Sunday, 8 March 2015

پرکشش مرد ہو تے ہیں خود غرض!

خوبصورتی کا آپ کی شخصیت پرکتنا اثر ہوتا ہے؟ اس حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ پرکشش لوگوں کی خوبصورتی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے جو ان کے لیے کامیابیوں کا راستہ کھولتی ہے لہذا اپنی برتری کے اس احساس کے ساتھ یہ دوسروں کی مدد کرنے میں بھی بہت کم سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس سے ان کی باطن کی خوبصورتی دھندلا سکتی ہے۔ 
سائنسدانوں نے ظاہری خوبصورتی کو سائنسی پیمانے پر ناپنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مرد اور عورت کا زیادہ پرکشش ہونا انھیں کٹھور دل اور خودغرض بنا سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے کہا کہ ان کی تحقیق میں مرد کے حسن و جمال کا انسانی مساوات کے ساتھ منفی تعلق نظر آیا ہے اور یہ بھی پتا چلا ہے کہ اوسط جاذب نظر مردوں کے مقابلے میں مردانہ وجاہت رکھنے والے مرد خودغرض ہو سکتے ہیں۔ ان میں دوسرے لوگوں کو اپنی برابری کا خیال کرنے کا امکان کم ہوتا ہے لیکن اس نتیجے کے برعکس انتہائی پرکشش خواتین میں خود غرضی کا امکان مردوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
برطانوی محققین اپنے مطالعے میں اس ارتقائی نفسیاتی نظریے کی جانچ کی ہے جس کے مطابق پرکشش مرد اور خواتین کو معاشرتی نظام ہر معاملے میں فوقیت دیتا ہے اور معاشرہ خود انھیں بہتر سماجی حیثیت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے جس سے معاشرے میں عدم مساوات پروان چڑھتی ہے اور انھیں اس سے مزید فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ پورا معاشرتی نظام ان کے حق میں کام کرتا ہے۔
لندن کی برونیل یونیورسٹی کے ماہرین نے 125 مرد اور خواتین کا تھری ڈی باڈی اسکینر کے ذریعے معائنہ کیا جس کی بنیاد پر انھیں نمبر دیے گئے۔ تحقیق دانوں نے شرکاء سے ایک سوالنامہ بھرنے کو کہا جس میں مساوات اور خود غرضی کی طرف ان کے رویوں کا جائزہ لیا گیا۔
مطالعے کے دوسرے حصے میں ایک علحیدہ گروپ کے افراد کو ان پرکشش افراد کی تصاویر دکھائی گئیں اور خود غرضی اور ایثار کی بنیاد پر خوبصورت لوگوں کے بارے میں رائے دینےکو کہا گیا۔
تحقیق کی قیادت کرنے والے تفتیش کار مائیکل پرائس نے کہا نتیجے سے لگ رہا تھا کہ ہو سکتا ہےکہ وجہہ مرد دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اور تعصب کا نظریہ انھیں مزید خود غرض اور انا پرست بنا دیتا ہے۔
سائنسی جریدے 'ایولشنری سائیکلولوجی' میں شائع ہونے والے نتائج کے بارے میں ڈاکٹر پرائس کہتے ہیں کہ عام طور پر لوگ خیال کرتے ہیں کہ زیادہ پرکشش افراد خود غرض ہوتے ہیں اور دوسروں کو اپنے برابر کا خیال نہیں کرتے ہیں۔ تحقیق میں یہ نظریہ سچ نظر آیا ہے لیکن پرکشش خواتین کے معاملے میں ایسا نہیں تھا بلکہ خوبصورتی کی بنیاد پر استحصال کا رویہ خواتین کی نسبت مردوں میں زیادہ پایا گیا۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر پرائس نے کہا کہ ''ہمارے نتائج سے ظاہر ہوا کہ جن مرد اور خواتین نے پرکشش ہونے کی بنیاد پر زیادہ نمبر حاصل کئے تھے ان میں دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور برابری کا برتاؤ کرنےکا رجحان کم تھا۔''
تاہم ڈاکٹر پرائس کے مطابق ''پرکشش خواتین میں خود غرضی کا رویہ کم نظر آیا ہے جیسا کہ ان کے بارے میں عام طور پر لوگ خیال کرتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر خواتین میں مردوں کے مقابلے میں بڑے پیمانے پرمساوات کی نمائش کی۔''
