Friday 27 March 2015

روح کا تخلیہ


جب انسان سوتا ہے تو بیشتر انسان خواب دیکھتے ہیں اور ان خوابوں میں وہ خود کو کسی اور جگہ گھومتے، پھرتے دیکھتے ہیں جبکہ اس کا مادی جسم اپنی جگہ متمکن ہوتا ہے۔ یہ بھی تجربہ بیرون جسم کی ہی ایک صورت ہے۔ خواب میں نظر آنے والی یا گھومنے والی شبیہہ سے خواب دیکھنے والے کو یہ گمان گزرتا ہے کہ وہ خود ہے جبکہ وہ انسان خود نہیں ہوتا بلکہ روحانیت یا تصوف کے نقطہء نظر سے یہ انسانی نفس ہوتا ہے جوکہ نیند کے دوران شیطانی محافل میں شریک ہوتا ہے۔ نفس کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے، اس کی بھی مختلف اقسام ہوتی ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہے:
نفسِ امارہ
یہ نفس کی سب سے خراب قسم ہے، اس طرح کے نفس کے حامل افراد گناہوں سے بھرپور زندگی گزارتے ہیں اور ایسے افراد کے نفس نہایت طاقتور ہوتے ہیں اور بعض اوقات نفس کی یہ شیطانی طاقتیں یہ لوگ استعمال بھی کرتے ہیں، زیادہ تر ایسے لوگ کافر و منافق، عامل، جوگی یا سادھو وغیرہ ہوتے ہیں۔ جن کا مقصد محض خلقِ خدا کو آزار پہنچانا ہوتا ہے۔ ان کو گناہ میں لذت ملتی ہے۔
نفسِ لوامہ
یہ نفس امارہ کی نسبت کچھ بہتر ہوتا ہے، ایسے نفس کے حامل افراد سے بھی گناہ سرزد ہوتے ہیں، لیکن ان میں خدا کا خوف بھی ہوتا ہے اور یہ جان بوجھ کر گناہ کرنے سے باز رہتے ہیں۔ ایسے نفوس کے حامل افراد زیادہ تر عبادت گزار ہوتے ہیں۔
نفسِ الہامہ
نفس یہ کی قسم مذکورہ بالا اقسام سے بہتر ہے، یہ نفس دنیا کثافتوں اور آلودگیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے نفوس کے حامل افراد عموماً سچے خواب یا رویائے صادقہ دیکھتے ہیں۔ ان پر عموماً آگہی بھی ہوتی ہے اور یہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے نفوس اُن لوگوں کے ہوتے ہیں جوکہ ظاہری عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کو پاک کرنے کے لئے مجاہدات و ریاضتیں بھی کرتے ہیں۔ خواب کی صورت میں بھی یہ اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے پاک محفلوں میں جاتے ہیں۔
نفسِ مطمئنہ
یہ نفس کی سب سے اچھی قسم ہے جوکہ ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہوجاتی ہے اور اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہرقسم کے فعل سے بیزار ہوتی ہے۔ یہ عبادت میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے نفوس کے حامل پیغمبر یا ولی ہوتے ہیں۔

