ایس اے ساگر
تاریخ میںرابعہ عصر حضرت سیدہ بی بی زلیخاوالدہ ماجدہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیا محبوب الہٰی رحمة اللہ علیہ کا اسم گرامی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔حضرت بی بی زلیخاکی حیات وکرامات کے حوالہ سے سید عینین علی حق کی کتاب ’حضرت مائی صاحبہؒ“ نے علمی اورادبی حلقوں کو متوجہ ہونے پر مجبور کردیا ہے۔سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاکے والد ماجد کا نامِ گرامی حضرت سید احمد بخاری علیہ الرحمة ہے۔ ان کا آبائی وطن بخارا تھا۔سیکہا جاتا ہے کہ احمد بخاری علیہ الرحمة اپنے والد حضرت سید علی بخاری کے ہمراہ 607ہجری میں بعد عہد شمس الدین التمش بدایوں تشریف لائے۔ اپنے والد کے مرید و خلیفہ بھی تھے۔ بدایوں میں محلہ پتنگی ٹیلہ یعنی قاضی ٹولہ میں سکونت اختیار کی۔ آپ بدایوں میں جامع مسجد شمسی کے پہلے امام مقرر ہوئے۔ سلطان التمش نے بدایوں کے منصب قضا پر فائز کیا۔شب و روز یادِ الٰہی میں مشغولیت ان کا شیوہ تھا۔ بی بی زلیخا بنت سید عرب بخاری آپ کی شریک حیات بنیں، جن کے بطن سے اپنے وقت کے امام الاولی محبوبِ الٰہی سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا دنیا میںتشریف لائے۔ والدین نے آپ کا نام محمدرکھا تھا۔ ابھی آپ کمسن طالب علم ہی تھے، ایک روز آپ نے دروازے پر مولانا نظام الدین کی صدا سنی۔ آپ نے باہر آکر دیکھا تو باہر ایک شخص کھڑا تھا اس نے آپ کو سلام عرض کیا۔ السلام علیکم،مولانا نظام الدین ، اسی دن سے آپ نظام الدین کے نام سے معروف ہوئے۔22مارچ کو درگاہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، درگاہ محبوب الہٰی کے علاوہ دیگر درگاہوں کے صاحبزادگان نے رسم اجرا میں شرکت کی۔ درگاہ محبوب الہٰی مسجد کے امام سید منہاج الاسلام نظامی نے شجرہ طریقت پیش کیا۔حضرت خواجہ سید حسن ثانی نظامی کے بھتیجہ خواجہ سید محمد نظامی نے کتاب کے حوالہ اعتراف کیاکہ مائی صاحبہ کے تعلق سے اس کتاب کی بے حد ضرورت تھی جبکہ آپ کے متعلق بہت لوگ جانتے تک نہیں ہیں۔ مائی صاحبہ کی شخصیت بادشاہ گر کی ہے ۔ اس کتاب کے ذریعہ آپ کی شخصیت سے عقیدت مند آشنا ہوں گے۔ سید عینین کے اس کام کو فراموش نہیں کیا جاسکتاہے۔
تحقیق کے نئے باب:
ڈاکٹر سید محمد علی نظامی نے کہاکہ سید عینین علی حق کی عقیدت ، بزرگان دین کی حیات وخدمات سے معلومات اور ادبی شوق کا یہ نتیجہ ہے کہ حضرت مائی صاحبہؒ کے حوالہ سے انہوں نے تمام دانشوروں کے مضامین جمع کرکے ایک کتاب قلم بند کردی ہے۔ یہ ایک نایاب سرمایہ ہمارے ہاتھ میں ہے جس کی کمی کا احساس عرصہ دراز سے ہوتا رہا ہے۔ بلاشبہ عینین مبارک باد کے مستحق ہیں۔ڈاکٹر سید اقبال احمدکے بقول مائی صاحبہ پر یہ عمدہ تصنیف ہے جبکہ مرتب عینین نے کافی عرق ریزی سے کام کیا ہے۔ مائی صاحبہ کے حوالہ سے یہ پہلی کتاب ہے ، اس کتاب کے بعد مائی صاحبہ پر تحقیق کے نئے باب کھل رہے ہیں۔حضرت خواجہ سید نظام الدین اولیامحض5برس کے تھے توآپ کے والد ماجدکاانتقال ہوگیا جبکہ سیدہ بی بی زلیخا جو خدا شناس و پارسا خاتون تھیں۔وہ اپنی بیوگی اور لخت جگر کی یتیمی سے بے حد پریشان ودل گرفتہ نہ ہوئیں بلکہ انہوں نے نامساعدحالات سے مردانہ وار مقابلہ کیا اور فرزند دل بند کی تعلیم و تربیت کے لیے کمر بستہ رہیں اور ان کی پرورش اور دینی و اخلاقی تربیت مادرانہ شفقت اور پدرانہ حوصلہ مندی کے ساتھ کرنے لگیں۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ زلیخا رحمة اللہ علیہما نے انتہائی افلاس اور تنگ دستی کے باوجود سوت کاٹ کاٹ کر اپنے ہونہار فرزند کی تعلیم و تربیت پر مکمل توجہ مرکوز رکھی۔