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ''لوگوں میں تعصب پر قابو پانے میں مدد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے تعصب کے معاملے پر بات کی جائے کیونکہ نتائج میں خوبصورتی اور خودغرضی کے درمیان تعلق بہت نمایاں نہیں تھا اور بہت سے پرکشش مرد زیادہ ایثار پسند ہو ں گے اور ان میں دوسروں سے برتری کا احساس بھی نہیں ہوگا ۔''


مونگ پھلی کھا نے سے لمبی عمر
مونگ پھلی کی افادیت کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں مونگ پھلی کے استعمال کو لمبی عمر کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ مونگ پھلی اور گری دار خشک میوے کھانے والے لوگوں میں عارضہ قلب سے ہونے والی اموات کا خطرے کم تھا۔ آن لائن جریدہ 'جاما انٹرنیشنل میڈیسن' میں اسی ہفتے شائع ہونے والی تحقیق امریکہ کی یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن سے وابستہ محقق ڈاکٹر ژاؤ او شو نے خشک میوے اور موت کے خطرے کی شرح کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی ہے ۔
مطالعے کے مصنف ژاؤ او شو نے کہا کہ ہماری تحقیق میں مونگ پھلی کھانے سے قلبی فوائد ظاہر ہوئے ہیں مطالعے میں جن لوگوں نے خشک میوے کے طور پرمونگ پھلی کھائی تھی ان میں مطالعے کی مدت کے دوران موت کا خطرہ ایسے لوگوں کی نسبت کم تھا جنھوں نے خشک میوہ کم استعمال کیا تھا یا بالکل نہیں کھایا تھا۔
محقق ژاؤ او شو نے کہا کہ مونگ پھلی اگرچہ خشک میوہ نہیں ہے اور اس کی درجہ بندی پھلی کے طور پر کی جاتی ہے لیکن اس کے غذائی اجزاء خشک میوے سے ملتے جلتے ہیں۔
انھوں نے تجویز کیا ہے کہ جن لوگوں کو مونگ پھلی سے الرجی نہیں ہے انھیں دل کی صحت کے فوائد کے لیے زیادہ سے زیادہ مونگ پھلی کھانی چاہیئے جو دوسرے میووں کےمقابلے میں سستی بھی ہے ۔
امریکی طبی ماہرین کہتے ہیں کہ مونگ پھلی میں دیگر میوہ جات کی طرح انسانی صحت کے لیے بے شمار طبی اور غذائی فوائد چھپے ہیں اس میں اعلی درجہ کی پروٹین وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ مونگ پھلی کا مفید روغن ،وٹامن ای ،نمکیات ،فائبر دل کی بیماریوں کے لیے قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں۔
مطالعے میں سائنسدانوں نے 70,000 سے زائد امریکیوں اور افریقہ کے لوگوں کے خوراک سے متعلق سوالنامہ کے اعداد وشمار کا تجزیہ کیا ہے اس کے علاوہ مطالعہ میں چین کے کم آمدنی والے 134,000 مرد اور خواتین کے کھانے پینے کی عادتوں کے بارے میں معلومات کا تجزیہ بھی شامل تھا ۔
امریکہ ،افریقہ اور چین کے مطالعوں کے شریک گروپوں میں عورتوں نے سب سے زیادہ مونگ پھلیاں کھائی تھیں ۔
نتیجہ سے یہ یات سامنے آئی کہ تینوں گروپ میں گری دار میوہ کل اموات اور دل کی بیماری 'سی وی ڈی' سے موت کے کم خطرے کے ساتھ منسلک تھا۔ جبکہ تمام نسلی گروہوں میں زیادہ مونگ پھلیاں کھانے والوں میں دل کی بیماریوں کا خطرہ کم تھا اور یہ تعلق مردوں اور عورتوں دونوں میں ظاہر ہوا جو زیادہ مونگ پھلی کھاتے تھے۔
امریکی مطالعہ کے گروپ کے تجزیہ سے نتیجہ ظاہر ہوا کہ جن لوگوں نے مطالعے کی چھ سالہ مدت کے دوران زیادہ مونگ پھلیاں کھائی تھیں ان میں موت کا خطرہ 21 فیصد تک کم تھا ان لوگوں کے مقابلے میں جو مونگ پھلیاں نہیں کھاتے تھے ۔
تجزیہ کاروں نے دیکھا کہ ایشیائی شرکاء کے مطالعے میں جن لوگوں گری دار میوے اور مونگ پھلیوں کا زیادہ استعمال کیا تھا ان میں موت کا خطرہ ایسے لوگوں کی نسبت 17 فی صد کم تھا جو بہت کم مونگ پھلیاں کھاتے تھے ۔