مراقبہ

صوفیائے کرام میں مراقبہ کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کرکے سرپر اگر سفید کپڑا میسر ہوتو ڈال کر چند منٹ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر نہایت عاجزی وانکساری کیساتھ دل سے کیا جاتا ہے۔ دل میں اللہ اللہ کیا جاتا ہے زبان خاموش رہتی ہے۔ مراقبہ کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے طریقہ عالیہ قادریہ ودیگر تمام سلاسل صوفیائے کرام میں مراقبہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ مراقبہ میں اپنے باطن کی اتھا ہ گہرائیوں میں جاکر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کیحقیقت سے ناصرف آگاہی حاصل کی جاتی ہے بلکہ مشاہدۂ قدرت بھی کیاجاتاہے۔ مراقبہ کانصب العین صرف اور صرف انسان کے جسم، جذ بات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر آگہی کا گوہر تلاش کرنا ہوتا ہے ۔ مراقبے میں انسان خود کو زمان و مکان کی قید سے آزاد پاتا ہے اور روحانی طریقے سے طیر، سیر کرسکتا ہے لیکن یہ بھی کسی بڑے مرتبے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ہر مذہب کا بندہ تھوڑی سے محنت سے یہ صلاحیت حاصل کرسکتا ہے۔ اس میں مادی جسم اپنی جگہ پر ہی رہتا ہے جبکہ حامل اپنے جسم سے باہر یا کہیں افتادہ ہونے والے واقعات کا مشاہدہ بھی کرسکتا ہے۔ یہ بھی تجربۂ بیرون جسم کی ایک مثال ہے۔ مراقبے کی کئی اقسام ہیں۔ بہت سے لوگ روحوں (لطائف، شکتیاں) کی بیداری اور روحانی طاقت سیکھے بغیر مراقبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا یا تو مراقبہ لگتا ہی نہیں یا شیطانی وارداتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ مراقبہ انتہائی لوگوں کا کام ہے، جن کے نفس پاک اور قلب صاف ہوچکے ہوں۔ عام لوگوں کا مراقبہ نادانی ہے۔ خواہ کسی بھی ظاہری عبادت سے کیوں نہ ہو۔ روحوں کی طاقت کو نور سے یکجا کر کے کسی مقام پر پہنچ جانے کا نام مراقبہ ہے۔ سب سے ادنیٰ مراقبہ قلب کی بیداری کے بعد لگتا ہے، جو کہ ذکر ِقلب کے بغیر ناممکن ہے۔ ایک جھٹکے سے آدمی ہوش و حواس میں آجاتا ہے، استخارے کا تعلق بھی قلب سے ہے۔ اس سے آگے روح کے ذریعہ مراقبہ لگتا ہے، تین جھٹکوں سے واپسی ہوتی ہے، تیسرا مراقبہ لطیفہ ِ انا اور روح سے اکھٹا لگتا ہے۔ روح بھی جبروت تک ساتھ جاتی ہے، جیسا کہ جبرائیل حضور پاک کے ساتھ جبروت تک گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو قبروں میں بھی دفنا آتے ہیں مگر اُنہیں خبر نہیں ہوتی، ایسا مراقبہ اصحاب ِ کہف کو لگا تھا جو تین سو(۳۰۰) سال سے زائد عرصہ غار میں سوتے رہے۔ ایسا مراقبہ جب غوث پاک کو جنگل میں لگتا تو وہاں کے مکین ڈاکو آپ کو مردہ سمجھ کر قبر میں دفنانے کے لئے لے جاتے تھے۔ لیکن دفنانے سے پہلے ہی وہ مراقبہ ٹوٹ جاتا۔

کشف

کشف کے معنی کھولنے اور پردہ اٹھانے کے ہیں۔ روحانیت میں کشف ایک ایسی صلاحیت ہے، جس کی بدولت اس صلاحیت کا حامل کائنات میں کسی بھی جگہ طیر و سیر کرسکتا ہے۔ کشف کرنے والے کو کھلی یا بند آنکھوں سے کشف کرنے پر قادر ہوتا ہے، تاہم یہ کشف کرنے والے کے مراتب و مقامات پر منحصر ہے۔ کشف کی سو سے زائد اقسام ہیں۔ کشف کرنے والے کا مادی جسم دنیا میں اپنی جگہ پر متمکن ہوتا ہے جبکہ تخیل کی پرواز، اُس کو کسی بھی جگہ لے جاسکتی، اس عمل کے دوران کشف کرنے والے کو اپنا مادی جسم بھی نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر روحانی جسم کے ذریعے سفر کررہا ہے۔ کشف کی مشہور اقسام میں سے کشف القبور، کشف الصدور اور کشف الحضور ہیں۔

