اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو اللہ کا آخری نبی اور رسول ماننے کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام پر ایمان لایا جائے۔ اس طرح دیکھا جائے تو یروشلم، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ اور حضرت عیسیٰؑ کا گھر ہے اس لئے ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لئے بہت اہم ہے، اس کے بعد جب 27 رجب کو معراج کا سفر پیش آیا تو آپ ﷺ نے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام کی امامت کی۔ اس لحاظ سے مسجد اقصیٰ اور یروشلم مسلمانوں کے لئے بہت اہم ہو گئی۔لیکن اس کی اہمیت صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں تھی، یہ علاقہ تاریخی طور پر جنگ کا میدان بنا رہا، کبھی رومیوں نے یہاں راج کیا اور یہودیوں کو باہر نکال کر مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر لیا تو کبھی عیسائیوں کے ہاتھ حکومت آئی تو انہوں وہی کام کیا اور اس علاقے کو مسلمانوں اوردیگر مذاہب کو ماننے والوں سے پاک کیا۔ پھر مسلمانوں کی حکومت آئی لیکن مسلمان واحد وہ فاتح قوم تھی جنہوں نے یہاں مکمل مذہبی آذای دی۔
یہاں موجود ہیکل سلیمانیؑ مسلمانوں کے لئے بھی اہمیت کی حامل تھی چانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ کے دور میں یروشلم فتح ہوا تو مسلمانوں نے وہاں دوبارہ سے عبادت کرنی چاہی۔ یہ حرم کئی بار تعمیر ہوا اور کئی بار تباہ ہوا اور آخری بار جب رومیوں نے یہاں لشکر کشی کی تو اس کو تباہ کر کے وہاں یہودیوں کو داخل ہونے تک سے روک دیا۔ وہ تمام جگہ جہاں برسوں تک انبیاء کرام نے عبادت کی تھی رومیوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کے بعد اب کچرا پھینکنے کے لئے استعمال ہو رہی تھی، جب حضرت عمر رضی اللہ نے وہ جگہ دیکھنا چاہی جہاں دینِ اسلام کے اولین انبیاء کرام عبادت کرتے رہے تھے تو وہاں کچرے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ اس وقت کی روایات کے مطابق حضرت عمر نے اس جگہ کی صفائی سے لیکر وہاں ایک مسجد کی تعمیر تک خود نہ صرف اپنی موجودگی میں سارا کام کروایا بلکہ وہاں کی صفائی میں بھی شامل رہے۔ اولین مسجد جو فتح کے بعد حضرت عمر کے عہد میں تعمیر ہوئی میں تین ہزار لوگوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش موجود تھی۔اس جگہ کو اب مسلمان حرم شریف کہتے ہیں۔
برسوں تک یا شاید کچھ دہائیوں تک حضرت عمر کی بنی ہوئی یہ مسجد ایسے ہی موجود رہی، بعد میں، اموی دور میں، 690ء میں خلیفہ عبد الملک نے مسجد اقصیٰ کی از سرِ نو تعمیر کا حکم دیا۔وہ جگہ جس کے بارے روایات میں آتا ہے کہ معراج کے وقت آپ ﷺ نے آسمانوں کی طرف سفر شروع کیا کے عین اوپر ایک گنبد کی تعمیر ہوئی جسے قبۃ الصخرۃ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی عہد میں یہ گنبد مسلمان نہیں بلکہ عیسائیوں کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جہاں رومی فتوحات کے بعد یہودیوں کو داخلے کی اجازت نہیں تھی جہاں بعد میں صلیبی جنگوں کے دوران مسلمانوں کو عین مسجدِ اقصیٰ کے درمیان میں شہید کیا گیا وہیں ایک مسلمان حکمران کے دور میں عیسائی ایک مسجد کی تعمیر کر رہے تھے۔
