بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ
مبادا کہ ہوجائے نفرت زیادہ
تکلف علامت ہے بیگانگی کی
نہ ڈالو تکلف کی عادت زیادہ
نہ ڈالو تکلف کی عادت زیادہ
کرو دوستو پہلے آپ اپنی عزت
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ
نکالو نہ رخنے نسب میں کسی کے
نہیں اس سے کوئی رذالت زیادہ
نہیں اس سے کوئی رذالت زیادہ
کرو علم سے اکتساب شرافت
نجابت سے ہے یہ شرافت زیادہ
نجابت سے ہے یہ شرافت زیادہ
فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ
جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زباں سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ
مصیبت سے ایک اک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ
کرو ذکر کم اپنی داد و دہش کا
مبادا کہ ثابت ہو خست زیادہ
مبادا کہ ثابت ہو خست زیادہ
پھر اوروں کی تکتے پھرو گے سخاوت
بڑھاؤ نہ حد سے سخاوت زیادہ
بڑھاؤ نہ حد سے سخاوت زیادہ
کہیں دوست تم سے نہ ہوجائیں بد ظن
جتاؤ نہ اپنی محبت زیادہ
جتاؤ نہ اپنی محبت زیادہ
جو چاہو فقیری میں عزت سے رہنا
نہ رکھو امیروں سے ملت زیادہ
نہ رکھو امیروں سے ملت زیادہ
وہ افلاس اپنا چھپاتے ہیں گویا
جو دولت سے کرتے ہیں نفرت زیادہ
جو دولت سے کرتے ہیں نفرت زیادہ
نہیں چھپتے عیب اتنی ثروت سے تیرے
خدا دے تجھے خواجہ ثروت زیادہ
خدا دے تجھے خواجہ ثروت زیادہ
ہے الفت بھی وحشت بھی دنیا سے لازم
پہ الفت زیادہ نہ وحشت زیادہ
پہ الفت زیادہ نہ وحشت زیادہ
فرشتہ سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
بکے مفت یاں ہم زمانہ کے ہاتھوں
پہ دیکھا تو تھی یہ بھی قیمت بھی زیادہ
پہ دیکھا تو تھی یہ بھی قیمت بھی زیادہ
ہوئی عمر دنیا کے دھندوں میں آخر
نہیں بس اب اے عقل مہلت زیادہ
نہیں بس اب اے عقل مہلت زیادہ
غزل میں وہ رنگت نہیں تیری حالی
الاپیں نہ بس آپ دھیرت زیادہ
الاپیں نہ بس آپ دھیرت زیادہ
دیوان حالی
خواجہ الطاف حسین حالی
خواجہ الطاف حسین حالی
No comments:
Post a Comment