تاہم محقق نے کہا مطالعے میں شامل لوگوں کو دن بھر میں 17 سے 18 گرام مونگ پھلی کھانے کی ضرورت تھی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کچی مونگ پھلی کے مقابلے میں تلی ہوئی مونگ پھلی الرجی پیدا کر سکتی ہے جبکہ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت پر تلنے کی وجہ سے مونگ پھلی میں کیمیائی تغیرات پیدا ہوتے ہیں جس سے انسان کا مدافعتی نظام زیادہ فعال ہو جاتا ہے اور الرجی کا ردعمل ظاہر ہو سکتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایشیائی ملکوں میں مونگ پھلی سے الرجی کی شرح بہت کم ہےاور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مونگ پھلیوں کو تلنے کے بجائے بھون کریا ابال کر کھانے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے ۔
ذہین بچے
دنیا کے بیشتر حصوں میں لوگوں کی ذہانت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور کیا واقعی لوگ اپنے بزگوں سے ذیادہ ذہین ہیں؟
اکثر والدین کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ہمارے بچے ہم سے زیادہ ذہین ہیں اور لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ایسا صرف اپنے بچے کی تعریف کے لیے کہا جا رہا ہے۔لیکن حال ہی میں ایک میگزین ’انٹیلیجنس جرنل‘ میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق اس بات میں کافی حد تک صداقت ہے۔
کنگز کالج لندن کے محققین پیرا ونگوپراج، وینا کماری اور رابن مورس نے اس سلسلے میں کی گئی 405 گزشتہ تحقیقوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا۔ ان تحقیقوں میں 64 سال کے دوران 48 ممالک کے 2 لاکھ سے ذائد افراد کی ذہانت کے ٹیسٹ کے نتائج موجود تھے۔اس تجـزیے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اوسطًا 1950 سے ’آئی کیو‘ یعنی ذہانت میں 20 پوائنٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ آئی کیو ٹیسٹ کا اوسطًًا نتیجہ ہمیشہ 100 پوائنٹ ہی ہوتا ہے لحاظہ 20 پوائنٹس ایک خاطرخواح اضافہ ہے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں ذہانت میں اضافہ ایک جیسا نہیں ہے۔ ترقی پزیر ممالک کے افراد کے آئی کیو میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ اضافہ چین اور بھارت میں دیکھنے میں آیا ہے۔نئی تحقیق اس رحجان کی مزید تصدیق کرتی ہے جس سے سائنسدان کافی عرصہ سے آگاہ ہیں۔ 1982 میں نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی سے منسلک ایک فلسفی اور ماہر نفسیات ’جیمز فلن‘ پرانے امریکن آئی کیو ٹیسٹ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔انھوں نے دیکھا کہ ہر 25 سال بعد جب نظر ثانی شدہ ٹیسٹ لیا جا تا تو ٹیسٹ میں بیٹھنے والے افراد سے پرانا ٹیسٹ بھی لیا جاتا۔جیمز فلن کا کہنا ہے کہ ’میں نے دیکھا کہ پرانے ٹیسٹ میں نئے ٹیسٹ کی نسبت ہمیشہ لوگوں کے نمبر زیادہ آتے ہیں۔‘ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ یہ ٹیسٹ مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔اگرچہ جیمز اس بات کا پتہ چلانے والے پہلے شخص نہیں تھے مگر پھر بھی اس کو ’فلن افیکٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔فلن کا کہنا ہے کہ اگر آج کے امریکی شہری سو سال پہلے والا ٹیسٹ دیں تو اوسطًا ان کا آئی کیو 130 ہو گا اور اگر سو سال پہلے والے آج کا آئی کیو ٹیسٹ دیں تو ان کا اوسط آئی کیو 70 ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر دہائی میں آئی کیو میں 3 پوائنٹ کا اضافہ ہوا ہے۔
اس اضافے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟اضافے کی ایک وجہ نظامِ تعلیم میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ترقی پزیر ممالک میں لوگ اب سکولوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں اور پڑھانے کے طریقے میں بھی بہتری آئی ہے۔