یہ گنبد حرم شریف کے سب سے اونچے مقام پر تعمیر کیا گیا اورچھٹی صدی کے بعد سے اب تک شہر کی سب سے نمایاں نشانی مانی جاتی ہے۔بیس میٹر بلند یہ گنبد سیسہ کی بنی ہوئی شیٹوں میں ڈھانپا گیا تھا اس کے اندر اور باہر قرآنی آیات کندہ ہیں جبکہ اندر کی طرف موجود قرآنی آیات اس وقت تک کی سب سے پرانی عربی خطاطی کا شاہکار ہیں جو مسجد کے حسن میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔کچھ علماء کا کہنا ہے کہ خلیفہ عبدالملک نے یہ بات ذہن میں رکھ کر مسجدِ اقصی کی تعمیر کی کہ یہ مسجد ہر طرح سے مکہ میں مسجد حرم سے بہتر اور خوبصورت ہو اور اس بات پر کئی علماء نے عبدالملک پر فتوے بھی لگائے لیکن اس دور میں کہیں بھی اس قسم کی کسی روایت کا ذکر نہیں ملتا البتہ اس قسم کے الزامات اموی دور کے خاتمے کے بعد اور عبدالملک کے عہد کے دو سو برس بعد شروع ہوئے جن کی کوئی سند نہیں۔
750ء میں اموی دور کے بعد عباسی خلفاء نے مسندِ خلافت سنبھالی تو انہوں نے ساری اہمیت بغداد کو دینا شروع کر دی نتیجتاً وہ اہمیت جو مسجد اقصیٰ کو ملنی چاہئے تھی نہ مل سکی اور اس دور میں متعدد زلزلوں نے بھی مسجد کو متاثر کیا لیکن اس سب کے باوجود بھی مسجد ایک نمایاں حیثیت کی حامل رہی اور اسی کی وہ سے یروشلم بھی مزہبی اہمیت حاصل کرتا گیا۔نویں صدی میں فاطمیوں نے عباسیوں سے جنگ کی اور اس کے بعد یروشلم پر ان کا قبضہ ہوگیا۔ فاطمی اہلِ تشیع سے ایک فرقہ تھا جسے زیادہ تر علماء نے اسلام سے باہر قرار دیا تھا۔ اس دور میں مسجدِ اقصیٰ کو نمایاں نقصان پہنچا۔فاطمی دور سے پہلے یروشلم اسلام کا ایک مرکز تھا جہاں مسجدِ اقصیٰ میں علمائے کرام عربی اور دینی تعلیم دیا کرتے تھے لیکن فاطمی دور میں ان علماء کی جگہ شیعہ علماء نے لے لی اور وہ باتیں سکھانا شروع کیں جو اسلام سے باہر تھیں۔ پھر فاطمی خلیفہ حکیم آیا جس نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا حتیٰ کہ اس نے مسلمانوں کو مکہ جا کر حج کرنے سے روکا، جمعہ کے خطبے میں اللہ کی جگہ اپنا نام شامل کرنے کا حکم دیا اور اقلیتوں جیسے عیسائی اور یہودیوں کو نقصان پہنچایا اور ان کی عبادت گاہیں تباہ کیں۔حضرت عمر رضی کے وقت کے معاہدے اب تک چلتے آرہے تھے، اس فاطمی خلیفہ نے ان کی دھجیاں اڑا دیں۔
حکیم کے بعد بھی یہاں فاطمی خلیفہ موجود رہے لیکن وہ حکیم نسبت ذرا زیادہ اسلام کے ساتھ تھے۔ انہوں نے اسلام کے اس تاریخی ورثہ کی حافظت کے لئے مسجدِ اقصیٰ کی از سر نو تزین و آرائش شروع کروائی۔اس نئے ڈیزائن میں سات بڑی محرابیں شامل تھی جنہوں نے مسجد کی چھت کو تھامے رکھنے میں ساتھ دیا۔ اموی دور کی تعمیر میں 14 محرابیں شامل کی گئی تھیں جن کو کم کر کے سات کر دیا گیا۔ آج کی موجودہ مسجد اقصیٰ کم و بیش اسی فاطمی دور کی تعمیر کی شکل پر ہی موجود ہے۔
