Friday 27 March 2015

ان اللہ قد غفر الکفل

بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو ہمیشہ رات دن برائی میں پھنسا رہتا تھا۔ کوئی سیاہ کاری ایسی نہ تھی جو اس سے چھوٹی ہو۔ نفس کی کوئی ایسی خوائش نہ تھی جو اس نے پوری نہ کی ہو۔ ایک مرتبہ اس نے ایک عورت کو ساٹھ دینار دے کر بدکاری کے لئے آمادہ کر لیا۔ جب وہ تنہائی میں اپنے برے کام کے ارادے پر مستعد ہوا تو نیک بخت بید لرزان کی طرح تھر تھرانے لگی اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتیں ہیں۔ چہرے کا رنگ فق ہو گیا، رونگٹے کھڑے ہو گئے ، کلیجہ آنسو اچھلنے لگا، کفل حیران ہو کر پوچھتا ہے اس ڈر، خوف اور دہشت کی وجہ کیا ہے؟
لڑکی بھرائی ہوئی زبان میں بولی ”مجھ اللہ کے عذابوں کا خیال ہے اس زبوں کام کو ہمارے پیدا کرنے والے نے حرام کر دیا ہے۔ یہ فعل بد ہمارے مالک ذولجلال کے سامنے زلیل و رسواء کرے گا۔ منعم حقیقی محسن قدیمی کی یہ نمک حرام ہے۔ واللہ! میں نے کبھی بھی اللہ کی نافرمانی پر جرأت نہ کی۔ ہائے حاجت اور فقرہ فاقہ، کم صبر اور بے استقلالی نے یہ روز بد دکھایا کہ جس کی لونڈی ہوں اس کے سامنے اس کے دیکھتے ہوئے اس کی نافرمانی کرنے پر آمادہ ہو کر اپنی عصمت بیچنے اور اچھوت دامن پر دھبہ لگانے پر تیار ہو گئی لیکن اے کفل! بخدائے لایزال، خوفِ اللہ مجھے گھلائے جا رہا ہے، اس کے عذابوں کا کھٹکہ کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ ہائے آج کا دو گھڑی کا لطف صدیوں خون تھکوائے گا اور عذاب الٰہی کا لقمہ بنوائے گا۔ اے کفل! اللہ کے لئے اس بدکاری سے باز آ جا،اپنی اور میری جان پر رحم کر۔ آخر اللہ کو منہ دکھانا ہے۔“
اس نیک بخت کی پر خلوص اور سچی باتوں نے کفل پر گہرا اثر ڈالا۔ کفل اپنے انجام پر غور کر کے اپنی سیاہ کاریوں کو یاد کر کے رویا اور کہنا لگا اے پاکپاز عورت! تو محض ایک گناہ وہ بھی نا کردہ پر اس قدر کبریائے ذولجلال سے لرزاں ہے۔ ہائے میری تو ساری عمر ہی بدکاریوں اور سیاہ اعمالیوں میں گزر گئی۔ میں نے اپنے منہ کی طرح اپنے اعمال نامے کو بھی سیاہ کر دیا۔ خوف خدا کبھی پاس بھی نہ بھٹکنے دیا۔ عذاب الٰہی کی کبھی بھولے سے بھی پرواہ نہ کی۔ ہائے میرا مالک مجھ سے غصہ ہو گا۔ اس کے عذاب کے فرشتے میری ناک میں ہونگے۔ جہنم کی غیظ و غضب اور قہر آلود نگاہیں میری طرف ہو گیں۔ میری قبر کے سانپ بچھو میرے انتظار میں ہونگے۔ اے نیک بخت! مجھے تو تیری نسبت زیادہ ڈرنا چاہئے۔ نہ جانے میدان محشر میں میرا کیا حال ہو گا۔ اے بزرگ عورت! گواہ رہو میں آج سے تیرے سامنے سچے دل سے توبہ کرتا ہوں کہ آئیندہ رب کی ناراضگی کا کوئی کام نہیں کروں گا۔ اللہ کی نافرمانیوں کے پاس نہ بھٹکوں گا۔ میں نے وہ رقم تمھیں اللہ کے واسطے دی اور میں اپنے ناپاک ارادے سے ہمیشہ کے لئے باز آیا۔
پھر گریہ زاری کرتا ہے اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہے اور اپنے اعمال نامے کی سیاہی کو دھوتا ہے۔ دامن امید پھیلا کر دست طلب دراز کرتا ہے کہ رب العالمین مری سر کشی سے در گزر فرما مجھے اپنے دامن عفوی میں چھپا لے۔ میرے گناہوں سے چشم پوشی فرما مجھے اپنے عذابوں سے آزاد کر۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی رات اس کا انتقال ہو گیا صبح کو لوگ دیکھتے ہیں کہ اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا ہے : ”ان اللہ قد غفر الکفل“ یعنی اللہ تعالٰی نے کفل کے گناہ معاف کر دئیے۔
(ترمزی شریف)

No comments:

Post a Comment