یہ ایک معقول مفروضہ لگتا ہے کہ تعلیم لوگوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہے۔لیکن درحقیقت اس سے متعلق ثبوت واضع نہیں ہیں۔امریکی سکولوں کی کارکردگی اور بڑھتے ہوئے آئی کیو سکور میں کوئی واضع تعلق نظر نہیں آتا ہے۔
ماہرِ نفسیات ’آرتھر جنسن‘ کا کہنا ہے کہ اب سکول بچوں کو امتحانات میں بیٹھنے کے لیے بہتر طریقے سے تربیت دیتے ہیں اور طالبعلم امتحانات کے دباؤ کے عادی ہوگئے ہیں اس لیے وہ ہر قسم کے ٹیسٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر تے ہیں۔دوسری جانب جیمز فلن کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کے پہلے نصف میں لوگوں کے آئی کیو میں اضافے کی ایک وجہ امتحانات دینے میں مہارت ہو سکتی ہے مگر یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی کیو ٹیسٹ میں تبدیلیوں کے باوجود لوگوں کی ذہانت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ان کے مطابق ذہانت میں اضافے کی وجہ نظامِ تعلیم کے ساتھ معاشرے کے بدلتے ہوئے رویے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اب زیادہ تجریدی اور سائنسی انداز میں سوچتے ہیں اور اسی طرح کی ذہانت کا آئی کیو ٹیسٹ میں جائزہ لیا جا تا ہے۔سکولوں کے علاوہ لو گ اب معاشرے میں بھی بہت سی ایسی چیزیں سکھتے ہیں جو ان کے آئی کیو میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ خاندان اب چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے اب بچے ماں باپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں اور ان کی گفتگو سے بچوں کے علم میں اضافہ ہو تا ہے۔
اس کے ساتھ چھوٹی عمر سے ہی بچوں پر بہتر تعلیم حاصل کرنے اور زندگی میں اچھا مقام حاصل کرنے کے لیے زور ڈالنا بھی ایک عنصر ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ خوراک کے متعلق بھی کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بچے کی ذہانت کی نشونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ان اعداد وشمار کی روشنی میں آج ہمارے درمیان پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ذ ہین لوگ موجود ہیں مگر وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتے؟
اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ ذہین لوگ سائنس اور مخلتلف شعبہِ زندگی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اکثر وہ عام لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو تے ہیں۔
وائرس کا خطرہ
مائیکرو سافٹ نے ایک ایسے وائرس کے بارے میں وراننگ جاری کی ہے جس کے ذریعے حملہ آور صارفین کے محفوظ رابطوں کی بھی جاسوسی کر سکتے ہیں۔
’فریک‘(Freak) نامی یہ وائرس اس سافٹ ویئر میں پایا گیا جو ویب سرورز اور ویب صارفین کے درمیان منتقل ہونے والے ڈیٹا کو خفیہ انداز میں تحریر کرتا ہے۔
ابتدا میں یہ سمجھا گیا کہ یہ خامی صرف چند اینڈورئڈ، بلیک بیری فونز اور ایپل کے سفاری ویب براؤزر استعمال کرنے والوں کے سافٹ ویئر میں پائی گئی ہے۔
مائیکرو سافٹ نے خبردار کیا ہے کہ لاکھوں افراد کا ڈیٹا ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
فریک نامی یہ خامی اینکرپشن اور سکیورٹی کے ماہر کارتھیکیان بھرگوان نے دریافت کی۔