(فاطمی دور میں تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا زلزلہ آیا تھا جس نے مسجد کو کافی نقصان پہنچایا تھا)
۔1073ء میں یروشلم سلجوقوں کے ہاتھوں فتح ہوا جو کہ جنوبی ایشیاء کئ سنی مسلمان تھے۔ انہوں نے مسجد کو پھر سے آباد کیا وہاں شافعی اور حنفی فقہ کے امام تعلیم دیتے تھے اور اسلامی نظریے سے دیکھا جائے تو مسجدِ اقصیٰ ایک بار پھر سے چند ایسے ہاتھوں میں تھی جو اس کو درست راہ میں استعمال کرنا جانتے تھے۔عالمِ اسلام کے مختلف علماء کرام دنیا کے گوشے گوشے سے یہاں آنے لگے کچھ سکھاتے تھے کچھ سیکھتے تھے اور پھر 1095ء میں امام غزالی یروشلم آئے کئی برس تک یہاں موجود رہے، انہوں کتاب لکھی جس نے مسلمانوں کی فلسفہ اور تصوف کی سوچ کو ایک نئی راہ دکھائی۔
۔1095ء میں بازنطینی سلطنت کے حکمران نے عیسائی بشپ سے مدد کی درخواست کی کہ وہ سلجوقوں کے خلاف لڑنے میں اس کی مدد کرے جس کے نتیجے میں صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔ یہ صلیبی لشکر کشی سلجوقوں کے خلاف نہیں بلکہ یروشلم کو فتح کر کے وہاں صلیب کے بول بالے کے لئے کی جا رہی تھی۔1099ء تک عیسائی مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے یروشلم پہنچے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں اتفاق کی یہ حالت تھی کہ بہت سے شہروں نے لڑنا تک گوارا نہ کیا اور عیسائیوں کے لئے دروازے کھول دئیے۔5 جولائی 1099 کو عیسائیوں نے یروشلم فتح کر لیا۔اس کے بعد تاریخ کے سب سے بھیانک واقعے کی تیاری کی گئی۔ عیسائی کہہ چکے تھے کہ وہ کسی کو بھی قیدی نہیں بنائیں گے، مسلمان سمجھ چکے تھے کہ ان کا قتل عام کیا جائے گا۔ مسلمانوں , نے مسجد کو ایک مقدس مقام جانا اور وہاں پناہ لی لیکن عیاسئیوں کے ارادے کچھ اور تھے وہ یروشلم کو نسلی طور پر صاف کرنا چاہتے تھے اور پھر مسجد اقصیٰ میں چھپے مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور یہ تعداد ہزاروں میں تھی۔ ایک عیسائی نے یہاں تک لکھا کہ وہ ایک شاندار نظارہ تھا جب عیاسئی فوج کے گھٹنوں تک مسلمانوں کا خون پہنچ گیا تھا۔
عیسائیوں نے مسجد اقصیٰ پر قبضے کے بعد اس کو اپنے طور پر تبدیل کر دیا۔ عیسائی حکمران گاڈفرے نے مسجد کو محل میں تبدیل کیا، اسلامی عبارات و آیات کو ڈھک دیا گیا، محرابوں میں اینٹیں ڈال کر دیوار برابر کر دی گئی، وہاں کمرے اور باغٖ بنائے گئے، صفوں کو اکھاڑ دیا گیا۔ عیسائی یہاں تک کہنے لگے کہ یہ ایک گرجا تھا جسے سلیمانؑ نے تعمیر کیا ، وہاں ایک گرجا بنایا گیا جس کا نام “ٹیمپل آف لارڈ” رکھا گیا۔