعال بھی۔ مالی طور پر بھی مضبوط ہو اور سفارتی طور پر بھی اس کی شناخت ہو۔ جس طرح پاکستان کے دو قومی نظریے کے تحفظ کے لیے ''نظریہ پاکستان ٹرسٹ'' بنایا گیا ہے، اس طرح قومی زبان اردو کی حفاظت اور سلامتی کے لیے بھی ہر اعتبار سے مضبوط ادارہ قائم کیا جائے۔ اور اردو کے خلاف سازش کرنے والوں کو عبرتناک سزا دی جائے۔ اردو رسم الخط کی جگہ ''رومن'' لکھنے پر حکومتی سطح پر پابندی عائد کی جائے۔''
م  ب  پ
(انور غازی)

No comments:

Post a Comment