Friday, 6 March 2015

بریسٹ کینسر

خواتین کو اس بیماری کے حوالے سے شرمسار ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ شرمساری علاج کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔مغربی دنیا میں تو بریسٹ کینسر خواتین میں ایک عام بیماری ہے تاہم اب کہا جا رہا ہے کہ جن خطوں میں مغربی کلچر فروغ پا رہا ہے وہاں بھی اس بیماری میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
بریسٹ کینسر کیا ہے؟ کیسے ہوتا ہے؟ اس کی تشخیص اور علاج کیا ہے؟ اس بارے میں قارئین کے لیے چیدہ چیدہ معلومات ذیل میں دی جا رہی ہیں۔
بریسٹ کینسر کیا ہے؟
برسٹ کینسر یا چھاتی کا سرطان کینسر کی وہ قسم ہے جو کسی خاتون کی چھاتیوں کے ٹشوز اور اس میں بھی زیادہ تر دودھ کی نالیوں کی اندرونی دیواروںیا ان نالیوں کو دودھ کی سپلائی کرنے والے زخیروں lobules میں پیدا ہوتا ہے۔ بریسٹ کینسر کی کئی اقسام ہیں جو مختلف مرحلوں، شدت اور جینیاتی میک اپ کے حامل ہوتے ہیں اور اس کینسر میں صحت یابی اور بقاء کا انحصار بھی اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کا کینسر ہے۔ اس کے علاج میں سرجری، ادویات (ہارمونل تھیریپی اور کیمیو تھیریپی) اور ریڈی ایشن شامل ہیں۔ بریسٹ کینسر کس قدر تیری سے پھیل رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2004 میں دنیا میں بریسٹ کینسر کی وجہ سے 5 لاکھ 19ہزار اموات واقع ہوئیں۔ بعض اقسام کے بریسٹ کینسرز کو بڑھنے کیلئے ہامون ایسٹروجن اور پروجیسٹرن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس قسم کے کینسر میں سرجری کے بعد دواؤں جیسے ’’ٹاموکسی فن‘‘ سے علاج کیا جاتا ہے جو ان ہارمون میں دخل اندازی کرتی ہیں جبکہ دیگر دواؤں سے اووری اور دیگر مقامات پر ایسٹروجن کی پیداوار بند کی جاتی ہے جس سے اووری کو نقصان پہنچنے اور فرٹیلیٹی (اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت) ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ سرجری کے بعد کم رسک اور ہارمون حساسیت والے بریسٹ کینسرز کا علاج صرف ہارمون تھیریپی اور ریڈی ایشن سے کیا جاتا ہے۔ ہارمون ریسپٹرز کے بغیر بریسٹ کینسر یا جو بغل میں لمف نوڈز تک پھیل چکے ہوں یا جن سے بعض جینیاتی خصائص کا اظہار ہوتا ہے زیادہ رسک کے حامل ہوتے ہیں اور ان کا علاج زیادہ جارحانہ انداز میں کیا جاتا ہے۔
:بریسٹ کینسر کی علامات
کسی بھی بیماری کی علامات نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جو کہ خطرے کا اشارہ ہوتی ہیں۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے خاص طور پر کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی لیکن عمومی طور پر کچھ چیزوں کو علامات کے طور پر لیا جا سکتا ہے جو درج ذیل ہیں:
1 – چھاتیوں یا بغل میں گلٹی یا سختی کا احساس:
چھاتی کے ٹشوز میں بعض گلٹیاں اور سوجن ہارمون میں ردوبدل کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے تاہم اگر یہ گلٹیاں یا سوجن مسلسل رہے، چاہے یہ بغل میں ہو یا چھاتیوں میں، تو یہ باعث تشویش ہو سکتی ہیں۔ بغل میں لمفی نوڈز کے قریب سوجن اس بات کا اشارہ ہوتی ہے کہ جسم کے حملے کا شکار ہے۔ چھاتی کے ٹشوز میں گلٹی نالیوں یا لوبز کے حوالے سے کسی مشکل کا اشارہ ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں سکریننگ کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔
-2 چھاتیوں کے سائز یا شکل میں کوئی تبدیلی:
اگر ایک بالغ خاتون کی چھاتیوں بالخصوص اگر ایک چھاتی کے سائز یا شکل میں کوئی تبدیلی دکھائی دے تو یہ اس بات کا اشارہ ہو سکتی ہے کہ چھاتیوں کے اندر دودھ کی نالیاں یا لوبز میں سوجن ہے۔ اس کی وجہ سے فائبرسسٹک یا ماہواری ہو سکتی ہے لیکن اگر ماہواری کے باعث ایسا نہ ہو رہا تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
-3 چھاتیوں سے مواد (دودھ اورخون) کا اخراج:
سے 41-58 سال کی عمر کے دوران چھاتیوں سے معمولی مقدار میں مواد کا اخراج ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ ہارمونل ردوبدل ہو سکتا ہے اور یہ پریشانی کا باعث نہیں ہوتا تاہم اگر مواد ایک ہی چھاتی سے خارج ہو رہا ہو اور اس میں خون بھی شامل ہو تو کئی ٹیسٹوں کے ذریعے اس کی وجہ کے بارے میں معلوم ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹروں سے رجوع کیا جائے۔
-4 نپلز کے سائز اور شکل میں تبدیلی:
جسمانی وزن میں ردوبدل یا عمر کے ساتھ دیگر تبدیلیوں کی صورت میں چھاتیوں کے نپلز کے سائز یا شکل میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے تاہم اگر نپل اندر کی طرف دب جاتا ہے اور آسانی کے ساتھ اپنی نارمل شکل میں واپس نہیں آتا تو دستی تجزیے کے لیے اپنی لیڈی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اگر تو دودھ کی نالیوں میں کوئی مسئلہ ہے، جو کہ نپلز یا ایر یولا (نپلز کے گرد گہرے رنگ کا حلقہ( کی سطح کے نیچے پائی جاتی ہیں الٹراساؤنڈ کے ذریعے مسئلے کا پتہ چل سکتا ہے۔
-5 نپلز اور ایر یولا کے رنگ یا جلد کی ساخت میں تبدیلی:
اگر آپ محسوس کریں کہ نپل یا ایر یولا (نپلز کے گرد گہرے رنگ کا حلقہ) پر کسی قسم کے گڑھے یا شکنیں ہیں یا کوئی چھپاکی وغیرہ ہے اور کریموں اور ادویات کے باوجود یہ علامات برقرار ہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بلڈ کینسر کی ایک قسم پیجٹ کی بیماری کہلاتی ہے جو چھپاکی دانوں کی صورت میں شروع ہو جاتی ہے اور اگر اسے ابتداء میں ہی تشخیص کر کے علاج کر لیا جائے تو
یہ نہایت قابل علاج بیماری ہے۔
-6 چھاتیوں یا بغل میں غیر معمولی درد:
اپنی ماہواری کے دردوں کو جانیں۔ نوٹ کریں کہ اگر درد ماہواری کے دنوں میں ہوتا ہے اور دونوں چھاتیوں میں ہوتا ہے اور قابل برداشت ہوتا ہے تو یہ فکر کی بات نہیں لیکن اگر ماہواری کے دنوں کے بجائے عام دنوں میں ہوتا ہے یا ایک ہی چھاتی یا بغل میں ہوتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ ماہواری کا درست ریکارڈ رکھنے کی صورت میں چھاتیوں میں ہارمونل ردوبدل کو سمجھنے
میں مدد ملے گی اور ڈاکٹروں کو یہ پتہ چلانے میں مدد ملے گی کہ آپ کے جسم میں کیا ہو رہا ہے۔