گنبد کے نیچے موجود پتھر کو سنگ مر مر سے ڈھک کر عبادت کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔88 برس تک یہ سب جاری رہا، 88 برس تک یروشلم کی سر زمین کسی فاتح کے انتظار میں بیٹھی رہی جو آتا اور اس کو آزاد کرواتا، جہاں عربی اور قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی وہاں اب ایک گرجا موجود تھا، جس جگہ کو پاک رکھنے کے لئے مسلمان حکمران اور حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی نے خود وہاں سے گندگی ہٹا کر صاف کیا وہاں مسجد کے عین درمیان میں ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر کے خون بہایا گیا تھا۔ پھر تاریخ کے صفحوں کو یوسف بن ایوب (صلاح الدین ایوبی) کا نام ابھرا۔
۔1187ء میں صلاح الدین نے یروشلم میں ایک فاتح کی حیثیت سے قدم رکھا۔ عیسائیوں نے تمام مظالم ان کی آنکھوں کے سامنے تھے، وہ دیواریں تھیں جہاں مسلمان نومولود بچوں کو پٹخا گیا تھا، مسجد کا وہ صحن تھا جہاں ہزاروں مسلمانوں کا لہو موجود تھا، وہ گلیاں ان کے سامنے تھیں جہاں مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کی گئی تھی لیکن اللہ کے اس ولی نے عیسائیوں سے کیا بدلہ لیا؟ انہوں نے عیسائیوں کو صرف اتنا کہا کہ وہ یہ شہر خالی کر دیں اور بس۔۔۔پھر صلاح الدین نے کہا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر اندر مسجد کو صاف کرنا چاہتے ہیں۔ عہدِ فارقی کی یاد ایک بار پھر سے تازہ ہو گئی تھی جب صلاح الدین عام ۔ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مسجد اقصیٰ کی صفائی میں حصہ لے رہے تھے۔ عیسائیوں کے تمام کمروں کو ختم کر دیا گیا، تمام اسلامی آیات و حروف کو واپس لایا گیا، سارا سامان مسجد سے نکال کر باہر رکھا گیا اس کو دھو کر پاک کیا گیا اور صلاح الدین ایوبی نے اپنے ہاتھ سے اس پر عرق گلاب چھڑکا، ایک منبر تھا جس کو دمشق میں اس نیت سے تیار کیا گیا تھا کہ یروشلم کی فتح کے بعد اس کو مسجد اقصیٰ میں نصب کیا جائے گا۔ وہ منبر منگوایا گیا اورمسجد میں نصب کیا گیا۔صلاح الدین نے مسجد کی حدود نے اندر متعدد ادارے قائم کئے جنہوں نے سلجوق اور اموی دور کی یاد تازہ کر دی اور ان ادوار کی طرح ایک بار پھر سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔یہاں ایک بار پھر سے صلیبی لشکر کشی ہوئی لیکن صلاح الدین نے یروشلم کی حفاظت جاری رکھی، صلاح الدین کی وفات کے بعد انہی کے جانشینوں نے یروشلم پر حکومت کی اور اس کی حفاظت کی اور ان کے بعد یہاں مملوک آگئے۔
مملوک دور میں انہوں نے یروشلم کی حفاظت کی اور مسجد اقصیٰ کی ایک بار پھر سے تزین و آرائش کی، مزید کئی تبدیلیاں کی گئیں جن میں مسجد کی حدود کا اضافہ کیا گیا، فوارے شامل کئے اور قبۃ الصخرۃ کی آرائش کی گئی۔ مسجد کے ساتھ ساتھ کئی تعلیمی مدارس قائم کئے گئے جنہوں نے تعلیم کے سلسلے کو مزید وسعت دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افریقہ، ایشیاء، ہندوستان اور چین تک سے لوگ یروشلم آتے اور تعلیم حاصل کرتے۔