اس کے ذریعے حملہ آور کمزور سائٹس اور کمزور اینکرپشن یعنی ڈیٹا کی اینکوڈنگ کرنے کا ایسا طریقہ استعمال کرنے والے صارفین کے درمیان زبردستی غیر ضروری ڈیٹا کی منتقلی کا کام کرتے ہیں اور اس عمل سے وہ ایسا خلا پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کے ذریعے وہ حساس معلومات چرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اس وائرس کی نگرانی کرنے والے ماہرین کے اندازے کے مطابق دنیا کی مقبول ترین ایک لاکھ ویب سائٹس کا 9.5 فیصد حصہ اس سے متاثر ہو چکا ہے۔
اس نگراں گروپ نے آن لائن ایک ٹُول بنایا ہے جس کے مطابق صارفین یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ آیا وہ ایسا براؤزر تو استعمال نہیں کر رہے جو اس خامی کا شکار ہو۔
توقع ہے کہ ایپل اگلے ہفتے تک اس حامی کو دور کر دے گا۔ جبکہ گوگل نے میک کے لیے اپنے کروم براؤزر کا ورژن اپ ڈیٹ کر دیا ہے۔ تاہم ابھی یہ معلوم نہیں کہ اینڈورئڈ کے لیے کیا گیا ہے۔
مائیکرو سافٹ نے کہا کہ وہ اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے ایک سکیورٹی اپ ڈیٹ پر کام کر رہا ہے۔


وائرلیس موبائل چارجر
دوران سفر موبائل فون چارج کرنے کے لیے اب نہ تو آپ کو تاروں کا بنڈل اپنے ساتھ بیگ میں رکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی پلگ کی شکل کے بارے میں پریشان ہونے کی کیونکہ امید کی جا رہی ہے کہ 2015 وائرلیس چارجر کا سال ثابت ہو گا۔
اسپین کے شہر بارسلونا میں جمعرات 5 مارچ کے روز ختم ہونے والے ٹیلی کام کے عالمی میلے ’موبائل ورلڈ کانگریس‘ میں شریک زیادہ تر کمپنیوں کی طرف سے بتایا گیا کہ بہت جلد یہ ممکن ہو جائے گا کہ آپ اپنے موبائل فون کو خاص پیڈ یا ٹیبل پر رکھ دیں اور وہ اپنی وائرلیس سطح کے ذریعے بجلی جذب کر کے بیٹری کو چارج کر دے گا۔
اس میلے کے دوران جنوبی کوریا کی کمپنی سیم سنگ کی طرف سے یکم مارچ کو اپنا نیا اسمارٹ فون گلیکسی S6 متعارف کروایا گیا۔ اس فون میں وائرلیس چارج کی سہولت رکھی گئی ہے۔
دوسری طرف سویڈن کی معروف فرنیچر ساز کمپنی آئیکیا Ikea نے بیڈ کے اطراف میں رکھی جانی والی چھوٹی میزیں، لیمپ اور ڈیسک متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے جن میں وائرلیس چارجنگ کے لیے جگہ مخصوص ہو گی۔ ایسی چیزیں آئندہ چند ہفتوں میں یورپ اور شمالی امریکی ممالک میں متعارف کرائی جا رہی ہیں۔
امریکی ادارے انسٹیٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینیئرز کے ایک سینیئر رکن کیوِن کیورن Kevin Curran کے مطابق یہ سال ممکنہ طور پر وائرلیس چارجرز کا سال ہو گا: ’’بہت سے معروف اور مہنگے فون اب وائرلیس چارجنگ کی سہولت کے ساتھ آ رہے ہیں۔ آپ کو صرف اپنے فون کو ایک مخصوص میٹ یا اسٹیڈ پر رکھنا ہوتا ہے۔‘‘
اگر کسی فون میں وائرلیس چارجنگ کی سہولت موجود ہے تو اسے چارجنگ پیڈ کی حامل کسی پر بھی سطح پر رکھنے سے اس کی بیٹری چارج ہو جاتی ہے اور فون میں کوئی تار لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
حالیہ برسوں کے دوران وائرلیس چارجنگ کے لیے مختلف ٹیکنالوجیز بھی سامنے آئی ہیں۔ مثلاﹰ سیم سنگ اور آئیکیا نے اپنی ڈیوائسز کے لیے Qi اسٹینڈرڈ اپنایا ہے۔ یہ سسٹم ’وائرلیس پاور کنسورشیم‘ نے تیار کیا ہے جسے 200 مختلف کمپنیوں نے 2008ء میں قائم کیا تھا۔
Qi کنسورشیم کے مطابق ان کا اسٹینڈرڈ دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے جس میں 3000 ہوٹل، ریسٹورینٹس، ایئرپورٹس اور عوامی مقامات شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا نظام موبائل فون کے 80 مختلف ماڈلز کے ساتھ استعمال ہو سکتا ہے۔
Qi کے علاوہ جو دیگر اسٹینڈرڈز اس وقت موجود ہیں ان میں PMA اور A4WP بھی شامل ہیں۔ PMA اور A4WP کی طرف سے جاری شدہ بیان کے مطابق یہ دونوں اسٹینڈرز 2015ء کے وسط تک ضم ہو جائیں گے۔

No comments:

Post a Comment