یاد رکھیں جس طرح دانت میں درد ہونے کی صورت میں آپ کا پورا سر درد کرتا ہے یا ٹانگ کا پٹھہ کھنچ جانے کی صورت میں آپ کے جسم کا پورا توازن خراب ہو جاتا ہے اسی طرح اگر آپ کی چھاتیوں میں کوئی غیر معمولی تبدیلی رونما ہو تو اس سے آپ کی مجموعی صحت کو خدشات لاحق ہو سکتے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ آپ کو چیک اپ یا سکریننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اپنی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے عقل مندی اسی میں ہے کہ جسم میں معمول کی تبدیلیوں کو مد نظر رکھا جائے۔ ڈاکٹر سے باقاعدگی کے ساتھ رابطہ رکھنے اور ٹیسٹ اور سکریننگ کرانے کی صورت میں بیماری کے خلاف دفاعی حصار بنانے میں مدد ملتی ہے۔
وجوہات؟
بریسٹ کینسر کی درست وجوہات ابھی نامعلوم ہیں تاہم سائنسدان ایسے کئی عوالم تلاش کر چکے ہیں جو کہ ایک خاتون میں اس بیماری کے لاحق ہونے کا خدشہ بڑھا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عوامل انسان کے اختیار سے باہر ہیں جیسے عمر وغیرہ لیکن کچھ عوامل جیسے شراب نوشی یا خوراک اور طرز زندگی وغیرہ انسان کے اختیار میں ہیں۔ یہ عوامل درج ذیل ہیں:
-1 عمر کا تعلق:
بریسٹ کینسر کا خطرہ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے جیسے مثال کے طور پر 50 سال یا اس سے زائد عمر کی عورتوں میں اس کا خطرہ ان عورتوں سے 8 گنا زیادہ ہوتا ہے جن کی عمر30 سال یا اس سے کم ہوتی ہے۔ بعض اقسام کے بریسٹ کینسرز 80فیصد 50سال سے اوپر کی عورتوں میں ہی ہوتے ہیں۔ 35سال سے کم عمر کی عورتوں کو بریسٹ کینسر کم ہی ہوتا ہے سوائے ان عورتوں کے جن میں اس کی خاندانی ہسٹری ہوتی ہے۔
-2 پہلے سے بیماری کی موجودگی:
اگر کسی خاتون کو پہلے ہی بریسٹ کینسر ہو تو اس امر کا خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ اس کی دوسری چھاتی بھی کینسر کا شکار بن جائے۔ یہ عام طور پر ’’نیا کینسر‘‘ یا ’’دوسرا کینسر‘‘ کہلاتا ہے۔ مریضہ میں 20 سال بعد نئے یا دوسرے کینسر کا 10 سے 15 فیصد امکان ہوتا ہے ۔
-3 خاندانی ہسٹری:
ایسی خواتین میں بریسٹ کینسر کاخطرہ دو گنا زیادہ ہوتا ہے جن کے اولین رشتہ داروں جیسے ماں بہن یا بیٹی میں یہ بیماری پائی جاتی ہو۔ یہ خطرہ اس وقت چار سے پانچ گناہ بڑھ جاتا ہے جب ان رشتہ داروں میں یہ بیماری قبل از سن لاحق ہو اور دونوں چھاتیاں اس سے متاثر ہوں۔ اگر خاندان میں کئی نسلوں سے یہ بیماری رہی ہو تو تب بھی خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
-4 جینیاتی تبدیلیاں:
5 سے 10 فیصد بریسٹ کینسر وراثتی ہوتے ہیں۔ سائنسدان بعض قسم کی جینیاتی تبدیلیوں (جینیاتی مواد میں مستقل تبدیلیاں) کی شناخت کر چکے ہیں جو لوگوں میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھاتی ہیں۔
-5 ہارمونز:
ایسی خواتین میں بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو طویل عرصے سے جنسیاتی ہارمونز بالخصوص ایسروجن کا سامنا کر رہی ہوں۔ لہٰذا ان خواتین میں اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جن میں پہلی ماہواری بارہ سال سے کم عمر میں آئی ہو، سن یا س تاخیر سے ہوا ہو، حمل نہ ہوا ہو، تیس سال کی عمر کے بعد حمل ہوا ہو یا جو برتھ کنٹرول کی گولیاں استعمال کرتی رہی ہوں۔ اس کے علاوہ دیگر اسباب میں خراب لائف سٹائل، موٹاپا، چھاتیوں کی بیماری، شراب نوشی، ریڈی ایشن، ماحولیات اثرات، سگریٹ نوشی، اسقاط حمل اور زیائے حمل، جسمانی قد و وزن وغیرہ شامل ہیں۔
