مولانا روم حکایت بیان فرماتے ہیں:
باز اور بُڑھیا
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کا ایک بادشاہ تھا۔ اس نے ایک نہایت خوبصورت باز پال رکھا تھا جس سے وہ شکار کا کام لیتا تھا۔ باز اس کا وفادار اور اس کے اشاروں پر چلنے والا تھا۔ ایک دن وہ گم ہوگیا۔ تلاش کے باوجود بھی نہ ملا۔ بادشاہ نے ملک بھر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا۔ باز کی تلاش شروع ہوگئی۔
اُدھر باز ایک بُڑھیا کی جھونپڑی میں چلا گیا۔ بُڑھیا ناسمجھ اور جاہل تھی۔ اس نے باز کو دیکھا تو کہا، تو کِن ناسمجھ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے؟ جنھوں نے تیرے پروں کی تراش خراش کی نہ تیرے ناخن کاٹے اور نہ تیری ٹیڑھی چونچ کو سیدھا کیا۔ سو اس نے باز کی چونچ، پروں اور ناخن کو کاٹ دیا اور اسے بالکل بے کار کردیا۔ بادشاہ کے کارندے باز کو ڈھونڈتے ہوئے بُڑھیا کی جھونپڑی تک پہنچے اور باز کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا بیان کیا۔
بادشاہ بہت رویا اور باز سے کہنے لگا تیرا یہی علاج تھا جو بُڑھیا نے کردیا۔ تو نے اپنے مالک سے جو تیری ہر ضرورت کو بہتر سمجھتا اور تیرا خیال رکھتا تھا دغا کی اور ایسی جگہ گیا جہاں نہ تو کوئی تیری ضرورت کو سمجھتا تھا اور نہ تیرا خیال رکھ سکتا تھا۔ پس ذلت تو تیرا مقدر ہونی ہی تھی سو وہ ہوئی۔
آج ہم سیّدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی چھوڑ کر غیروں کی غلامی کر رہے ہیں اللہ کے احکام بھلا کر اللہ کے دشمنوں کے پیروکار بنے ہیں۔ ہمارے زوال کی بڑی وجہ یہی ہے۔
اُدھر باز ایک بُڑھیا کی جھونپڑی میں چلا گیا۔ بُڑھیا ناسمجھ اور جاہل تھی۔ اس نے باز کو دیکھا تو کہا، تو کِن ناسمجھ لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے؟ جنھوں نے تیرے پروں کی تراش خراش کی نہ تیرے ناخن کاٹے اور نہ تیری ٹیڑھی چونچ کو سیدھا کیا۔ سو اس نے باز کی چونچ، پروں اور ناخن کو کاٹ دیا اور اسے بالکل بے کار کردیا۔ بادشاہ کے کارندے باز کو ڈھونڈتے ہوئے بُڑھیا کی جھونپڑی تک پہنچے اور باز کو لے کر بادشاہ کی خدمت میں پیش کرکے سارا ماجرا بیان کیا۔
بادشاہ بہت رویا اور باز سے کہنے لگا تیرا یہی علاج تھا جو بُڑھیا نے کردیا۔ تو نے اپنے مالک سے جو تیری ہر ضرورت کو بہتر سمجھتا اور تیرا خیال رکھتا تھا دغا کی اور ایسی جگہ گیا جہاں نہ تو کوئی تیری ضرورت کو سمجھتا تھا اور نہ تیرا خیال رکھ سکتا تھا۔ پس ذلت تو تیرا مقدر ہونی ہی تھی سو وہ ہوئی۔
آج ہم سیّدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی چھوڑ کر غیروں کی غلامی کر رہے ہیں اللہ کے احکام بھلا کر اللہ کے دشمنوں کے پیروکار بنے ہیں۔ ہمارے زوال کی بڑی وجہ یہی ہے۔
حاسدوں نے سلطان محمود غزنوی کو اطلاع دی کہ حضور کا منہ چڑھا غلام ایاز خزانہ شاہی کو لوٹ لوٹ کر ایک حجرے میں جمع کر رہا ہے۔ وہ اکیلا ہی ادھر جاتا ہے اور کسی کو جانے نہیں دیتا۔ بظاہر تو وہ بادشاہ کا غلام بنا ہوا ہے مگر باطن میں وہ بڑا ہی بدخواہ ہے۔ سلطان جانتا تھا کہ ایاز ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ مخلص بندے سے کبھی بے وفائی ظاہر نہیں ہو سکتی: ہر کہ اندر عشق یا بد زندگی کفر باشد پیش اوجز بندگی اس نے ایک امیر کو حکم دیا کہ جائو اور دوسرے ندیموں کو بھی ساتھ لے جائو۔ رات کو ایاز کے مخفی حجرے کا قفل توڑ دو اور جو کچھ نکلے وہ تمہارا مال ہے۔ یہ لوگ خوشی خوشی روانہ ہوئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ آج ہمیں بے شمار لعل و گوہر دستیاب ہوں گے۔ ان کو روانہ کر کے محمود سوچ میں پڑ گیا کہ اگر خدانخواستہ مخبروں کی بات سچی نکلی تو ایاز شرمندہ ہو گا اور میں نہیں چاہتا کہ وہ شرمساری اٹھائے۔ اول تو اس نے ایساکام کیا ہی نہیں اگر اس نے چوری سے مال جمع بھی کر لیا ہے تو اس کیلئے جائز ہے کیونکہ وہ میرا پیارا ہے۔ اس کا فعل میرا فعل ہے: ایں نکرداست اودگر کرد او رواست ہرچہ خواہد گوبکن محبوب ماست ہرچہ محبوبم کند من کردہ ام او منم من اوچہ گر درپردہ ام محمود کی زبان سے ایاز کی تعریف کرتے کرتے مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپؐ کی ذات گرامی ایک ایسا سمندر ہے جس کی تہہ نہیں۔ سات دریا اس میں ایک قطرہ کی طرح ہیں۔ تمام ہستیاں آپؐ کی مہر کا ایک ذرہ ہیں۔ ہر ایک وہیں سے پاک ہوتاہے۔ ناقص اسی سے کامل ہوتے ہیں۔ آپؐ بادشاہوں کے بادشاہ بلکہ شہنشاہوں کو شاہی عطا کرنے والے ہیں۔ آپؐ کے حسن بے مثال کو خواہ کتنی ہی نیک نظر سے دیکھیں پھر بھی وہ نظر چشم بد کا حکم رکھتی ہے کیونکہ بتقاضائے غیرت اختفا چاہتی ہے تاکہ کوئی دوسرا آپؐ کے حسن کو نہ پائے۔ میرا منہ اگر آسمان جتنا بھی بڑا ہو پھر بھی وہ حضورؐ کے وصف میں تنگ ہی نظر آئے گا۔ اگر میں اتنا بھی نہ کہوں تو میرا نازک شیشہ دل جو حضو رؐکی ثناء سے پر ہے ٹوٹ جائے۔ میں اپنے دل کے شیشہ کو نازک پا کر مجبور ہوںکہ دیوانے کی طرح اپنی قبا پھاڑ کر تسکین حاصل کر لوں۔ الغرض ایاز کے حاسد قفل توڑ کر اندر گھسے مگر وہاں انہیں ایک پرانے جوتے اور فرسودہ پوستین کے سوا اور کچھ نہ ملا۔ فرش کھودا، دیواروں کا پلستر اکھاڑا مگر بے سود۔ آخر اپنا سا منہ لے کر باہر آئے۔ دیکھنے والے بھانپ گئے کہ حاسد نامراد واپس آ رہے ہیں اگر انہوں نے حاصل شدہ زر و جواہر چھپا بھی لیے ہوتے تب بھی ان کے چہرے بتا دیتے کہ یہ کامیاب واپس لوٹے ہیں۔ دیکھو درختوں کی جڑیں اگرچہ چھپی ہوئی ہیںمگر سرسبز شاخیں اور پتے بتا دیتے ہیں کہ جڑیں تر اور شاداب ہیں۔ امیر وزیر بادشاہ کے پاس معذرت کرنے حاضر ہوئے کہ اے جہاں پناہ! ہم سے خطا ہوئی ہمیں بخش دے۔ اگر تو ہمارا خون گرا دے تو بھی حلال ہے: گفت شہ نے ایں نوازو ایں گداز من نخواہم کرد ہست آن ایز بادشاہ نے کہا سزا دینا یا معاف کرنا ایاز کے اختیار میں ہے۔ اسی کا تم نے دل دکھایاہے وہ جو چاہے کرے مختار ہے۔ ایاز نے کہا اے میرے قدر شناس سلطان! میری جان تم پر قربان۔ ان کے لیے ندامت کی سزا کافی ہے۔ میں نے انہیں معاف کیا۔ محمود نے کہا اے جاں نثار وفادار ایاز! انہیں بتا تو دے کہ تو حجرے میں ہر روزکیوں جایا کرتا ہے؟ ایاز بولا ۔ حضور! جب تک میں بادشاہ کی خدمت میں حاضر نہ ہوا تھا میری اوقات وہی میلی کچیلی پوستین تھی او رپھٹی پرانی جوتی جو حجرہ میں دھری ہے۔ میں ہر روز ان کو دیکھ آتا ہوں تاکہ اپنی اصلی حیثیت کو نہ بھولوں اور جو جہاں پناہ نے میرا رتبہ بڑھایا ہے میں اس سے مغرور نہ ہو جائوں۔ اس تکبر نے شیطان کو مغرور بنایا۔ میں ڈرتا ہوں کہ غرور پیدا ہو کر مجھے تباہ نہ کر دے: من روم ہر روز در حجرہ بدیں تابہ بینم چار تے با پوستیں زانکہ ہستی سخت مستی آورد عقل از سر شرم از دل می برد صد ہزاراں قرن پیشیں را ہمیں مستی ہستی بزدرہ زیں کمیں شد عزازیلے ازیں ہستی بلیس کہ چرا آدم شود برمن رئیس محمو دنے کہا اے ایاز! تجھ پر آفرین ہے واقعی تو اس قابل ہے کہ میں تجھے سب سے زیادہ عزیز جانوں۔ میں تیرے حاسدوں کی گردنیں مار دیتا مگر جب تو ایسا نہیں چاہتا تو میں مجبور ہوں اور ان کا قصور معاف کرتا ہوں۔
No comments:
Post a Comment