روحانیت اور تجربہ بیرون جسم

انسانی باطنی مخلوقات کی تشریح روحانیت کے رو سے ہر انسان میں اللہ تعالٰیٰ نے 16 باطنی مخلوقات رکھی ہیں،جن میں سے نفس دنیا میں آنے کے بعد اس ناسوتی دنیا کے اثر سے زیادہ قوی ہوتا ہے لیکن پاکیزہ زندگی گزارنے والوں کے نفس پاک ہوجاتے ہیں، تاہم اس کے لئے اُنہیں سخت عبادات، ریاضات و مجاہدوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ولی کچھ عرصے کے لئے جنگلوں، بیابانوں میں چلہ کشی کے لئے جاتے ہیں تاکہ اپنے اندر کی کثافت و آلودگی کو ختم کرنے کے لئے سخت مجاہدوں اور ریاضتوں سے بلا کسی مداخلت گزر سکیں۔ جیسا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی، لعل شہباز قلندر، بوعلی شاہ قلندر، رابعہ بصریوغیرہ روحانیت و تصوف کی دنیا میں پہلی بار عصرِ حاضر کی معروف روحانی شخصیت ریاض احمد گوھر شاہی نے نہ صرف انسان میں موجود ان باطنی مخلوقات کی بھرپور تشریح و وضاحت کی بلکہ نفس کو پاک کرنے اور ان باطنی مخلوقات کو بیدار کرنے کا طریقہ بھی بتایا۔ اس سے قبل تمام اولیاء اللہ کی تعلیمات و تصانیف میں ان انسانی باطنی مخلوقات کا محض تذکرہ ملتا تھالیکن ان مخلوقات کی نہ صرف پوری وضاحت، اعمال، افعال، اشکال، رنگ حتٰی کہ اذکار بھی ریاض احمد گوھر شاہی نے طشت از بام کردئیے ہیں۔ نفس، لطائف اور جُسے انسانی باطنی مخلوقات ہیں، جن میں نفس ناپاک ہوتا ہے، جب تک نفس ناپاک رہتا ہے، نفس آزاد ہوتا ہے اور باقی مخلوقاتِ روحانی خوابیدہ ہوتی ہیں، جب یہ نفس پاک ہوجاتا ہے تو نور کی خوارک ملنے کے سبب یہ مخلوقات بھی قوی ہوجاتی ہیں اور اس بات پر قادر ہوجاتی ہیں کہ انسانی جسم سے باہر نکل سکیں۔ پھر ایسا شخص جب نماز پڑھتا ہے تو اس کی باطنی مخلوقات، اس کی امامت میں نماز پڑھتی ہیں اور یہ تجربہء بیرون جسم کی ہی مثال ہے۔

موت کی حقیقت

اللہ نے دو جہاں بنائے ہیں ایک عالمِ غیب ہے اور دوسرا عالمِ دنیا ہے۔ ان دونوں جہانوں کے درمیان ایک رکاوٹ ہے جسے برزخ کہا جاتاہے۔
جب اللہ کسی انسان کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو عالمِ دنیا میں جسم اور جان کے تعلق کو قائم فرماتے ہیں اور پھر عالمِ غیب سے ایک روح بھیجتے ہیں جو اس زندہ جسم میں شامل کردی جاتی ہے۔
پھر جب چاہتے ہیں انسان کے جسم سے روح نکال کر واپس برزخ کے اس پار عالمِ غیب میں لے جاتے ہیں اس طرح انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے ، جس کی تین اقسام ہوتی ہیں ، جسمانی موت ، معمولی موت اور معجزاتی موت۔

(1) جسمانی موت

جب اللہ کسی انسان کو جسمانی موت دینے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو اسکی روح کو عالمِ غیب میں لے جاتے ہیں اور قیامت تک جسم اور جان کے تعلق کو منقطع کر دیتے ہیں۔ اس طرح انسان کی جسمانی موت واقع ہوجاتی ہے۔
جسمانی موت کے بعد روح کے عالمِ غیب میں دو ٹھکانے ہو سکتے ہیں ، جنت یا قبر۔

جنت :

اگر انسان شہید ہے یا شہید سے اونچے درجے کا ہے تو اللہ اس کی پاک روح کو براہ راست جنت میں داخل فرماتے ہیں اور وہ جنت میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ یس

قبر :

اگر انسان شہید سے کم درجے کا ہے تو اس کی روح کو قیامت تک ایک عارضی قیام گاہ میں رکھا جاتا ہے جسے قبر کہتے ہیں۔
قبر میں فرشتے اس روح سے کچھ سوال کرتے ہیں ، صحیح جواب دینے پر اس کی قبر کو جنت کا نمونہ بنادیا جاتا ہے ، اورصحیح جواب نہ دینے پر اس کی قبر کو جہنم کا نمونہ بنا دیاجاتا ہے۔ تفسیر ابن کثیر
قبر کے حوالے سے کچھ لوگوں کو تحفظات ہیں کہ اگر کسی کے مردہ جسم کو جلا کر ندی میں بہا دیا گیا یا پرندوں کو کھلا دیا گیا تو اس کی قبر کا کیا ہوگا۔
قرآن میں درج ہے :
اللہ نے انسان کو موت دی اور قبر میں ڈالا۔ عبس
آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ ہی انسان کو موت دیتے ہیں اور قبر میں بھی اللہ ہی ڈالتے ہیں۔
لہذا کسی کے جسم کو اگر پرندے کھا کر اُڑ گئے یا اس کے جسم کو جلا کر ، راکھ دریا میں بہا بھی دی گئی ، تب بھی اللہ اس کی روح کے لئے اپنی قدرت سے قبر کا انتظام فرمائیں گے۔