تحریروں کو کیایکجا :
عینین علی حق دہلی یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں ساتھ ہی وہ ایک روزنامہ کے رپورٹر بھی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مصروفیات کے باوجود وہ ایک ایسا کام کرنے کا ارادہ کیسے کیا ہوگا جبکہ ا بظاہران کے کیریئر کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔107صفحات پر مشتمل ڈمائی سائز کی کتاب میں عینین علی حق کے مضمون اور پیش لفظ کے علاوہ 17مضامین شامل ہیں ۔’عرض ناشر‘کے عنوان ڈاکٹر سید محمد علی نظامی سجادہ نشین درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کا تبصرہ بھی شامل ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے عینین علی حق کی حضرت مائی صاحبہ سے والہانہ عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ کتاب میں موجود دیگر رشحات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب موصوف نے کس عرق ریزی سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت امیر خورد کرمانی، حضرت خواجہ حسن نظامی، بشیر الدین احمد، سید ابوالحسن علی ندوی، پروفیسر نثار احمد فاروقی، ڈاکٹر محمد حفظ الرحمن ، ڈاکٹر مفتی مکرم احمد، پروفیسر اخترالواسع ، اطہر صدیقی ، خواجہ اشہر قادری پیر بگھوی، اشتیاق ایوبی فریدی، سیدہ سعدیہ نظامی بدایونی، رو ¿ف رامش، ڈاکٹر سید محمد علی نظامی، فہیم احمد ثقلینی ازہری، اور سلمان عبدالصمد کی حضرت مائی صاحبہؒ پر تحریروں کو یکجا کر دیا ہے۔
ماں کی گود مکتب اول:
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر دور میں بلند وبالا عمارتوں کی تعریف و توصیف کی ہے ان عمارتوں کی بنیاد میں موجود ان سنگلاخ چٹانوں پرکسی کی نظر ہی نہیں جاتی جن کے کاندھوں پر یہ عمارتیں کھڑی ہیں۔ حیرت تو اس امر پر بھی ہوتی ہے کہ اپنی جڑوں کی تلاش میں سرگرداں اصحاب بھی صرف اور صرف عہد قدیم کے ہیرو ز کی تلاش تک ہی محدود رہتے ہیں۔ ان نابغہ روزگار اصحاب کے اولین مکتب ماں اور ماں کی گود تک رسائی کی نہ کوشش ہوئی تھی اور نہ ہوئی ہے۔
’حضرت مائی صاحبہ‘کے مطالعہ کے بعد کئی باتیں قلب وذہن میں یہ احساس تازہ ہوتا ہے کہ مردوں کی کامیابی کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا بھی ہاتھ ہوتا ہے ۔اسی طرح بچوں کیلئے ماں کی گود ہی مکتب اول ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ کرہ ارض پر انمٹ نقوش چھوڑجانے والی بے شمار ہستیوں کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا کردار رہا ہے ۔ یہ عورت خواہ ممتا کی پیکر ماںہوں یا پھر محبت کی لاثانی مثال بہن یا میدان زندگی میں قدم دم سے ملانے کر چلنے والی رفیق حیات ۔محبو ب الہی حضرت نظام الدین اولیا ہندوستانی تاریخ میں نہ صرف ایک صوفی کی حیثیت رکھتے ہیں ،بلکہ دیگر صوفیا واولیا کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے انھوں نے اخوت اور بھائی چارہ کی علمبرداری کا فریضہ بھی انجام دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی درگاہ پر آج بھی بلاتفریق مذہب وملت پریشان دل افراد کیلئے سکون قلب کا سامان ہے ۔امن وسلامتی کے متلاشی اور ذہنی لطافت وشیفتگی کے جویا درگاہ کے پرکشش مناظر سے اپنے قلوب کو منور کرتے ہیں ۔یہ سچ ہے کہ محبوب الہی کو محبو ب الہی بنانے میں ان کی مادرِ بے نظیر کا ہی کردار ہے ۔
انتخاب کا ذوق:
سید عینین علی حق نے جن جن مضامین کا انتخاب کیا ہے ، وہ نہ صرف مائی صاحبہ کی زندگی کومنظرعام پر لاتے ہیں ، بلکہ ان کی زندگی کے تناظر میں موجودہ عہد کی ماو ں کیلئے بھی بہترین مثال بھی ہے ۔ مائی صاحبہ ؒ پر بالاستیعاب کوئی کام نہیں تھا ، محبوب الہی کی زندگی اوران کے کارناموں کے مابین کہیں کہیں مائی صاحبہ کی شخصیت ابھرتی تھی ، ان کی زندگی سے خاطر خواہ کوئی واقفیت نہیں ہوپاتی تھی ، اسی کمی کو پورا کرتے ہوئے عینین علی حق نے یہ کاوش کی ہے ، جس سے ترتیب وانتخاب کا ذوق واضح ہوتا ہے ۔پیش لفظ میں کہا گیا ہے کہ ان صوفیائے کرام کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کی ماو ¿ں کو بیشتر اوقات یاد نہیں کیا جاتا ہے یا فراموش کردیا جاتا ہے ، جب کہ ان صوفیا ئے کرام کی پرورش وپرداخت میں خدا کی نیک صفت خواتین کا اہم کردار رہا ہے ۔‘ سید عینین نے مختصراً صوفیا کی حیات وخدما ت اور عوامی زندگی میں ان کے اثرات پر اچھی گفتگو کی ہے ۔ان کے انداز تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ مرتب تحقیق وتنقید کیساتھ ساتھ اچھے تجریے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ عموماً ایسا ہی ہواہے کہ ترتیب وانتخاب میں عصری تقاضوں کا خاص خیال نہیں رکھا گیا ، فقط تاریخی پس منظر کی ساری باتیں کہہ دی جاتی ہیں ، جوفقط تاریخ نامہ بن کر رہ جاتا ہے ، تاہم اس کتاب میں شامل مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرتب نے عصری پیغام کو سامنے رکھتے ہوئے مواد جمع کیا ہے ۔ تمام مضامین پر گفتگو تو مشکل ہے ، تاہم چند پر اجمالاً گفتگو مناسب ۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے مضمون ’مائی صاحبہ کو اللہ سے خاص تعلق تھا ‘میں مائی صاحبہ کے صبر وقناعت اور توکل علی اللہ کی نادر مثالیں موجود ہیں ، جو محبوب اولیا کی زبانی ہم تک پہنچی ہےں۔ ظاہر ہے کہ محبو ب الہی کے قلب وذہن میںماں کی تمام باتیں اور اعمال وکردار گھر کرگئے ،جس کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آیا کہ وہ بھی توکل علی اللہ کے جذبہ سے سرشار ہوئے ۔
نئے مناظرکاانتظار:
پروفیسر اخترالواسع اور مفتی مکرم نے اپنے مضامین میں مائی صاحبہ کے جن اوصاف وکردار کا تذکرہ ہے ، وہ قناعت اور صبر وتوکل کی اعلی مثال ہے ۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن اور سلمان عبدالصمد نے بھی اپنے مضمون میں ان پہلووں کو اجاگر کیا ہے ، جو تاریخی نوعیت کے بھی ہیں اور پیغام رسانی کے لحاظ سے بھی قابل قدرہے ۔ موخرالذکرمضمون نگار نے ’مائی صاحبہ اور ہماری مائیں ‘میں آج کی ماو ں کو پیغام دینے کی سعی کی ہے ۔ درحقیقت ماں جن اوصاف سے متصف ہوتی ہیں ، ان کا واضح اثر بچوں پر ہوتا ہے ،ا س لئے ماں کو ممتا کی پیکر بننے کیساتھ قناعت وتوکل اور صبر وشکر کی خوگر بننا بھی ضروری ہے ۔اسی طرح اطہر صدیقی کا مضمون بھی پڑھنے کے قابل ہے۔ساتھ ہی اخوت ومودت کی مثالوں سے لبریز ہے جبکہ تمام مضامین صبروقناعت کی تعلیم سے مزین ہیں۔ماسٹر آف فلاسفی(ایم فل) میں1980کے بعد فسادات اور دہشت پسندی پر مبنی کہانیوں کے بعد عینین کا سفر جاری ہے۔پی ایچ ڈی میںآزاد ہندوستان میں فسادات اور دہشت پسندی سے متعلق افسانے اب ان کا تحقیقی سفر نئے مناظر پیش کرے گا۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ سید عینین علی حق اپنی اس کاوش کے بعد مزید اپنی کاوشوں سے دامن اردو کو آبد ار بنائیں گے ۔
280315 syed ainain ali haq ka ilmi o adabi safar by s a sagar
http://www.geourdu.co/columns-and-articles/kusbuyy-badayoon-sultan-almsayk-hazrat/
No comments:
Post a Comment