Saturday, 14 March 2015

بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ

بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ
مبادا کہ ہوجائے نفرت زیادہ
تکلف علامت ہے بیگانگی کی
نہ ڈالو تکلف کی عادت زیادہ
کرو دوستو پہلے آپ اپنی عزت
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ
نکالو نہ رخنے نسب میں کسی کے
نہیں اس سے کوئی رذالت زیادہ
کرو علم سے اکتساب شرافت
نجابت سے ہے یہ شرافت زیادہ
فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ
جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زباں سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ
مصیبت سے ایک اک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ
کرو ذکر کم اپنی داد و دہش کا
مبادا کہ ثابت ہو خست زیادہ
پھر اوروں کی تکتے پھرو گے سخاوت
بڑھاؤ نہ حد سے سخاوت زیادہ
کہیں دوست تم سے نہ ہوجائیں بد ظن
جتاؤ نہ اپنی محبت زیادہ
جو چاہو فقیری میں عزت سے رہنا
نہ رکھو امیروں سے ملت زیادہ
وہ افلاس اپنا چھپاتے ہیں گویا
جو دولت سے کرتے ہیں نفرت زیادہ
نہیں چھپتے عیب اتنی ثروت سے تیرے
خدا دے تجھے خواجہ ثروت زیادہ
ہے الفت بھی وحشت بھی دنیا سے لازم
پہ الفت زیادہ نہ وحشت زیادہ
فرشتہ سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
بکے مفت یاں ہم زمانہ کے ہاتھوں
پہ دیکھا تو تھی یہ بھی قیمت بھی زیادہ 
ہوئی عمر دنیا کے دھندوں میں آخر
نہیں بس اب اے عقل مہلت زیادہ
غزل میں وہ رنگت نہیں تیری حالی
الاپیں نہ بس آپ دھیرت زیادہ
دیوان حالی
خواجہ الطاف حسین حالی​

No comments:

Post a Comment