کیا چیزیں بریسٹ کینسر سے بچاؤں میں مدد گار ہو سکتی ہیں؟
بریسٹ کینسر لاحق ہونے کا خدشہ بڑھانے کے عوامل کے برعکس کچھ ایسے عوامل بھی ہیں جو اس موزی بیماری کا خدشہ کم کر سکتے ہیں لہٰذا قارئین کے افادے کے لیے ان کو ذیل میں دیا جارہا ہے۔
-1 باقاعدگی کے ساتھ ورزش:
یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سکول آف میڈیسن کے محققین کا کہنا ہے کہ چالیس سال اور اس سے کم عمر کی عورتوں میں فی ہفتہ چار گھنٹے ورزش باقاعدگی کے ساتھ کرنے کی صورت میں بریسٹ کینسر کا خطرہ 50 فیصد کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور سٹڈی (نیدر لینڈ کینسر انسٹی ٹیوٹ) کے مطابق باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے والی خواتین بریسٹ کینسر کے خطرے کو خاصی حد تک کم کر لیتی ہیں۔ محققین کے مطابق ایسی خواتین میں ورزش کا اور بھی فائدہ ہوتا ہے جو اپنے وزن کو اپنے قد کے مطابق رکھتی ہیں۔ ورزش کے مثبت اثرات ایسٹروجن میں کمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ مزید براں ورزش چونکہ جسمانی چربی کی کمپوزیشن کو تبدیل کرتی ہے جس سے اوولیشن پر اثر پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں فطری مدافعت پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔
-2 مناسب عمر میں حمل:
محققین کے مطابق جو خواتین مناسب عمر (30 سال سے پہلے) میں حاملہ ہوتی ہیں ان میں بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ تاہم سن یا س تک خواتین میں بریسٹ کینسر کا مجموعی خدشہ بہت کم ہوتا ہے چاہے وہ حاملہ ہوں یا نہ ہوں۔
-3 بچے کو اپنا دودھ پلانا:
اس بارے میں بحث ابھی جاری ہے کہ آیا بچے کو اپنا دودھ پلانے کا بریسٹ کینسر میں کوئی کردار ہے یا نہیں۔ سٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ جو نوجوان خواتین (20 سال یا کم) چھ ماہ تک بچے کو اپنا دودھ پلا چکی ہوں وہ اس بریسٹ کینسر سے محفوظ رہتی ہیں جو پچاس سال کی عمر سے پہلے ہوتا ہے۔ دیگر محققین کا کہنا ہے کہ جو خواتین ڈیڑھ سال سے دو سال تک بچے کو اپنا دودھ پلاتی رہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔
-4 خوراک میں احتیاط:
سٹڈیز کے مطابق خوراک میں احتیاط جس طرح دیگر کئی بیماریوں سے بچاتی ہیں اسی طرح بریسٹ کینسر سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ محققین کے مطابق شراب نوشی اور زیادہ گوشت کھانے سے گریز خوراک میں ریشہ دار غذاؤں، سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ استعمال بھی بریسٹ کینسر کے خلاف مثبت اثرات کا حامل ہے۔
-5 مثبت لائف سٹائل:
مثبت لائف سٹائل جیسے ورزش، جسمانی سر گرمیاں اور ایسی سرگرمیوں سے گریز جن سے دباؤ یا بلڈپریشر اور ذیابیطس جیسے عارضے لاحق ہوں، بریسٹ کینسر کے خلاف مثبت اثرات کے حامل ہیں۔

No comments:

Post a Comment