(2) معمولی موت

جب اللہ کسی انسان کو معمولی موت دینے  کا فیصلہ فرماتے ہیں تو جسم اور جان کے تعلق کوبرقرار رکھتے ہوئے اسکی روح کو عالمِ غیب میں لے جاتے ہیں۔
معمولی موت طاری ہونے پر انسان کے جسم پر وقت اثر انداز ہوتا رہتا ہے  یعنی اس کی عمر بڑھتی رہتی ہے ۔ پھر جب اللہ چاہتے ہیں روح کو جسم میں لوٹا کر اس کی زندگی کو بحال فرما دیتے ہیں۔
جب بھی انسان سوتا ہے اس کی معمولی موت واقع ہوجاتی ہے ۔ الزمر

(3) معجزاتی موت

جب اللہ کسی انسان کو معجزاتی موت دینے  کا فیصلہ فرماتے ہیں تو بھی جسم اور جان کے تعلق کوبرقرار رکھتے ہوئے اسکی روح کو عالمِ غیب میں لے جاتے ہیں۔
معجزاتی موت طاری ہونے پر انسان کے جسم پر وقت اثرانداز نہیں ہوتا ہے یعنی اس کی عمر معجزاتی موت کے وقت پر رُک جاتی ہے۔ پھر جب اللہ چاہتے ہیں روح کو جسم میں لوٹا کر اس کی زندگی کو بحال فرما دیتے ہیں۔
عزیر اور اصحاب الکھف کی معجزاتی اموات ہوئیں تھیں۔ البقرہ ، الکھف
عیسیٰ  پر بھی اس وقت معجزاتی موت طاری ہے۔

موت کے بعد عالمِ دنیا سے روح کی غیرحاضری

تینوں میں سے کسی بھی قسم کی موت واقع ہونے پر انسان کی روح عالمِ دنیا سے غیر حاضر ہوجاتی ہے ، وہ براہ راست عالمِ دنیا کا مشاہدہ نہیں کرسکتی۔
مثال کے طور پر جب انسان سوتا ہے تو اسکی روح عالمِ دنیا سے عالمِ غیب منتقل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔
عیسیٰ  قیامت کے دن اللہ سے اپنی اُمّت کے بارے میں فرمائیں گے کہ :
میں ان پر گواہ رہا جب تک ان کے ساتھ تھا ، پھر جب آپ نے میری روح کو نکال لیا ، تو آپ ہی ان پر نظر رکھنے والے تھے۔ المائدہ
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اللہ نے عیسیٰ  کی روح کو عالمِ دنیا سے عالمِ غیب منتقل کردیا تھا تو عیسیٰ  دنیا میں موجود اپنی اُمّت کا مشاہدہ کرنے سے قاصر تھے۔
لہذا جو روح عالمِ غیب منتقل ہوگئی اسے عالمِ دنیا میں حاضر یا عالمِ دنیا کا ناظر ماننا غیر اسلامی عقیدہ ہے۔

عالمِ دنیا اور عالمِ غیب کا باہمی رابطہ

برزخ حائل ہونے کی وجہ سے عالمِ دنیا میں موجود کوئی بھی روح عالمِ غیب میں موجود کسی بھی روح سے براہ راست رابطہ قائم نہیں کرسکتی ، البتہ اگر اللہ چاہیں تو عالمِ دنیا کی کوئی بھی بات عالمِ غیب میں موجود کسی بھی روح تک پہنچا سکتے ہیں۔

قیامت

ایک وقت آئے گا جب اللہ عالمِ غیب اور عالمِ دنیا کے درمیان سے برزخ کو ختم فرمادیں گے اور دونوں جہاں ایک ہو جائیں گے ، اس دن کو قیامت کہتے ہیں۔

- http://www.addeen.org/muat/#sthash.v0As01qA.dpuf

No comments:

Post a Comment