۔1516ء میں سلطنت عثمانیہ نے مملوکوں سے جنگ کی، یروشلم کا محاصرہ ہوا لیکن وہاں کی مقامی حکومت نے بنا کسی جھڑپ کے یروشلم سلطنتِ عثمانیہ کے حوالے کر دیا۔ مملوکوں کے بعد عالمِ اسلام کی سب سے طاقتور حکومت سلطنتِ عثمانیہ ہی تھی۔یروشلم اور مسجد اقصیٰ اب دنیا کی ایک طاقتور اسلامی حکومت کے ہاتھوں میں تھے۔ عثمانی سلطان نے یروشلم کو ایک انتظامی ضلع میں تبدیل کر کے وہاں فوج اور گورنر بھیجے۔ 1520ء میں جب سلیمان القانون نے حکومت سنبھالی تو یروشلم اور مسجدِ اقصیٰ نے خوبصورتی کے ایک نئے انداز کو دیکھا۔ مسجد کی ایک بار پھر سے از سر نو تزین و آرائش کی گئی۔ قبۃ الصخرۃ کو بالکل نئے طریقے سے ڈیزائن کیا گیا، مسجد پر سنگ مر مر سادہ اور رنگین دونوں کا استعمال کیا گیا اور مسجد کے اندر اور باہر سورۃ یٰسین کی آیات کندہ کی گئیں۔مسجد کے داخلی دروازے کے بعد ایک خوبصورت فوارہ نصب کیا گیا جسے نمازیوں نے عبادت کے لئے استعمال کیا جو آج بھی موجود ہے۔ سلیمان کے حکم سے یروشلم کے گرد نئی دیواریں تعمیر کی گئیں یہ بھی اب تک دیکھی جا سکتی ہیں۔
اسپین سے بے دخل کئے جانے پر سلطنتِ عثمانیہ کی جانب سے تین بحری جہاز روانہ کئے گئے جو وہاں موجود یہودیوں کو بھی اپنے ساتھ لائے اور سلطنتِ عثمانیہ نے ان کو پناہ دی۔ انہی یہودیوں نے عثمانی خلیفہ سے فلسطین مانگا لیکن غیرت اسلامی میں خلیفہ سے صاف انکار کر دیا۔ یہودیوں نے پہلی جنگِ عظیم میں برطانیہ کا ساتھ دیا جو کہ سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے عہد میں اقلیتوں جن میں یہودی اور عیسائی دونوں شامل تھے کو مکمل مذہبی آزادی شامل تھی لیکن برطانیہ نے عثمانی سلطنت پر چڑھائی کر دی اور 1917 میں یروشلم فتح کر لیا۔ یہاں صلیبی جنگوں والا وہ قتلِ عام تو نہ ہوا لیکن مسلمانوں کو اتنی اجازت مل گئی کہ وہ مسجدِ اقصیٰ اور حرم شیرف کو عبادت کے لئے استعمال کر سکتے تھے لیکن براطانوی حکومت کی اجازت سے۔1948ء میں جب برطانیہ نے یروشلم چھوڑا تو لاکھوں کی تعداد میں یہودی وہاں پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے زبردستی ایک حکومت کی بنیاد رکھی جسے اسرائیل کا نام دیا گیا۔ یروشلم کا ایک حصہ اسرائیل جبکہ ایک حصہ اردن کے ہاتھ چلا گیا۔
۔1967ء میں یہودیوں نے مکمل یروشلم فتح کر لیا اور قبۃ الصخرۃ پر اسرائیلی پرچم نصب کر دیا۔نہ صرف یہ بلکہ آسٹریلیا کے ایک انتہا پسند نے مسجد میں آگ لگا دی اور مسجد کا بیشتر حصہ جل گیا جس میں عثمانی دور کی خطاطی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ سے نصب کیا گیا منبر بھی شامل تھے۔آج یروشلم اور مسجدِ اقصیٰ اسرائیلی قبضے میں ہیں، مسجد میں داخلے پر اسرائیلی پولیس معین ہے اور ان کی مرضی ہے وہ کسی کو عبادت کے لئے جانے دیں یا نہ جانے دیں۔مسجد اقصیٰ ایک بار پھر سے ایک فاتح کے انتظار میں ہے۔ پچھلی بار 88 سال کا انتظار تھا لیکن آنے والے وقتوں میں سلطنتِ عثمانیہ تک مسجد آباد رہی اور مسلمانوں کے پاس رہی۔ اب ایک بار پھر سے انتظار ہے، کم یا زیادہ یہ اللہ بہتر جانتا لیکن کہتے ہیں مسجد اقصیٰ ایک بار پھر سے آزاد ہونے والی ہے۔۔
ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
No comments:
Post a Comment